خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14مارچ 2008ء

اگر ہر گناہ پر اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ عذاب نازل فرمانا شروع کردے یا جب سے دُنیا بنی ہے عذاب نازل کرتا رہتا تو اب تک نسل انسانی ختم ہوچکی ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کا تقاضا ہے کہ وہ بندوں کی طرح فوری طور پر غصہ میں نہیں آتا جب تک اچھی طرح اتمام حجت نہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ حلیم ہے درگزر کرتاہے لیکن جب اس کی چکّی چلتی ہے تو اس دنیا میں بھی حد سے بڑھے ہوؤں کو خائب و خاسر کردیتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔
پس وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے جو فوری بدلے نہیں لیتا اور بخشنے والا بھی ہے اس کی طرف جھکو اور اپنی حدود کے اندر رہو۔
قرآن کریم کی آیات، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 14مارچ 2008ء بمطابق14 امان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت حلیم ہے جس کے معنی (اگر وہ خداتعالیٰ کے لئے استعمال کی جائے تو) یہ ہیں کہ رحم کرنے والی ہستی، معاف کرنے والا، درگزر کرنے والا یعنی نافرمانی کی صورت میں نافرمانوں پر فوری طور پر غضب نازل نہیں کرتا۔ نافرمانی اسے بے چین نہیں کرتی۔ پھر پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں کئی صفات کے معنی آگئے ہیں۔ رحیم بھی ہے۔ غفور بھی ہے۔ ستّار بھی ہے لیکن جب انسان اصرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اگر وہ چاہے تو اس کی وہ صفات کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جن میں پکڑ اور سزا بھی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پراس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم پکڑ میں جلدی نہیں کرتے۔ کیونکہ اگر خداتعالیٰ پکڑ میں جلدی کرنے لگ جائے تو انسان جو گناہوں کا پُتلاہے، ہر گناہ اور جرم پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آکر سزا پانے والا بن جائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں بڑے گناہ کرنے والوں کو بھی ڈھیل دیتا ہوں حتیٰ کہ کفار، اور انبیاء کو جو لوگ دکھ اور تکلیف دینے والے ہیں ان کو بھی چُھوٹ دیتا ہوں۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے:

وَلَوْیُؤَاخِذُاللّٰہُ النَّاسَ بِظُلْمِھِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔ فَاِذَاجَآءاَجَلُھُمْ لَایَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۔ (سورۃ النحل:63)

اور اگر اللہ انسانوں کا ان کے ظلم کی بنا پر مؤاخذہ کرتا تو اس زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک طے شدہ میعاد تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی میعاد آپہنچے تو نہ وہ اس سے ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تو یہ ہے جواب ان لوگوں کو جو خدا کو نہ ماننے والے ہیں، جو انبیاء سے استہزاء کا سلوک کرنے والے ہیں، جن کو دنیا کی چکاچوند نے بالکل اندھا کر دیا ہوا ہے کہ اللہ غلط کام کرنے والوں کو اور اپنے پیاروں کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کوضرور پکڑتاہے۔ اس لئے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں اگر کبھی اللہ تعالیٰ نے نہیں پکڑا یا ابھی تک اللہ تعالیٰ کی پکڑ نہیں آئی تونعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے نبی غلط ہیں یا خداتعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
آج کل جو کارٹون بنانے والے ہیں یا جوآنحضرت ﷺ اور قرآن کریم سے استہزاء کرنے والے ہیں ان کا جواب بھی اس آیت میں آگیا ہے کہ کیوں انہیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ یہ کھلی چھٹی نہیں ہے بلکہ یہ ڈھیل اس لئے ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنا ایک قانون بنایا ہوا ہے۔ اس کی صفت حلیم ہے جو اُن کو بچا رہی ہے۔ للہ تعالیٰ کی صفت حلیم کا تقاضا ہے کہ وہ بندوں کی طرح فور ی طور پر اشتعال میں نہیں آتا، غصے میں نہیں آتا جب تک کہ اچھی طرح اتمام حجت نہ ہو جائے۔ اس لئے یہ نہ سمجھو کہ اس ڈھیل کا ملنا، یا تمہیں فوری سزا نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تم حق پر ہو۔ یا اسلام یا قرآن حقیقت میں اس قابل ہی ہیں کہ ان کو اگر برا بھلا بھی کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یا یہ نہ سمجھو کہ تمہیں سزا کا نہ ملنا خداتعالیٰ کے عدم وجود پر دلالت کرتا ہے۔ اگر یہی دلیل ہے کہ فوری پکڑنہ ہو تو یاوہ دین سچا نہیں ہے یا خداتعالیٰ کا وجود نہیں ہے تو پھر بہت سی دنیاوی برائیاں ہیں جن میں مجرم فوری طور پر پکڑتے نہیں جاتے۔ بعض جرموں کا پتہ لگنے پر حکومتی ادارے ان پر نظر رکھتے ہیں لیکن فوری پکڑتے نہیں۔ تو ان جرموں پر اس طرح پکڑے نہ جانے کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ وہ جرائم، جرائم نہیں رہے۔ حکومتیں بھی ایک حد تک ڈھیل دیتی ہیں اور نظر رکھتی ہیں اور پھر قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ تو پھر جو حاکم اعلیٰ ہے اور جس نے اپنی ایک صفت حلیم بتائی ہے اُس سے کیوں توقع رکھی جاتی ہے کہ فوری پکڑے اور اگر نہ پکڑے گا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دین خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے یا خداتعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
دنیاوی قانون میں تو پکڑے جانے اور سزا کے بعد اس شخص تک ہی بات محدود رہتی ہے جس کو پکڑا گیا ہو یا سزا دی گئی ہویا زیادہ سے زیادہ اس کے فوری زیر پرورش لوگ بیوی بچے، بہن بھائی، ماں باپ متاثرہوتے ہیں۔ اور اگر کسی کو کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو نسل چلتی رہتی ہے یا کم از کم انسانیت کی نسل چلتی رہتی ہے، اس خاندان کی نسل چلتی رہتی ہے؟ اس معاشرے میں نسل چلتی رہتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میں نسل انسانی کے جرموں پر انہیں پکڑنا شروع کر دوں اور فوری پکڑنے لگوں تو نسلِ انسانی ہی ختم ہو جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل کے قانون کے بغیر تو نسلِ انسانی چل ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ دنیا گناہوں سے بھری پڑی ہے اگر یہ ہو کہ ہر گناہ پر اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ عذاب نازل فرمانا شروع کر دے یا جب سے دنیا بنی ہے عذاب نازل کرتا رہتا تو اب تک نسل انسانی ختم ہو چکی ہوتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ نیک لوگ بھی دنیا میں ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اول تو بہت کم ایسے نظر آئیں گے جو سوفیصد ہر نیکی کو بجالانے والے ہیں جن سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ تو کسی بھی جرم کی سزا میں پکڑ سکتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اس بات کاکیا ثبوت ہے کہ ان نیک لوگوں کے آباء و اجداد بھی نیک ہی تھے۔ اگر وہ اسی وقت پکڑے جاتے تو یہ نسل ہی نہ آتی۔ یہ نیک نسل آگے چل ہی نہیں سکتی تھی اور ہوتے ہوتے آگے پھر نسل ختم ہی ہو جاتی۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہر گناہ کی فوری سزا اور پکڑ اور عذاب شروع کر دے تو نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سوں کو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں بھی سزا دیتا ہے۔ لیکن جب شیطان نے کہا تھا کہ میں انسانوں کو ورغلانے کے لئے ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کے دائیں سے بھی اور ان کے بائیں سے بھی آؤں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں ان سب کو پھر جہنم سے بھردوں گاجو تیری اتباع کرنے والے ہیں۔ گو بعض لوگوں کو ان کے اعمال اس دنیا میں ہی جہنم کا نمونہ دکھا دیتے ہیں لیکن یہ جہنم کا دور مرنے کے بعد ان کی سزا سے شروع ہوگا۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ جو جزا سزا کا دن رکھا ہے یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ فوری طور پر یہاں نہیں پکڑتا بلکہ آگے جا کے پکڑے گا۔ اگلے جہان جا کر جزا سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اس لئے آخرت پر یقین نہ رکھنے والے یہ نہ سمجھیں کہ اس دنیا میں اگر پکڑ نہیں ہے تواگلے جہان میں بھی ہمارے ساتھ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی کیونکہ ہمارا کفارہ ادا ہوا ہے یا خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جو ہمیں سزا دے۔ کاش کہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹ سے غلط مطلب نکالنے کی بجائے یا خدا کو نہ سمجھنے والے اس حقیقت کو سمجھیں کہ خدا ہے اور اس کی طرف جھکنے والے بنیں۔
پھر اس آیت میں خداتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ہر گناہ پر اس دنیا میں گرفت شروع ہو جائے تو اس زمین پر مَیں پھر کوئی جاندار بھی باقی نہ چھوڑتااور جاندار کا نہ چھوڑنا، کیا مقصد ہے؟یہ اس لئے کہ اس رحمان خدا نے انسان کی بقائے زندگی کے لئے اس دنیا میں پہلے زندگی پیدا کی ہے۔ اس لئے کہ جو خداتعالیٰ کی باقی مخلوق ہے اس کی زندگی بھی انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی دوسری مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی تھی۔ پہلے دوسری زندگی شروع ہو ئی تھی۔ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا دیا اور اس کے لئے مسخّر کر دیا۔ پس اگر انسان کی زندگی کا سزا دے کرخاتمہ کرنا تھا تو اس مخلوق کو ہی ختم کر دیتاجو انسان کی بقا کے لئے تھی اور انسان ایک عذاب میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاتا۔ کیونکہ بقایا زندگی کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی عذاب سے انسانیت ہی کو ختم کرنا تھا تو پھر اس کی بقا کے جو سامان مہیافرمائے ان کا بھی خاتمہ کر دیتا۔ کیونکہ جب انسان ہی نہیں رہا تو ان چیزوں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ پس اللہ تعالیٰ کے فوری طور پر کسی جرم میں نہ پکڑنے کی بڑی حکمت ہے۔ جس طرح نیک لوگوں میں سے بد پیدا ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں اسی طرح بدوں میں سے نیک بھی پیدا ہوتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت حلیم کو خوب سمجھا ہے تبھی تو طائف کے سفر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بدقماش قوم کو ختم کرنے کے لئے کہنے پر آپؐ نے اس حلیم کا پر تَو بنتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ! میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل میں سے تیری عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے۔ اور تجھ سے دعا بھی کرتا ہوں اور تو میری اس دعا کو قبول کر۔ اور پھر اس قوم میں سے دنیا نے دیکھا کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے پیدا ہوئے۔ وہ جو آپؐ کی جان لینا چاہتے تھے، ان کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی جان لیں۔ وہی آپؐ پر اپنی جانیں نثار کرنے والے بن گئے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل میں بڑی حکمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں ان کا حساب نہیں لوں گا بلکہ مؤاخذہ میں ڈھیل ہے۔ اور فرمایا جب مؤاخذہ کا وقت آئے گا تو پھر اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں فرماتا ہے کہ

وَلَوْیُؤَاخِذُاللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَھْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًی۔ فَاِذَا جَآءاَجَلُھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا۔ (سورۃ الفاطر:46)

اور اگر اللہ لوگوں کا اس کے نتیجہ میں مؤاخذہ کرتا جو انہوں نے کمایا تو اس (زمین) کی پشت پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو(آخری) مدت تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی مقرر ہ مدت آجائے گی تو (خوب کھل جائے گاکہ) یقینا اللہ اپنے بندوں پر گہری نظر رکھنے والا ہے۔
اس آیت سے کچھ پہلے اسی سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ اپنے حلیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

اِنَّ اللَّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۔ وَلَئِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَھُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ بَعْدِہٖ۔ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۔ (سورۃ الفاطر:42)

کہ یقینا اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ ٹل سکیں اور اگر وہ دونوں (ایک دفعہ) ٹل گئے تو اس کے بعد کوئی نہیں جوپھر انہیں تھام سکے۔ یقینا وہ بہت بُردبار اور بہت بخشنے والا ہے۔
اس آیت کا مقصد ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لانے والے نہیں وہ اپنی مذموم حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے یقینا قابل ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ جو رحم کرنے والا ہے، برد بار ہے، بخشنے والا ہے اس نے تمہیں بچایا ہوا ہے اور ڈھیل دیتا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلو۔ اس رویّے کو بدلوجو آنحضرت ﷺ کے خلاف تم نے اپنایا ہوا ہے۔ اپنی اصلاح کر لو ور نہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا حساب لینا شروع کر دے اور فوری سزا شروع کر دے تو چند لمحوں میں تمہیں ختم کرسکتا ہے۔ اورزمین و آسمان کو اس نے روک رکھا ہے۔ اگر وہ ٹل جائیں تو پھر قیامت کا نمونہ ہو گا۔ پس وہ خدا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے جو فوری بدلے نہیں لیتا اور بخشنے والا بھی ہے اس کی طرف جھکو اور اپنی حدود کے اندرر ہو۔
یہ جو پہلی آیت میں نے پڑھی تھی (سورۃ الفاطر:46) اور ترتیب کے لحاظ سے وہ آخری آیت ہے۔ اس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فوری مؤاخذہ کرتا تو نہ کوئی جنگلی جانور باقی رہتا، نہ کوئی گھریلو جانور باقی رہتا، نہ کوئی پرندہ باقی رہتا۔ یعنی پھریہاں دوبارہ اس بات کا اظہار فرمایا کہ تمہاری زندگی کی بقا جن زندگیوں سے وابستہ ہے اگر صرف انہی کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کر دے تو تمہاری زندگی اذیت ناک ہو جائے گی اور اسی عذاب میں مبتلا ہو کر ختم ہو جاؤ گے۔ پس کس بات پر اِتراتے پھرتے ہو اور تکبر کرتے ہو۔
پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ عارضی ڈھیل دی ہے اس سے سبق سیکھو۔ یہ مستقل سزا بھی بن سکتی ہے۔ اب یہاں مرغیوں کی بیماریاں آئیں مثلاً برڈ فلوہے، دنیا میں بڑا پھیلا۔ اس نے کئی ملکوں کے لوگوں کو پریشان کر دیا۔ یہ تو ہلکے ہلکے جھٹکے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں۔ لیکن سب سمجھتے نہیں۔ سمجھتے وہی ہیں جو سمجھنے والے ہیں۔ ایک زمانے میں گائیوں کی بیماری نے ان کو پریشان کر دیا تھا۔ اگر غور کریں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے ایک وقت میں ہی دنیا کے ان تمام جانوروں میں کسی قسم کی بیماری پیداکر دے تو دنیا اسی سے عذاب میں مبتلا ہو جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ ایک آخری مدت تک مہلت دیتا ہے اور جب وہ مدت آجائے اور انسان اپنے رویوں میں تبدیلی نہ کرے، خدا کے کاموں میں ہاتھ ڈالنے سے بازنہ آئے، اس کی رَکھ میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو پھر مزید ڈھیل نہیں ہوتی۔ پھر صفت حلیم کی بجائے دوسری صفات اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
اس آیت میں بھی اور دوسری آیات میں بھی دَابَّہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ ہے جاندار یا جانور۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زمین کے کیڑے، پس یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو خداتعالیٰ کے اور اس کے نبیوں کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں وہ دنیا کے کیڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ اگر یہ لوگ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جس طرح کیڑوں کو مسلنے میں کوئی عار نہیں ہے ان کو بھی اسی طرح ختم کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق ایک مدت تک مہلت دی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور ہر دیندار کی نظر میں یہ لوگ بے حقیقت ہیں۔ ذلیل کیڑے سے زیادہ ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں جوخدا کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تو چند مثالیں ہیں جو مَیں نے پیش کیں، ان لوگوں کی جو استہزاء میں بڑھے ہوتے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور آنحضرت ﷺ کو نشانہ بناتے ہیں اور زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اگر کوئی خدا ہے تو سامنے آکر ہم سے بدلہ کیوں نہیں لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ حلیم ہے درگزر کرتا ہے لیکن جب اس کی چکی چلتی ہے تو اس دنیا میں بھی حد سے بڑھے ہوؤں کو خائب و خاسر کر دیتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔
قرآن کریم کی ان آیات میں ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف استہزاء اور بدزبانی اور بدگوئی سے باز نہیں آتے کہ اللہ کی چھوٹ سے غلط فائدہ نہ اٹھاؤ۔ اس کتاب کو ماننے والے، قرآن کریم کو ماننے والے جو لوگ ہیں ان پر تو اور بھی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر غور کرکے غلط استہزاء اور الزام تراشی سے باز آئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ پکڑ نہیں رہا تو یہ نہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نعوذ باللہ جھوٹے ہونے کی دلیل ہے نہ تم لوگوں کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے ان پر بھی بڑی آفات آرہی ہیں، ان پر بھی غور کریں۔
یہاں میں احمدیوں کو بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جلد باز سمجھتے نہیں اور فکر میں رہتے ہیں کہ حالات بدلتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایاہر کام کے لئے ایک اجل مسمّیٰ ہے اور عذاب کے لئے تو خاص طور پر اس نے اجل مسمّیٰ کا ذکر کیاہے۔ جب وہ آئے گی تو نہ (کوئی)اس سے ایک قدم آگے جائے گا نہ پیچھے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام صفات کا اظہار کرتا ہے اور بوقتِ ضرورت کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت کا غلبہ ہو گا اور انشاء اللہ ضرور ہو گا۔ بعض احمدی بعض الہامات پر خوش فہمی میں وقت کا تعین شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ وہ وقت نہیں بتاؤں گا۔ پس اگر حضرت مسیح موعودؑ کو وقت نہیں بتایا گیا تو مَیں آپ کون ہیں جن کو وقت کا پتہ لگ جائے؟ اگر وقت کا پتہ لگ جائے تو بغتۃً کیا ہوا؟ تو ہمارا کام دعائیں کئے جانا ہے اور وقت کا انتظار کرنا ہے۔ قوموں کی زندگی میں چند سال کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوا کرتا۔ تمام مخالفتوں کے باوجودحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی جو ترقی ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ چاہے کسی کی ظاہری دشمنی کی کوششیں ہوں یا چھپی ہوئی دشمنی کی کوششیں ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں اور نہ کبھی بگاڑ سکیں اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے سے آگے ہی بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے اعمال کی طرف توجہ دیں۔ اور یہ بڑی اہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اور ہمارے سے وہ اعمال کروائے جو اس کی رضا کے حصول کے اعمال ہوں۔ اگر ہم نے اپنے عملوں کو، اپنے دلوں کوغلط کاموں سے پاک صاف رکھا تو بعید نہیں کہ جلد وہ غلبہ عطا ہواور وہ نظارے ہمیں نظر آئیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
پس ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جوباوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے اور حلیم بھی ہے ہمارے کسی عمل کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ (سورۃ البقرۃ:226)

یعنی تمہارا مؤاخذہ کرے گا جو تمہارے دل کماتے ہیں اور پھر آگے فرمایا کہ

وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔

اللہ بہت بخشنے والا اور برد بار ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گنہگار نہیں کرتے بلکہ عنداللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں۔ (1) اول یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں۔ (2) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کی حرکات صادر ہوں۔ (3)تیسرے یہ کہ دل جونافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بد ضرور کروں گا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلٰکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ (سورۃ البقرۃ:226)

یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مؤاخذہ ہو گا مگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہو گاکہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں۔ خدائے رحیم ہمیں اُن خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے، یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا(بنی اسرائیل:37)

یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی۔ اب دیکھو جیسا کہ خداتعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا ہے۔ صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں۔ ہاں اس و قت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے۔ ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔ (سورۃ الاعراف:34)

یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دئیے ہیں ‘‘۔
(نورالقرآن نمبر2۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ427تا 428مطبوعہ لندن)
پس اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں ان سے فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے نظارے کرتے رہنے والے بنیں اور اس کے لئے تین باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے، جن سے ظاہری طورپر ایک مومن نیکیاں بجا لانے والا ہوتا ہے اور دل بھی پاک رہتا ہے۔
آپ نے پہلی بات یہ بتائی کہ کوئی ایسی بات کبھی کسی کے خاص طور پر احمدی کے منہ سے نہ نکلے جو سچائی اور انصاف کا گلا گھونٹنے والی ہو۔ جس سچائی پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے کبھی دور جانے والے نہ ہوں۔ اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا خداتعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کو کبھی بھولنے والے نہ ہوں۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اپنوں کے خلاف بھی اگر تمہیں انصاف قائم کرنے کے لئے گواہی دینی پڑے تو گواہی دو۔ اور پھر اس حد تک فرمایا کہ کسی کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم انصاف کے تقاضے نہ پورے کر سکو۔ پس یہ بہت اہم حکم ہے۔ اللہ حلیم ہے تو ہمیں بھی حلم اختیار کرنا چاہئے۔
پھر دوسری بات یہ کہ کسی بھی عمل سے ایسی حرکت ظاہر نہ ہو جو نافرمانی والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لڑائی جھگڑوں اور دنگا فسادوں سے بچو تو اس پہ پوری طرح عمل ہو۔ پھر ظاہری عمل ہی نہیں اگر کسی نے اپنے لئے دل میں بھی کسی غلط کام کا ارادہ کیا ہے تو یہ بات بھی اسے خداتعالیٰ کی پکڑ کے نیچے لانے والی ہو گی۔ ہاں اس بات کی تو چھوٹ ہو سکتی ہے کہ جو دل میں خیال آئے، کیونکہ بعض اوقات انسان کے دل میں خیالات آجاتے ہیں کہ بس میں نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بدخیال آتا ہے تو اس کو فوراً جھٹک دے۔ لیکن اگر اس کو دل میں بٹھائے، دوہراتا رہے اور یہ ارادہ بھی کرے کہ یہ کام میں ضرور کروں گا تو یہ گناہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر کسی شخص کے دل میں برا خیال آئے اور وہ اس کو دبالے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں پوری نیکی لکھے گا۔ اس بدخیال کو دبانے کی وجہ سے اسے نیکی کی جزاء ملے گی۔
پس یہ ہمارا خدا ہے، جو غفور بھی ہے اور حلیم بھی ہے۔ پس خدا کی اس صفت حلیم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے جو فوری طور پر نہیں پکڑتا بلکہ موقع دیتا ہے کہ انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرے۔ صفت حلیم کے ساتھ غفور کو لگا کر اس بات کا اعلان کیا کہ میں اپنے بندوں کے گناہوں اور غلط کاموں سے جو صرف نظر کرتا ہوں، درگزر کرتا ہوں، پردہ پوشی کرتا ہوں تو بندے کا یہ کام ہے کہ اس پر بجائے گناہوں میں بڑھنے کے استغفار سے کام لے اور میرے سے بخشش طلب کرے اور میری اس صفت سے فائدہ اٹھائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں