خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 17؍ستمبر 2004ء

آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں اورفسادوں کوختم کریں
تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو
(چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشوں اور لڑائی جھگڑوں سے احتراز اورصلح صفائی سے رہنے سے متعلق قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
17؍ستمبر2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن۔ لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِن بَغَتْ اِحْدٰ ھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُواالَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفیْٓء اِلٰٓی اَمْرِاللہِ۔ فَاِنْ فَآءتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا۔ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْااللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ- (سورۃ الحجرات آیات 11-10)

آجکل اخبار روزانہ ہی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ فلاں ملک میں یہ فساد ہو رہا ہے اور فلاں ملک میں وہ فساد ہو رہا ہے۔ لوگ آپس میں بھی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں- عدالتوں میں جاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے سوائے لڑائی جھگڑوں کے اور مقدمے بازیوں کے لوگوں کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں اور تقریباً سارے برصغیر میں عام مشہور ہے کہ زمیندار کے پاس جب تھوڑے سے پیسے آ جائیں یعنی کچھ فصل کی آمد ہو جائے، کیونکہ ویسے تو عموماً ہمارا زمیندار قرضوں کے بوجھ تلے ہی رہتا ہے بلکہ اکثر غریب ملکوں کے زمینداروں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ قرض لے کے پیدا ہوتا ہے اور قرضوں میں ہی زندگی گزارتا ہے اور قرض میں ہی مرتا ہے یعنی پچھلوں کے لئے بھی قرض چھوڑ کے جاتا ہے۔
تو بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے دیہاتی طبقے، چھوٹے زمینداروں بلکہ کسانوں میں بھی جب کسی کے پاس تھوڑا سا پیسہ آ جائے،کچھ رقم آ جائے تو یہ رقم عموماً لڑائیوں اور مقدمہ بازیوں میں خرچ کر دی جاتی ہے۔ زمین کے ایک ایک فٹ کے لئے فساد ہو رہا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ پھر ان پہ لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں- پھر قتل ہو جاتے ہیں- پھر مقدمے چلتے ہیں اور جتنی ان لوگوں کی کمائی ہوتی ہے وہ سب انہیں مقدموں اورلڑائیوں میں اور وکیلوں اور اپنے حمایتیوں کے اخراجات پورے کرنے کی نذر ہو جاتی ہے۔ پھر قرض لے کر مقدمے چل رہے ہوتے ہیں تو عموماً بہت سارے لوگ جو زمیندارہ خاندانوں میں سے آئے ہوئے ہیں ان کو پتہ ہے کہ کیا حالات ہو رہے ہوتے ہیں- یعنی صلح والی کوئی بات نہیں ہوتی۔ شہروں میں بھی یہی حال ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں- سارا زور ہے تو اپنی جھوٹی اَنا پر اور اس کے لئے برباد بھی ہو جائیں تو کوئی بات نہیں- اللہ کا خانہ تو ان لوگوں کا بالکل خالی ہے۔ اور مسلمانوں میں بھی عموماً یہ بہت ہے۔ پاکستان میں بھی دیکھیں اگر پوچھو آپ مسلمان ہیں، ہاں! الحمدللہ، ماشاء اللہ ہم مسلمان ہیں- لیکن مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے تعلیم پر عمل نہیں کرنا۔ اور پھر یہ حال تو ان کا ہونا تھا۔ اسی لئے ان کی اصلاح کے لئے امام مہدی نے بھی آنا تھا۔ یہی حال ملکوں اور قوموں کا ہے۔ ناجائز طور پر دوسرے ملکوں کو امن کے نام پر اپنے ماتحت کرتے ہیں،زیر نگیں کرتے ہیں- اپنی شرطوں پر ان کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں- صرف اس لئے کہ چھوٹے ملکوں کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں، ان کی دولت پر قبضہ کر سکیں- آج دنیامیں جو تمام فساد نظر آتا ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔ دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کے لئے یا معاشی فائدے اٹھانے کے لئے یا پیسہ کمانے کے لئے یہ سب فساد ہے۔ یا یہ کہہ لیں کہ دوسرے کی چیزپر نظررکھنے کی وجہ سے یہ ہے۔ دوسرے کے مال کو اپنا مال بنانے کی ہوس جو ہے اس کی وجہ سے یہ فساد ہے۔ اور یہ سب کچھ اس زمانے میں اس لئے بڑھ گیا ہے کہ جس ناجائز پیسہ کمانے کے طریق سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا وہ عام ہو گیا ہے۔ یعنی سود، اور اس کی بھی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ اگر کوئی بچنا بھی چاہے تو اس کو بھی پتہ نہیں لگتا کہ کس طرح بچا جائے۔ کسی نے قرض لیا ہے کہ سود ہے بھی اس میں کہ نہیں ہے۔ اور اس شیطانی چکر نے ان سب کو اس طرح گھیر لیاہے کہ سوائے مومن کے، تقویٰ پر چلنے والے کے، اس سے بچنا مشکل ہے۔ اور کچھ نہیں اگر کسی نے انفرادی طور پر قرض نہیں بھی لیا ہوا تو ملکوں نے، حکومتوں نے جو سود پر قرض لئے ہوتے ہیں اس نے ہی قوم کے ہر فرد کو زیر بار کیا ہوا ہے۔ آخر وہ سود قوم کے پیسے سے ہی اترنا ہے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اس وجہ سے،جو وجہ میں نے بیان کی ہے

ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّو َالْبَحْرِ (الروم:42)

کے نظارے نظر آئیں گے۔ یعنی ان نا لائقیوں، ان ہوسوں، ان چالاکیوں،سودی کاروباروں، اورلوگوں کے حقوق غصب کرنے کے طریقوں، اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے کی وجہ سے زمین میں بھی اور سمندر میں بھی فساد ہو گا۔ چنانچہ دیکھ لیں دنیا میں آجکل اسی طرح ہو رہا ہے۔ عموماً وجوہات یہی ہیں- لیکن اس زمانے میں مومنوں کو، زمانے کے امام کے ماننے والوں کو یہ نصیحت ہے کہ جب بھی ایسی صورت ہو تم نے اصلاح کی کوشش کرنی ہے، فریقین میں صلح و صفائی کروانے کی کوشش کرنی ہے۔ چاہے وہ گھریلو لیول (Level) پر میاں بیوی کے جھگڑے ہوں، چاہے وہ کاروباری جھگڑے ہوں، چاہے وہ جھوٹی انانیت کے جھگڑے ہوں، چاہے قوموں کے قوموں سے جھگڑے ہوں- قوموں کے بارے میں نہیں بلکہ آج کے خطبے میں میں چھوٹے لیول پر، معاشرے کے لیول پر، اس حوالے سے بات کروں گا۔ لیکن اگر قومیں بھی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں طریق سکھایا ہے اس کو اپنا لیں تو دنیا کے فساد ختم ہو سکتے ہیں، دنیا کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں- تبھی جو امن قائم کرنے والی تنظیمیں ہیں وہ امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں- تبھی یو این او (UNO) کامیاب ہو سکتی ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک علیحدہ مضمون ہے۔ اس وقت مَیں معاشرے کے لیول کی بات کر رہاہوں، اسی کے بارے میں کچھ بتاؤں گا۔
مومن کے لئے یہ حکم ہے کہ اوّل تو تم ان جھگڑوں سے بچو، اور اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ یہ لڑائی جھگڑے آپس میں ہونے لگیں تو دوسرے مومن مل بیٹھیں اور ان کی آپس میں صلح کروائیں- دونوں کو قائل کریں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں لڑنا اچھا نہیں ہے۔ کیوں اللہ تعالیٰ کے نافرمان بنتے ہو۔ آپس میں ایک دوسرے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے، ایک دوسرے سے بدلے لینے کا کسی کواختیار نہیں ہے۔ اگر سمجھانے سے وہ باز آ جائیں اور صلح اور صفائی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جوفیصلہ نہیں مانتا اس کو پھر فرمایا کہ سزا دو۔ اس کو معاشرے میں کوئی مقام نہ دو، اس کے ہمدرد نہ بنو۔
اب بعض جھگڑوں کے فیصلے کے لئے لوگ جماعتی طور پر بھی قضاء میں آ تے ہیں یا ثالثی کرواتے ہیں- اور جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو بعض ان میں سے فیصلہ ماننے سے انکار کرنے لگ جاتے ہیں- اور اس وجہ سے جب ان کو کوئی تعزیر ہوتی ہے، کوئی سزا ملتی ہے، کیونکہ جماعتی معاشرے کے اندر تو نظام جماعت کا فیصلہ نہ ماننے پر اظہار ناپسندیدگی ہو سکتا ہے۔ کوئی پولیس فورس تو جماعت کے پاس ہے نہیں- تو جب یہ سزا ملتی ہے تو فیصلہ نہ ماننے والوں کے عزیز یا دوست بجائے اس کے کہ ان پر دباؤ ڈالیں کہ برکت اسی میں ہے کہ فیصلہ مان لو، یہ کہنے کی بجائے ان کی ناجائز حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں- اس طرح کی ناجائز حمایت سے تو سزا یافتہ شخص کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس کو پتہ ہے میرا بھی ایک گروہ ہے میرے قریبی میرا برا نہیں مان رہے۔ میرا اٹھنا بیٹھنا جس معاشرے میں ہے اس میں اس چیز کو برائی نہیں سمجھا جا رہا تو پھر اصلاح نہیں ہوتی۔ یا ہوتی ہے تو بڑا لمبا عرصہ چلتا ہے۔ اس لحاظ سے اصلاح کے لئے حکم ہے تو پورے معاشرے کو حکم ہے کہ جب کسی کے خلاف تعزیر ہو تو پورا معاشرہ اس پہ دباؤ ڈالے، اس کی اصلاح کی کوشش کرے، نہ کہ ناجائز حمایت۔
تو فرمایا :ایسے لوگوں سے فیصلہ منوانے کے لئے ضروری ہے کہ ان پر دباؤ ڈالو۔ فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے جب اپیل کے بعدتمام حق ختم ہو گئے تو اب معاشرے کا کام ہے کہ فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے دباؤ ڈالے اور اگر معاشرہ صحیح طور پر دباؤ ڈال رہا ہو تو معاشرے کا دباؤ کوئی نہیں سہہ سکتا۔ تو چھوٹے معاشرے کی حد تک جماعت کے اندر جیسا کہ میں نے کہا اس حکم کی تعمیل کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ لڑو ان سے، تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان پر معاشرے کا دباؤ ڈالو۔ رشتہ داریوں کا دباؤ ڈالو، دوستیوں کا دباؤ ڈالو تو جب یہ دباؤ پڑ رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فیصلہ ماننے سے انکاری ہو جائے۔ اس طرح پورا معاشرہ نظام جماعت کی مدد کر رہا ہو گا۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ جب اس حکم کے تحت ایسا معاشرہ قائم ہو جائے گا تو ایک دو واقعات کے بعد ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرے گا۔ یہ لڑائیاں ہی نہیں ہوں گی،یہ فسادہی نہیں ہوں گے اور فتنے ہی نہیں ہوں گے جماعت کے اندر۔
پھر فرمایا کہ جب اس دباؤ کی وجہ سے دوسرا فریق صلح پر راضی ہو جائے، فیصلہ ماننے پر راضی ہو جائے تو پھر نہ ہی معاشرے کو، لوگوں کو، دوستوں کو، نہ ہی نظام جماعت کو کسی قسم کی اَنا کا مسئلہ بنانا چاہئے بلکہ انہیں شرائط پر جو فیصلہ میں طے کی گئی تھیں ان کی تنفیذ ہونی چاہئے۔ اور پھر ہر فریق کو یہ بھول جانا چاہئے کہ کوئی مسئلہ ہوا تھا۔ خاص طو رپر جس فریق کو حق ملنا ہے یا جن لوگوں نے تنفیذ کروانی ہے۔ پھر یہ نہیں کہ کچھ عرصے بعد اورتھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کو یا د کروایا جائے کہ تمہارے ساتھ یہ ہوا تھا، تمہاری تعزیر ہوئی تھی، تمہارے ساتھ فلاں ہوا تھا۔ پھر اس چیز کو بھول جائیں- پھر فیصلہ پر عمل کرنے والے کو معاشرے میں وہی مقام دیں جو ایک عام آدمی کا ہے، جو سب کا ہے۔ پھردوسرے فریق کوبھی یہ کہنا ہو گا، جس کا حق غصب کیا گیا جیساکہ میں نے کہا کہ اب کیونکہ تمہیں تمہارا حق مل گیاہے اس لئے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا شروع کر دو، دلوں کے کینے نکال دو۔ اگر اس طرح معاشرہ عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گا تو فرمایا پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے جو ایک مومن کو ملتی ہے۔
پھر اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ مومن بھائی بھائی ہیں- اُن کو معاشرے میں صلح و صفائی سے رہنا چاہئے اور اگر کبھی رنجش پیدا ہو بھی جائے تو صلح کروانے کے طریق کو اختیار کرو۔ تمام معاشرہ، ہر فرد جماعت ایک دوسرے کے حق کی حفاظت کرے اور اس کو حق دلوائے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے۔ اس سے تم اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے حقوق العباد ادا کرنے والے کہلاؤ گے اور جب یہ حالت تمہیں حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ جو اسی انتظار میں رہتا ہے کہ اپنے بندوں پر رحم کرے وہ پیارا خدا تم پر رحم کرے گا۔
اب میں چند احادیث پیش کرتا ہوں جس سے معاشرے کی اصلاح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت اُمّ کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:وہ شخص کذاب نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے کی غرض سے صرف اچھی بات ان تک پہنچاتا ہے یا کوئی بھلائی کی بات کہتا ہے۔ (بخاری کتاب الصلح۔ باب لیس کاذب الذی یصلح بین الناس)
یعنی وہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا جو اصلاح کی غرض سے صرف اچھی بات پہنچائے۔ بعض دفعہ دو آدمیوں میں تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے لیکن جب تعلق ایک دوسرے سے ٹھیک تھے توایک د وسرے کی اچھائیوں، برائیوں، نیکیوں اور بدیوں کا بھی پتہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی تیسرا شخص جس کا ان دونوں سے تعلق ہے وہ اگر کسی سے دوسرے کے بارے میں نیکی کی بات سنے تو دونوں میں صلح کروانے کی غرض سے اس نیکی کی بات کو ان تک پہنچائے اور سمجھائے کہ دیکھو فلاں نے، دوسرے آدمی نے تمہارے بارے میں مجھے فلاں وقت میں بتایا تھا کہ تمہارے اندر فلاں فلاں نیکیاں ہیں- اس کے دل میں تمہاری بڑی قدر ہے۔ اور جن باتوں پر تمہاری رنجشیں ہو چکی ہیں ان باتوں کو بھول جاؤ اور صلح صفائی کرو، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں- تو فرمایا کہ ایسا شخص کذّاب نہیں کہلائے گا۔ چاہے اس کے علم میں تھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کی برائیاں کی ہوتی ہیں وہ بھی اس کے علم میں آ جاتی ہیں لیکن کیونکہ صلح کروانے کی کوشش کرنی ہے اس لئے وہاں صرف اچھی باتیں جو کی ہوتی ہیں وہی بتاؤ۔ اور برائیاں بتانے کی ضرورت نہیں- فساد اور جھگڑے کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں- لیکن بعض ایسے فتنہ پرداز بھی ہوتے ہیں، تجربے میں آتے ہیں، باتوں کا مزا لینے کے لئے آپس میں دو اشخاص کو لڑا کر بھی بعضوں کو مزا آ رہا ہوتا ہے وہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کس طرح لڑتے ہیں اگر ایک سے دوسرے کے خلاف کوئی بات سنیں گے تو پھر اور اس کو مرچ مصالحہ لگا کر دوسرے کو بتاتے ہیں- تو ایسے لوگ فتنہ پردازتو ہیں ہی لیکن ساتھ جھوٹے بھی ہیں- اس لئے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ایک دوسرے کی نیک باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچانا چاہئے۔ فرمایا: اور مشورے بھی ہمیشہ بھلائی کے دو، ایسے مشورے دو جو صلح کے مشورے ہوں، نیکی اور خیر کے مشورے ہوں اور جھوٹے کے بارے میں تو یہی ہے ایک تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، پھر اور بھی بہت ساری سزائیں ہیں-
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر اس دن میں جس پر سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر عضو پر صدقہ ہے۔ اگر تو دو بندوں کے درمیان عدل کرتا ہے تو یہ صدقہ ہے۔ اگر کسی شخص کو اس کی سواری پر سوار کرنے میں مدد کرتا ہے یا اس کا سامان اس پر لادنے میں مدد کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات بھی صدقہ ہے۔ اور ہر قدم جو تُو نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے اٹھاتا ہے صدقہ ہے۔ اور اگر تو رستہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیر۔ با ب من اخذ بالرکاب ونحوہ)
تو یہاں اچھی بات کہنے کا، بھلائی کی بات کہنے کا، صلح صفائی کی بات کہنے کا بھی وہی ثواب وہی درجہ رکھا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف جانے والے کی حرکتوں کا ہے۔ دوسرے یہاں یہ بھی پتہ لگ گیا کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے والے، ان کے حقوق ادا کرنے والے، ایسے حقوق کی ادائیگی کرنے والے لوگوں کو ان کی نیکیوں کا بھی اتنا ثواب ملے گا جتنا عبادت کرنے کا ثواب ہے،جتنا نماز پڑھنے کا ثواب ہے۔ یعنی یہ دونوں چیزیں جیسا کہ کئی دفعہ ذکر ہو چکا ہے اور سب کو علم ہے کہ اللہ کے حقوق بھی، بندوں کے حقوق بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں-
پھر فرمایا کیونکہ صدقہ ہے اس لئے اس کا ثواب بھی یقینا صدقے کی طرح ہو گا۔ اور ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ صدقے کا ثواب سات سو گنا تک ہوجاتا ہے۔ تو یہ ہے بھلائی کی بات کہنے والے کا، صلح صفائی کروانے والے کا مقام۔
پھر حضرت ابو عباس سہلؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ساتھیوں کے ساتھ ان کی صلح کروانے کے لئے تشریف لے گئے۔ اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دیر ہو گئی۔ اور نماز کا وقت ہوگیا۔ چنانچہ حضرت بلالؓ، حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں صلح کروانے کے لئے گئے تھے وہاں دیر ہو گئی ہے جبکہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو میں نماز پڑھا دیتا ہوں-(بخاری کتاب الاذان۔ باب ما دخل لیؤم الناس فجاء الامام)
حدیث میں جو اصل مضمون ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ترجیح دی کہ کچھ دیر رک جائیں اورفریقین میں صلح صفائی کروا دیں- نماز جو باجماعت ہونی تھی وہ بعد میں پڑھ لیں گے۔ ظاہر ہے اس وقت نماز کا کچھ وقت ہو گا تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ٹھیک ہے کچھ لوگ بعد میں پڑھ لیں گے، پڑھا دی جائے۔ لیکن اس وقت مقدم یہی ہے کہ دو مسلمان جو لڑے ہوئے ہیں ان کی صلح صفائی کروائی جائے۔ پھر لڑائی جھگڑوں میں کئی کئی مہینے بلکہ سالوں ناراضگیاں چلتی ہیں- لیکن ایک مومن کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو صلح کرنے میں جلدی کرنی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ (بخاری کتاب الادب) یعنی بول چال بند رکھے۔ بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے یہ باتیں سن کر کہ قریبی رشتہ دار آپس میں بعض دفعہ مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور جس بات پر لڑائی یا رنجش ہو وہ بالکل معمولی سی بات ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہمیشہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے رکھنا چاہئے کہ اول تو لڑنا ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی لڑائی ہو بھی گئی ہے، کوئی وجہ بن بھی گئی ہے تو تین دن سے زیادہ حکم نہیں ہے کہ کوئی مومن دوسرے مومن سے بات نہ کرے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو۔ (بخاری کتاب الادب)
یعنی اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ تقویٰ اختیار کرے اور خداتعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے۔ آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں اور فسادوں کو ختم کریں- مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایمان لانے کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اپنے بھائی کے گناہ نہ بخشتا ہو، اس کی غلطیاں نہ معاف کر سکتا ہو۔ کیونکہ فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ترین شخص ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں ہم سے کیا چاہتے ہیں- آپؑ وہی چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے، فرماتے ہیں کہ:’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے۔ اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں ہے۔ وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ12)
خدا کرے کہ ہم آپس میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجشیں ہیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں ان کو جلد ختم کرنے والے ہوں، ہر کوئی جلد صلح کی طرف بڑھنے والا ہو۔ یہ بڑا سخت انذار ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ کہ وہ کاٹا جائے گا۔ خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی کاٹا جائے۔ پس استغفار کریں اور ہر احمدی کو بہت زیادہ استغفارکرنا چاہئے۔ اور یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے کہ

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ (آل عمران :۹)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’میں صلح کو پسند کرتا ہوں اور جب صلح ہو جاوے پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے کیا کہا اور کیا کیا‘‘۔ یعنی جب کسی سے لڑائی ہوئی اور پھر صلح ہوئی تو پھر دوبارہ جس سے صلح ہو گئی ہے اس کے پاس ذکر نہیں ہونا چاہئے کہ اس نے کیا کہا۔ یا کیا کیا۔ ’’مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجّال اور کذّاب کہا ہو اور میری مخالفت میں ہر طرح کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آ سکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ ہاں خدا تعالیٰ کی عزت کو ہاتھ سے نہ دے۔ یہ سچی بات ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اس کو کینہ ور نہیں ہونا چاہئے۔ اگر وہ کینہ ور ہو تو دوسروں کو اس کے وجود سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ جہاں ذرا اس کے نفس اور خیال کے خلاف ایک امر واقع ہواوہ انتقام لینے کو آمادہ ہو گیا۔ اسے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر ہزاروں نشتروں سے بھی مارا جاوے پھر بھی پرواہ نہ کرے‘‘۔
فرمایا کہ:’’میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو۔ ایک خداتعالیٰ سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو۔ اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہو جاوے تو اسے معاف کرنا چاہئے۔ نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنا لی جائے‘‘۔ (ملفوظات جلد5 صفحہ69 جدید ایڈیشن)۔ بہت سی لڑائیاں صرف اس لئے چل رہی ہوتی ہیں کہ دلوں کے کینے دور نہیں ہوتے۔ پس صلح کرنے کی ضرورت ہے، دلوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہر ایک کو کینوں سے اپنے آپ کو صاف کرنا چاہئے۔
فرمایا کہ یہ تبھی ہو سکتا ہے تبھی ممکن ہے کہ اپنے بھائیوں سے اسی طرح ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو۔ ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے بھی اسی طرح سوچو جس طرح اپنے حقوق لینے کے لئے سوچتے ہو۔ تو یہ پاک معاشرہ جب قائم ہو گا تو لڑائیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور صلح کی بنیادیں بھی پڑ جائیں گی بلکہ صرف صلح ہی صلح ہو گی۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’آپس میں صلح کاری اختیار کرو۔ صلح میں خیر ہے۔ جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ۔ خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں- اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں’‘۔ یعنی بڑے وقار سے سلام کہہ کر ان سے الگ ہو جاتے ہیں-’’اور ادنیٰ ادنیٰ بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پر دازی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اور صلح کاری کے محل شناس کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو خیال میں نہ لاویں- اور معاف فرماویں ……۔ صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بے ہودہ ایذا سے چشم پوشی فرماویں’‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ349)
تو جیسا کہ مَیں پہلے بھی خطبوں میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، آپؑ نے یہاں بھی فرمایا کہ لغویات سے پرہیز کرو گے تو صلح کی بنیاد پڑے گی۔ کیونکہ یہ لغویات جو ہیں، یہ گناہ کی باتیں جو ہیں یہی باتیں ہیں جو صلح سے دُور کرتی ہیں اور لڑائیوں کے قریب لاتی ہیں-
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’تیسری قسم ترک شر کی اخلاق میں سے وہ قسم ہے کہ جس کو عربی میں ھُد نہ اور ہَوْن کہتے ہیں یعنی دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔ پس بلاشبہ صلح کاری اعلیٰ درجہ کا خلق ہے اور انسانیت کے لئے از بس ضروری۔ اور اس خلق کے مناسب حال طبعی قوت جو بچہ میں ہوتی ہے جس کی تعدیل سے یہ خُلق بنتا ہے الفت ہے یعنی خوگرفتگی ہے’‘۔ یعنی کہ بچے میں یہ صفت ہوتی ہے۔ آپ بچوں کو دیکھ لیں، آپس میں جب لڑتے بھی ہیں تو فوراً صلح میں بھی آجاتے ہیں- اور ان کے دلوں میں کینے بھی نہیں رہتے۔ تو جب آپ اس کو سنوارتے ہیں مزید بہتر ہوتی ہے، صیقل ہوتی ہے۔ ا س عادت کو مزید ٹھیک کرتے ہیں یا اس عادت کو پختہ کرتے ہیں اور جب عادی ہو جاتے ہیں تو یہ خُلق بن جاتا ہے۔ فرمایا :’’یہ تو ظاہر ہے کہ انسان صرف طبعی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ جب انسان عقل سے بے بہرہ ہو صلح کے مضمون کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ جنگ جوئی کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے۔ پس اس وقت ایک عادت موافقت کی اس میں پائی جاتی ہے وہی صلح کاری کی عادت کی جڑ ہے۔ لیکن چونکہ وہ عقل اور تدبر اور خاص ارادہ سے تیار نہیں کی جاتی اس لئے خُلق میں داخل نہیں- بلکہ خُلق میں تب داخل ہو گی کہ جب انسان بالارادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خُلق کو اپنے محل پر استعمال کرے۔ اور بے محل استعمال کرنے سے مجتنب رہے۔ اس میں اللہ جلشانہ یہ تعلیم فرماتا ہے

وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ (الانفال:2) وَالصُّلْحُ خَیْرٌ (النسآء:129)، وَاِنْ جَنَحُوْا لِلْسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال:62)۔ وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان:64)، وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (الفرقان:73)۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حٰمٓ السجدۃ:35)

یعنی آپس میں صلح کاری اختیار کرو۔ صلح میں خیر ہے۔ جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ۔ خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو توبزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں’‘ یعنی بچ کر نکل جاتے ہیں ’’اور ادنیٰ ادنیٰ بات پر لڑنا نہیں شروع کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اور صلح کاری کے محل شناس کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو خیال میں نہ لاویں اور معاف فرما ویں-اور لغو کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے بہ نیّت ایذا ایسا فعل اس سے صادر ہو‘‘ یعنی اس نیت سے کہ کسی کو تکلیف پہنچانی ہے، ایسا کام کرے۔ ‘’کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا‘‘۔ کہ ایسا فعل بے شک اس سے ہو جائے لیکن اس سے کچھ نقصان نہ پہنچتا ہو۔ یا صرف باتیں کر رہا ہو تو اس کو بخش دینا چاہئے۔ فرمایا:’’سوصلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایذا سے چشم پوشی فرماویں’‘۔ اگر اس طرح کی باتیں ہیں کہ کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا تو اس سے چشم پوشی کرنی چاہئے۔ اس کو معاف کر دینا چاہئے۔ ’’اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں’‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ349-348)
پھر آپؑ نے فرمایا:’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصّہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اور آپس میں لڑجھگڑ پڑتے ہیں- ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے اور دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہو ا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں- خداتعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں کوئی ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے‘‘۔ (ملفوظات جلد4 صفحہ99۔ جدیدایڈیشن)
پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اس معیار پر پورا اتر رہا ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے امید رکھ رہے ہیں- نہ یہ کہ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں، ایک دوسرے سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی طرف نظر ہی نہ ہو۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں- دلوں کو پاک کر یں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں- زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا۔ اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی زیادہ دوڑا کر دکھلا دیا ہے۔ ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں- سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ۔ اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتداء سے وعدہ تھا۔ خدا ان قصوں کو بہت لمبانہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دُور دُور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا‘‘۔ (روحانی خزائن جلد17 صفحہ16-15)
پس ہمیں چاہئے کہ ہم سب ان نصائح پر عمل کرنے والے ہوں- یہ جھگڑے، لڑائیاں اور فساد انفرادی ہوں، گروہی ہوں، یا ملکی ہوں، ان کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خد اکے سوا اس دنیا کی مادی چیزوں کو خدا بنایا ہوا ہے۔ پس آج ہر احمدی کو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے، یہ بھی عہد کرنا چاہئے کہ دنیا میں صلح کاری کی بنیاد ڈالنے کے لئے آپس میں صلح کو رواج دینے کے لئے اِن دنیاوی خداؤں کو بھی توڑنا ہو گا اور اِسی میں ہماری بقا ہے، اسی میں ہماری زندگی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں دعا سکھائی ہے۔ اس کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ ہدایت کے بعد ہمارے دل کہیں ٹیڑھے نہ ہو جائیں، یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔ پس اللہ سے فضل مانگتے رہیں، اس سے رحم مانگتے رہیں، اس کے حکموں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور پھر جیسا کہ فرمایا اللہ کے فیصلوں کا انتظار کریں- دیکھیں کس طرح خداتعالیٰ آتا ہے۔ اب آخری اقتباس پڑھتا ہوں-
آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پس اٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا۔ لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے۔ تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا۔ سو اپنے خدا کو جلدی راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے…… تم خدا سے صلح کرلو۔ وہ نہایت درجہ کریم ہے۔ ایک دم کے گداز کرنے والی توبہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے۔ اور یہ مت کہو کہ توبہ منظور نہیں ہوتی‘‘۔ یہ ستر برس کے گناہ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے۔ ’’یاد رکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال۔ اے خدائے کریم و رحیم ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں’‘۔ (لیکچرلاہورصفحہ39)۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں