خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 23؍اپریل2004ء

حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے
ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دے
دنیا میں ہر جگہ جماعتی عمارات صفائی و سرسبزی کے لحاظ سے منفرد نظر آئیں
مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں اور کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھیں
(طہارت و صفائی کے متعلق اسلامی تعلیمات کا پُر اثر بیان)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
23؍اپریل2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اسلام ایک ایسا کامل اور مکمل مذہب ہے جس میں بظاہر چھوٹی نظر آنے والی بات کے متعلق بھی احکامات موجودہیں- یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کی شخصیت کو بنانے اور کردار کو سنوارنے کا باعث بنتی ہیں- ان سے ظاہری طور پر بھی انسان کے مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ اور اگر مومن ہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے، انہیں باتوں میں سے ایک پاکیزگی یا طہارت یا نظافت ہے اور ایک مومن میں اس کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اور صفائی پسند ہے اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (سورۃ البقرہ آیت 223:) لیکن یہ بات واضح ہونی چاہئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب توبہ و استغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے۔ ہم میں سے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں تاکہ ہماری روح و جسم ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والے ہوں-
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔ اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔
(الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ء جلد نمبر ۸ نمبر ۳۱ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اوّل صفحہ ۷۰۵)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں ان کو دوست رکھتا ہوں، ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے۔ اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر پھر طہارت نہ کرے تو اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے۔ پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔ اسی لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو غسل کرو، ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگا لو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے،اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے (بدبو کا اندیشہ ہوتا ہے)۔ پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیّت اور عفونت سے روک ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اوّل صفحہ ۷۰۴،۷۰۵)
صفائی کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’ اَلطَّہُوْرُشَطْرُالْاِیْمَانِ

یعنی طہارت پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا ایمان کا ایک حصہ ہے‘‘۔ (مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء )
ابو مالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ پاکیزگی اختیار کرنا نصف ایمان ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر جلد ۳ صفحہ ۲۸۴)
اب دیکھیں مومن کے لئے صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے، اور یہ احادیث اکثر مسلمانوں کو یاد ہیں، کبھی ذکر ہوتو آپ کو فوراً حوالہ بھی دے دیں گے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس پر عمل کس حد تک ہے؟ یہ دیکھنے والی چیز ہے، اگر ایک جگہ صفائی کرتے ہیں تو دوسری جگہ گند ڈال دیتے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمانوں میں جس شدت سے صفائی کا احساس ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اور اسی طرح اپنے اپنے ماحول میں احمدیوں میں بھی جو صفائی کے اعلیٰ معیار ہونے چاہئیں وہ مجموعی طور پر نہیں ہیں- بجائے ماحول پر اپنا اثر ڈالنے کے ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں- پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر جہاں گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے، گھر سے باہر گند پھینک دیتے ہیں حالانکہ ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا۔ ورنہ تو پھر اس گند کو باہر پھینک کر ماحول کوگندا کر رہے ہوں گے اور ماحول میں بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں گے۔ اس لئے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ کوئی ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ گھروں کے باہر گند نظر نہ آئے۔ ربوہ میں، جہاں تقریباً ۹۸ فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہئے۔ اب ماشاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے۔ ربوہ کوسرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں- کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں- اکثر آنے والے ذکر کرتے ہیں- اور کافی تعریف کرتے ہیں- کافی سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے۔ لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھناہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آ رہا ہو گا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو کے بھبھاکے اٹھ رہے ہوں گے۔ اس لئے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑ اکرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں- تاکہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لئے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پررومال ہو کہ بو آ رہی ہے۔اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجاکے رکھو۔ یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہئے۔ مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا۔ تزئین ربوہ والوں نے اس کی تصویریں بھیجی ہیں، بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہئے تاکہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہئے۔ اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کر سکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہو گی۔
اسی طرح قادیان میں بھی احمدی گھروں کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھیں- ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے۔ گزرنے والے کو پتہ چلے کہ اب وہ احمدی محلے یا احمدی گھر کے سامنے سے گزر رہا ہے۔اس وقت تو مجھے پتہ نہیں کہ کیا معیار ہے، 91ء میں جب میں گیا ہوں تو اس وقت شاید اس لئے کہ لوگوں کا رش زیادہ تھا، کافی مہمان بھی آئے ہوئے تھے لگتا تھا کہ ضرورت ہے اس طرف توجہ دی جائے اور میرے خیال میں اب بھی ضرورت ہو گی۔ اس طرف خاص توجہ دیں اور صفائی کا خیال رکھیں اور جہاں بھی نئی عمارات بن رہی ہیں اور تنگ محلوں سے نکل کر جہاں بھی احمدی کھلی جگہوں پر اپنے گھر بنا رہے ہیں وہاں صاف ستھرا بھی رکھیں اور سبزے بھی لگائیں، درخت پودے گھاس وغیرہ لگنا چاہئے اور یہ صرف قادیان ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اور جماعتی عمارات ہیں ان میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ وہ وقار عمل کرکے ان جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور وہاں پھول پودے لگانے کا بھی انتظام کریں اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعتی عمارات ہیں ان کے اردگرد خاص طورپر صفائی اور سبزہ اس طرح نظر آئے کہ ان کی اپنی ایک انفرادیت نظر آتی ہو۔ پہلے میں تیسری دنیا کی مثالیں دے چکا ہوں صرف یہ حال وہاں کا نہیں بلکہ یہاں یورپ میں بھی میں نے دیکھا ہے، جن گھروں میں بھی گیا ہوں پہلے کبھی یا اب، کہ جو بھی چھوٹے چھوٹے آگے پیچھے صحن ہوتے ہیں ان کی کیاریوں میں یا گھاس ہوتا ہے یا گند پڑا ہوتا ہے۔ کوئی توجہ یہاں بھی اکثر گھروں میں نہیں ہو رہی، چھوٹے چھوٹے صحن ہیں کیاریاں ہیں، چھوٹے سے گھاس کے لان ہیں اگر ذرا سی محنت کریں اور ہفتے میں ایک دن بھی دیں تو اپنے گھروں کے ماحول کو خوبصورت کر سکتے ہیں- جس سے ہمسایوں کے ماحول پہ بھی خوشگوار اثر ہو گا اور آپ کے ماحول میں بھی خوشگوار اثر ہو گا۔ اور پھر آپ کو لوگ کہیں گے کہ ہاں یہ لوگ ذرا منفرد طبیعت کے لوگ ہیں، عام جوا یشینز (Asians)کے خلاف ایک خیال اور تصور گندگی کا پایا جاتا ہے وہ دُور ہو گا۔ مقامی لوگوں میں کچھ نہ کچھ پھر بھی شوق ہے وہ اپنے پودوں کی طرف توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے گھر کا ماحول ان لوگوں سے زیادہ صاف ستھرا اور خوشگوار نظر آنا چاہئے اور یہاں تو موسم بھی ایسا ہے کہ ذرا سی محنت سے کافی خوبصورتی پیدا کی جا سکتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر سڑکوں کی صفائی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر اورکوئی گندی چیز ہو بلکہ آپ کا عمل یہ تھا کہ اگر کوئی گندی چیز ہوتی تو آپؐ اسے خود اٹھا کر ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جوشخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے خدا اس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا کرتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب البر و الصلۃ)
اور یہاں تو گھر بھی اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ سڑکوں پر آئے ہوتے ہیں اس لئے جتنا آپ اپنے چھوٹے سے صحن کو صاف رکھیں گے، سڑک کی صفائی بھی اس میں نظر آئے گی۔ اسی طرح آپؐ فرماتے تھے کہ رستے کو روکنا نہیں چاہئے، رستوں پر بیٹھنایا اس میں ایسی چیز ڈال دینا کہ مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خداتعالیٰ کو ناپسند ہے۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الطہارۃ)
اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ سڑک یا فٹ پاتھ پر تھوک دیتے ہیں جو بڑا کراہت والا منظر ہوتا ہے تو اگر ایسی کوئی ضرورت ہو بھی تو ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ایک طرف ہو کر کنارے پر ایسی جگہ تھوکیں جہاں کسی کی کبھی نظر نہ پڑے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۵۔۶)اپنے کپڑے صاف رکھو، بدن کو، اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ صفحہ ۲۳ بحوالہ تفسیر جلد نمبر ۴ صفحہ ۴۹۶)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بدن کو بھی صاف رکھو، کپڑوں کو بھی صاف رکھو، اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جتناحلیہ خراب ہو اتنی بزرگی زیادہ ہوتی ہے حالانکہ اسلامی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر انعام کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اثر اس بندے پر دیکھے ‘‘۔(مسند احمدبن حنبل)
پھر ایک روایت ہے، جو ابو الاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے کہا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میرے جسم کے کپڑے معمولی اور گھٹیا تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: ہاں- آپؐ نے پوچھا کس طرح کا مال ہے۔ میں نے کہا ہر طرح کا مال اللہ تعالیٰ نے مجھے دے رکھا ہے۔ اونٹ بھی ہیں، گائے بھی ہیں- بکریاں بھی ہیں گھوڑے بھی ہیں اور غلام بھی ہیں- تو آپؐ نے فرمایا’’جب اللہ نے مال دے رکھا ہے تو اس کے فضل اور احسان کا اثر و نشان تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہئے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح )
بعض لوگ تو طبعاً ایسے ہوتے ہیں کہ توجہ نہیں دیتے کہ صحیح طرح کپڑے پہن سکیں اور بعض کنجوسی میں اپنا حلیہ بگاڑ کر رکھتے ہیں- تو بہرحال جو بھی صورت ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تم پر فضل اور احسان کیا ہے اس کا اظہار تمہارے حلیے سے بھی ہونا چاہئے، تمہار ے کپڑوں سے، تمہارے لباس سے تمہارے گھروں سے، اس لئے اپنا حلیہ درست رکھو اور اچھے کپڑے پہنا کرو۔ یہ نصیحت ان کو کی۔
ایک روایت میں ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھا یعنی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور فرمایا کہ’’ کیا اس کے پاس بال بنانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے۔ اور ایک گندے کپڑے والے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اسے کپڑے دھونے کے لئے پانی میسر نہیں ‘‘۔ (سنن ابو داؤد۔ کتاب اللباس۔ باب فی غسل الثوب)
مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اس حالت میں کیوں ہے۔ اب بعض لوگ ہمارے ملکوں میں پاکستان وغیرہ میں گندے کپڑوں والے اور لمبے چوغے پہنے ہوتے ہیں- گھنگھرو اور کڑے پہنے ہوئے ایسے لوگوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ملنگ ہے، بڑا پہنچا ہوا بزرگ ہے حالانکہ یہ سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت ایسے لوگوں سے پاک ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عطاء ابن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری ڈاڑھی والا آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر اور داڑھی کے بال درست کرو۔ جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کرکے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل (یعنی یہ خوبصورت شکل ) بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ وہ شیطان اور بھوت لگے۔ (موطأ امام مالک۔ باب ما جاء فی الطعام و الشراب و اصلاح الشعر)
توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غلیظ حلیے والے لوگوں کو شیطان سے تشبیہ دی ہے۔ اور پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں ایسے حلیے کے لوگوں کو دیکھ کے ملنگ اور اللہ والے کہا جاتا ہے۔ تو یہ تضا ددیکھ لیں اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے اس زمانے کے امام کو نہیں مانا اور پہچانا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ایسا شخص جس کے دل میں ذرا سا بھی تکبر ہو گا۔وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کی کہ ہرشخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے خوبصورت ہوں- اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (مسلم۔ کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہٗ)
اب اس حدیث سے یہ واضح ہونا چاہئے کہ صاف ستھرا رہنے یا اچھے کپڑے پہننے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے اور یہ خیال دل میں نہیں آنا چاہئے کہ اپنے سے مالی لحاظ سے کم تر کسی شخص کے ساتھ نہ بیٹھوں- اگر یہ صورت ہو گی تو پھر تکبر ہے۔ ورنہ اچھے کپڑے پہننا اور صاف ستھرا رہنا، اچھے جوتے پہننا یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار ہے۔ اور اگر تکبر ہو گا تو تب فرمایا کہ ایسے شخص کے لئے پھرجنت کے دروازے بند ہیں-اس لئے مومن اور دنیا دار میں یہی فرق ہے کہ وہ صاف ستھرا رہتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے اچھے جوتے پہنتا ہے اپنے گھر کو سجا کر رکھتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو خوبصورتی پسند ہے یعنی اس کا یہ ظاہری خوبصورتی کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے اور کیونکہ مومن کا یہ اظہار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اس لئے غریب آدمی کے ساتھ مالی لحاظ سے اپنے سے کم بھائی کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا اس کا پاس لحاظ رکھنا یہ بھی اس کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کسی مالدار شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کا پاس لحاظ کرنا ہے۔
یہ ہے اسلامی تعلیم کہ تم خداتعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ سے اظہار بھی کرو لیکن اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ان غریبوں کا بھی خیال رکھو تاکہ ان کا ایک بھائی کی حیثیت سے حق پورا ادا ہو۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے جب آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا تو سول سروس میں گئے کیونکہ برصغیر میں عموماً افسر اپنے آپ کو عام آدمی سے بالا سمجھتے تھے اور اب بھی اکثر پاکستان وغیرہ میں جو بیورو کریٹ ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی شخصیت ہیں جو دوسروں سے بالا ہیں اور غریب آدمی کے وقت اور عزت کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ حضرت میاں صاحب جب اپنے علاقے میں افسر بن کر گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور نصائح کے علاوہ ان کو ایک یہ بھی نصیحت کی تھی کہ تمہارے گھر کا کوئی قالین کا ٹکڑا یا ڈرائینگ روم کا صوفہ کسی غریب کو تمہارے گھر میں قدم رکھنے یا بیٹھنے سے نہ روکے یا روک نہ بنے۔ بڑی پر حکمت نصیحت ہے۔ ایک تو یہ کہ غریب بھی تمہارے گھر میں بے جھجک آ سکے، کوئی روک نہ ہو۔ دوسرے اس کو بھی وہی عزت دو جو کسی امیر کو دو۔ تو حضرت میاں صاحب نے ہمیشہ غریبوں کا بہت خیال رکھا اور اس نصیحت پر عمل کیا۔ ہمارے آج کل کے افسروں کو بھی اس نصیحت کو پلے باندھنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ سفر کی وجہ سے کسی غریب کے کپڑے میلے ہیں تو اس کے صوفے پہ بیٹھنے سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہو۔ پھر صفائی کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کو بھی بہت پسند فرمایا ہے اور اس تحفے کو بھی بڑا پسند کیا کرتے تھے۔
ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبو دے تو اسے قبول کرو اور اسے استعمال کرو۔(مسند الامام اعظم۔ کتاب الارب صفحہ ۲۱۱)
روایت آتی ہے کہ آپؐ کے جسم میں سے تو ہر وقت خوشبو آتی رہتی تھی۔ جیسے حضرت جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک دفعہ میرے گال پر ہاتھ پھیرا توآپؐ کے ہاتھ سے میں نے ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو محسوس کی جیسے وہ ابھی عطّار کی صندوقچی سے باہر نکلا ہو۔(مسلم۔ کتاب الفضائل باب طیب رائحۃ النبی ﷺ۔)۔ یعنی جو شخص عطر بناتا ہے اس کا جوڈبہ جس میں عطر پڑے ہوتے ہیں جس طرح اس میں سے ہاتھ نکالا ہو۔
حضرت جابرؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس راستے سے گزرتے، اس پر اگر کوئی آپؐ کے پیچھے جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص خوشبو کی وجہ سے اسے پتہ چل جاتا تھا کہ حضورؐ ابھی یہاں سے گزر کر گئے ہیں- ( تاریخ الکبیر للبخاری نمبر۴۲۹۷)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی جمعے کے دن غسل کرے اور جہاں تک صفائی کر سکتا ہے صفائی کرے اور تیل لگائے اور اپنے گھر میں موجود خوشبو میں سے کچھ لگائے، پھر نماز کے لئے نکلے تو اس جمعے سے لے کر اگلے جمعے تک اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ باب الدھن للجمعۃ)
تو یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خوشبو لگا کر مسجد میں جاؤ تاکہ اس کے بندوں کو، ساتھ بیٹھے ہووں کو تکلیف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کو بھی خوشبو اور صفائی پسند ہے۔ یہ نہیں کہ اس حکم کے مطابق تیارہو کر جمعہ پڑھ لیا اور سارا ہفتہ اس کے بندوں کو تکلیف دیتے رہے تو گناہ بخشے گئے۔ عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس حدیث کو بھی سامنے رکھنا ہو گا نیت نیک ہو تب ثو اب بھی ملتا ہے۔
دانتوں کی صفائی کے بارے میں روایت ہے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسواک کرنے سے منہ کی صفائی ہوتی ہے۔ خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آنکھ کی روشنی بڑھتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصوم باب سواک الرطب و الیابس للصائم)
پھر اسی بارے میں دوسری روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت کی یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو یہ حکم دیتا کہ ہر نماز پر مسواک کیا کریں- (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ بالسواک یوم الجمعۃ)
اب بعض لوگوں کے منہ سے بو آتی ہے۔ ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے، لوگوں کی تکلیف کا احساس ہونا چاہئے۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو بیدار ہوتے تھے تو مسواک سے اپنا منہ صاف کیا کرتے تھے۔ آج کل ڈاکٹر اپنی تحقیق کے مطابق یہ کہتے ہیں کہ صبح شام ضرور برش کرنا چاہئے۔ رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھ کر۔ ورنہ بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بلکہ ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ آدمی جب صبح اٹھتا ہے تو اس کے دانتوں پر چھ سو مختلف سپیشیز(species ) کے لاتعداد بیکٹیریا ہوتے ہیں- سپیشیز (species )ہی چھ سو ہوتی ہیں جو دانتوں پہ لگی ہوتی ہیں اور تعداد کتنی ہے، یہ پتہ نہیں- لیکن دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے ہمیں بتا دیا کہ سو کر اٹھو تو پہلے دانت صاف کرو۔ اب ان باتوں کو دیکھ کر آج کل کے ڈاکٹر اور سائنسدان کو خدا اور اسلام کی سچائی پر یقین ہونا چاہئے کہ جو باتیں اس زمانے کی تحقیق سے ثابت ہو رہی ہیں ا ور اب پتہ لگ رہی ہیں وہ باتیں آج سے پندرہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں-
کھانا کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھونے کا حکم آتا ہے۔ آپؐ کھاناکھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے اور کلّی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلّی کرتے اور آپؐ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کلی کئے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔(بخاری کتاب الاطعمہ)
کھانا کھا کر کلّی بھی کرنی چاہئے اور ہاتھ بھی دھونے چاہئیں- اور اس سے پہلے بھی تاکہ ہاتھ صاف ہو جائیں- اور بعد میں اس لئے کہ سالن کی بُو منہ اور ہاتھوں سے نکل جائے۔ آج کل تو مسالے بھی ایسے ڈالے جاتے ہیں کہ کھاتے ہوئے شاید اچھے لگتے ہوں لیکن اگراچھی طرح ہاتھ منہ نہ دھویا ہو تو بعد میں دوسروں کے لئے کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں- پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ہاتھ دھو کر دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا چاہئے۔(بخاری۔ کتاب الاطعمہ باب التسمیۃ علی الطعام و الاکل بالیمین۔ )
دوسری جگہ فرمایا گند وغیرہ کی صفائی کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرو۔ لیکن آج کل یہاں یورپ میں کیونکہ لوگوں کو احساس نہیں ہے دائیں اور بائیں کا، اکثر دیکھا ہے گورے انگریز، عیسائی بائیں ہاتھ سے ہی کھا رہے ہوتے ہیں- کبھی سڑک پہ جاتے ہوئے نظر پڑ جائے تو ہاتھ میں برگر ہوتا ہے ہمیشہ دیکھیں گے بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہوں گے۔ چپس کا لفافہ دائیں ہاتھ میں ہو گا اور بایاں ہاتھ استعمال ہو رہا ہو گا۔ بعض لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں، اس سے بچنا چاہئے۔ کھانا بہرحال دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے۔
پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں- مونچھیں تراشنا، ڈاڑھی رکھنا (خاص مردوں کے لئے ہے)، مسواک کرنا پانی سے ناک صاف کرنا، ناخن کٹوانا، انگلیوں کے پورے صاف رکھنا بغلوں کے بال لینا، زیر ناف بال لینا، استنجا ء کرنا، طہارت کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں شاید وہ کھانے کے بعد کلی کرنا ہے۔(مسلم۔کتاب الطہارۃباب خصال الفطرۃ)
یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو صفائی کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے لئے بھی ضروری ہیں- اب پانی سے ناک صاف کرنے کاجو حکم ہے یہ وضو کرتے وقت دن میں پانچ دفعہ ہے اور اگر ناک میں پانی چڑھا کر صاف کیا جائے تو کافی حد تک نزلے وغیرہ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ جرمنی میں کسی کو نزلہ ہو گیا اور ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ تم لوگ جومسلمان ہو، پانچ وقت وضو کرتے ہو تو ناک میں پانی چڑھاتے ہو، تم اگر اس طرح کرو تو کافی حد تک نزلے سے بچ سکتے ہو۔ یہ اس ڈاکٹر کی اپنی سوچ یا تحقیق تھی یا اس پر کوئی اور تحقیق ہو رہی ہے یاہوئی ہے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بہرحال اس میں حقیقت ہے۔ اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے ناک میں پانی چڑھانا مشکل ہو گا کیونکہ ناک میں زور سے پانی چڑھانا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ذرا سی تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن میں نے تجربہ کرکے دیکھا ہے کہ اگر ناک میں پانی ٹھیک طرح چڑھایا جائے اور صاف کیا جائے تو نزلے میں کافی فرق پڑتا ہے۔ پھر ناخن کٹوانا ہے، اس میں ہزار قسم کے گند پھنس جاتے ہیں لیکن آج کل بعض مردوں میں لیکن عورتوں میں تو اکثریت میں یہ فیشن ہو گیا ہے کہ لمبے لمبے ناخن رکھو اور ان کو کوئی گندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ ناخن کٹوانے کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور لمبے ناخن رکھنے کا نقصان ہی ہے فائدہ کوئی نہیں-
صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا۔ اس کا پہلے میں ذکر کر چکا ہوں- اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ اور خدام الاحمدیہ کو وقار عمل بھی کرنا چاہئے۔ اور اگر عمارت کے اندر کا حصہ ہے تو لجنہ کو بھی اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اور اس میں سب سے اہم عمارات مساجد ہیں مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہئے، خوبصورت بنانا چاہئے۔ اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ چند سال پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی خطبہ اس ضمن میں دیا تھا اور توجہ دلائی تھی۔ کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر توجہ کم ہو گئی۔ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں مسجد کے اندر ہال کی صفائی کا بھی باقاعدہ انتظام ہو۔ تنکوں کی وہاں صفیں بچھی ہوتی ہیں- صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے، وہاں دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے۔ پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں- غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے۔ اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔ لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے، مٹی چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر جمعے کے دن تو بہرحال صفائی ہونی چاہئے۔ اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کوبھی صاف رکھنا چاہئے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ لیکن مسجد میں خوشبو کے لئے بعض لوگ اگر بتیاں جلا لیتے ہیں- بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک مسجد میں اگر بتی کسی نے لگا دی اور آہستہ آہستہ الماری کو آگ لگ گئی نقصان بھی ہوا۔ ایک تو یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ جب موجود ہوں تب ہی لگے۔ دوسرے بعض اگر بتیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں اتنی تیز خوشبوہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے بجائے آرام کے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں- اس سے اکثر کوسردرد شروع ہو جاتی ہے۔ تو ایسی چیز لگانی چاہئے یا دھونی دینی چاہئے جو ذرا ہلکی ہو۔
ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خا ص طور پر اجتماعات کے دنوں میں جب لوگ اکٹھے ہو رہے ہوں مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تاکہ ہوا صاف ہو جائے۔(مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ)
ایک اور روایت ہے۔ آپؐ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بدبو دار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں- جب نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں تو پیاز اور لہسن وغیرہ چیزیں کھا کر نہ آئیں- (بخاری۔ کتاب الاطعمہ)
اور اس کے ساتھ ہی بعض دفعہ جرابیں بھی کئی دنوں کی گندی ہوتی ہیں ان سے بھی بو آتی ہے وہ بھی پہن کے نہیں آنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ یعنی ہر ایک پلیدی سے جدا رہ۔ یہ احکام اسی لئے ہیں تاکہ انسان حفظان صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے (یعنی اپنے آپ کو جسمانی بلاؤں سے بچائے) عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جوہمیں سمجھ نہیں آتے۔ کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کرکے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو اور خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دور رہو اور مرد ار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ اس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ وہ لوگ نہ صرف روحانی پہلو کی رو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی ان کی صحت خطرے میں تھی۔ (جسمانی پاکیزگی تو یہاں یورپ میں لوگوں میں کم ہی ہے۔ ) سو یہ خداتعالیٰ کا ان پر اور تمام دنیاپر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیاکہ

کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

یعنی بے شک کھاؤ پیو، مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر زیادتی کیفیت یاکمیت کی مت کرو۔ (یعنی مقدار میں اس کی حالت کو دیکھ کے کھاؤ اور زیادتی نہ کرو) افسوس پادری اس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر روحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے۔ مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنیٰ صفائی کے درجے پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے، ان میں سے مردار کی بو آئے گی۔ آخر دانت خراب ہو جائیں گے۔ اور ان کا زہریلا اثر معدے پر گر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا۔ خود غور کرکے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر کسی بوٹی کا رگ و ریشہ یا کوئی جز پھنسا رہ جاتا ہے اور اسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بدبو اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ایسی بدبو آتی ہے جیسے چوہا مرا ہوتا ہے۔ پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیاجائے اور یہ تعلیم دی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو،نہ خلال کرو، نہ کبھی غسل کرکے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لئے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے۔ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں جسمانی صحت کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اس کے بد نتائج یعنی خطرناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تواس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکمے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے اور چند روز دکھ اٹھا کر اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں ( یعنی وفات ہو جاتی ہے) بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترک قواعد حفظان صحت سے (حفظان صحت کے قواعد چھوڑنے سے)اوروں کے لئے وبال جان ہو جاتے ہیں- اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھوں سے اکٹھاکرتے ہیں وبائی صورت میں مشتمل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے۔ اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے۔ پس دیکھو کہ قرآنی اصول کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کرکے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں- اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پرہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور مونہوں سے دور نہیں کرتے ان کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوع انسان کے لئے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں اور کیسی
یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتی ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام جائیداد سے جو جانکا ہی سے اکٹھی کی تھیں دستبردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں- کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے۔ ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لاپرواہی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لئے عین موزوں اور موید ہے یا نہیں پس قرآن نے کیا برا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیامیں یک دفعہ فالج کی طرح گرتا اور عدم تک پہنچاتا ہے‘‘۔ (ایام الصلح صفحہ ۹۵،۹۶۔بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد چہارم صفحہ ۴۹۶،۴۹۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں ظاہری اور باطنی صفائی کی طرف توجہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں