خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 9؍جولائی2004ء

جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں ان سے بچتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں گے جو لوگ محرمات کاکاروبا ر کررہے ہیں و ہ اس کو ختم کریں
کینیڈا کے سفر میں کینیڈا اور امریکہ کے افراد جماعت کے اخلاص ووفا اور جماعتی ترقی کا روح پرور تذکرہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
9؍جولائی2004ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ کسی خطبہ میں،میرا خیال ہے شاید دو ہفتے پہلے،میں نے ایسے لوگوں کو جو ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سؤر کے گوشت کا استعمال ہوتا ہے کہا تھا کہ ایک تو ایسی جگہوں پر کھانے کی احتیاط ہونی چاہئے اور دوسرے ایسے لوگ یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام تلاش کریں- اس پر ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میں نے بعض ریسٹورنٹ لئے ہیں یا ایک ریسٹورنٹ لیا ہے بہرحال اس کے مطابق کیونکہ اس علاقے میں اگر کھانوں میں سؤر کا گوشت استعمال نہ کیا جائے پھر تو دوکانداری نہیں چلے گی اور کاروبار نہیں چلے گا اور مختلف صورتوں میں یہ چربی کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ تو اس نے لکھا اب تو میں یہ خرید بیٹھا ہوں اگر یہ کاروبار میں اس طرح نہ چلاؤں تو اتنا نقصان ہو گا اس لئے اجازت دی جائے۔ تو جہاں تک اجازت کا سوال ہے وہ تو نہیں میں دے سکتا۔ باقی یہ بھی ان کا وہم ہے کہ کاروبار نہیں چلے گا، بِکری نہیں ہوگی۔ اگر نہیں بھی ہوتی تو اس کاروبار کو بیچ کر کوئی اور کاروبار تلاش کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا ہے، نیک نیتی سے چھوڑیں گے تو کسی بہتر کام کے سامان پیدا فرما دے گا اور کام میسر آ جائے گا۔
اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا واضح ارشاد بلکہ فتویٰ کہنا چاہئے آپ کے سامنے رکھتا ہوں- اس کے بعد میرے خیال میں پھر کوئی عذر نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک مجلس میں امریکہ و یورپ کی
حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا، یہ لکھنے والے لکھتے ہیں، تو اسی میں یہ ذکر بھی آ گیا کہ دودھ اور شوربہ وغیرہ جو ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور صاف ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’ چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک قوم ہوگئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پرواہ نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دئیے جاتے ہیں- ا س لئے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو اس لئے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں‘‘۔
اس ضمن میں یہ بتا دوں کہ یہاں ہر چیز پر Ingredientsلکھے ہوتے ہیں، بعض اوقات چاکلیٹ یا بسکٹ لیتے وقت لوگ احتیاط نہیں کرتے، یا جیم (Jam)یا اس قسم کی چیزیں لیتے وقت احتیاط نہیں کرتے حالانکہ اس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس میں الکوحل ملی ہوئی ہے یا اس میں سؤر کی چربی ملی ہوئی ہے یا اور کوئی چیز ملی ہوئی ہے، تو پڑھ کے لیا کریں- چونکہ مجھے تجربہ ہوا ہے بعض لوگ تحفے میں بعض دفعہ لے آتے ہیں،میں احتیاط کرتا ہوں اور میں نے پڑھا تو اس میں الکوحل ملا ہوا تھا، ہر احمدی کو احتیاط کرنی چاہئے۔
نیزفرمایا:’’ جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو۔ تو راوی لکھتے ہیں کہ اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر-۔ ۔ رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا وہ ایک مسلمان تاجر نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ میں خرید لیا۔ جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کرکے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی اس کارخانے میں خریدی جاتی رہی ہے۔ دریافت پر کارخانے والوں نے بتایا کہ ہم اسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے۔ اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا۔ لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کا اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز امصارو بلاد میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے اس لئے ان کو بھی مدنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔ (حضرت مسیح موعودؑ سے دوبارہ پوچھا گیا) نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاھیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ:
’’ ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو (یعنی عیسائیوں کا وہ کھانا حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو) اور از روئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا۔ اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے۔ بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنیوں کے منگوایا کرتے ہیں- (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 66-65جدید ایڈیشن)
تو اصل بات یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں ہر وقت یہ بات ڈالنے کی تاک میں لگا رہتا ہے کہ کوئی بات نہیں، فلاں کام کر لو،کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، تم سؤر کھا تو نہیں سکتے اور یا کھا تو نہیں رہے، یہ تو ایک کاروبار ہے کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے، جن کو کھلا رہے ہو ان کو تو یہ چیز پسند ہے اس لئے چوری بھی نہیں ہے، دھوکہ بھی نہیں ہے۔ تو یہ بات خوبصورت کرکے شیطان انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔ اور پھر جب اس پر عمل شروع ہو جائے تو ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان اس میں پورے طور پر ملوث ہو جاتا ہے، شامل ہو جاتا ہے، وہی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ اچھے برے کی تمیز بھی نہیں رہتی، سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں- اور روحانی طور پر بھی پھر ایسی حالت میں انسان کمزور ہو جاتا ہے اور پھر صرف دنیا کمانے کی طرف توجہ رہتی ہے اور جائز ناجائز کے فرق کو بھلا بیٹھتے ہیں-
سورۃ الناس کی تشریح میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ پس آخری وصیت یہ کی کہ شیطان سے بچتے رہو‘‘۔ پھر فرمایا کہ:’’ رب کی پناہ میں آؤ خدا کی معرفت، معارف اور حقائق پر پکے ہو جاؤ، تو اس سے بچ جاؤ گے۔ اب اس بارے میں بھی اگر صحیح طور پر گہرائی میں جا کر غور نہیں کریں گے تو شیطان وسوسہ ڈالے گا، شبہ میں مبتلا کرے گا، کہے گا دیکھو تمہیں غلط طور پر روکا گیا ہے حالانکہ قرآن کریم میں اجازت ہے کہ حد سے آگے نہ نکلو۔ اگر مجبوری ہو تو سؤر کا گوشت کھا لو، اگر مجبور ہو جاؤ تو یہ کر سکتے ہو۔ تو شیطان وسوسہ پیدا کر سکتا ہے یہاں کہ کیونکہ تمہارے کاروبار کا سوال ہے، مجبوری ہے، تم اپنی شریعت کے مطابق خود تو نہیں کھا رہے، قانون تمہیں اجازت دیتا ہے یہاں ان مغربی ممالک میں کہ تم دوسروں کو کھلا سکتے ہو اس لئے بے شک یہ کاروبار کرو۔ تو یاد رکھیں کہ یہ سب شیطان کے وسوسے ہیں جو دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ ایک برائی میں پھنسیں گے تو دوسری میں بھی پھنستے چلے جائیں گے، دھنستے چلے جائیں گے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ جو لوگ یہ کاروبار کر رہے ہیں وہ اس کو ختم کریں-
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ان کو مخاطب کرکے فرمایا :اے ابو ہریرہ ! تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر،توُ سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا۔ قناعت اختیار کر،توُ سب سے بڑا شکر گزار شمار ہو گا۔ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسندکرو تو صحیح مومن سمجھے جاؤ گے۔ جو تیرے پڑوس میں بستا ہے اس سے اچھے پڑوسیوں والا سلوک کرو تو سچے اور حقیقی مسلم کہلا سکو گے۔ کم ہنسا کرو کیونکہ بہت زیادہ قہقہے لگا کر ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع والتقویٰ)
تو فرمایا کہ پرہیز گاری اختیار کرو، اللہ سے ڈرو، اس کا خوف کرو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے عمل کرو۔ شیطان کے بہکاوے میں نہ آؤ۔ قناعت اختیار کرو، اگر قناعت ہو گی تو تھوڑے پر بھی انسان راضی ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ زیادہ کمانے کے شوق میں ناجائز ذرائع سے بھی کمانے لگ جاؤ۔ جس کی شریعت تمہیں اجازت نہیں دیتی وہ کام بھی تم کرنے لگ جاؤ۔ اور شکر گزار ی بھی اسی میں ہے کہ قناعت کرو۔ اور شکرگزاروں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر صحیح طور پر شکر کرو گے تو تمہیں میں اور زیادہ دوں گا۔ تو اس وعدے کے تحت اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ شکر کرو میں تمہارے اموال میں بھی برکت دوں گا، تمہاری نسلوں میں بھی برکت دوں گا۔ اس لئے یہ وہم دل میں نہ لاؤ کہ یہ کاروبار ہم نے نہ کئے تو بھوکے مر جائیں گے خدانخواستہ۔ اللہ کی خاطر کوئی کام کرو اور اس پہ شکر کرو گے تو اور زیادہ ملے گا۔ اور پھر صحیح مومن کی نشانی یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ تو آپ خود تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سؤر کا گوشت نہیں کھاتے، اس لئے نہیں کھاتے کہ اس میں فلاں فلاں ایسی باتیں ہیں جو انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں، یہ یہ نقص ہیں- لیکن دوسروں کو کھلانے کے لئے تیار ہیں- تو یہ تو مومنوں والی بات نہیں ہے۔ اور پھر آگے بتایا کہ پڑوسیوں سے نیک سلوک کرو اور آخر میں یہ کہ دنیا کی کھیل کود کی محفلوں میں اتنے نہ گم ہو جاؤ کہ خدا ہی یاد نہ رہے اور دل مردہ ہو جائے اور جب دل مردہ ہوتا ہے تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اور شیطان کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر وہی بات کہ اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رہتی، اور یوں پھر انسان شیطان کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے ایک روایت ہے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’ حرام اور حلال اشیاء واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو لوگ مشتبہات سے بچتے رہتے ہیں وہ اپنے دین کو اور اپنی آبرو کو محفوظ کر لیتے ہیں- اور جو شخص شبہات میں گرفتار رہتا ہے بہت ممکن ہے کہ وہ حرام میں جا پھنسے یا کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے۔ ایسے شخص کی مثال بالکل اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ علاقے کے قریب قریب اپنے جانور چراتا ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ اس کے جانور اس علاقے میں گھس جائیں- دیکھو ہر بادشاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہوتا ہے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ اس کے محارم ہیں ‘‘۔ یہاں بھی اب دیکھ لیں کہ بعض علاقے گورنمنٹس نے بنائے ہوتے ہیں، بعض جانوروں کے لئے بھی رکھے ہوتے ہیں،Sanctury بنائی ہوتی ہیں- ’’سنو! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب تک وہ تندرست اور ٹھیک رہے تو سارا جسم تندرست اور ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب اور بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار اور لاچار ہو جاتا ہے اور اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے‘‘۔ (بخاری کتاب الایمان،باب فضل استبر الدینہ۔ مسلم کتاب البیوع باب اخذالمال)
تو یاد رکھیں کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں حدیث میں بڑا واضح طور پر بیان کر دیا کہ ان سے بچتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں گے۔ اس لئے ایسے موقعے پر ہمیشہ یہی یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں دل سے ضرور فتویٰ لے لیا کریں- کیونکہ اگر ایمان کی تھوڑی سی بھی رمق ہے، تھوڑا سا بھی دل میں ایمان ہے تو دل میں ایک بے چینی پیدا رہے گی، کوئی بھی کام انسان کرنے لگے گا تو کسی بھی غلط کام کو کرنے سے پہلے کئی سوال اٹھیں گے۔ اس۔ اگر نیکی ہے تو یقینا آپ اس کام کو چھوڑ دیں گے اور اگر شیطان غالب آ گیا تو پھراچھے برے کی تمیز جیسا کہ میں نے کہا نہیں رہتی۔ پھر آپ کرتے چلے جائیں گے۔
پھر ایک اور روایت آئی ہے حضرت وابصہ بن معبدؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا :’’کیا تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو۔ میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا کہ اپنے دل سے پوچھ۔ نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل اور تیرا جی مطمئن ہو۔ اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تیرے لئے اضطراب کا موجب بنے اگرچہ لوگ تجھے اس کے جواز کا فتویٰ دیں اور اسے درست کہیں- (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر4صفحہ228-227 مطبوعہ بیروت)
تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے تصدیق کر لینی چاہئے اپنے دل سے پوچھ لینا چاہئے، غور کرنا چاہئے۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں، بہت سی ایسی برائیاں ہیں- جن کا انسان اگر اپنے دل سے فتویٰ لے، اپنے سامنے ان کو رکھے، خالی الذہن ہو کر فتویٰ لے تو خود ہی بہت سی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ کسی اور کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے اور تیری اس کمزوری سے وہ واقف ہوں- (مسلم کتاب البر والصلۃ باب تفسیر البروالاثم)
تو اس حدیث میں بھی یہی تلقین ہے کہ اپنا محاسبہ کرو، اپنے دل سے پوچھو۔ اور بہت سی باتیں تو فوراً سامنے آ جاتی ہیں، بہت سی برائیوں سے انسان صرف یہ سوچ کر ہی بچ جاتا ہے کہ اگر یہ لوگوں کو پتہ چل گیا تو لوگ کیا کہیں گے میری بدنامی ہو گی، میرے گھر والوں کی بدنامی ہو گی۔ میرے خاندا ن کی بدنامی ہو گی، تو بات وہی ہے کہ اگر دل میں نیکی ہے تو اپنے دل سے زیادہ اچھا فتویٰ کہیں سے نہیں مل سکتا۔ اور اگر کسی بات کا علم نہیں تو اس بارے میں پوچھا بھی جا سکتا ہے اور پوچھنا چاہئے تاکہ اچھے برے کی تمیز بھی پتہ لگے، جن کو علم ہو ان سے جا کے پوچھنا چاہئے۔
حضرت سلمان فارسیؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے۔ اور وہ اشیاء جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں فرمایا وہ ایسی اشیاء ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اٌکل الجبن والسمن)
تو یہاں بڑا واضح طور پر بتا دیا لیکن جن کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا وہاں بھی جب انسان کے تقویٰ کے معیار بڑھتے ہیں تو پھر ایک مومن کا رجحان اسی طرف ہوتا ہے کہ جو واضح حلال ہے اور کسی قسم کا بھی جس میں اشتباہ نہیں ہے وہی استعمال کیا جائے اور جہاں بھی کسی قسم کا شبہ پیدا ہو تو اس سے بچنے کی مومن ہمیشہ کوشش کرتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ احمدیوں کو جنہوں نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں محتاط راستہ ہی اختیار کرنا چاہئے۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو۔ شک سے مبرّا یقین کو اختیار کرو کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے۔ او ر جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ (بخاری کتاب البیوع باب تفسیر الشبہات)
تو اس میں یہ واضح کر دیا جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ شک والی بات سے بچو۔ کیونکہ اگر تم حقیقی خوشی چاہتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کی کوشش کرو اس سے تم بہت ساری اور بیماریوں اور پریشانیوں سے بھی بچ جاؤ گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ:’’ وسوسوں کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ پر جب تک انسان اس کے شر سے بچا رہے یعنی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے اور ان پر قائم نہ ہو، تب تک کوئی حرج نہیں- ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی کہ میرے دل میں برے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں،کیا میں ان کے سبب سے گناہگار ہوں- فرمایا فقط برے خیال کا اٹھنا اور گزر جانا تم کو گناہگار نہیں کرتا۔ یہ شیطان کا ایک وسوسہ ہے۔ جیسا کہ بعض انسان جو شیطان کی طرح ہوتے ہیں لوگوں کے دلوں میں برے خیالات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، پس فقط ان کی بات سننے سے اور رد کر دینے سے کوئی گناہگار نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ گناہگار ہوتا ہے جو ان کی بات کو مان لیتا اور اس پر عمل کرلیتا ہے۔ (حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحہ580)
تو بہت ساری ایسی باتیں زندگی میں ہیں، انسان کو پیش آتی ہیں جہاں شیطان ہر وقت وسوسے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ پھر مذہب کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں : پھر اور باتیں ہو جاتی ہیں : تو اگر شیطان کی باتیں مان لیں پھر تو گناہگار ہو گئے۔ اگر انسان شیطان سے لڑتا رہے اور نیت ہوکہ میں نے اس کی بات نہیں ماننی تو اگر برے خیال آتے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اگر عمل کریں تو جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک چراگاہ ہے، ایک رکھ ہے جس میں جانا منع ہے تو وہاں قدم رکھ لیا تو پھر نقصان اٹھائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ جو چاہے سلوک کرے۔
انسانی وسوسوں اور شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی نصیحت فرمائی۔ حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ قرآن کی آخری تین سورتیں یعنی سورۃ اخلاص، فلَق اور النّاس رات کو سوتے وقت پڑھ کر سویا کرو۔ ان جیسی کوئی چیز نہیں جس سے پناہ مانگی جائے۔ (نسائی)
آج کل جب دجال کا دور دورہ ہے۔ معاشرے میں ہر چیز ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکی ہے تو ہر احمدی کو یہ تینوں سورتیں ضرور پڑھ کر کے سونا چاہئے۔ شیطان کے حملے کے بھی مختلف طریقے ہو چکے ہیں تو اس لحاظ سے جس حد تک بچا جا سکتا ہے بچنا چاہئے۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی بیمار ہوتے تو آخری دو سورتیں پڑھ کر ہاتھوں میں پھونک کر جسم پر مل لیتے۔ جب آخری بیماری شدید ہوئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر آپؐ کے بدن پر مل دیتی تھی۔ (بخاری و مسلم)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ: اس سورۃ شریفہ کے شان نزول کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کی رات مجھ پر اس قسم کی آیات نازل ہوئیں-( یعنی سورۃ الناس کے بارے میں ) کہ ان جیسی میں نے کبھی نہیں دیکھیں- وہ مُعَوذّ تَیْن ہیں- ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی نظربد سے پناہ مانگا کرتے تھے مگر جبمُعَوذّ تَیْن نازل ہوئیں تو آپؐ نے اور طرح اس امر سے متعلق دعا کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ ان الفاظ میں دعا مانگتے تھے۔ پھر آگے حضرت عائشہؓ کی وہی حدیث Quoteکی ہوئی ہے کہ رسول اللہؐ جب بیمار ہوا کرتے تو ان دو سورتوں کا دم کیا کرتے تھے۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۔ 9؍جنوری 1912ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی راہوں پر چلائے جو حقیقت میں اس کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں- ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہو کر ہم اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں- شیطان کے ہر وسوسے کو رد کرنے والے ہوں اور دل سے نکالنے والے بن جائیں اوریاد رکھیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے۔ اس کے آگے جھکے رہیں- شیطان کے ہر حملے سے اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے رہیں- تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ کئی قدم اس کی طرف آتا ہے اور اگر وہ چل کے آتا ہے تو خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہے تو ہمیشہ ہم ان بندوں میں شامل رہیں جن کی طرف خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہو۔ اور کبھی ان راستوں پر نہ جائیں جو خداتعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوں اور شیطان کی طرف لے جانے والے راستے ہوں-
اب میں کینیڈا کے سفر کا بھی تھوڑا سا مختصر حال بتا دیتا ہوں- مختلف جگہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی کینیڈاکے سفر کی کامیابی کے خطوط آتے رہے اور آر ہے ہیں- اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے اور احسان ہے کہ اس نے اس سفر میں اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھائے۔ اللہ تعالیٰ کے بھی فضل دکھانے کے عجیب نرالے طریقے ہیں- انسان جو زیادہ سے زیادہ سوچ سکتا ہے اس سے بھی بڑھ کر وہ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا اور امریکہ کی جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہو جاتا ہے۔ وہاں ٹورانٹو میں دو جگہ احمدی آبادی ہے۔ جہاں زیادہ بڑی آبادی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکٹھی جگہ میں تمام احمدی آباد ہیں- اور اس کا بڑا اچھا اثر ہے علاقے کے لوگوں پر بھی اور افسران پر بھی، میئر وغیرہ پر بھی اور لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں- جہاں ہماری مسجد ہے بیت الاسلام بڑی مسجد ہے اس جگہ کا نام پیس ولیج (Peace Village)ہے۔ احمدیہ پیس ولیج اور جہاں شاید تقریباً 300سے اوپر ہی احمدی گھر آباد ہیں- ماشاء اللہ بڑے مخلص، اخلاص میں ڈوبے ہوئے۔ اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے، میں نے پتہ کیا ہے، وہاں عام حالات میں بھی مسجد میں حاضری بڑی اچھی خاصی ہوتی ہے، لوگ بڑی تعداد میں نمازوں پہ آتے ہیں- اور پانچوں نمازوں میں- اللہ تعالیٰ انہیں ایمان او راخلاص میں مزید بڑھاتا چلا جائے۔
وہاں جا کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے اپنے ہی شہر میں آ گئے ہیں- اور کوئی آبادی ارد گرد نہیں تمام احمدی ہیں- بلکہ ایک چھوٹے ربوہ کا احساس ہوتا ہے۔ بڑی سڑک جہاں سے داخل ہوتے ہیں کونسل نے اس کا نام احمدیہ ایوینیو رکھا ہوا ہے۔ پھر اندر کئی سڑکیں جاتی ہیں جو خلفاء کے نام پر ہیں- یعنی نور سٹریٹ ہے۔ بشیر سٹریٹ ہے، ناصر سٹریٹ، طاہر سٹریٹ پھر چوہدری ظفراللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام پر بھی کچھ گلیوں کے نام ہیں- ماشاء اللہ پورے علاقے میں ایک احمدی ماحول ہے۔
دو ہفتے مسلسل صبح سے شام تک چہل پہل رہی، رونق رہی جلسے کی وجہ سے۔ گھروں میں چراغاں بھی رہا۔ اور جماعت کا بھی یہاں ایک بہت وسیع رقبہ ہے مسجد کے ساتھ شاید 50ایکڑ کے قریب ہے جہاں آئندہ مستقبل میں انشاء اللہ مختلف جماعتی عمارات بنیں گی۔ کچھ ہال بنیں گے اور لنگر خانہ وغیرہ انشاء اللہ تعالیٰ،کافی بڑے منصوبے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کو مکمل کرنے کی توفیق دے بہرحال اتنے دن جو بھی دو ہفتے گزرے لوگوں کا ایک عجیب نمونہ تھا۔ یوں لگتا تھا بعض لوگ تو گھروں میں جاتے ہی نہیں کیونکہ جب بھی باہر نکلو بچے، عورتیں اور بوڑھے سڑکوں پر کھڑے ہوتے تھے۔
ایک بات اور جو مجھے وہاں کی بڑی اچھی لگی کہ باوجود اتنے رش کے، مہمان بھی لوگوں کے گھروں میں بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ بعض جگہ تو کمرے چھوٹے پڑ گئے، لوگ میٹرسیں (Mattresses) لے کے اپنے گھر خالی کرکے ایک کمرے میں چلے گئے اور سارا گھر مہمانوں کو دے دیا۔ لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر اور ان کے گھروں کے سامنے جو چھوٹے لان تھے ان میں صفائی بڑی اچھی طرح ہوئی تھی۔ اور نظر آرہے تھے کہ یہ لان مستقل Maintainکئے جاتے ہیں- بڑی اچھی طرح سنبھالے ہوتے تھے پھولوں کی کیاریاں تھیں- گھاس اچھی طرح کٹا ہوا تھا اور تقریباً کیا بلکہ سو فیصد ہر گھر کا یہ حال تھا۔ تو یہاں میں پہلے ہی احمدی گھروں کو صفائی کے ضمن میں توجہ دلا چکا ہوں،کہ اپنے گھروں کے سامنے جو صحن Maintain ہیں لان ہیں چھوٹے سے، گھاس وغیرہ کی جگہ ہے یا پھولوں کے بیڈز ہیں ان کو اچھی طرحMaintain کریں-
دوسری جگہ ایک احمدی آبادی ہے جہاں ملٹی سٹوری بلڈنگ ہے۔ احمدیہ ابوڈ آف پیس (Ahmadiyya Abode of peace)شاید یہ بھی پندرہ سولہ منزلہ عمارت ہے۔ یہاں بھی جماعت کی بہت بڑی تعداد ہے ماشاء اللہ۔ اور یہاں نیچے پہلی منزل میں نماز کے لئے ایک ہال بھی بنایا ہوا ہے جہاں پانچوں نمازیں ہوتی ہیں- میں اس بلڈنگ میں تقریباً دو گھنٹے رہا ہوں اور اتناعرصہ اکثر لوگ اور بچیاں عمارت کے باہر کھڑے رہے اور نظمیں وغیرہ پڑھتے رہے۔ عجیب اخلاص کے نمونے تھے۔ اور کوئی تھکاوٹ ان کے چہروں پرنہیں تھی، کوئی آثار نہیں تھے۔ تو یہ امتیاز بھی صرف اس و قت اس زمانے میں صرف احمدی کو حاصل ہے۔
پھر وہاں کے کچھ اور چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں، شہرہیں، مثلاً ہملٹن، مسی ساگا، او رپھر ٹورنٹومیں ایک جگہ ایسٹ ٹورانٹو کی آبادی ہے، جہاں مساجد وغیرہ ہیں وہ بھی دیکھنے گیا۔ بڑی تعداد میں،بڑے اخلاص سے لوگ وہاں اکٹھے ہوئے ہوئے تھے۔ پھر سینٹ کیتھرین ایک جگہ ہے نیاگرا فال کے قریب تویہاں تقریباً پونے دو ایکڑ کا ایک پلاٹ جماعت نے خریدا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑی نئی ہائی وے بنی ہے۔ توبڑی اچھی جگہ ہے، اچھی لوکیشن (Location)ہے اور ہمارا جو قطعہ زمین ہے زمین سے اونچا بھی کافی ہے۔ اس وقت تو وہاں ایک چھوٹا سا مکان ہی ہے لیکن انشاء اللہ یہاں مسجد بنے گی تو یہاں بھی Highway سے وہ خوبصورت مسجد نظر آیا کرے گی اور اسلام کے امن پسند ہونے کی اس علاقے میں انشاء اللہ ایک عملی تصویر نظر آئے گی۔ جلسے پر تو جیساکہ سب سن چکے ہیں ان کے لحاظ سے غیر معمولی حاضری تھی،تقریباً 21 ہزار سے زائد،اور وہاں کی زیادہ سے زیادہ حاضری جو کبھی کسی جلسے میں ہوئی ہے اس سے قریباً 8،9 ہزار زیادہ تھی۔ لیکن انتظامات ایسے اعلیٰ تھے کہ کوئی ہنگامہ کسی قسم کا نہیں ہوا۔ کھانے وغیرہ پہ بعض دفعہ بدمزگیاں ہوتی ہیں،وہاں بھی بڑے آرام سے،سہولت سے، ہر ایک کھانالے کر چلا گیا۔ وجہ اس کی یہ ہے جو مجھے بڑی اچھی لگی ہے کہ 18،20 ہزار آدمی جو تھا وہ قریباً 20،25 منٹ میں کھانا لے کر فارغ ہو جاتاتھا۔ اور انہوں پہلے ہی یہ انتظام کیا ہوتاتھا کہ چھوٹے پیک لے کے ان میں کھانا ڈا ل کے رکھتے ہیں لیکن ہر آدمی کے لحاظ سے مناسب مقدار میں یعنی ایک نارمل آدمی جتنا کھا سکتاہے اتنا رکھ دیتے ہیں- اور اس کے ڈبے پڑے ہوتے ہیں- ہر کوئی آتاہے اور اپنا پیک اٹھا کے لے جاتاہے۔ اور اگر کسی کو زائد بھوک ہو تو زائدلے گیا۔ اس سے یہ ہے کہ بڑے آرام سے، بڑے تھوڑے وقت میں کھانا کھایا جاتاہے اور لوگ بھگت جاتے ہیں-
اس دفعہ وہاں اس جلسہ میں تقریباً 31ملکوں کی نمائندگی ہوگئی اور امریکہ سے بھی تقریباً چار ہزارکے قریب احمدی مردوزن، بچے وغیرہ وہاں آئے ہوئے تھے اور امریکہ والے کہتے ہیں کہ ہماری جو تعداد جلسے پر ہوتی ہے شاید اس سے سو دو سو زائد ہی ہوں جو کینیڈا آگئے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی طرف سے بھی بہت بڑ ی حاضری تھی۔ بڑے اخلاص و وفا کا تعلق دکھایا اوروہاں شامل ہوئے۔ تو بہرحال انتظامی لحاظ سے بھی بہت اچھا انتظام تھا۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اور انتظامیہ کو جزا دے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی۔ جلسہ گاہ میں انتظامات اور ڈسپلن بھی ماشاء اللہ بہت اچھا تھا۔ تمام لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے اور جلسہ سنتے تھے اور بڑی سنجیدگی سے ماشاء اللہ سب نے جلسہ سنا اور یہی مقصد ہوتاہے ان جلسوں پر آنے کا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے اور انہیں بھی۔ اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو احمدیت کا جھنڈا بلند رکھنے کی توفیق دے۔ بہت سے غیر جن میں مختلف نگاہ سے تعلق رکھنے والے دوست بھی تھے ان کی تعداد شاید ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی، ان کا یہ اندازہ تھا جو انہوں نے مجھے بتایا۔ پھر ان میں اعلیٰ سرکاری افسران بھی تھے اور بعض وزراء بھی تھے۔ اور تمام لوگ جو جلسہ کے بعد مجھے ملے، انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا اور تعریف کی کہ ہم نے کبھی زندگی میں اتنے بڑے مجمع کو اتنامنظم نہیں دیکھا۔ یہ پہلی دفعہ آئے تھے لیکن باربار اس بات کا ذکر کرتے تھے۔ ایک وزیر نے تو یہ بھی کہا کہ دو باتوں نے مجھے بڑا حیران کیاہے کہ اتنا بڑا مجمع اور اتنا ڈسپلن زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ دوسرے اتنے زیاد ہ لوگ اور سب کا ایک جیسا تمہارے سے تعلق جو ان کے چہروں سے نظر آتا تھا، یہ بھی پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اور بھی اس طرح کے مختلف تبصرے تھے۔ بہر حال یہ تو تھے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے کہ غیروں کو بھی نظر آ رہے تھے بلکہ ان کو جو مذہب سے اتنی دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن اگر نظر نہیں آتے تھے تو ہمارے ان نام نہاد پاکستانی علماء کو نظر نہیں آتے جو اور تو کچھ نہیں کہہ سکتے ہر دوسرے چوتھے دن یہ بیان ضرور اخباروں میں چھپا دیتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ختم ہوئی کہ اب ختم ہوئی اور ان میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں-اصل میں تو ان لوگوں پرشیطان کا قبضہ ہو چکاہے،ان کی دین کی آنکھ تو رہی نہیں اس لئے اس کے علاوہ اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ بہرحال یہ لوگ جتنی مرضی چاہیں افواہیں پھیلا لیں یہ سلسلہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلے گا،پھولے گا اور بڑھے گا اور بڑھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ اوراب دنیا کی کوئی طاقت نہیں کہ آنحضرت ﷺکے عاشق صادق کے اس سلسلے کو بڑھنے سے روک سکے۔ اگر ٹکڑے ٹکڑے ہونا مقدرہے اوریقینا ہے تو ان علماء کاجو مسلم اُمّہ کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں-
پس یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم احمدی،عام مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی سیدھے راستہ پر لائے اور ان نام نہاد علماء کے چنگل سے انہیں نجات دلائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں