خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 14؍ مئی2004ء

نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کی بخشش کے سامان پیداکرنے کے لئے ہروقت تیار ہے۔پس اللہ تعالیٰ سے ہروقت اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
14؍مئی2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوٓء اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِاللّٰہَ یَجِدِاللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (سورۃ النساء آیت نمبر111:)

انسان کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ غلطیوں، کوتاہیوں اور سستیوں کی طرف بہت جلد راغب ہو جاتا ہے اور اس بشری کمزوری اور فطری تقاضے کی زد میں،اس کی لپیٹ میں ایک عام آدمی تو آتا ہی ہے جو دنیاوی دھندوں میں پڑا ہوا ہے اور خداتعالیٰ کی عبادت کی طرف، اس سے اپنے گناہوں کی معافی کی طرف اس کی ذرا بھی توجہ نہیں ہوتی۔ لیکن نیک لوگ بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے حتیّٰ کہ انبیاء بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں- لیکن جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:’’ انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں لہٰذا وہ دعا کرتے ہیں کہ یا الٰہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۰۷۔ جدید ایڈیشن)
تو جب انبیاء کی یہ حالت ہو کہ وہ ہر وقت استغفار کرنے، ہر وقت اپنے رب سے اس کی حفاظت میں رہنے کی دعا کرتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کو کس قدر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سے جو روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں غلطیاں ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں ان سے بچنے کے لئے یا ان کے بداثرات سے بچنے کے لئے استغفار کرے۔ اور اگر پہلے اس طرف توجہ ہو جائے تو بہت سی غلطیوں اور گناہوں سے انسان پہلے ہی بچ سکتا ہے۔ پس اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں- اللہ تعالیٰ تو اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے، ان کی بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مغفرت کے مضمون کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے، کہیں دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ تم یہ دعائیں مانگو تو بہت سی فطری اور بشری کمزوریوں سے بچ جاؤ گے۔ کہیں یہ ترغیب دلائی ہے کہ اس طرح بخشش طلب کرو تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ کہیں بشارت دے رہا ہے، کہیں وعدے کر رہا ہے کہ اس اس طرح میری بخشش طلب کرو تو اس دنیا کے گند سے بچائے جاؤ گے اور میری جنتوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔ کہیں یہ اظہار ہے کہ میں مغفرت طلب کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں- غرض اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے پیار، محبت اور مغفرت کے سلوک پر اللہ تعالیٰ کا تمام عمر بھی شکر ادا کرتا رہے تو نہیں کر سکتا۔ ہماری بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس کے باوجود بھی ہم اس غفور رحیم خدا کی رحمتوں سے حصہ نہ لے سکیں اور بجائے نیکیوں میں ترقی کرنے کے برائیوں میں دھنستے چلے جائیں- پس اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹے رکھے اور ہمیں ہر گناہ سے بچائے اور گزشتہ گناہوں کو بھی معاف فرماتا رہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت کے گناہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے اور دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرے۔ او ر اللہ تعالیٰ ایسے ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہو۔ (مسلم)
یعنی یہ ناممکن ہے جب سے یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں اپنے پاک بندوں کو نہ لپیٹتا رہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ استغفار کے معنی یہ ہیں کہ خدا سے اپنے گزشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا۔ اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا۔ استغفار انبیاء بھی کیا کرتے ہیں اور عوام بھی‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو۔ اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے،نہ کسی ولی کو اور نہ رسول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں- پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں- پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۰۷ جدید ایڈیشن)
حدیث میں آتا ہے،’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں ‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات۔ باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنی ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یا الٰہی ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے اور آئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں- صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا پس چاہئے کہ توبہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے مفہوم اور معانی کو مدنظر رکھ کر تڑپ اور سچی پیاس سے خدا کے حضور دعائیں کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۶۰۷۔۶۰۸)
یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ جن کا وجود روز مرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جو خدا نے لگا دیااس کو کون دور کرے ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے۔ وہ کیا ہے؟ توبہ و استغفاراور ندامت، یعنی جبکہ برا فعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو یا حسب خاصہ فطرتی کوئی برا خیال دل میں آوے تو اگر وہ توبہ و استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ جب وہ بار بار ٹھوکر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور توبہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے۔ یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے۔ اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْء اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِاللّٰہِ یَجِدِاللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۱۱)

جس سے کوئی بدعملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفورو رحیم پائے گا۔
اس لطیف اور پرحکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلے پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے۔ اور اپنی ذات میں وہ غفور ورحیم ہے۔ یعنی اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذاتِ قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتاہے۔ اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے۔ یعنی جب کبھی کوئی بشر بروقت صدورِ لغزش و گناہ بندامت و توبہ خدا کی طرف رجوع کرے‘‘ یعنی جب کوئی انسان اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور پھر اس پہ شرمندگی، ندامت اور پشیمانی ہوتو فرمایا کہ ایسی حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسان جھکے ’’تووہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے‘‘۔ تو پھر خداتعالیٰ بھی اس کی پریشانی، پشیمانی، شرمندگی اور استغفار دیکھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مغفرت کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ تو فرمایا کہ’’ یہ رجوع الٰہی بندئہ نادم اورتائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصۂ دائمی ہے‘‘۔
فرمایا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ رجوع کرتا ہے اپنے ایسے بندے پر جو کئے ہوئے گناہوں پر نادم بھی ہو اور اس کی معافی بھی مانگ رہا ہو توایک دو دفعہ تک محدود نہیں ہے۔ مستقل انسان استغفار کرتا رہتا ہے، مستقل اس سے معافی مانگتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ہمیشہ اس کی نیت دیکھ کر اس کے گناہوں کو بخشتا رہتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مرتبہ جان بوجھ کے گناہ کرتے چلے جاؤ بلکہ نیت ایسی ہو کہ شرمندگی ہو اور گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہمیشہ معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ ’’اور جب تک کوئی گناہگار توبہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷۔حاشیہ)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں- جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور گناہ کے بدنتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ

کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔تو عرض کیا گیا یا رسول اللہ! توبہ کی علامت کیا ہے آپؐ نے فرمایا ندامت اور پریشانی علامت توبہ ہے۔(رسالہ قشیریہ باب التوبہ)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ

سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لئے خدا سے معاملہ صاف کر لے۔ اس طرح سے خداتعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا۔ اور پھر اس پر کوئی خوف اور حزن نہیں ہو گا‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۵۹۴۔۵۹۵)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ حقیقی توبہ انسان کو خداتعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے۔ جیسے اللہ کا وعدہ ہے کہ

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ

یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں- توبہ حقیقت میں ایک ایسی شے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے۔ جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے۔
یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اس کو معاف ہو جاتے ہیں اس وقت سے پہلے جوکچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۴۳۲) تو فرمایا توبہ کے ذریعے سے پاکیزگی کا بیج ہے جو ہمارے دلوں میں بویا جاتا ہے۔
تو اس زمانے میں بھی جبکہ ہر طرف دنیا میں اتنا زیادہ گندہو چکا ہے، ہمیں خاص طور پر احمدیوں کو اپنے اندر پاکیزگی کے بیج کی پرورش کے لئے بہت زیادہ کوشش اور استغفار کی ضرورت ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرے اور دل صاف کرے اور اس طرح ہمیں اپنے دل کی زمین کو تیار کرنا ہو گا اور اس میں اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے نیکی کے بیج کی پرورش کرنی ہو گی جس طرح ایک زمیندار جب اپنی فصل کے لئے بیج کھیت میں ڈالتا ہے تو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھنے کے لئے وہ بعض دفعہ بیج ڈالنے سے پہلے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جو جڑی بوٹیوں کو اگنے میں مدد دیتے ہیں، تاکہ جو بھی جڑی بوٹیاں ہیں وہ ظاہر ہو جائیں- اور جب وہ ظاہر ہو جائیں تو ان کو تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو اسی طرح ہمیں بھی اپنے گناہوں کی جڑی بوٹیوں کے بیج کو بھی ظاہر کرنا پھر اس کو تلف کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے، اپنے گناہوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ تاکہ نیکی کا بیج صحیح طور پر نشوونما پا سکے۔ جب نیکی کا بیج پھوٹتا ہے، بڑھنا شروع ہوتا ہے تو اس کی پھر اس طرح ہی مثال ہے کہ پھر شیطان بعض حملے کرتا ہے کیونکہ وہ بھی اپنی برائیوں کے بیج پھینک رہا ہوتا ہے یا کچھ نہ کچھ بیج برائی کا بھی دل میں رہ جاتا ہے تو جس طرح فصل لگانے کے بعد زمیندار دیکھتا ہے کہ بعض دفعہ فصل کے ساتھ بھی دوبارہ جڑی بوٹیاں اگنی شروع ہو جاتی ہیں تو پھر زمیندار کئی طریقے استعمال کرتا ہے۔ بوٹی مار دوائیاں پھینکتا ہے یا گوڈی کرتا ہے، زمین صاف کرتا ہے تاکہ ان بوٹیوں کو تلف کیا جائے تو اس طرح انسان کو بھی اپنے اندر نیکی کے بیج کو خالص ہو کر بڑھنے اور پنپنے کا ماحول میسر کرنے کے لئے استغفار کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے اس کی پرورش کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تو جب اس طریق سے اپنے اندر نیکیوں کے بیج کو ہم پروان چڑھائیں گے اور پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پھلے گا اور پھولے گا اور پھر بڑھے گا اور ہمارے تمام وجود پر نیکیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور ہر برائی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ختم ہو جائے گی۔
ایک حدیث میں آتا ہے’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہما وقت استغفار کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لئے راہ پیدا کر دیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کر سکے‘‘۔(ابوداؤد۔ کتاب الوترباب فی الاستغفار)
پھر ایک اور روایت ہے’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس شخص کی خوشی کے بارے میں کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی بے آب و گیاہ جنگل میں گم ہو جائے اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا ہو وہ اس کو اتنا ڈھونڈے وہ اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے اور پھر کسی درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور دیکھے کہ اس کی اونٹنی کی لگام کسی درخت کی جڑوں سے اٹکی ہوئی ہے۔ تو صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! وہ شخص تو بہت خوش ہو گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے‘‘۔ (بخاری کتاب الدعوات باب التوبہ)
تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خوشی کا حال اپنے بندوں کی توبہ کی طرف مائل ہوتے دیکھ کر اور گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہونے پر۔ تو جب اللہ تعالیٰ کو ہمارا اس قدر خیال ہے تو ہمیں کس قدر بڑھ کر اس سے محبت کرنی چاہئے۔ اور اس کے آگے جھکنا چاہئے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے۔ اس کے انبیاء کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے ہوں-
’’حضرت جندبؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے کہا اللہ تعالیٰ کی قسم فلاں آدمی کو اللہ نہیں بخشے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون ہے جو مجھ پر پابندی لگائے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا۔ میں نے اسے بخش دیا ہاں ( یہ جو کہنے والا ہے) خود اس شخص کے اعمال ضائع ہو گئے جس نے ایسا کہا‘‘۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب النہی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ)
تو بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ بیٹھ کر باتیں کر دیتے ہیں اپنی نیکیوں کے زعم میں فتوے لگا دیتے ہیں کہ فلاں گناہ گار ہے، فلاں یہ ہے، فلاں وہ ہے، اور یہ بخشا نہیں جا سکتا۔ تو بخشنا یا نہ بخشنایہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ بندے کا کام نہیں- اور خداتعالیٰ کا کام کسی بندے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ایسی باتیں کرکے سوائے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہوں اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
’’حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے 99قتل کئے تھے آخر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی اور اس نے اس علاقے کے سب سے بڑے عالم کے متعلق پوچھا تاکہ وہ اس سے گناہ سے توبہ کرنے کے بارے میں پوچھے تو اسے ایک تارک الدنیا عابد زاہد کا پتہ بتایا گیا وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے 99قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے تو اس عابد اور زاہد نے کہا ایسے آدمی کی توبہ کیسے قبول ہو سکتی ہے اور اتنے بڑے گناہ کیسے معاف ہو سکتے ہیں اس پر اس نے اس کو بھی قتل کر دیا اس طرح پورے 100قتل ہو گئے، پھر اسے ندامت ہوئی، شرمندگی ہوئی اور اس نے کسی بڑے عالم کے متعلق پوچھا پھر اسے ایک بڑے عالم کا پتہ بتایا گیا وہ اس کے پاس آیا اور کہا اور میں نے سو قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے تو اس نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں توبہ کا دروازہ کیسے بند ہو سکتا ہے اور توبہ کرنے والے اور اس کی توبہ قبول ہونے کے در میان کون حائل ہو سکتا ہے۔ تم فلاں علاقے میں جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں گے اور دین کے کام کر رہے ہوں گے، تم بھی ان کے ساتھ اس نیک کام میں شریک ہو جاؤ اور ان کی مدد کرو نیز اپنے اس علاقے میں واپس نہ آنا کیونکہ یہ برا اور فتنہ خیز علاقہ ہے چنانچہ وہ اس سمت میں چل پڑا لیکن ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ موت نے اسے آ لیا، تب اس کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے، رحمت کے فرشتے کہتے تھے کہ اس شخص نے توبہ قبول کر لی ہے اور اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ا ہے اس لئے ہم اسے جنت میں لے جائیں گے۔ عذاب کے فرشتے کہتے کہ اس نے کوئی نیک کام نہیں کیا یہ کیسے بخشا جا سکتا ہے تو اسی اثناء میں اس کے پاس ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیا اور اس کو انہوں نے اپنا ثالث مقرر کر لیا اس نے ان دونوں کی باتیں سن کر کہا کہ جس علاقے سے یہ آ رہا ہے اور جس کی طرف یہ جا رہا ہے دونوں کا درمیانی فاصلہ ناپ لو اس میں سے جس علاقے سے وہ زیادہ قریب ہے وہ اسی علاقے کا شمار ہو گا۔ پس انہوں نے فاصلہ ماپا تو اس علاقے کے زیادہ قریب پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا۔ اس پر رحمت کے فرشتے اسے جنت کی طرف لے گئے‘‘۔(مسلم۔ کتاب التوبۃ۔ باب قبول توبۃ القاتل وإن کثرقتلہ) تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طریق کہ نیک نیتی سے اس کی طرف بڑھو، توبہ کرو استغفار کرو تو وہ یقینا تمہیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں- ساری فضا ان کے سایۂ برکت سے معمور ہو جاتی ہے جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ کہاں سے آئے ہو، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، تو فرشتے جواب دیتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں- اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اے میرے رب! انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کی کیا کیفیت ہو گی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں- پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں- تو اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں- فرشتے اس پر کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں، تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیں، پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا۔ اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی اس پر فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے رب ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا وہ وہاں سے گزرا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتا‘‘۔ (مسلم کتاب الذکر۔ باب فضل مجالس الذکر)۔
تو اللہ تعالیٰ نے راہ چلتے تماش بین کو وہاں بیٹھنے کی وجہ سے بھی بخش دیاکیونکہ اس وقت اس کے کانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کی آواز پہنچ رہی تھی۔ ہماری مساجد میں حدیث کے درس ہوتے ہیں یا مختلف ملفوظات وغیرہ کے اجلاسات ہیں، اجتماعات ہیں تو ان میں پہلے سے بڑھ کر ہماری حاضریاں ہونی چاہئیں- کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو کس وقت کیا چیز پسند آ جائے اور ہماری بخشش کے سامان ہو جائیں- پھر جمعہ ہے، اپنے کام کی خاطر بعض لوگ جمعہ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ خاص طور پر عبادت کا دن ہے ہفتہ میں ایک دن آتا ہے۔ خطبہ ہے نماز ہے اس کو ضرور سننا چاہئے اور ہر وہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں کیا علم کس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے والے ہو جائیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یااس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا۔ یہی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار سے موسوم کرتا ہے‘‘۔(نورالقرآن۔ روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۳۵۷)۔ فرمایا کہ ہر گند سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے، اس کے قرب کو پانے کے لئے اپنے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
پھر ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی کہ میرا قرض بہت ہے دعا کریں اتر جائے۔(اب بھی بہت لوگ لکھتے رہتے ہیں ) تو آپؑ نے فرمایا:’’ استغفار بہت پڑھا کرو انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے، نیز استغفار کلید ترقیات ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۴۲۔ جدید ایڈیشن)
تو فرمایا تمہاری ہر قسم کی ترقی کے لئے اور قرضوں سے بچنے کے لئے پریشانیاں دور ہونے کے لئے استغفار ہی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ غور کرکے سمجھ کر پڑھو صرف رٹے ہوئے الفاظ نہ دہراتے چلے جاؤ اور پھر ساتھ اپنے اندر جو برائیاں ہیں ان کا بھی جائزہ لیتے رہو اور محاسبہ کرتے رہو اور ان سے بھی بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور! میرے لئے دعاکریں میرے اولاد ہو جائے، آپؑ نے فرمایا:
’’ استغفار بہت کرو اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔ یاد رکھو یقین بڑی چیز ہے۔ جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے خداتعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۴۴۔جدید ایڈیشن)
تو بہت سے لوگ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا لکھتے رہتے ہیں اولاد کے لئے بھی اور دوسری چیزوں کے لئے۔ ان کو یہ نسخہ آزمانا چاہئے۔ لیکن بات وہی ہے کہ صرف رٹے ہوئے فقرے نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائیوں سے استغفار کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور انسان اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
اب یہ ہے کہ استغفار کس طرح پڑھنا چاہئے۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچا لے‘‘۔ استغفار پڑھنے سے یا تو بد انجام سے اللہ تعالیٰ بچا لیتا ہے یا وہ گناہ ہی اس سے سر زد نہیں ہوتا۔’’ سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے‘‘۔ فرمایا:’’ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے۔ مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۲۵۔ جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔ اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خدا پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے۔ کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُاللّٰہ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہ کہتا پھرے اور دل کی خبر تک نہ ہو۔ یاد رکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے۔ اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں- اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔ اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے۔ بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں ‘‘۔یعنی فضول ہیں- ’’ہاں دل کی دعائیں اصل دعائیں ہوتی ہیں جب قبل از وقتِ بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے۔ تو پھر خداوند رحیم کریم ہے وہ بلا ٹل جاتی ہے۔ لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلاکرتی۔ بلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت استغفار کرنا چاہئے اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد نمبر ۵ صفحہ ۲۸۲)
تو عام حالات میں بھی دیکھ لیں جب آدمی کسی بیماری میں تکلیف میں دنیا میں بھی کسی انسان کو پکارتا ہے تو وہ اس کی مدد کے لئے آ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو جب اس طرح خالص ہو کر پکاریں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے کہ ایک قدم چلو گے تو دو قدم چل کر آؤں گا، تم پیدل آؤ گے تو میں تمہاری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ گناہ کی یہ حقیقت نہیں کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سوجھے جیسے مکھی کے دو پر ہیں ایک میں شفا اور دوسرے میں زہر، اسی طرح انسان کے دو پر ہیں ایک معاصی کا اور دوسرا خجالت۔ توبہ، پریشانی کا۔ یہ ایک قاعدے کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اس کے بعد پچھتا تا ہے گویا کہ دونوں پَر اکٹھے حرکت کرتے ہیں- زہر کے ساتھ تریاق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا تو جواب یہ ہے کہ گو یہ زہر ہے مگرکشتہ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے‘‘۔ زہر کو بھی جب ایک خاص پراسیس (Process)میں سے گزارا جائے تو وہ دوائی کا بھی کام دے جاتے ہیں- ایسے زہروں سے بہت ساری دوائیاں بنتی ہیں- فرمایا کہ:’’ اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ توبہ اس کی تلافی کرتی ہے۔ کبر اور عجب کی آفت سے گناہ انسا ن کو بچائے رکھتا ہے۔ جب نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم 70بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے۔ اور جو گناہ کو گناہ جانتا ہے وہ آخر اسے چھوڑے گا‘‘۔
فرمایا:’’ حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان بار بار رو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخش دیا۔ اب تیرا جو جی چاہے سو کر۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اوراب گناہ اسے بالطبع برا معلوم ہو گا جیسے بھیڑ کو میلا کھاتے دیکھ کر دوسرا حرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے اسی طرح وہ انسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے۔ مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے۔ حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں- تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیاہے اور اسے سمجھا دیا ہے کہ اس طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۔ جدید ایڈیشن)
پس اگر انسان کے دل میں گناہ سے نفرت ہو جائے اور پھر اصلاح کی طرف قدم بڑھنا شروع ہو جائے تو آہستہ آہستہ تمام برائیاں دور ہو جاتی ہیں- اب بعض شکایات آتی ہیں بعض نوجوانوں میں اور بعض ایسی پختہ عمر کے لوگوں میں بھی کہ نظام جماعت سے تعاون نہیں ہے، تربیتی طور پر بہت کمزور ہیں، فلمیں گندی دیکھ رہے ہوتے ہیں گھروں میں بھی، ٹی وی کے ذریعے سے یا انٹرنیٹ کے ذریعے سے۔ تو جب تک ہم اپنے گھروں میں یہ احساس نہیں پیدا کریں گے اپنے بچوں میں بھی اور اپنے آپ میں بھی یہ احساس نہیں پیدا کریں گے اور جب تک ہمارے قول و فعل میں تضاد ہو گا اصلاح کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔ بیعت کرنے کے بعد ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے دعوے بالکل کھوکھلے ہوں گے۔ ان گندے پروگراموں کو دیکھ کراپنے اخلاقی اور روحانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان بھی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اکثر ایسے پروگرام کچھ خرچ کرنے کے بعدہی میسر آتے ہیں- تو ہماری توبہ و استغفار ایسی ہونی چاہئے کہ ہمارا ان باتوں کی طرف خیال ہی نہ جائے، تو جہ ہی نہ ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے۔ بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے خداتعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہوتا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی حالت ہو جاتی ہے۔ جب ایسی حالت ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے۔ نماز بھی بار بار پڑھے۔ قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹۴۔ جدید ایڈیشن)
فرمایا کہ یہ روحانی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے، پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے تو مستقل مزاجی سے استغفار کرتے رہنا پڑے گا۔ نمازوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے، نمازیں پڑھو، استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ ایک و قت ایسا لائے گا کہ انسان اپنے اندر تبدیلی محسوس کرے گا۔
پھر ایک موقع پر آپؑ نے کسی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’ نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال۔ صدق سے انسان دعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جائے جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی۔ زمیندار ایک کھیت بوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا۔ بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے۔ نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتا۔ بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں- اگر ایک انسان کنواں کھودے اور بیس ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھود لے تو گوہر مقصود پا لیوے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ذوق ا ور شوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے۔ اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۵۲۔جدید ایڈیشن)۔
پھر آپؑ نے فرمایاکہ:’’مَیں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزولِ بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے۔ اور عذاب الٰہی سے ان کو بچا لیتا ہے۔ میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو میں نَصْحًالِلّٰہ کہتاہوں اپنے حالات پر غور کرو اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو استغفار عذاب الٰہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سِپر کا کام دیتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتُغْفَرُوْنَ (سورۃ الانفال آیت نمبر34:)۔

’’ یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ مغفرت اور بخشش طلب کررہے ہوں تو’’ اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الٰہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۳۴)
آج کل جو دنیا کی مشکلات ہیں اور ہر طرف ایک افراتفری پیدا ہو رہی ہے۔ ہر روز انسان اپنے اعمال کی وجہ سے شامت اعمال میں ہے،نیا فتنہ و فساد کھڑا ہو رہا ہے۔ نئی نئی مصیبتوں کے کھڑے ہونے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں- ان میں ہم احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو بچانے کے لئے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اسے سمجھنے کی بھی توفیق دے اور اپنے لئے بہت دعائیں کرنے کی بھی توفیق دے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ

وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ (الزلزال:۹)

یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔ پس یاد رہے کہ اس میں اور دوسری آیت میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے۔ اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذَنْب کا تامعلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا۔ ورنہ سارا قرآن شریف اس بارے میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے‘‘۔(چشمہ ٔمعرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳۔ صفحہ ۲۴)۔
فرمایا کہ اگر گناہ پر نادم ہو پریشان ہو، شرمندہ ہو، استغفار کرے تو اللہ اس کے برے نتائج سے بچا لیتا ہے لیکن گناہوں پر اصرار نہ ہو کبھی۔ اور اگر اصرار ہو گا اور احساس ختم ہو جائے گا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس آیت کے مطابق پھر انسان ضرور سزا پائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے جھکنے والا اور گناہوں سے بخشش طلب کرنے والا بناتا رہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’توبہ ایک طرف( موت) کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا۔ توبہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویا نئی زندگی پاکر دنیا میں آیا ہے۔ نہ اس کی وہ چال ہو نہ اس کی وہ زبان، نہ ہاتھ نہ پاؤں سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے تحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے۔ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اور ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۴۶۔۱۴۷)
تو اس طرح اگر توبہ کی جائے اور اسی طرح توبہ کرنی چاہئے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی ضد نہیں کرنی چاہئے۔ بہن بھائیوں کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ چاہئے۔ پھر ہمسایوں کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ پھر معاشرے کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ہرگند سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور معاشرے کے جتنے زہر ہیں، جتنی برائیاں ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے مثلاً یہ آج کل عام بیماری ہے اور سکول میں 17-16-15 سال تک کی عمر کے بچوں کو سگریٹ کی عادت ڈالی جاتی ہے اور پھر سگریٹ میں بعض نشہ آور چیزیں ملا کے اس کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھی لڑکوں کو عادت ڈالتے ہیں اس طرح یہ پھیلتی چلی جاتی ہے اور وہی سکول کے لڑکے ان کے ایجنٹ کے طور پر پھر کام کررہے ہوتے ہیں- تو اس پر بھی ماں باپ کو نظر رکھنی چاہئے۔ کسی قسم کی معاشرے کی برائی کا اثر نہ ہم پر نہ ہمارے بچوں پر ظاہر ہو۔
حضرت اقد س مسیح موعودؑ پھر فرماتے ہیں کہ:’’ خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں- یہ برکات کا سرچشمہ ہے۔ درحقیقت اولیاء و صلحاء یہی لوگ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں- وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں- کامل توبہ کرنے والا شخص ہی ولی، قطب اور غوث کہلا سکتا ہے۔ اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے۔ اس کے بعد بلائیں اور مصائب جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۴۷)
پھر فرمایا:’’ پس اٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا لیکن جو شخص ظلم اورتعدّی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے، تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا۔ سو اپنے خدا کو جلد راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے‘‘۔یہاں طاعون کی مثال دی’’ یعنی طاعون کے زور کادن جس کی نبیوں نے خبر دی ہے‘‘۔ اور آج بھی جو دنیا میں برائیاں پھیل رہی ہیں اس میں بھی ایک قسم کا طاعون ہی ہے جو ایڈز کی صورت میں دنیا میں پھیل رہا ہے۔ فرمایا کہ قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے’’ تم خدا سے صلح کر لو وہ نہایت درجہ کریم ہے۔ ایک دم کی گداز کرنے والی توبہ سے 70برس کے گناہ بخش سکتا ہے۔ اور یہ مت کہو کہ توبہ منظور نہیں ہوتی۔ یاد رکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ ہمیشہ فضل بچاتا ہے، نہ اعمال۔ اے خدائے کریم و رحیم! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں-(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۴)
کل انشاء اللہ تعالیٰ میں ایک سفر پر جا رہا ہوں، جرمنی، ہالینڈ وغیرہ کے اجتماعات اور جلسے ہیں-اس کے لئے بھی احباب سے دعا کی درخواست ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر طرح بابرکت فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں