خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍نومبر 2006ء

آج کل عائلی جھگڑوں کی شکایات پھر بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔
ہر احمدی اپنا اور اپنے گھرکاجائزہ لے۔ اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آرہے تو ہم نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو رستہ کیا دکھانا ہے۔
خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں، انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا ا ولین فرض ہے۔
اگر کسی واقف نوکے والدین کا اخراج از نظام جماعت ہو تو اس کا بھی وقف ختم ہو جاتاہے۔ امیر جماعت اور سیکرٹریان وقف نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں۔ معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ علیحدہ خلیفہ ٔ وقت کے سامنے پیش ہوگا۔
عائلی جھگڑوں کی مختلف وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے تقویٰ کو اختیار کرنے اور اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی تاکیدی نصائح۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ 10؍نومبر 2006ء (10؍نبوت 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآء وَاتَّقُواللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآء لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (النساء: 2)

آجکل پھرعائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤنے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذَکِّرْ سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقینا فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح و مہدی کی غلامی اور نمائندگی میں نصیحت کرنے کے فرمان الٰہی کے مطابق نصیحت کرتے چلے جانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے یقینا ان میں شرافت کا کوئی بیج تھا جس سے یہ نیکی کا شگوفہ پھوٹا ہے کہ احمدیت قبول کرلی اور اس پر قائم ہیں۔ پس اللہ کے حکم کے مطابق اور جو کام ذمہ لگا یا گیا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ نصیحت کرو یقینا اللہ برکت ڈالے گا، میں اللہ تعالیٰ کے اس برکت ڈالنے کے سلوک کی امید کرتے ہوئے آج پھر اس بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے الفاظ میں اثر پیدا کر دے کہ اجڑتے ہوئے گھر جنت کا گہوارہ بن جائیں گو کہ مَیں گزشتہ خطبات میں اشارۃًبھی اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں لیکن آج ذرا کچھ وضاحت سے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کرکن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کر دار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اَناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔‘‘
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’ خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔ انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اس کو ملیں جن کے رو سے اس کو یقین آ جائے کہ خدا ہے‘‘۔
پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اوراس کو جستجو رہنی چاہئے۔ اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اَناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آ رہے تو ہم نے گم گشتہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ کیا دکھانا ہے؟ ہم تو خود ان گم گشتہ لوگوں میں شامل ہیں،ہم تو خود اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہوگا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے،کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصوروار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 40-30 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ اپنی ملکیت کا حق جتانے کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پھر لڑکیاں ناراض ہو کر گھر چلی جاتی ہیں۔ یہ بھی غلط طریقہ ہے، لڑکے کا کام ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے لیکن بیویوں کو بھی ان کا حق دے۔ جب ایسی صورت ہو گی تو پھر بیویاں عموماً خاوند کے ماں باپ کی بہت خدمت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسی بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ ساس سسر کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنی بہوؤں پر اعتماد ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ خدانخواستہ جماعت میں نیکی اور اخلا ق رہے ہی نہیں ،بالکل ختم ہی ہو گئے ہیں، اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی پر قائم ہے۔ مگر جو مثالیں سامنے آتی ہیں وہ پریشان کرتی ہیں کہ یہ اتنی بھی کیوں ہیں ؟ جو جائزہ میں نے یہاں لیا ہے اگر کینیڈا میں، امریکہ میں یا یورپ کی جماعتوں میں لیا جائے تو وہاں بھی عموماً یہی تصویر سامنے آئے گی۔ پس شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں ، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں،نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا،اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے۔ جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہو گا تو پھر بھڑکانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں۔ اور ایسا شخص جوکسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا،میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ۔ بات کرکے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے،اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے۔ اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو۔
پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کااحترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تاکہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے۔ اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کر یاماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی پر بڑے گھناؤنے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اورشادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے۔ اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور مَیں حق مہر کی ادائیگی سے(اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ اول تو قضاء کو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھی ادا کرو۔ دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں۔
اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں۔ اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف، اپنے نام کرا لیتے ہیں۔،قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کر لو۔
پھر بعض دفعہ بہانہ جُو مرد وں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے، بات نہیں مانتی، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کرکے ہمیں بدنام کر دیا ہے۔ تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (النسآء: 35)

اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو ان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو۔ یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہو گئی ہے اور ارد گرد بدنامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذرا سی بات پربیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کردو، یہ ا نتہائی ظالمانہ حرکت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے،آپؐ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آ جائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے۔ یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یاد رکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو۔ جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے، اطاعت کر لے توپھر اس پر زیادتی نہ کرو۔

فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (النسآء: 35)

پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادہ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ یاد رکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا، مضبوط اور طاقتور ہے۔ عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خداتعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو۔
پھر یہ معاملات بھی اب سامنے آنے لگے ہیں کہ شادی ہوئی توساتھ ہی نفرتیں شروع ہو گئیں بلکہ شاد ی کے وقت سے ہی نفرت ہو گئی۔ شادی کی کیوں تھی؟ اور بدقسمتی سے یہاں ان ملکوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، شاید احمدیوں کو بھی دوسروں کا رنگ چڑھ رہا ہے حالانکہ احمدیوں کوتو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے دین کا رنگ چڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی۔ پس ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرضی کی شادی نہیں ہوئی تب بھی پہلے اکٹھے رہو، ایک دوسرے کو سمجھو، اس نصیحت پر غور کرو جس کے تحت تم نے اپنے نکاح کا عہد و پیمان کیا ہے کہ تقویٰ پر چلناہے، پھر سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اگر نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھاؤ اور اس کے لئے بھی پہلے یہ حکم ہے کہ آپس میں حَکَمِیْن مقرر کرو،رشتہ دار ڈالو، سوچو، غور کرو۔ دونوں طرف کے فریقوں کو مختلف قسم کے احکام ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے، گو بہت کم ہے لیکن بعض لڑکیوں کی طرف سے بھی پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ آ جاتا ہے کہ ہماری شادی تو ہو گئی لیکن ہم نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔ جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکے یا لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ میں آ کر شادی تو کر لی تھی ورنہ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے۔ تو ماں باپ کو بھی سوچنا چاہئے اور دو زندگیوں کو اس طرح برباد نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آ کر جب کاغذات پکے ہوجاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء 20:)

کہ ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کر یں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا۔ وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ مَیں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانانورالدین صاحبؓ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں،مَیں اب تم سے حسن سلوک کروں گا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تو اللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے۔
پس جو لڑکے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آ کر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کرکے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھوکر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے۔ اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ بہرحال پھر جماعت ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں۔
دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویزا وغیرہ مل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی۔ تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں ،جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں، تقویٰ پر چلیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے۔
پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جائنٹ فیملی (Joint Family) ہے۔ ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے۔ بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی۔ شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں۔ اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو مار دیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کرلی۔ تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اٹھ گئے۔
تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔
اس آیت کی تشریح میں کہ

لَیْسَ عَلَی الْا َعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْا َعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّھٰتِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اَخَوَاتِکُمْ (النور:62)

کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو (یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں ،ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے۔ تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
مَیں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں۔ اور آخرپر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پرظلم کر رہی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے۔ پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کے لئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں۔ اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر تو فیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے۔
پس اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہو رہا ہوختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ بعض مرداس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھرنا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں۔
بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں۔ ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلاّ رہی ہے۔ ماں پرغلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤ۔ اور پھر اس مرد کے،ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کررہے ہوتے ہیں۔ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طورپر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے۔ یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں۔؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اورکہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جا رہا ہوتا۔ تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے مرد اپنی اَناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مر جاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اپنی اَنا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
وقف نو کے حوالے سے یہاں ضمناً مَیں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اگر ان کا بچہ واقف نو ہو تو والدین کے اخراج کی صورت میں اس کا بھی وقف ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے جماعتیں ایسی صورت میں جہاں جہاں بھی ایسا ہے خود جائزہ لیا کریں۔ پاکستان میں تو وکالت وقف نو اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے لیکن باقی ملکوں میں بھی امیر جماعت اور سیکرٹریان وقف نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں۔ اور پھر معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ خلیفہ ٔ وقت کے سامنے علیحدہ پیش ہوتا ہے کہ آیا اس کا دوبارہ وقف بحال کرنا ہے کہ نہیں ؟ اس لئے ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے۔ اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے۔ اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ فیصلے کرتے وقت، خلیفۂ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کرسفارش کیا کریں۔ اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دو دن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہو۔ اور فریقین بھی یاد رکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ ناجائز حق مانگتے ہیں۔(توانہیں ایسا نہیں کرناچاہئے)
پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروا لیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو۔ تو تقویٰ سے دورہوں گے تو پھر یقینا شرک کی جھولی میں جا گریں گے۔ پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں ، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپا لیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے، اورنہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے۔ وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔ اور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑا کرتا۔ پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیاعموماً باپوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں۔ ان کے حقوق دیں۔ اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الاّماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی۔ آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔ باعث تکلیف دہی ہے کہ مَیں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ شدّت رکھتے ہیں۔ یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا۔ میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں۔ اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسّام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرّہ ذرّہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جلشانہ فرماتا ہے

عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

خَیْرُکُمْ خَیْرُ ُکْم لّاَھْلِہٖ

یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا۔ عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا۔ اور وہ دیکھتا ہے کہ ہریک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجا لاتا ہوں۔ اورمیں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہئے۔ اور ان کو دین سکھلانا چاہئے۔ اور درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب مَیں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کروکہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما ویں۔ اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ سو مَیں امید رکھتاہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام‘‘۔ (الحکم جلد 9نمبر13مورخہ17؍اپریل1905ء صفحہ6)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں