خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 14؍نومبر2003ء

لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا
آنحضرتؐ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر ہمت کس لیتے، راتوں کو زندہ رکھتے اور اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے
رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت کا پرمعارف بیان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۴؍نومبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۱۴؍ نبوت ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ وَمَآاَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ۔ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر)

اس کاترجمہ یہ ہے- اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یقینا ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔اور تُجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔ قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں- سلام ہے۔ یہ (سلسلہ) طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔
انشاء اللہ تعالیٰ کل سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجائے گا۔ دنیا کے ا یک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک احمدی دنیا میں جن کو توفیق مل رہی ہے اس عشرہ میں اعتکاف بیٹھیں گے، دعاؤں کی توفیق ملے گی۔اللہ تعالیٰ ان کو مقبول دعاؤں کی توفیق دے۔جواعتکاف نہیں بیٹھ رہے وہ اپنے گھروں میں اپنی راتوں کو زندہ کرنے والے ہوں گے انشاء اللہ۔ یہ سورۃ جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس آخری عشرہ میں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک ایسی رات کا بھی ذکر کیاہے جو اگر میسر آجائے توبڑا ہی خوش قسمت ہے وہ شخص جس کو یہ رات مل گئی۔ کیونکہ اس رات میں جو دعائیں بھی مانگی جائیں گی وہ قبولیت کادرجہ پائیں گے۔پھراس کے اور بھی وسیع معانی اور مضامین ہیں- اس میں قرآن کریم نازل ہوا، جو شریعت کی آخری اور مکمل کتاب ہے۔جس سے یہی مراد ہے کہ ایک لمبے تاریک زمانے کے بعد ایک ایسا نبی مبعوث ہوا جس پراللہ تعالیٰ نے آخری شرعی کتاب نازل فرمائی اوردین کامل کیا۔ اور اپنی تمام ترنعمتیں اس نبی کو جسے خاتم الانبیاء ٹھہرایا عطا فرمائیں-اور یہ خوشخبری بھی اس کے ماننے والوں کو دے دی کہ قیامت تک اس نبی کی شریعت ہی ہدایت کاراستہ دکھانے کے لئے جاری رہے گی۔ اس دنیا میں کوئی نبی خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی شریعت لے کر مبعوث نہیں ہوگا۔ ہاں زمانے کے اثر کے تحت جب دین میں بگاڑ پیداہوگا تو مجددین کا سلسلہ چلتا رہے گا جو خاتم النبیین کی شریعت کو، اس کی صحیح تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرتے رہیں گے۔ اور پھر آپ ﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور بھی ہوگا۔ تو بہرحال اس سورۃ میں مختلف مضامین چھپے ہوئے ہیں جن کو اب مَیں مفسرین اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالوں اور احادیث سے کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلے یہ، لیلۃ القدر کی بات چل رہی ہے۔اس کے متعلق معلوم ہوکہ کب آتی ہے یہ رات، اورکس طرح پتہ چلے کہ یہ رات میسر آگئی ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
کیاکوئی ایسی علامت ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃ القدر تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں یہ آتاہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے، ہوا ہوتی ہے اور ترشّح ہوتاہے، ایک نور آسمان کی طرف جاتا یاآتا نظر آتاہے۔مگر اوّل الذکر علامات ضروری نہیں- گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیاہے کہ ایسا ہوتاہے اور آخری علامت نُور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے۔یہ ایک کشفی نظارہ ہے، ظاہر علامت نہیں جسے ہرایک شخص دیکھ سکے۔ خودمَیں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو کچھ مَیں نے دیکھاہے دوسروں نے نہیں دیکھا۔ اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے سارے رمضان میں دعائیں کرتا رہے اور ا خلاص سے روزے رکھے، پھر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتاہے‘‘۔(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۲۹)
حدیث میں آتاہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پا لیا۔ گویا صرف آخری دنوں میں تلاش نہ کریں بلکہ سارے رمضان میں پوری عبادات بجا لائیں-
پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا رمضان کا مہینہ شروع ہو گیاہے جو ایک بابرکت مہینہ ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کے روزے رکھنا تم پر فرض کئے ہیں- اس میں جنت کے د روازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اورشیطان جکڑ دئے جاتے ہیں-اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اُس کی خیر سے محروم کیا گیا وہ محروم کردیا گیا‘‘۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۲۵)
توایک بات تو یہ واضح ہوئی ان حدیثوں سے کہ یہی نہیں ہے کہ سارا رمضان تو نہ روزوں کی طرف توجہ دی، نہ قرآن پڑھنے کی طرف توجہ ہوئی، نہ نمازوں کے قیام کی طرف توجہ ہوئی، اور آخر ی عشرہ شروع ہوا تو ان سب عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوگئی۔ نہیں-بلکہ رمضان کے شروع سے ہی ان عبادات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان کو چھوڑنے کی طرف توجہ، بھائی بہنوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں ، میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں ،ساس بہوایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں- توشروع رمضان سے ہی حقوق اللہ اورحقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ ہو تو یہ نیکیاں بجا لائیں گے تو تب ہی جہنم کے دروازے بند ہوں گے اور جنت کے دروازے کھلے ہوں گے۔نہیں تو گواللہ تعالیٰ نے تو جہنم کے دروازے بند کردئے لیکن ان نیکیوں کو نہ کرنے سے زبردستی یہ برائیاں کرکے اورحقوق اللہ اور حقوق العباد ادانہ کرکے دھکے سے جہنم کے دروازے کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ تو یہ حقوق العباد اورحقوق اللہ ادا کریں گے جن کا ذکر دوسری حدیثوں میں بھی آتاہے تو پھر ان آخری راتوں کی برکات سے بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ کیونکہ سرسری عبادات سے یا عارضی طورپہ آخری دس دن کی عبادات سے یہ اعلیٰ معیار جو ہیں وہ حاصل نہیں ہو سکتے۔ بلکہ آنحضرت ﷺکے اسؤہ حسنہ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
حدیث میں آتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرہ میں آنحضرت ﷺ عبادت میں اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ دیکھنے میں نہ آتی۔ (صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف)
عام حالات میں بھی آنحضرت ﷺکی عبادت کی مثالیں ایسی ہیں کہ کوئی عام آدمی اتنی کر ہی نہیں سکتا لیکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رمضان میں تو اس کی حالت ہی اور ہوتی تھی۔
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبیﷺ آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ِہمت کَس لیتے، اپنی راتوں کو زندہ کرتے اورگھروالوں کو بیدارفرماتے۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر)۔ تویہ بھی ایک سبق ہے کہ جب آدمی خود اٹھے تو اپنی بیوی بچوں کو بھی نمازوں کے لئے،نوافل کے لئے اٹھائے۔
پھر حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا : قیام لیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ ﷺنہیں چھوڑتے تھے اورجب آپؐ بیمار ہوتے یا جسم میں سستی محسوس کرتے تھے توبیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔(ابوداؤد )
دیکھیں آنحضرت ﷺکا عمل کیا تھا۔یہ عمل ہم ا ختیار کریں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے کی امید کر سکتے ہیں- اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آخری دس راتوں میں لیلۃالقدر تلاش کرنے کے بارہ میں ایک اور حدیث پیش کرتاہوں- بخاری اور مسلم نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺنے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا۔اس کے خاتمہ پر حضرت جبرائیل آئے اور رسول کریم ﷺکو خبر دی کہ جس چیز ( لیلۃ القدر) کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔اس پر آپؐ نے ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبرئیل نے ظاہر ہو کر آنحضرت ﷺسے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایاکہ مجھے لیلۃ القدر کی خبردی گئی تھی مگر مَیں اُسے بھول گیا ہوں اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لیلۃ القدر آئی ہے اور مَیں مٹی اور پانی میں سجدہ کررہاہوں-اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی اور جس دن آ پ نے یہ تقریر فرمائی بادل کانشان تک نہ تھا۔ پھر یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اچانک بادل کاایک ٹکڑا آسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی۔پھر جب نبی کریم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی تو مَیں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں ،ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا۔صحیح بخاری اور مسلم نے اس کو درج کیا ہے۔
حضر ت مصلح موعود ؓاس بارہ میں فرماتے ہیں کہ :ابوسعید کی ایک اورروایت میں یہ واقعہ ۲۱؍رمضان کو ہوا تھا۔پھر آپ لکھتے ہیں کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تووہ خداکے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے۔(رونامہ ا لفضل لاہور ۸؍جولائی ۱۹۵۰ء)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:

 

’مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ‘۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم۔کتاب ا لصوم )۔

 

جو رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کی رات ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے نفس کے محاسبہ کی خاطرعبادت کرے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں-
اس حدیث میں دو بڑی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں- پہلی یہ کہ ایمان کی حالت میں اوردوسری یہ کہ نفس کے محاسبہ کے لئے۔ اگر اس پر غور کیا جائے تواصل ایمان کی حالت تو وہ ہے جب مکمل یقین کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان ہو۔ مثلا ً اگر یہ یقین ہو کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والاہے،وہ بخشنے والاہے، تمام گناہوں کو معاف کر سکتاہے،اور کرتاہے وہاں وہ سزادینے کا بھی حق رکھتاہے اور دل اس کے خوف اور اس کی خشیت سے پگھلتے ہوں تو اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے،استغفار کرے تو وہ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نکتہ بیان فرمایاہے کہ استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں-استغفار مدد اور قوت ہے جو خداتعالیٰ سے حاصل کی جاتی ہے۔اور توبہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوناہے۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب اس سے مدد اور قوت مانگو تو وہ عطا کرتا ہے اور نیکیاں کرنے کی قوت عطا کرتاہے اور اس طرح اپنے پاؤں پر انسان کھڑا ہو جاتاہے اور پھر جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا تو اس نے چونکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی ہوتی ہے اس لئے نیکیاں کرنے کی قوت قائم رہتی ہے۔تو فرمایا آپ نے کہ اسی کانام تُوْبُوْ اِلَیْہِ ہے۔تو اس لحاظ سے جب آدمی اپنا محاسبہ کرتاہے توپچھلے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں اور نیکیاں کرنے کی توفیق بھی ملتی رہتی ہے۔
پھر حدیث میں آتاہے حضرت ابن عمر ؓنبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا :عمل کے لحاظ سے ان دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں- پس ان ایام میں تہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، بکثرت اختیار کرو۔
اب یہ حدیث بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے۔فرمایاکہ رمضان کے اس آخری عشرے میں مکمل طورپر اُس کی بندگی اختیار کرو۔کوئی باطل معبود تمہیں نیک کاموں سے ہٹا نہ سکے۔ان دنوں میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی کبریائی، اس کا بڑا ہونا تمہارے ذہنوں پر رہے اور پھر اس کی حمد بھی کرو کہ اس نے تمہیں اتنی نعمتیں بخشی ہیں ، اتنی نعمتوں سے نوازا ہے، تمہیں یہ دن نصیب کئے ہیں جن میں اس نے تمہاری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور سب سے بڑھ کر یہ، اوراس پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیاجائے کم ہے کہ اس نے خالص اپنا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں یہ دن بخشے جس میں ہم خالص طورپر اسی کی طرف جھکتے ہوئے اس سے مدد چاہتے ہیں-
ایک روایت ہے رمضان کی برکات کے بارہ میں- حضرت سلمان ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں شعبان کے آخر ی روز مخاطب کر تے ہوئے فرمایا : اے لوگوتم پرایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اوراس کی راتوں کو قیام کرنے کو نفل ٹھہرایا ہے …

ھُوَ شَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔

وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کاابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والاہے۔(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الصیام۔باب فضائل شہر رمضان)
پھر حضرت عائشہ ؓروایت کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کی کہ یارسول اللہ اگرمجھے علم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مَیں اس میں کیا دعاکروں- فرمایا کہ توُیہ دعا کرکہ:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔

اے اللہ توبہت معاف کرنے والا اورمعاف کرنے کو پسند فرماتاہے پس توُ مجھے بھی بخش دے اور معاف فرما دے۔(ترمذی ابواب الدعوات)
اب اس حدیث میں بڑی خوبصورت اور بڑی جامع دعا سکھائی گئی ہے۔اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے گناہوں سے درگزرکر، مجھے معاف کردے۔فرمایاکہ رمضان کی برکات سے توُنے مجھے فیضیاب فرمایا، مجھے توفیق دی کہ مَیں نے روزے رکھے، تیری عبادت کی،تجھ سے مغفرت طلب کی، اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگی، تجھ پرمکمل یقین اور ایمان مجھے حاصل ہوا۔ اورآج توُنے مجھ پریہ ظاہرکرنے کے لئے کہ مَیں نے تمہاری دعاؤں کو سنا، تمہاری گریہ و زاری کو سنا، مجھے لیلۃ القدر کاعلم دیا اور مجھے لیلۃا لقدر دکھائی۔تو میری یہ دعاہے کہ میرے اندر کی تمام برائیوں کا نام و نشان مٹا دے، میرے گناہوں کو یوں دھو ڈال جیسے کہ یہ کبھی تھے ہی نہیں-توُبادشاہ ہے، تیرے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی اگر توُیہ سلوک میرے ساتھ کرے۔ اور پھریہ سلوک بھی کر کہ مجھے کبھی ان باتوں کا، ان غلط حرکات کا کبھی خیال تک بھی نہ آئے جو مَیں ماضی میں کر چکاہوں-اوررمضان کے بعد ہمیشہ میں پاک صاف ہو کر اور تیرا بندہ بن کررہوں-اور یہی چیزہے جسے توُ اپنے بندوں کے لئے پسند کرتاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’احادیث میں مذکورہ لیلۃ القدر بھی ایک جہت سے اسی لیلۃ القدر سے تعلق رکھتی ہے جس میں قرآن کریم نازل ہواتھااور یہ کہ ان معنوں کی رُو سے اصل لیلۃ القدر وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہواتھا اور صرف اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس عہد کو تازہ کرنے کے لئے جو نزول قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے باندھا تھا۔اس نے لیلۃ القدر مقرر کی ہے اوراس فائدہ کو مدنظررکھ کر کہ اُمّت کے کمزور لوگ بھی کم از کم دس راتیں تو خوب عبادت کرلیں-اس نے رمضان کی آخری دس راتوں میں اسے چھپا دیاہے اورمعین رات مقرر نہیں کی تاکہ اس کا قیام ایک رسم ہو کرنہ رہ جائے جسے اسلام بہت ناپسند کرتاہے۔ اب جو چاہے رمضان کی آخری راتوں میں سے تلاش کرسکتاہے۔ اوراس میں کیا شک ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو دس راتوں میں تلاش کرے گااُسے دین کے ساتھ پہلے سے زیادہ لگاؤ ہو جائے گااور اُس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اُس سے یہ اُمید کی جاسکے گی کہ پہلی غلطیوں کوچھوڑ کرپورے طورپر خداتعالیٰ کی طرف جھک جائے اور کسی وقت اس کی ہر رات ہی لیلۃ القدر ہوجائے گی۔(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۲۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’لَیْلْ۔ظُلْمَتْ اور قَدْرْ۔دال کے سکون کے ساتھ بمعنے مرتبہ۔ یہ دونوں صفتیں ایک جگہ اکٹھی کردی گئی ہیں-لیلۃ القدر، ایک خاص رات رمضان شریف کے آخر دھاکا میں ہے جس کا ذکر سورۃ الفجر میں

وَالَّیْلِ اِذا یَسْرِ (فجر:۵)

میں بھی کیا گیاہے۔اور ایک جگہ فرمایا:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن (البقرہ:۱۸۶)

اور دوسری جگہ بیان فرمایا:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (القدر:۲)۔

ان دونوں آیتوں کے ملانے سے بھی معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر رمضان شریف میں ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور بھی زیادہ تشریح کرکے یہ پتہ دیاہے کہ لیلۃالقدر رمضان شریف کے آخیر دھاکا کی طاق راتوں میں ہواکرتی ہے۔کسی سال اکیسویں شب کو، کسی سال ۲۳ یا ۲۵ یا ۲۷ یا ۲۹ویں شب کو۔ اس شب کے فضائل صحیح حدیثوں میں بے حد بیان فرمائے ہیں ‘‘۔
پھر فرمایا :’’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ کا مرجع جس طرح قرآن شریف سمجھا گیاہے اسی طرح اس سے پیغمبرصلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی ذات مبارک بھی مرادہے۔ اسی لئے اَنْزَلْنٰہ ُ فرمایا کہ قرآن اور

مُنَزَّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآن

دونوں ہی مرجع ٹھہریں- ورنہ

اَنْزَلْنٰہُ ھٰذَاالْقُرْاٰن

فرمانا کوئی بعید بات نہ تھی۔ لیل وہ ظلمت کا زمانہ ہے جوپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت سے پہلے کازمانہ تھا۔ جس کو عام طورپر ایّام جاہلیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور قدر دال کی سکون کے ساتھ وہ قابل قدر زمانہ ہے جس زمانے سے پیغمبر ﷺکی بعثت شروع ہوئی اور اس کی مدت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سے ۲۳سال کی مدت تھی۔ جس میں ابتداء الی آخر سارے قرآن شریف کا نزول ہوا۔ ایک طرف ظلمت کے ایام ختم ہوئے اوردوسری طرف قابل قدر زمانہ شروع ہوا۔ اس لئے یہ متضاد صفت لیل اور قدر یہاں آ کر اکٹھے ہوگئے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۔ ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء۔بحوالہ حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۴۲۷)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

’’ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ

کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں ناز ل کیا ہے۔ چونکہ پہلی سور ۃ میں قرآن کریم کا ذکر آچکاتھا اس لئے یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ۔

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ

اللہ تعالیٰ نے صرف اس کی طرف ضمیر پھیر دی اور کہہ دیا کہ

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ

کیونکہ یہ بات ہر شخص پہلی سورۃ پرنظر ڈال کر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا اوراس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن کریم کا خاص طورپر نا م لیا جاتا۔
لیلۃ اور لیل کے معنے رات کے ہوتے ہیں-…… لَیْل کا لفظ ۷۹ دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور لَیْلَۃ کا لفظ صرف آٹھ دفعہ۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ لَیْلَۃ کا استعمال نزول کلام الٰہی یااس کے متعلقات کے ساتھ استعمال ہواہے۔ یعنی ایسے ا حکامات جب دئے گئے ہوں ، شریعت کی بات جب کی گئی ہے تبلَیْلَۃ کالفظ استعمال ہواہے اور یہ امر اتفاق نہیں کہلاسکتا۔ ضرور اس میں حکمت ہے اور لَیْل اور لَیْلَۃ کا یہ فرق بے معنی نہیں ‘‘۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:
’’اس آیت میں رسول اللہ ﷺکے کامل بروزوں کی طرف اشارہ ہے۔لیکن چونکہ ناقص بروز بھی بروز ہی ہوتاہے اس لئے یہ آیت ناقص بروزوں کے متعلق بھی اشارہ کرتی ہے یعنی ایسے زمانہ کے مصلحین کی نسبت بھی جبکہ کامل تاریکی تو نہیں آئے گی لیکن ایک نئی زندگی کی ضرورت انسان کو محسوس ہوگی۔ حدیثوں میں آتاہے کہ ہر صدی کے سر پردنیا کوایک ہوشیار کرنے والے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور اسلام میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرپر مجدد بھیجتا رہے گا۔ ان مجددوں کے متعلق بھی اس آیت میں پیشگوئی موجود ہے کیونکہ وہ بھی جزوی طورپر محمد رسول اللہ ﷺ کے قائمقام ہوتے ہیں اور ایک جزوی تاریک رات میں ان کا ظہور ہوتاہے‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۱۹)
پھر فرمایا کہ :’’شہر کے معنے عالِم کے بھی ہیں-ان معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لَیْلَۃُالْقَدْر میں جومعارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالِم سے بہتر ہیں-…… اس مضمون سے مسلمانوں کو ا س طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب بھی اسلام پر کوئی مصیبت کا زمانہ آئے انہیں علماء ظاہرکی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے‘‘ (مولویوں کے پیچھے نہ پڑجائیں کہ و ہ ہی ہمیں سبق دیں )’’بلکہ انہیں چاہئے کہ ایسے تاریک زمانوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے اترنے والی امداد کی طرف نظر رکھا کریں کہ جو کچھ آسمانی امداد اور ہدایت سے انہیں حاصل ہوگا وہ ظاہری علماء کی مجموعی کوششوں سے حاصل نہ ہو سکے گا۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ زمانہ اسلام کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ تاریک ہے۔بعد زمانہ نبوی ایسا سخت زمانہ اسلام پرکبھی نہیں آیا لیکن مسلمان اس بلاء کے دور کرنے کے لئے انسانوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں بہ نسبت خداکے۔ خداتعالیٰ نے ان دنوں میں بھی حسب بشارات قرآنیہ اورحسب وعدہ

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ

اپنا ایک مامور بھیجاہے لیکن لوگوں کی اس طر ف توجہ نہیں بلکہ خود ساختہ علاجوں کی طرف مائل ہیں- اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم فرمائے‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۳۲۔۳۳۳)
آج بھی دیکھ لیں یہ لوگ نما زیں بھی پڑھتے ہیں ،روزے بھی رکھتے ہیں ، اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں اور بظاہر احکامات پر عمل کررہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کی اس پیشگوئی سے انکاری ہیں ، آپ کے بھیجے ہوئے مامور کی تضحیک و تکفیر کررہے ہیں ، اس کا انکارکررہے ہیں- اس لئے اللہ کے فضلوں کے وارث بھی نہیں ٹھہر رہے۔ بلکہ آج کل جو حالات ہیں وہ اس قدرخوفناک ہیں اور ایسے بھیانک مسائل کی طرف جا رہے ہیں کہ احمدیوں کو توبہرحال امت مسلمہ کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اوران دنو ں میں ، خاص طورپر رمضان کے دنوں میں ، آخری عشرہ میں بھی، اللہ تعالیٰ ان کوعقل دے۔اتنے لمبے عرصہ کی اندھیری رات دیکھنے کے بعد بھی ان کو عقل نہیں آ رہی۔نام نہاد علماء نے انہیں غلط راستے پر ڈال دیاہے۔اللہ تعالیٰ امت کو ایسے نا م نہاد علماء سے نجات دے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہزار مہینوں میں چونکہ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے کے

لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْر

یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو یہ زمانہ توتیس ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے۔ اگربعد میں تاریکی کے تیس ہزار دَوربھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کرتھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کر دیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے والا اوراُن کی مشکلات کو پورے طورپر دُورکرنے والا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۳۳۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ایک لیلۃ القدر تووہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتاہے اورہاتھ پھیلاتاہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو مَیں قبول کروں؟لیکن ایک معنے اس کے اورہیں جسے بدقسمتی سے علماء مخالفت اورمنکر ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کوایسی رات میں اتاراہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ اس مصلح کی خواہاں تھی۔خداتعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جب کہ اس نے فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ-

پھرجب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہونہیں سکتاکہ وہ تاریکی میں پڑا رہے۔ ایسے ہی زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیداہو۔ پس

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہ ُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ

اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺکی ایک اور دلیل ہے ‘‘۔
(الحکم جلد نمبر۱۰ نمبر ۲۷۔ مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۶ئ۔ بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۷۱۔۶۷۲)
پس آج بھی آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ایک لمبے زمانہ کی تاریکی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو مبعوث ہوناہے عین ضروری تھا۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اس زمانہ میں ہم نے ایک لیلۃ القدر کا نظارہ دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ رمضان میں آنے والی لیلۃ القدرکے نظارے بھی ہمیں دکھائے۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’مجددین پر جب اس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے گا تو

مِنْ کُلِّ اَمْرٍ

کے معنے سب امور کے نہیں ہوں گے بلکہ سب وقتی ضرورت کے امور ہوں گے یعنی جس جس خرابی کی اصلاح کے لئے انہیں ملائکہ کی مدد کی ضرورت ہوگی ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے ملائکہ ناز ل کردئے جائیں گے یااسلام کی ترقی کے لئے جن امور کی ضرورت ہوگی ان امور میں انہیں ملائکہ کی مدد حاصل ہو گی۔ گویا

مِنْ کُلِّ اَمْرٍ

کے معنے ہوں گے کل ضروری امور۔ لیکن وہ موعود جو بروز کامل کے طورپر ظاہر ہوں گے چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اوررسول کریم ﷺکے کامل بروز ہوں گے اس لئے جس طرح رسول کریم ﷺکے متعلق اس آیت کے یہ معنے تھے کہ قرآنی شریعت کوہرلحاظ سے کامل کیا جائے گا۔اسی طرح ان کے متعلق اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی ساری خوبیاں مخفی ہو جائیں گی۔ تب اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے ملائکہ کو نازل فرمائے گا اور قرآن کریم کی تمام خوبیوں کودنیا پر دوبارہ ظاہر کرے گا۔ اس صورت میں

مِنْ کُلِّ اَمْرٍ

کے معنے صرف ضروری امور کے نہیں ہوں گے بلکہ تمام امور کے ہوں گے یعنی کوئی امر ایسانہیں ہوگا جس کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہ ہو‘‘۔
(تفسیرکبیر جلد نہم صفحہ ۳۳۷)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’سورۃالقدر اس طرف اشارہ فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لوگوں سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ جب وہ گمراہ ہوجائیں گے اور اندھیروں میں گر جائیں گے تو ان پر لیلۃالقدر کا زمانہ آئے گا اور روح زمین پر نازل ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے گا اسے اتارے گا اور اسے مجد د بنا کر مبعوث فرمائے گا اور روح کے ساتھ ملائکہ بھی نازل ہوں گے جو لوگوں کے دلوں کوحق اور ہدایت کی طرف کھینچ کر لائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا ‘‘۔
(حمامۃ البشریٰ صفحہ ۹۲۔۹۳۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام صفحہ ۶۷۰۔۶۷۱ حاشیہ)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’عادت اللہ اس طرح پرجاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدّث اصلاحِ خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتاہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اتراکرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں- اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر وضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اورراست بازی کی صبح صادق نمودار ہوجیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتاہے۔

تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ۔ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ

سوملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اترنا اسی وقت ہوتاہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعتِ خلافت پہن کر اور کلام الٰہی سے شرف پاکر زمین پر نزول فرماتاہے۔ روح القدس خاص طورپر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پرنازل کئے جاتے ہیں تب دنیامیں جہاں جہاں جوہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اس نور کا پرتو پڑتاہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خودبخود دلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سیدھے دلوں میں راست پسندی اورحق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اورہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے۔ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخود لوگ صلاحیت کی طر ف کھسکتے چلے آتے ہیں اورقوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے۔ تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خودبخود راستی کی طرف پلٹا کھایا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ کام ان فرشتوں کا ہوتاہے کہ جوخلیفۃ اللہ کے ساتھ آسمان سے اترتے ہیں اورحق کے قبول کرنے اورسمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں- سوئے ہوئے لوگوں کو جگادیتے ہیں اورمستوں کو ہوشیار کرتے ہیں اوربہروں کے کان کھولتے ہیں اور مُردوں میں زندگی کی روح پھونکتے ہیں اور ان کو جو قبروں میں ہیں باہرنکال لاتے ہیں تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور ان کے دلوں پروہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جوپہلے مخفی تھیں- اوردرحقیقت یہ فرشتے اس خلیفۃ اللہ سے الگ نہیں ہوتے۔ اُسی چہرہ کا نور اوراس کی ہمت کے آثار جلیّہ ہوتے ہیں جواپنی قوتِ مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طورپر نزدیک ہویا دور ہو اورخواہ آشنا ہو یا بکلی بیگانہ اورنام سے بے خبرہو۔ غرض اس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اورراستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں ،وہ درحقیقت انہی فرشتوں کی تحریک سے جو کہ خلیفۃاللہ کے ساتھ اترتے ہیں ظہورپذیر ہوتے ہیں-یہی الٰہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔(فتح اسلام صفحہ ۱۸ یا ۲۱ حاشیہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عشرہ سے بھرپورفائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اورجن مقاصد کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے ان مقاصد کو پورے ہوتے ہیں ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں- اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو حضرت خاتم الانبیاء ﷺکے جھنڈے تلے لانے کے نظارے ہمیں دکھائے اوران دنوں میں کل دنیا کے احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں-اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اورحقیقی اور سچا مسلمان بنائے۔ خاص طورپر پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے خاص طورپر دعائیں کریں- ہر وقت شرپسندوں کے فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں- گزشتہ دنوں میں ہماری مسجد میں بنگلہ دیش میں ایک مخلص احمدی کو شرپسندوں نے شہید کردیا۔

اناللہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ ان تمام جگہوں پر شرپسندوں کو عبرت کا نشان بنائے اور اسی طرح ہندوستان میں بھی بعض جگہوں سے خبریں آتی ہیں کہ شرپھیلائے جارہے ہیں اور تنگ کیا جارہاہے احمدیوں کو۔ تواللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور بہت دعائیں کریں ، بہت دعائیں کریں ، بہت دعائیں کریں ان دنوں میں- اللہ تعالیٰ ہمارے لئے جلد فتح کے سامان پیدا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں