خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 16؍ اپریل2004ء

خدائی وعدہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے آج بھی پوراہوتے ہم دیکھ رہے ہیں
افریقہ کا بر اعظم خوش قسمت ترین ہے۔ان کے دل نور یقین سے پُر ہیں
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وہ بارش برسی ہے جو انسانی تصور سے باہر ہے
دورۂ مغربی افریقہ میں ہونے والے خدائی فضلوں اور احسانات کا مختصر بیان
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے چینل 2 کے اجراء کا اعلان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
16؍ اپریل2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْز (سورۃ المجادلہ آیت ۲۲)

اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔
خداتعالیٰ جب انبیاء کو دنیا میں مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مخالفین کی طرف سے مخالفت کی آندھیاں بھی بڑی شدت سے چلنا شروع ہو جاتی ہیں- لیکن انبیاء کو کیونکہ اپنے پیدا کرنے والے اور بھیجنے والے پر کامل یقین ہوتا ہے اس لئے ان کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ خدا ان کو مخالفت کی آندھیوں میں تنہا چھوڑ دے گا۔ ہاں ان کے دلوں میں جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ ڈرتے رہتے ہیں لیکن جوں جوں مخالفت کی آندھیاں بڑھتی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی ٹھنڈی ہوائیں بھی اسی تیزی سے بلکہ ا س سے زیادہ تیزی سے بڑھ کر انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی تسلی کا باعث بنتی ہیں- اور اس کے نظارے ہمیں تمام انبیاء کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں- اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگ بدر سے لے کر فتح مکہ تک کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں- اور خدائی وعدہ کہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے پوری شان سے پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ تو یہ سنت اللہ ہے جو آج ختم نہیں ہو گئی آج بھی اسے پورا ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں- آج ان نظاروں کودیکھ کر احمدیوں کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہمیں نظر آتا ہے۔
آج سے تقریباً 20سال پہلے جب ایک قانون کے تحت احمدیوں پر پابندیاں لگائی گئی تھیں اور دشمن نے اپنے زعم میں گویا جماعت کی ترقی کے تمام راستے بند کر دئیے تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کے مطابق جو اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے تھے دشمن کی ہر چال کو ناکام و نامراد کر دیا۔ اور معجزانہ رنگ میں حضرت
خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لندن آنے کے سامان پیدا فرما دئیے۔ اور دشمن نے اپنے زعم میں ایک ملک میں احمدیت کے پھیلنے کے راستے بند کئے تھے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان سمیت پونے دو سو سے زائد ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچانے اور جماعتیں قائم کرنے کے سامان پیدا فرما دئیے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کو پورا کرکے دکھایا اور دکھا رہا ہے، یورپ میں بھی تبلیغ کے راستے کھل گئے، امریکہ میں بھی، ایشیا میں بھی، اور افریقہ میں بھی۔ اور افریقہ کا براعظم وہ خوش قسمت ترین ہے جس کے رہنے والوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا اور کر رہے ہیں- ان کے دل نور یقین سے پر ہیں اخلاص و وفا کے پیکر ہیں اور اپنے ایمان میں ترقی کر رہے ہیں-الحمد للہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ میں خدا سے یقینی علم پا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور انکے سجادہ نشین اور ان کے ملہم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا۔ کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں پس ضرور ہے کہ بموجب آیت کریمہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی میری فتح ہو‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم۔صفحہ ۵۷،۵۸۔بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد چہارم صفحہ ۳۲۹)
پھر آپ فرماتے ہیں ’’ خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنے قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رھیں گے۔ پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے، بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے، ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔‘‘(نزول المسیح صفحہ ۳۸۰،۳۸۱۔ روحانی خزائن جلد ۱۸)
پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں اور رسولوں سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو غالب کرتا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی خدا کے مامور ہیں اور آپؑ سے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو انشاء اللہ ضرور غلبہ عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوتا ہے، انبیاء آتے ہیں اور بیج ڈال کر چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ مومنین کی جماعت کے ذ ریعہ اور نظام خلافت کے ذریعے اس کے پھیلاؤ میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نظارے خلافت رابعہ کے دور میں بھی دکھائے ا ور اس سے پہلے بھی دکھائے اور غیر معمولی طور پر خلافت رابعہ میں جماعتوں کا قیام اور جوق در جوق لوگوں کے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں- حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے فرانکوفون افریقی ممالک میں احمدیت کو وسیع پیمانے پر پھیلنے کی خوشخبری دی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد سے وہاں جماعتیں بہت تیزی سے قائم ہوئیں جن کا پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
بہرحال ان باتوں کے پیش نظر اور ان نئے شامل ہونے والوں سے ملنے کے لئے میں نے بھی بعض افریقن ممالک غانا، بورکینا فاسو، بینن اور نائیجیریا کے دورے کا پروگرام بنایا اور ان میں سے بورکینا فاسو اور بینن فرانکوفون ممالک ہیں، فرانسیسی زبان یہاں بولی جاتی ہے ایم ٹی اے کے ذریعے سے کچھ خبریں لوگوں کوملتی رہی ہیں اور اس وجہ سے تمام دنیا کے احمدیوں کی طرف سے خوشی اور مبارک باد کے پیغام وصول ہو رہے ہیں، حقیقت میں تو ان مبارکبادوں کے مستحق وہ افریقن احمدی بھائی اور بہنیں ہیں جن کے دل نور یقین سے پُر ہیں، دنیا کے تمام احمدیوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے، اکثر لوگوں کی خواہش ہے اور ہو گی بھی کہ وہ ان سفروں کا حال کچھ میری زبانی سنیں- تو سفر کے حالات کی تمام تفصیلات تو بیان کرنا مشکل ہے بعض صرف احساسات ہیں اور جذبات ہیں جن کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے تاہم سفر کے مختصر حالات میں آج بیان کروں گا۔ سب سے پہلے تو میں تمام دنیا کے احمدیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ دورے پر جانے سے پہلے سفر کے ہر لحاظ سے کامیاب ہونے کے لئے انہیں دعا کی تحریک کی تھی تو احباب جماعت کی مقبول دعاؤں کے نظارے ہمیں اپنے سفر کے دوران ہر قدم پر نظر آتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وہ بارش برسی ہے جو انسانی تصور سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعودؑ سے وعدوں اور خوشخبریوں کے مطابق یہ کامیابیاں تو ہونی تھیں- لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے یہ نظارے اس نے ہماری زندگیوں میں ہمیں دکھائے۔
دورے سے پہلے کئی لوگوں نے مبشر خوابیں بھی دیکھی تھیں بعض کو تو پتہ تھا کہ افریقہ کا دورہ ہے۔ دعا کر رہے تھے اس دوران اچھی خوابیں آئیں لیکن بعضوں کو علم بھی نہیں تھا،تو بہرحال اس سے میری تسلی ہو گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے گا، اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے الحمدللہ۔ یہاں سے روانہ ہو کرجب ہم اکرا ایئرپورٹ پر پہنچے ہیں، جہاز وہاں آ کر رکا بلکہ جہاز رن وے پر اترا تو اس وقت ہی نظر آ گیا تھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے اور سفید رومال لہرا رہے ہیں، جب میں جہاز سے اترنے لگا تو جہاز کا پائلٹ بھی بڑا ایکسائیٹڈمیرے پاس آیا، برٹش ائرویز کا جہاز تھا، یہ نہیں پتہ کہ اسے پہلے علم تھا یا اس نے خود اندازہ لگایا اور آ کے کہنے لگا تمہارے لوگ تمہارے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں- اور اتنا غیر معمولی رش تھا اور جوش تھا کہ ہر ایک کو نظر آ رہا تھا۔ مسافر بھی کھڑکیوں سے جھانک جھانک کے دیکھ رہے تھے، اترنے سے پہلے۔ گھانا جماعت نے بھی ماشاء اللہ دوروں، ملاقاتوں، میٹنگوں کے بھرپور پروگرام بنائے ہوئے تھے، اس کے بارے میں ایم ٹی اے میں کچھ خبریں پتہ لگتی رہی ہیں- بہرحال مختصراً بعض جگہوں کے بارے میں جہاں میں رہا ہوں یا جن جگہوں کو میں جانتا ہوں وہاں کیا کیا تبدیلیاں دیکھیں، اس بارے میں مختصراً بیان کرتا ہوں-
وہاں پہنچنے کے اگلے دن ہم نے دو سکولوں، ایک ہسپتال اور جامعہ احمدیہ گھاناکا معائنہ کیا، اس دن تقریباً دو تین سو کلو میٹر کا سفر ہوا ہو گا۔ جامعہ احمدیہ تو وہاں نیا کھلا ہے یعنی میرے وہاں سے واپس آنے کے بعد نئی جگہ پر۔ پہلے یہ سالٹ پانڈ میں ہوا کرتا تھا چھوٹی سی جگہ پر، اب تو ماشاء اللہ وسیع رقبہ ہے اور اس میں عمارتیں بھی کافی ہیں کلاس روم بلاک ہیں، ہوسٹل ہیں، سٹاف کوارٹر ہیں اور اس کو مزید وسعت بھی دی جا رہی ہے۔ یہاں گھانا کے علاوہ بعض دوسرے افریقن ممالک جہاں جامعہ کی سہولت نہیں ہے کے طلبا آ کے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دین کا علم سیکھنے اور وقف کی روح کے ساتھ آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔
سکولوں میں بھی ماشاء اللہ بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے، جس زمانے میں میں وہاں تھا اس وقت اس بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کہ اتنی عمارتیں بن جائیں گی اور اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی۔ پھر اس دوران ہی دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا، سالٹ پانڈ جہاں ہمارے ابتدائی مبلغین کام کرتے رہے ہیں اس جگہ کو بھی دیکھنے کے لئے گئے۔ وہاں صرف معائنہ تھا کیونکہ ابتدئی قربانی کرنے والوں کی قربانی کا پھل ہی آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھا رہے ہیں- جن میں حکیم فضل الرحمان صاحب، مولانا نذیر احمد علی صاحب، مولانا نذیر احمد مبشر صاحب وغیرہ شامل ہیں- سالٹ پانڈ کی وسیع خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس وغیرہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان مبلغین نے مال کی کمی، کمزوری اور وسائل کی کمی کے باوجود ایسی عالی شان اور خوبصورت عمارتیں کھڑی کر دیں-
اکرا (Accra)میں جہاں اب ہمارا ہیڈ کوارٹر ہے، یہیں قیام تھا، یہاں بھی بعض عمارات کا افتتاح ہوا وہاں جب میں ۱۹۸۵ء میں آیا ہوں تو کافی بڑی مسجد اکرا مشن ہاؤس کے ساتھ ہی تھی لیکن اب انہوں نے اس کو مزید وسعت دے کر اور دو منزلہ بنا کر تقریباً اس وقت سے بھی تین گنا زیادہ کر لیا ہے۔ لیکن اس دورے کے دوران امیر صاحب گھانا کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ یہ مسجد بھی چھوٹی پڑ گئی ہے۔ الٰہی وعدوں کے مطابق جماعت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا ہے، جتنی بڑی چاہیں مسجدیں بنائیں وہ چھوٹی ہوتی چلی جائیں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے قربانی کی روح اور اللہ کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ اور خواہش رہی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں سنبھالی نہیں جائیں گی۔ پھر اس دوران میں یعنی اکرا میں جتنے دن رہائش رہی، وہاں قیام رہا، پھر گھانا کے صدر صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی پہلے تو رسمی سی باتیں ہوتی رہیں، کیونکہ یہ لوگ فطرتاً بڑے روایتی رجحان رکھنے والے لوگ ہیں عموماً۔ بہرحال اس کے بعد پھر بڑے خوشگوار ماحول میں بے تکلفانہ، غیر رسمی باتیں ہوئیں، اور بار بار صدر صاحب اپنے ملک کی ترقی کے لئے دعا کی درخواست کرتے رہے۔
پھر جلسے کی کارروائی ہے۔ وہ تو آپ لوگوں نے دیکھ ہی لی ہے۔ لیکن جمعہ کے بعد جب میں سلام کہنے کے لئے لجنہ کی طرف گیا ہوں تو وہ نظارہ دیکھنے کے قابل تھا لیکن افسوس کہ کیمروں کی پہنچ سے اس وقت باہر تھا۔ اس لئے کہ آپ اس کو Liveدیکھ ہی نہیں سکے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ گھانا ٹیلیویژن نے اپنی ذمہ داری لے لی تھی کہ Liveکوریج ہم کریں گے۔ اور ایم ٹی اے نہیں کرے گی۔ اس لئے یہ دقت وہاں تھی، بہرحال میرا خیال ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کی فلم بنائی بھی ہو گی، لگتا تھا کہ جوش پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہا ہے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اخلاص و وفا کااظہار اس طرح ہو رہا تھا کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے چہروں سے خوشی اس طرح پھوٹی پڑتی تھی کہ ناقابل بیان ہے کماسی کے مسجد کے احاطے میں عورتوں اور مردوں کا اظہار آپ نے دیکھ لیا ہے وہ کچھ دکھایا گیا تھا۔ تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ جلسہ پر یہ اظہار زیادہ تھا یا کماسی میں- پھر جلسہ کے بعد 100 کے قریب اماموں اور چیفوں سے بھی ملاقات تھی۔ جو احمدیت قبول کر چکے ہیں اور اپنی بہت بڑی فالوانگ(Following) کے ساتھ احمدیت قبول کر چکے ہیں- اور اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام، مسیح محمدی کا پیغام اپنے اپنے علاقوں میں پھیلا رہے ہیں-
گھانا کا دوسرا بڑا شہر کماسی (Kumasi)ہے، کماسی کے قریب جماعت نے داعیان الی اللہ کی ٹریننگ اور نومبائعین میں سے چنیدہ لوگوں کی تربیت کے لئے تاکہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم لے کر اپنے علاقوں میں نئے شامل ہونے والوں کو بھی سکھا سکیں- دو عمارتیں بنائی ہیں- اور ان عمارتوں کا تقریباً ساراخرچ بھی ایک مخلص احمدی نے ادا کیا ہے اس کے ساتھ ہی طاہر ہومیو پیتھک کمپلیکس ہے جس میں کلینک بھی ہے دوائیاں تیار کرنے کی لیبارٹری بھی ہے اور بوتلیں وغیرہ بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی ہے۔ ماشاء اللہ یہ ادارہ بھی انسانیت کی بڑی خدمت کر رہا ہے۔ پھر مختلف شہروں میں مساجد، سکول، ہسپتال کے وارڈز وغیرہ کے افتتاح ہوئے۔ مختصراً یہ کہ گھانا میں اس دورہ کے دوران 13مساجد کا افتتاح ہوا اور دو کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور سات متفرق عمارات کا افتتاح ہوا یا سنگ بنیاد رکھاگیا۔
ٹمالے ایک جگہ ہے جو نارتھ میں گھانا کا ایک بڑا شہر ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ یہاں ایک بہت بڑی دو منزلہ مسجد کا افتتاح ہوا۔ اس جگہ چند سال پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھاکہ اتنی بڑی مسجد بن سکتی ہے اور پھر نمازی بھی آ سکتے ہیں- اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں بیعتیں بھی کافی ہوئی ہیں الحمدللہ۔ اور یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہاں دو افراد نے بیعت کا اظہار کیا اور جماعت میں شامل ہوئے۔ ہمارے قافلے کے بعض لوگوں کی گاڑیوں کے ڈرائیور تھے انہوں نے دیکھا اور کہا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم احمدیت قبول کر لیں- پھر وہاں مسجد میں نماز مغرب و عشاء کے بعد دستی بیعت ہوئی۔ باقی جو موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کی۔
ٹمالے سے بورکینا فاسو کا سفر ہم نے بذریعہ سڑک کیا۔ اور راستے میں دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا۔ ایک مسجد تو عین گھانا کے بارڈر سے چند گز کے فاصلے پر ہے اور ایک مخلص احمدی نے وہاں یہ مسجد بنائی ہے۔ اس طرح جو بھی بارڈر کراس کرتا ہے آنے والے یا جانے والے کیونکہ کافی آمد و رفت رہتی ہے اور عمومی طور پر دونوں طرف ان علاقوں میں مسلمان ہیں ان کی نظر ہماری مسجد پہ ضرور پڑتی ہے اس لئے وہ نماز پڑھنے کے لئے ہماری مسجد میں آجاتے ہیں- بذریعہ سڑک جانے کا پروگرام بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے ہی بنا لگتا ہے۔ کیونکہ پہلے جو گھانا والوں نے پروگرام بنایا تھا اور اس کی اپروول ہو گئی تھی، اس کے مطابق تو دورہ نارتھ تک کا مکمل کرنے کے بعد ہمیں پھر واپس اکرا آنا تھا اور وہاں سے بائی ایئر پھر بورکینا فاسو جانا تھا لیکن روزانہ فلائیٹ نہیں جاتی بلکہ دو دن جاتی ہے ان میں سے ایک جمعہ کا دن تھا۔ تو وکیل التبشیر ماجد صاحب نے مجھے کہا کہ جمعہ جلدی پڑھ کے فوراً ہی ایئر پورٹ جانا ہو گا اس پر مجھے کچھ انقباض ہوا، میں نے کہا اس طرح نہیں جانا بلکہ بعض شہر جو انہوں نے پروگرام میں نہیں رکھے ہوئے تھے اور میرے علم میں تھے میں نے کہا وہ بھی دیکھ کے جائیں گے اور بائی روڈ جائیں گے۔ بہرحال اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ چند مزید مساجد کا افتتاح بھی ہو گیالیکن اصل بات اس میں یہ ہے کہ لندن سے سفر شروع کرنے سے چند دن پہلے ماجد صاحب نے بتایا کہ بورکینا فاسو کے مبلغ نے انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک خواب یاد کرائی ہے۔ جو ماجد صاحب کو بھی یاد آ گئی کہ حضور نے دیکھا تھا کہ وہ کاروں کے ذریعے سے بائی روڈ گھانا سے بورکینا فاسومیں داخل ہوئے ہیں اور کوئی اسماعیل نامی آدمی بھی ان کو وہاں ملتا ہے بارڈر پہ یا کراس کرکے۔ اس پر حضور نے بعض اسماعیل نامی احمدیوں کی تصویریں بھی منگوائی تھیں، بہرحال پتہ نہیں کوئی ملا کہ نہیں- لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک الٰہی تقدیر تھی کہ ہم بذریعہ کار بورکینا فاسو داخل ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے قافلے میں ایک اسماعیل نامی ڈرائیور بھی تھا جس نے کچھ وقت ہماری گاڑی بھی چلائی جس میں میں بیٹھا ہوا تھا۔
اس ملک میں ہمارے مبلغین بھی ماشاء اللہ قربانیوں کے معیار قائم کر رہے ہیں- وہاں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ واقعی لوگ قربانیاں دے رہے ہیں- اور پھر بورکینا فاسو میں جب داخل ہوئے بارڈرکراس کرنے کے بعد جو پہلا ٹاؤن آتا ہے، چند کلو میٹر پر ہی۔ وہاں اس علاقے کا جو ہائی کمشنر تھا وہ استقبال کے لئے آیا ہوا تھا۔ جلسہ بھی ماشاء اللہ بڑا کامیاب رہا، صرف 15سال پہلے یہاں جماعت رجسٹر ہوئی ہے لیکن جماعت کے افراد کے ایمان و اخلاص میں ماشاء اللہ ایسی ترقی ہو رہی ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ یہاں کیونکہ فرنچ بولنے والے ہیں اس لئے ہر تقریر یا خطبے کا ایک دفعہ فرنچ میں ترجمہ ہوتا تھا پھر اس کا مقامی زبان میں ہوتا تھا۔ پھر جلسہ کے بعد ہم صحارا ڈیزرٹ کے قریب ایک قصبہ ڈوری ان کے لحاظ سے تو وہ شہر ہے بہرحال وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے وہاں گئے وہاں بھی ایک چھوٹی سی گیدرنگ (Gathering )تھی لوگ آئے ہوئے تھے، غریب لوگ ہیں، زیادہ تر وہابی ہیں ان میں سے احمدی ہوئے ہیں- یہاں بھی سکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس کا راستہ کل راستے میں سے 165کلو میٹر کا کچا راستہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے آرام سے ہو گیا۔ لیکن واپسی پر ہمارے قافلے کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ جس میں ہمارے دو مربیان اور دو قافلے کے افراد تھے جو یہاں سے گئے ہوئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، گاڑی سڑک سے اتر کر ایک کھائی میں گر گئی اور الٹ گئی لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے سب کو بچا لیا۔
بورکینا فاسومیں بھی وزیراعظم اور ان کے صدر مملکت سے ملاقات ہوئی بڑے خوشگوار ماحول میں، ان کو بھی زراعت سے دلچسپی زیادہ تھی اس لئے کافی دیر تک بٹھائے رکھا بلکہ میری کوشش تھی کہ اب اٹھا جائے لیکن وہ کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ وہاں ایک تو لینڈ لاکڈ(Land Locked) علاقہ ہے، اس ملک کے ساتھ سمندر کوئی نہیں لگتا او رپھر صحارا کے قریب ہے اس لئے بارشیں بھی کم ہوتی ہیں اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتیں لیکن ایک چیز ان علاقوں میں مجھے اچھی لگی کہ انہوں نے ہر جگہ چھوٹے ڈیم بنا لئے ہیں جہاں بارشوں کا پانی اکٹھا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ابھی پانچ چھ مہینے بارشوں کا سیزن ختم ہوئے ہو چکے تھے لیکن اچھی مقدار میں وہاں پانی جمع تھا۔ محنتی لوگ ہیں یہ ملک بھی امید ہے کہ ترقی کرے گا۔ انشاء اللہ۔
بورکینا فاسو میں بھی گھانا کی طرح جو بھی میری Activitiesرہیں، ان کا روزانہ نیشنل ٹیلیویژن، ریڈیو اور اخبارات میں باقاعدہ ذکر ہوتا رہا۔ بورکینا فاسو میں تین نئی مساجد کا افتتاح ہوا اور ایک سکول اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پھر جو واگاڈوگو ان کا دارالحکومت ہے وہاں احمدیہ ہسپتال کا افتتاح بھی ہوا۔ بڑی وسیع او ر خوبصورت انہوں نے ہسپتال کے لئے نئی عمارت بنائی ہے۔ پہلے وہ کرائے کی عمارت میں تھا، اب اپنی عمارت بن گئی ہے۔ نصف کے قریب عمارت ابھی پہلے فیز میں بنی ہے لیکن اس کے باوجود بڑی وسیع عمارت ہے، یہاں بھی افتتاح کی تقریب میں وہاں کے وزیر صحت آئے ہوئے تھے، انہوں نے جماعتی خدمات کو بہت سراہا۔ بورکینا فاسو کا ایک شہر بوبو جلاسو جہاں سے ایک خطبہ بھی نشر ہوا تھا یہاں ہماری جماعت کا ایک ریڈیو سٹیشن بھی ہے۔ جو تقریباً 80`70کلو میٹر کی رینج میں سنا جاتا ہے، یہاں جمعہ پر بھی کافی حاضری یعنی ۴،۵ ہزار کے قریب حاضر ی ہو گئی تھی، احبا ب و خواتین آ گئے تھے، اس جگہ کی %90آبادی مسلمانوں کی ہے۔ یہ سب ریڈیو کے پروگرام پسند کرتے ہیں، بلکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ریڈیو پر جو نظمیں نشر ہوتی ہیں، وہ بھی بہت مقبول ہیں- اور غیر احمدی بھی یہ نظم اکثر پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ ’’ میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں-‘‘
تیسرا ملک بینن تھا جہاں ہم بائی ایئر گئے تھے چیفوں کے نمائندے اور حکومت کے نمائندے وزیراور تھوڑی دیر بعد ان کے وزیر خارجہ بھی آ گئے انہوں نے کہا کہ میں میٹنگ میں کافی دور گیا ہوا تھا اور ٹریفک میں پھنس گیا (وہ ٹریفک کافی تنگ کرنے والا ہے، وزیروں کو بھی نہیں چھوڑتے) یہاں بھی ان کے کیپیٹل کوتونووو میں بڑی خوبصورت نئی مسجد بنی ہے اس کا افتتاح ہوا اور گزشتہ جمعہ یہیں پڑھا گیا اور آپ نے سنا بھی۔ کوتونووو کے قریب 35کلو میٹر کے فاصلے پرایک جگہ ہے جہاں ان کا پہلے کیپیٹل ہوا کرتا تھا اب انہوں نے ادھر شفٹ کیا ہے۔ یہاں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ہے پہلے مسجد چھوٹی سی ہے اب انشاء اللہ وسیع مسجد بنے گی۔ پاراکو یہاں کا دوسرا بڑا شہر ہے وہاں جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ الاڈا ہے وہاں کے چیف احمدی ہو چکے ہیں اور یہاں جلسہ پر آ بھی چکے ہیں (آپ ان کو پہچانتے بھی ہوں گے انہوں نے جھالروں والا تاج پہنا ہوتا تھا) انہوں نے وہاں بھی کافی لوگ اکٹھے کئے ہوئے تھے یہ لوگ عیسائی تھے، چیف بھی عیسائی تھے، چیف شروع میں بعض وجوہات کی وجہ سے احمدیت کو چھپاتے رہے لیکن اب وہ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں بلکہ وہاں مجمع میں اپنی تقریر میں بھی انہوں نے کہا کہ اگر اپنی دنیا و آخرت سنوارنی ہے اور نجات چاہتے ہو تو احمدیت کو قبول کر لو۔ یہی حقیقی اسلام ہے، عیسائی بھی اور مسلمان بھی، وہاں کافی اچھی گیدرنگ (Gatheringتھی۔ اب بھی ان کو اس علاقے میں کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدم بھی رکھے اور ہر شرسے محفوظ رکھے۔ پاراکو جب ہم پہنچے ہیں تو وہاں کے میئر اور گورنر جو دو صوبوں کے گورنرہیں دونوں مسلمان ہیں، شہر سے باہر شہر کے گیٹ پر استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ باوجود اس کے کہ انہیں بھی وہاں ملاؤں نے کہا بعض مسلمان ملکوں سے بھی کافی مدد کی جاتی ہے اور زیادہ زور یہی ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو کر سکتے ہو کرو۔ انہوں نے میئر کو بہت کہا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں، ان سے نہ ملو۔ تو میئر نے اس کو کہا پھر تو میں ضرور جاؤں گا کہ دیکھوں مجھے پتہ تو لگے کہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں- جب مجھے اس نے وہاں ایڈریس پیش کیا تو وہاں اس نے برملا یہ اظہار کیا کہ اصل مسلمانوں والے کام تو جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ پورے ملک کے ہاؤس آف میئرز کے صدر بھی ہیں- یہاں ہمارا انشاء اللہ نیا ہسپتال شروع ہونا ہے اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور بڑی اچھی جگہ پر یعنی مین روڈ کے اوپر اس شہر کے ساتھ 6ایکڑ جگہ ہے جو جماعت نے لی تھی ہسپتال کے لئے، تو میئر نے ایک اور گیدرنگ میں یہ اعلان کیا کہ یہ جگہ تھوڑی ہے، پانچ ایکڑ میں اپنی طرف سے ہسپتال کے لئے اور دیتا ہوں- یہاں ایک جگہ سے امام اور چیف تقریباً 400دوسرے افراد مرد و زن (70کے قریب عورتیں اور باقی مرد) آئے ہوئے تھے اور بڑا دور کا سفر طے کرکے آئے تھے ان علاقوں میں بعض دفعہ بسیں نہیں چلتیں، ٹرک ہائر کرکے اس پر بیٹھ کر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے بیعت کرنی ہے، عرصہ سے ہم جماعت کو دیکھ رہے ہیں اور آج کے دن کا ہمیں انتظار تھا۔ میں نے وہاں امیر صاحب اور مبلغ صاحب سے پوچھا کہ آپ کے علم میں تھا کہ انہوں نے بیعت کرنی ہے انہوں نے کہا نہیں ہمیں تو صرف یہ علم تھا کہ آپ سے صرف ملاقات کے لئے آئے ہیں یا صرف دیکھنے آئے ہیں- میں نے ان امام اور چیف کو پوچھا( وہ اچھے پڑھے لکھے لگ رہے تھے) کہ تم جلدی تو نہیں کر رہے، تمہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام دعاوی پر یقین ہے؟ امام، چیف اور دوسروں لوگوں نے کھل کے کہا کہ ہمیں پوری شرح صدر ہے۔ ہم پوری شرح صدر سے احمدیت قبول کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ ہزاروں لوگ اور ایسے ہیں جن کی معین تعداد بعد میں پتہ لگ جائے گی انشاء اللہ جلسے پہ بتاؤں گا جنہوں نے کہا تھا ہماری نمائندگی کر دینا ہم بھی احمدیت میں شامل ہونا چاہتے ہیں- پھر وہاں ا نہوں نے دستی بیعت کی تو اس لحاظ سے یہاں بھی دستی بیعت ہوئی اور ایک اچھی تعداد جماعت میں شامل ہوئی۔ پھر یہ کہ انہوں نے بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کیا اورسوائے اللہ کے اور کوئی دلوں میں پیدا نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو پیدا کرتی ہے۔ واپسی پر وہاں سے پھر ایک جگہ ہے جہاں تین چار ہزار کی گیدرنگ تھی۔ رات کو بارش ہو گئی موسم خراب ہو گیا۔ کچھ غیر احمدیوں نے مولویوں نے کافی شور مچایا اور لوگوں کو ڈرایا کہ وہاں نہیں جانا، کچھ ٹرانسپورٹرز کو کہا، ٹرانسپورٹ مہیا نہیں ہو سکی اور ان کو پیسے دئیے کہ احمدیوں کے جلسے پہ نہیں جانا۔ ہم تمہیں خرچ دیتے ہیں اس مخالفت کے باوجود تین چار ہزار کی یہاں حاضری تھی لوگ اکٹھے ہو گئے احمدی تھے۔ یہاں بھی میئر نے کھڑے ہو کر کھلے عام اعلان کیا کہ میں احمدی ہوتا ہوں اور آج بیعت میں شامل ہوتا ہوں مجھے پورا یقین ہے کہ احمدیت سچی ہے۔ اور تقریباً اس کے علاوہ ہزار کے قریب اور لوگوں نے بھی بیعت کی اور اعلان کیا کہ ہم پوری شرح صدر کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں اندازے کے مطابق ہزاروں میں دورے کے دوران لوگ احمدیت میں شامل ہوئے ہمارے ساتھ مستقل یہاں اخباری نمائندے اور ریڈیو ٹیلیویژن کے نمائندے پھرتے رہے ان میں سے بھی ایک مرد نے تو بیعت کر لی اور ایک عورت نے یہ اظہار کیا کہ میں بہت قریب ہو گئی ہوں اور عنقریب بیعت کر لوں گی کیونکہ اگر کوئی میرا مذہب ہے تو وہ احمدیت ہی ہے۔ یہاں بھی جذبات کا اظہار بہت ہے گو تھوڑی سی خاموشی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریق کار ہوتا ہے طبیعت ہوتی ہے۔ یہاں اس طرح نعرے تو نہیں لیکن بے تحاشا خاموش جذبات کا اظہار تھا۔ آتے ہوئے جس طرح چہروں پہ اداسیاں اوربعض لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے نظر آتا تھا کہ کافی جذباتی کیفیت ہے۔
نائیجیریا میں گو صرف دو دن پروگرام تھابلکہ پہلے پروگرام نہیں تھا اور آخری وقت میں یہ بنا ہے۔ میں نے بینن میں ایک اور بہت اچھی چیز دیکھی ہے۔ وہاں لجنہ نے اپنی ایک خاص ٹیم تیار کی ہے جو ہر موقعے پہ ڈیوٹیاں دیتی ہے۔ بڑی باپردہ، نقاب لے کے اور مستقل ڈیوٹیاں دیتے رہے ہیں- ایم ٹی اے پر دکھایا گیا تو دیکھ بھی لیں- نائیجیریا کا میں بتا رہا تھا کہ یہاں پروگرام پہلے نہیں تھا لیکن اتفاق سے اور مجبوری سے بن گیا۔ کیونکہ اور کوئی فلائیٹ نہیں تھی اگر تھیں تو مہنگی تھیں- وہاں جا کر یہ احساس ہوا کہ اگر یہاں نہ آتے تو غلط ہوتا۔ کیونکہ باجود اس کے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا جلسہ سالانہ ہو چکا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں شامل ہو چکے تھے۔ یہ خیال نہیں تھا کہ دور دراز سے لوگ آ سکیں گے۔ لیکن صرف دو گھنٹے اکٹھا ہونے کے لئے، مجھے ملنے کے لئے 30ہزار سے زیادہ وہاں احمدی مرد و عورتیں جمع ہو چکے تھے اور ان کے اخلاص اور وفا کے جو نظارے میں نے دیکھے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں- بہرحال جو تین دن ہم وہاں رہے، تیسرے دن رات کو واپسی ہو گئی تھی جس میں امیر صاحب نے کافی بھرپور پروگرام بنائے جتنا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اٹھایا او رمصروف رکھا۔ نائیجیریا میں بھی تین مساجد کا افتتاح کیا گیا۔ انہوں نے بڑی بڑی اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں اس کے علاوہ مختلف عمارتوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد رکھے گئے یہاں کے لوگوں کے اخلاص اور خلافت سے تعلق اور محبت ناقابل بیان ہے۔ واپسی کے وقت دعا میں بعض خواتین اور لوگ اس طرح جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ یہ محبت صرف خدا ہی پیدا کر سکتا ہے۔ اور خدا کی خاطرہی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایمان یقین میں بڑھاتا چلا جائے بلکہ تمام دنیا کے احمدیوں کو اخلاص و وفا کے اعلیٰ معیار پر قائم رہنے کی توفیق دے۔
ایم ٹی اے پر جواب تک دکھایا جا چکا ہے یہ اخلاص و وفا کے نظارے دنیا نے دیکھے ہیں اور ابھی بہت سے پروگراموں میں دیکھیں گے۔ مولوی کہتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں جماعت احمدیہ کے مشن بند کرا دیے اور فلاں میں ہمارے سے وعدے ہو چکے ہیں- اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا ہے اب ان سے کوئی پوچھے یہ اخلاص و وفا اور نور سے پُر چہرے ایم ٹی اے میں دنیا نے دیکھ لئے اور وہاں جا کر ہم خود دیکھ آئے ہیں- یہ کیا ہے سب کچھ؟ کیا یہ مشن بند کروانے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے جو بھی اپنی بڑہیں مارنی تھیں مار لیں- اور مار رہے ہیں- یہ بھی ہمارے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں- یہ تو صرف چار ملکوں کے مختصر حالات ہیں جو میں نے بیان کئے اور ایم ٹی اے پر مولویوں نے بھی دیکھے ہوں گے۔ اور شاید سن بھی رہے ہوں بعض سنتے بھی ہیں ان کو سننے کا شوق بھی ہوتا ہے۔ مولویوں یا مخالفین کو اگر ذرا بھی شرم ہو تو سوچیں کہ یہ تو صرف چار ملکوں کا قصہ ہے دنیا کے پونے دو سو سے زائد ممالک اخلاص و وفا سے پر احمدیوں سے بھرے ہوئے ہیں- اگر ان کے نظارے دیکھیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔ اس عرصے میں ان چار ملکوں میں 21نئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے اور دو تین کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کے علاوہ کافی تعداد میں سکول، ہسپتال اور دوسری عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھا یا افتتاح ہوا۔
ایک اور اللہ تعالیٰ کا فضل جو ہے اس کو بھی میں بیان کر دوں کہ یہ بھی اللہ کے خاص فضلوں میں سے ایک خاص فضل ہے، ایم ٹی اے، اس کے ذریعہ سے ہم تمام دنیا کے احمدی ایک پاکیزہ ماحول میں اپنے پروگرام دیکھ اور سن سکتے ہیں- ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۴ء سے جمعرات سے انشاء اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے انٹرنیشنل ایک جزوقتی، کچھ وقت کے لئے ایک اور چینل شروع کر رہا ہے پھر بیک وقت دو چینل چلیں گے۔ اور یہ ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کیونکہ 24گھنٹے کے دوران اب ایسے اوقات بھی ہیں جو یورپ اور ایشیا کے لئے یکسـاں اہمیت رکھتے ہیں اور ان کے دوران مختلف زبانوں میں پروگرام نشر ہوتے ہیں جو ایشیا اور یورپ کے بعض حصوں میں سمجھے نہیں جا سکتے۔ ان اوقات میں بہت سے ناظرین ایم ٹی اے کا استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں- اب نئے انتظام کے تحت انشاء اللہ GMT کے مطابق شام ۴بجے سے لیکررات سات بجے تک یو کے اور ایشیا (یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) اور جنوبی اور شمالی امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں اردو اور انگریزی کے پروگرام چلا کریں گے۔ جبکہ اسی دوران میں نئی چینل ایم ٹی اے 2پر باقی یورپ، مڈل ایسٹ، افریقہ، ماریشس وغیرہ پر فرنچ، جرمن اور عربی زبانوں کے پروگرام چلا کریں گے انشاء اللہ۔ اور باقی عرصے میں دونوں چینل بیک وقت چلیں گے۔ اور اس دوران میں اگر کوئی Liveپروگرام آنا ہو تو وہ بہرحال پھر ایک ہی ہو جائے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے، اور اپنے بے بنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے۔ یا دنیا کو دھوکہ دے کر اس کام کو معرض التواء میں ڈال دیں گے۔ اس کا خدا نے آسمان پر ارادہ کیا ہے اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو ان طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اس کے ارادہ کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا وہ ہمیشہ ذلت اور شکست اٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لئے بھی ایک دن ناکامی اور نامرادی اور رسوائی درپیش ہے، خدا کافرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا۔ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِییعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنے قانون اوراپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ میں اس کا رسول اور فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت، نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریمؐ، خاتم الانبیاء کے نام پا کر اور اسی میں ہو کر اوراس کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا چلا آیا ہے۔ ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانے میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بدزبانی کے حملے شروع کئے تھے اس زمانے میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا گو چنددوست جو انگلیوں پرشمار ہو سکتے ہیں میرے ساتھ تھے اور اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے 70ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے۔ (جب حضور نے یہ لکھا اور اب ایک ایک دن میں کئی کئی ہزار بیعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہیں )جو نہ میری کوشش ہے بلکہ اس ہوا کی تحریک سے ہوا جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں اب لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جان کا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں- خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا اور ہزار ہا اشتہار اور رسائل لکھے کفر کے فتوے میری نسبت دئیے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرو ر ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں- اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرندے اس پر آرام کر رہے ہیں- اور اب تو کروڑہا پرندے اس مسیح محمدیؐ کے درخت پہ بیٹھے ہوئے ہیں- پھر آپ فرماتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں پیشگوئی ہے

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِؤا نُورَاللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْن۔

یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں- یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جب کہ کوئی مخالف نہ تھا۔ بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا پھر بعد اس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کرکے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے۔ اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا قتل کے فتوے دئیے گئے حکام کو اکسایا گیا، عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بے زار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرف سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی مگر خداتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے، افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانے کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئی ہیں کیا بجز خداتعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے، اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو، نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے۔ کس نے ان کو نامراد رکھا، اسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔(حقیقۃالوحی صفحہ ۲۴۱،۲۴۲۔روحانی خزائن جلد ۲۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں