خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍جون 2008ء

جماعت احمدیہ کا مزاج دنیا کے ہر خطّے اور ہر قوم میں آپ کو ایک جیسا نظر آئے گا اور وہ ہے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش۔
ایم ٹی اے نے ہر احمدی کو جو ایم ٹی اے دیکھتاہے دنیا میں منعقد ہونے والے جلسوں کے نظار ے دکھا کر ایک ایسی وحدت میں پرو دیا ہے جس نے مختلف قوموں کے احمدیوں کے مزاج اور روایات بھی ایک کردئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شاملین جلسہ کے لئے کی گئی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے ان سجدوں اور ان عبادتوں کی تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں۔
خلافت کی برکا ت کا فیض انہی کوپہنچے گا جو خود بھی عبادت گزار ہوں گے اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکیں گے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 27؍جون 2008ء بمطابق27؍احسان 1387 ہجری شمسی بمقام انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر۔ مسی ساگا۔ انٹاریو (کینیڈا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج میرے اس خطبے کے ساتھ جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ایک لمبے عرصے سے جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے جو دنیا کے ہر اس ملک میں ہوتے ہیں جہاں جماعت قائم ہے ان جلسوں کے مقصد اور روایات سے اچھی طرح واقف ہو گئی ہے۔ بلکہ ایم ٹی اے نے تو ہر احمدی کو جو ایم ٹی اے دیکھتا ہے دنیا میں منعقد ہونے والے جلسوں کے نظارے دکھا کر ایک ایسی وحدت میں پرو دیا ہے جس نے مختلف قوموں کے احمدیوں کے مزاج اور روایات بھی ایک کر دئیے ہیں۔ ایک نیکی اور پاکیزگی کے اثرات ان کے چہروں پر عیاں ہوتے ہیں اور یہ بات ہم دنیا کو چیلنج کرکے بتاتے ہیں کہ یہ ایک مزاج ہے جو جماعت کا ہے۔
پرسوں یہاں خلافت جوبلی کے حوالے سے جو ریسیپشن (Reception) ہوئی، جو بینکوئٹ (Banquet) ہوا تھا وہاں اونٹاریو کے پریمئر(Premier) بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے باتیں کرتے ہوئے میں نے انہیں یہی بتایا کہ جماعت احمدیہ کا مزاج دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم میں آپ کو ایک جیسا نظر آئے گا اور وہ ہے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش۔ اور جب تک کسی بھی احمدی میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشش جاری رہے گی وہ جماعت کا ایک فعال رکن بنا رہے گا اور اس نعمت سے فائدہ اٹھائے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اس کے چہرے پر وہ آثار نظر آئیں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے والے لوگوں میں نظر آتے ہیں اور نظر آنے چاہئیں۔ یہ عبادت گزار لوگ ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں احمدیت کی خاطر بڑھ کر قربانی کرنے والے ہیں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ

تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا۔ سِیْمَا ھُم ْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح:30)

تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں۔ سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کی نشانی ہے۔ پس یہ ان مومنین کی نشانی ہے جو آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے اور جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعلان فرمایا۔ اور اس زمانے میں اس قسم کے عبادالرحمن بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صاد ق کو مبعوث فرمایا جنہوں نے وہ پاک جماعت پیدا فرمائی جس نے وہ عباد الرحمن پیدا کئے جنہوں نے اولین سے ملنے کے نمونے قائم کئے۔ آپ علیہ السلام نے مسلسل نصیحت اور تعلیم کے ذریعے جماعت میں ایسے پاک وجود پیدا کرتے چلے جانے کی طرف توجہ دلائی جن کا مقصد حیات اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے آگے جھکنا تھا اور جھکنا ہے۔ آپ نے اپنی جماعت کو ایسے مومن بننے کی طرف توجہ دلائی جوخدا کی نگاہ میں حقیقی مومن ہیں۔ جن کی غرض عبادتوں کے اعلیٰ معیار پیدا کرنا ہے۔
آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ہی

سِیْمَاھُم ْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُوْد (الفتح :30)

ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تخلّف نہیں ‘‘۔
(آسمانی فیصلہ۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 322-321 مطبوعہ لندن)
پس اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم زمانے کے امام پر ایمان لائے تو ہمارے سجدے اور ہماری عبادتیں اس ایمان کی گواہ ہونی چاہئیں، ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار مختلف موقعوں پر اور مختلف طریق سے ہمیں وہ معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کے حقیقی عبادت گزاروں میں ہمیں شامل کر دے۔ ہماری عبادتیں صرف کھوکھلی عبادتیں نہ رہیں اور ہمارے ایمان صرف ظاہری ایمان نہ ہوں بلکہ ان حدود کو چھونے والے ہوں، جہاں خداتعالیٰ اپنے بندے کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ مختلف امور سرانجام دیتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہے، جس سے وہ چلتا ہے، نیکیوں کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ ہر مشکل موقع پر خداتعالیٰ اپنے بندے کے کام آتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تحریر و تقریر کے ذریعہ نصیحت فرمائی اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے جلسوں کا اہتمام فرمایا۔
ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘’تمام مخلصین داخلین سلسلۂ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ (آسمانی فیصلہ۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ351مطبوعہ لندن)
اللہ تعالیٰ کی محبت دل پر کس طرح غالب کی جانی چاہئے، یا کس طرح غالب آئے گی۔ عبادت کس قسم کی ہو؟اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے، صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع ٔ خام ہے۔ جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو۔ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو۔ اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے۔ اورسجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔
پھر فرماتے ہیں :’’دعا یہی ہے کہ خداتعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ فرماتے ہیں ’’اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا‘‘۔ (شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6۔ صفحہ 398)
پس ہمیں ان دنوں میں ان سجدوں کی تلاش کرنی چاہئے جو فروتنی کے سجدے ہوں اور جب ہم اس جلسے کے ماحول کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے فیضیاب ہوتے ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شاملین جلسہ کے لئے کی گئی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے ان سجدوں اور ان عبادتوں کی تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں تو پھر اس پر قائم رہنے کے لئے مزید دعاؤں کی ضرورت ہو گی۔ تاکہ اللہ تعالی کے فضلوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، ہماری عبادتوں کے معیار ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کے حق میں قبول فرمائے۔ ہمارے دلوں کو پاک فرمائے۔ ہمارے دلوں پر صرف اور صرف خداتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت ہو۔ ان عبادتوں کے لذیذ پھل ہم خود بھی کھانے والے ہوں اور اپنے ماحول کو بھی کھلانے والے ہوں، اپنی نسلوں کو بھی دینے والے ہوں۔ ہمارے دل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پاتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوشاں رہیں۔ جس درد کا اپنی جماعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اظہار فرمایا ہے اس کو سمجھتے ہوئے ہم خداتعالیٰ کے عبادت گزار بندے بننے والے ہوں اور آپ کی دعاؤں سے ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی حصہ پاتی چلی جائیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کیا حکم فرماتا ہے۔ اس کا مختلف جگہوں پر مختلف حوالوں سے ذکر ہے۔ سب سے اہم بات تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ واضح فرما دی کہ ایک انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے وہ دماغ دیا ہے جو دوسری کسی مخلوق کو نہیں دیا۔ اسے اپنے قویٰ کو استعمال میں لانے کے لئے وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ اسے مرنے کے بعد ایک نئی نہ ختم ہونے والی زندگی کی بشارت دی گئی ہے جس میں اعمال کے مطابق جزا اور سزاکا عمل ہو گاجو کسی دوسری مخلوق کے ساتھ نہیں۔ پس جو اس اہم نکتے کو سمجھیں گے وہ کامیاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کچھ راستے متعین کئے ہیں کہ اگر ان راستوں پر چلو گے تو اس دنیا میں بھی خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے حامل بنو گے اوراگلے جہان میں بھی۔ اور وہ راستے کون سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو۔ وہ ہیں اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا اور نیک اعمال بجا لانا بلکہ فرمایا کہ سب سے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اسی مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)

اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
‘’چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)

پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بد ل لے۔ موت کا اعتبار نہیں ہے……۔ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردد نہ کرے، تو اس سے مواخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کومقدّم نہ کرنا‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام زیر سورۃ الذٰریات آیت 57۔ جلد چہارم صفحہ237-236)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
‘’خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔ …… جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ قابل قدر شے ہو جائے گا۔ اگر یہ د رد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخری تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جائے گا‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سورہۃ الذریات زیرآیت نمبر57جلد چہارم صفحہ239)
تو یہ ہے ہمارا مقصد پیدائش جسے کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت رکھ دی ہے اور اس فطرت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ایک ایسا انسان بھی جو دنیا میں ڈوب کر خداتعالیٰ کو بھول بیٹھا ہو جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو، کشتی طوفان میں گھر جائے تو بے اختیار اس کی نظر آسمان کی طرف اٹھتی ہے۔ لیکن کیونکہ دنیاداری غالب ہوتی ہے۔ اس مشکل سے رہائی کے بعد ایسے لوگ خدا کو پھر بھول جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ لیکن جو عبادالرحمن ہیں وہ مشکل سے رہائی پانے کے بعد پہلے سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کے قرب کے پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کائنات کی ہر چیزجو انسان کے علم میں ہے یا علم میں آتی ہے اسے خداتعالیٰ کی پہچان کروانے والی اور اس کی عبادت میں بڑھانے والی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کی تخلیق پر جب ایک اللہ تعالیٰ کا عابدبندہ غور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مزید اپنی زبان کو تر کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِلَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قَعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض۔ (آل عمران:191)

آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے کئی نشان موجود ہیں۔ وہ عقلمند جو کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں پر بھی، لیٹے ہوئے بھی اللہ کی یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش پر غور کرتے رہتے ہیں۔ یہ عقل جو انسان کو خداتعالیٰ نے دی ہے اور اسے جواشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز بخشا ہے، یہ ایک عابد بندے کو جب وہ اس کی پیدائش پر غور کرتا ہے خداتعالیٰ کے مزید قریب کرتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل بعض پڑھے لکھے اس تخلیق کو دیکھ کر اپنی عقلوں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور راہ راست سے ہٹ جاتے ہیں لیکن عبادت گزار، خدا پر یقین رکھنے والے، اس کی عبادت کرنے والے اپنی ان مخفی صلاحیتوں کو جو خداتعالیٰ نے انہیں ودیعت کی ہیں اللہ تعالیٰ کی پہچان اور اس کی وحدانیت کے مزید عرفان سے فیضیاب ہونے کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مکرم ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو ثابت کیا اور قرآن کریم کی ایک آیت سے رہنمائی حاصل کی۔ پس یہاں پلنے بڑھنے والے نوجوان اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جتنا آپ خداتعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیں گے، اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنی مخفی صلاحیتوں کو چمکائیں گے اتنا ہی آپ ان دوسرے لوگوں کی نسبت خداتعالیٰ کی مخلوق اور دنیاوی علوم کا زیادہ فہم اور ادراک حاصل کرنے والے ہوں گے جو خداتعالیٰ کی پہچان نہ کرنے والے رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ آپ کو عرفان حاصل ہو گا جو اس کی عبادت نہ کرنے والے کسی چیز کا عرفان رکھتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے کائنات کے مضامین پر جو قرآن کریم میں روشنی ڈالی ہے، اسے ایک پاک دل اور عبادت کرنے والے احمدی سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جویہ فرمایا کہ خداتعالیٰ نے انسان کو مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک عابد بندے کی اپنی مخلوق کی پیدائش کی طرف رہنمائی کرتا ہے، زمین و آسمان اور کائنات میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی مکمل گہرائی تک ایک غیر عابد نہیں پہنچ سکتا۔ ایک غیر مسلم کو اس کی تحقیق خدا کا علم دلانے کی بجائے تکبر میں مبتلا کرتی ہے لیکن ایک عابد اللہ تعالیٰ کی تخلیق دیکھ کر مزید اس کی طرف جھکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ایک مومن کو ایمان میں بڑھاتے ہوئے اس کی طرف جھکنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بناتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آیت کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یادکرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الٰہی ان پر کھلتے ہیں تو کہتے ہیں خدایا تونے ان صنعتوں کو بے کار پیدا نہیں کیا۔ یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قُطر اس قدر ہے اور اُس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اورستاروں سے اس کو اس قسم کے تعلقات ہیں۔ بلکہ وہ صنعت کی کمالیّت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں اوراپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں ‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ144-143مطبوعہ لندن)
اور ایمان کو مضبوط کرنے والے لوگوں کی نشانی یہ ہے۔ اس بارے میں خداتعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ (السجدۃ: 16)

ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو ان کے متعلق یاد دلایا جاتا ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر جاتے ہیں اور اپنے ربّ کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
پس یہ ہے مومن کی نشانی اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا جب اسے عرفان حاصل ہوتا ہے تو وہ خدا کے حضور جھکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں قرآنی تعلیم بھی ہے انبیاء کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے نشانات بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز بھی۔ پس جتنا ایک مومن قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرتا ہے اپنے ماحول پر غور کرتا ہے خداتعالیٰ کی ہر قسم کی پیدائش پر غور کرتا ہے، کائنات پر غور کرتا ہے اس کے لئے کوئی راہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کا عبادت گزار بنے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فقرہ ہم احمدیوں کو خاص طور پر جگانے والا ہونا چاہئے کہ جو لوگ اپنی اصل اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں۔ پس یہ ایک احمدی کے لئے بڑے فکر کا مقام ہے۔ ایک طرف تو ہم فضل کو سمیٹنے کے لئے اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے سمجھیں یا کہیں اور اس وجہ سے دنیا کی مخالفت بھی مول لے رہے ہیں۔ بعض احمدی اپنے غیرازجماعت قریبی رشتہ داروں کی سختیوں کا بھی سامنا کررہے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم عبادت کی طرف اس کا حق ادا کرتے ہوئے توجہ نہیں دے رہے تو نہ صرف دنیاوی رشتوں اور ماحول کی مخالفت کا ہم سامنا کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھی دور جا رہے ہیں۔ پس ہم میں سے وہ جو نمازوں میں اپنی حالتوں کے خود جائزے لیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس درد کو محسوس کریں جو آپ کو ہمارے لئے ہے بلکہ یہ درد تمام انسانیت کے لئے ہے۔ لیکن جب آپ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک د رد ہونا چاہئے تو ہم احمدی سب سے پہلے آپ کے مخاطب ہوں گے۔ ہمیں خداتعالیٰ کا قرب تلاش کرنے کے لئے اس کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے۔ اس کی عبادت کی ضرورت ہے اور عبادت میں سب سے بہترین عبادت نمازوں کی ادائیگی ہے۔ اور نمازوں کی ادائیگی کس طرح ہونی چاہئے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اس کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خداتعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ واستغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تاکہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خداتعالیٰ سے پکّا تعلق پیدا ہوجاوے اور اسی کی محبت میں محوہو جاوے۔ اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے‘‘۔ (تفسیر سورۃ فاتحہ ازحضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ195)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے۔ یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5۔ صفحہ 335۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
پس خداتعالیٰ کا قرب اور اس سے سچاتعلق ہے جوہم میں سے ہر ایک کامطمح نظرہونا چاہئے اور جب یہ سچا تعلق ہو جاتا ہے تو خداتعالیٰ پھر اپنے بندے کو تمام فکروں سے آزاد کر دیتا ہے وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتے لیکن دنیاکی نعمتیں ان کا مقصود نہیں ہوتیں۔ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی وہ ایسی طاقت نظر آتے ہیں جن سے مخالف ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ پس یہ معیار ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ یہ یقینی اور سچی بات ہے کہ جو خدا کے ہوتے ہیں خدا ان کا ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کی نصرت اور مدد کرتا ہے بلکہ ان پر اس قدر انعام و اکرام نازل کرتا ہے کہ لوگ ان کے کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5۔ صفحہ 387۔ جدید ایڈیشن)
اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے والے لوگوں سے ایک بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا ہے یعنی خلافت کا۔ عبادت کرنے والوں سے ہی خلافت کے انعام کا بھی وعدہ ہے۔ پس آج ہر مرد اور عورت کی، ہر جوان اور بوڑھے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عبادت کے معیار بڑھانے کی طرف توجہ کرے۔
خلافت کی برکات کا فیض انہی کو پہنچے گا جو خود بھی عبادت گزار ہوں گے اور اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت سے فیض پانے والے وہی لوگ ہوں گے جو خداتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔
اس آخرین کے دور میں جب شرک کی طرف رغبت دلانے کے لئے نئے نئے طریق ایجاد ہو گئے ہیں۔ جب تجارتوں اور کھیل کود کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب شیطان انسان کو ورغلانے میں پہلے سے زیادہ مستعد ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے، اس کی عبادت کی طرف توجہ کرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی پہلے سے بہت بڑھ کر کرنی ہوگی۔
اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ایسے عبادت کرنے والے کبھی ضائع نہیں ہوں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان کی نسلیں بھی شیطان کے شر سے بچی رہیں گی اور خلیفۂ وقت کی دعائیں ان کے حق میں اور ان کی دعائیں خلافت کے حق میں پوری ہوتی رہیں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہوئے ہیں جو اس کی عبادت کرنے والے ہیں تبھی تو خلافت کے انعام سے بھی ہم فیضیاب ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ عبادت گزاروں کے لئے تمکنت دین کے سامان خلافت احمدیہ کے ذریعہ پیدا فرماتا چلا جائے گا۔ لیکن میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ ہر ایک کو اپنے آپ کو اس گروہ میں شامل کرنے اور شامل رکھنے کے لئے خود بھی کوشش کرنی ہو گی۔
27مئی کو جو خلافت جوبلی منائی گئی۔ لندن میں ایک بڑا فنکشن ہوا اور دنیا بھر میں بھی ہوا۔ دنیا کی جماعتوں نے جہاں اور پروگرام بنائے اور ان پر عمل کیا وہاں دعاؤں اور نوافل کا بھی اجتماعی پروگرام رکھا اور دنیا کے ہر ملک کی جماعت نے اس کا بڑا اہتمام کیا۔ کینیڈا سے بھی مجھے کسی نے لکھا کہ ہم گھر سے مسجد کی طرف رات کو اڑھائی بجے نکلے۔ سڑک پر جہاں عموماً مسجد تک پہنچنے میں 45منٹ کا وقت صرف ہوتا ہے 20منٹ میں مسجد کے قریب پہنچ گئے کیونکہ ٹریفک نہیں تھا۔ لیکن مسجد کے قریب پہنچ کر دیکھا تو اتنی لمبی کاروں کی لائنیں تھیں کہ وہ چند سو گز کا فاصلہ طے کرتے ہوئے آدھاگھنٹہ لگ گیا اور مشکل سے نوافل کی آخری رکعتوں میں پہنچے۔
پس یہ معیار جو آپؑ نے قائم کرنے کی کوشش کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ خلافت احمدیہ سے آپ کی محبت ہے۔ کمزور سے کمزور احمدی کے دل میں بھی اس محبت کی ایک چنگاری ہے جس نے اس دن اپنا اثر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوئی تاکہ خلافت احمدیہ کے قیام اور استحکام کے لئے دعائیں کریں۔ پس اس چنگاری کو شعلوں میں مستقل بدلنے کی کوشش کریں۔ اس کو کبھی ختم نہ ہونے دیں۔ ان شعلوں کو آسمان تک پہنچانے کی ہر احمدی کو ایک تڑپ کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے فیض یافتہ گروہ کا حصہ بننے کا ذریعہ ہے۔ آج یہاں جلسہ کے ذریعہ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی ترقی اور عبادتوں میں آگے بڑھنے کا ماحول میسر فرمایا ہے۔ یہ جلسہ عام جلسوں کی نسبت اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ خلافت جوبلی کا یہ جلسہ ہے اور اس جلسے سے صرف ایک مہینہ پہلے آپ نے ایک عہد کیا ہے۔ اس عہد کی تجدید کا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع عطا فرمایا ہے۔ ہر ایک اپنے خدا سے اپنے سجدوں میں پھر یہ عہد کرے کہ جو مثال ہم نے 27مئی کو قائم کی تھی، جس طرح دعاؤں اور عبادتوں کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کے احسان سے توجہ پیدا ہوئی تھی اسے ہم اپنی زندگیوں کا دائمی حصہ بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہمارا شمار ہمیشہ ان لوگوں میں ہوتا رہے جو خداتعالیٰ کے سچے عابد ہیں اور جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خلافت کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ خدا کرے کہ یہ جلسہ ہر ایک میں عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ثابت ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں