خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ یکم اکتوبر 2004ء

برمنگھم میں جماعت احمدیہ کی مسجد کا بابرکت افتتاح
اس مسجد کے افتتاح کے دن سے یہ بھی عہد کریں کہ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں گے اور اس مسجد سے ہمیشہ امن اور سلامتی کا پیغام دنیا کو پہنچاتے رہیں گے
نمازوں کے قیام ودرس کی اہمیت کے بارہ میں قرآن وحدیث اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے تاکیدی نصائح
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
یکم؍ اکتوبر2004ء بمقام ‘’مسجد دارالبرکات‘‘ برمنگھم۔ (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکرِ۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (سورۃ الحج آیت 42:)

الحمدللہ کہ آج جماعت احمدیہ برطانیہ کی یہ مسجد جسے برمنگھم کی جماعت نے بہت بڑا حصہ قربانی کادے کر تعمیر کیا ہے، اس کی تکمیل ہونے پر افتتاح ہو رہا ہے۔ اس مسجد کی اور برمنگھم جماعت کی بیک گراؤنڈ (Back ground)کے بارے میں مختصر تاریخ،چند ایک پوائنٹ بتا د یتا ہوں-
یہاں 1960ء میں جماعت قائم ہوئی تھی جو صرف پانچ افراد پر مشتمل تھی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے وقت میں 1980ء میں یہاں پہلا مشن ہاؤس خریدا گیا اور اس کا نام حضور رحمہ اللہ نے بیت البرکات تجویز فرمایا اور پھر اس کے بعد اللہ کے فضل سے جماعت بڑھنی شروع ہوئی تو 1993ء میں مسجد کے لئے نئی جگہ کی تلاش بھی شروع ہوئی اور 1994ء میں برمنگھم کونسل نے یہ جگہ مارکیٹ میں فروخت کے لئے رکھی تو جماعت نے رابطہ کیا اور اکتوبر میں بڑی برائے نام قیمت پر یہ جگہ مل گئی۔ (حضور انور نے مکرم امیر صاحب برطانیہ کو مخاطب کرکے استفسار فرمایا کہ یہ جگہ برائے نام قیمت پر ہی ملی تھی؟) اور یہ ایک خستہ حال سکول کی عمارت تھی۔ گورنمنٹ کے کاغذات میں ویسے لسٹڈ (Listed)بلڈنگ تھی، خود چاہے لسٹڈ بلڈنگ کا حال برا کر دیں لیکن جب کوئی لے لے تو کہتے ہیں کہ اس کو پوری طرح Maintainکیا جائے۔ بہرحال شرط انہوں نے یہی لگائی تھی کہ اس کو خوبصورت بنایا جائے گا۔ یہ جو میں نے برائے نام قیمت بتائی ہے یہ 200پاؤنڈ تھی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1996ء میں یہاں آکر اس جگہ کا معائنہ کیا، یہ جگہ پسند آئی۔ یہ تقریباً پونے دو ایکڑ یعنی 1.75ایکڑز (31ہزار مربع فٹ) اس کا رقبہ ہے بہت سارا خرچ والنیٹیئرز نے وقار عمل کرکے بچایا ہے، میرا اندازہ ہے کہ جتنا خرچ ہوا ہے اس سے تقریباً ڈیوڑھا اور ہو گا۔ یہ خرچ تقریباً 1.6ملین (16لاکھ) پاؤنڈ خرچ ہوا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ برمنگھم جماعت کو اس مسجد کے بنانے میں مالی قربانی کا بہت بڑا حصہ ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور عمومی طور پر یو۔ کے کی جماعت نے بھی کافی مدد کی ہے اللہ ان سب کو جزا دے۔ اس کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر فاروق صاحب اور ناصر خان صاحب نائب امیر نے بڑی محنت سے کام کیا۔ اسی طرح وہی ٹیم جو بیت الفتوح میں کام کرتی رہی، والینٹیئرز کی اور ورکرز کی بھی انہوں نے بھی یہاں آ کر کام کیا۔ اللہ سب کو جزا دے۔ یہ سب لوگ جنہوں نے مالی قربانیاں بھی کیں، وقت بھی دیا، انہوں نے جماعتی روایات کو قائم رکھا، زندہ رکھا، خدا کرے کہ یہ آئندہ بھی ان روایات کو زندہ رکھنے والے رہیں-
لیکن یاد رکھیں کہ یہ سب جنہوں نے قربانیاں کیں، جس قربانی کے جذبے سے آپ نے یہ مسجد تعمیر کی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے جس جذبے کے تحت آپ نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے وہ جذبہ ماند نہیں پڑ جانا چاہئے، ختم نہیں ہو جانا چاہئے۔ آپ کا اصل جذبہ اس عمارت کی تعمیر کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے والوں کے لئے، اکٹھے ہو کر اس کی عبادت کرنے والوں کے لئے ایک جگہ بنانا تھا جو اللہ تعالیٰ کا گھر کہلائے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں تھا کہ لوگ ایک ایسی جگہ میں اکٹھے ہوں اور وہاں اکٹھے ہو کر باجماعت نمازیں ادا کرنے والے ہوں،عبادت کرنے والے ہوں، ایک امام کی آواز کے ساتھ کھڑے ہوں اور بیٹھنے والے ہوں،رکوع کریں اور سجدہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا جونعرہ لگاتے ہیں اپنے عملوں سے بھی اس کا اظہار کریں کہ اے اللہ! ہم ایک ہیں- مسجد بنا کر نماز پڑھتے وقت بھی ہم ایک ہیں- اور ہم ایک ہیں مسجدوں سے باہر آ کر بھی۔ اس لئے کہ تیرا حکم ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں- ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اے اللہ ! تیری وحدانیت کو قائم کرنے کے لئے آنے والے تیرے امام کو بھی پہچانا ہے۔ اور پھر توُ نے اے اللہ! اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں اس امام الزمان کے بعد خلافت کے ذریعہ سے مضبوط کیا ہے، ہمیں ایک رکھا ہے اور ہمیں تمکنت عطا فرمائی ہے، ہمیں مضبوطی عطا فرمائی ہے۔ ہم یہ دعا کرتے ہیں اور تجھ سے تیرا فضل مانگتے ہوئے، تجھ سے اس بات کے طالب ہیں کہ یہ انعام جو تو نے ہم پر کیا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھ۔ اور اے اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار اور عبادت گزار بندے بنے رہیں- اور تیری وحدانیت کو قائم کرنے کے لئے اور تیری عبادت کرنے کے لئے جو مسجد ہم نے بنائی ہے اسے ہم ہمیشہ آباد رکھیں ہمیں ہمیشہ اسے آباد رکھنے کی توفیق دے۔
تو جب اس طرح دعائیں اور عمل ہو رہے ہوں گے تو پھر دیکھیں کہ خداتعالیٰ کس طرح آپ کے خوف کو ہمیشہ امن میں بدلتا چلا جائے گا۔ پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہمیں جو کچھ ملنا ہے اور ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ملا ہے۔ اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے، اس کی عبادت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور نیکیوں کو دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ جب تمہیں تمکنت مل گئی پھر تمہاری ترجیحات بدل نہیں جانی چاہئیں- (میں ترجمہ نہیں کر رہا مفہوم بیان کر رہا ہوں وضاحت سے) بلکہ تمہیں نمازوں کی طرف بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہو گی تاکہ اللہ کے عبادت گزار بندے بنو اور اس کے فضلوں کو مزید حاصل کرو۔ اور تمہاری نسلیں بھی ان فضلوں کو حاصل کریں تاکہ تمہاری یہ مضبوطی،یہ تمکنت قائم رہے۔ ایک خدا کے آگے جھکنے والے، اس کی وحدانیت قائم کرنے والے بنے رہیں- سورۃ نور میں، آیت استخلاف جسے ہم کہتے ہیں، اس میں بھی یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ خلافت عطافرمائی تاکہ تم میں مضبوطی قائم رہے۔ آئندہ بھی یہ انعام ملتا رہے گا انشاء اللہ، لیکن ان کو ملتا رہے گا جو میری عبادت کریں گے۔ فرمایا

یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا (النور :55)

یعنی یہ انعام میری اس طرح عبادت کرنے والوں کے لئے ہے جو عبادت کا حق ہے کسی بھی لحاظ سے شرک کرنے والے نہ ہوں، چھپا ہوا شرک بھی ان میں نہ پایا جاتاہو۔ ایسے عبادت کرنے والوں کو انعام ملتا رہے گا۔ جب نماز کا وقت ہو تو تمام کاروبار بند کرکے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو۔ تمہارے کاروبار، تمہاری خواہشات تمہاری ذمہ داریاں تمہیں اس شرک پر آمادہ نہ کریں- یہ بھی چھپا ہوا ایک شرک ہے۔ تمہیں یہ خیال نہ آ جائے کہ اس وقت تو کام کا وقت ہے۔ اس وقت تو کاروبار کا وقت ہے۔ اگرمیں نے تھوڑی دیر کے لئے بھی چھٹی کی تو میرا نقصان ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ تو اپنے کاروباروں کو میرے مقابلے میں بت بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں ان میں کس طرح مضبوطی آ سکتی ہے۔
پھر کسی نے اولاد کو بت بنایا ہوا ہے۔ پھر اور اس طرح بے شمار چیزیں ہیں- تو یہ سب بت توڑنے ہوں گے۔ ہلکے سے ہلکے شرک سے بھی بچنا ہو گا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہو گی۔ مسجد کو نمازیوں سے بھرنے کی کوشش کرو گے تو آج جو تم ایک مسجد پر خوش ہو رہے ہو، اللہ تعالیٰ ایسی ہزاروں مسجدیں تمہیں عطا فرمائے گا۔ لیکن شرط یہی ہے کہ مسجدوں کو نمازیوں سے بھرو۔ آیت استخلاف سے اگلی آیت میں بھی یہی حکم ہے کہ نماز قائم کرو، نماز باجماعت پڑھو۔ غرض مومن وہی ہے، اللہ تعالیٰ کے انعام پانے والے وہی ہیں، خلافت سے وابستہ رہنے والے وہی ہیں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم رکھنے والے وہی ہیں جو مسجدوں کو آباد رکھیں-
پھرمَیں نے جوآیت تلاوت کی ہے اس میں یہ بھی حکم ہے کہ تمہاری یہ مضبوطی جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اس وقت تک قائم رہے گی اور بڑھتی چلی جائے گی جب تک کہ تم زکوٰۃ دینے والے بھی ہو گے، مالی قربانی کرنے والے بھی ہو گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ خصوصیت من حیث الجماعت بہت ہے۔ اس کے نظارے ہم روز دیکھتے ہیں- پھر فرمایا کہ اچھی باتوں کا حکم دینے والے ان کو پھیلانے والے اور بری باتوں سے روکنے والے ہو۔ تو جن میں یہ سب خصوصیات ہوں گی اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہو گی، اس کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں گے اور بندوں کے حق ادا کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہو گی اور نیکیوں کو قائم کرنے اوربرائیوں کو روکنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو گی تو جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پھر انعامات کی بارش بھی ہوتی رہے گی۔ پھر فرمایا کہ یاد رکھو کہ ہر بات کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومن کو قرآن کریم میں جوبے شمار مرتبہ نماز قائم کرنے کے لئے حکم دیا ہے، نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس پر مستقل عمل کرتے چلے جانا اور دوسری نیکیاں بھی ساتھ ساتھ بجا لانا۔ تو پھران انعاموں کے وارث ٹھہرو گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کئے ہیں-
پس ہر احمدی ہر وقت اپنے دل کو ٹٹولتا رہے کہ اس کے دل میں کوئی مخفی شرک تو نہیں پیدا ہو رہا؟، اس کی مالی قربانیاں بھی خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہی تھیں اور کسی نام ونمود کے لئے تو نہیں تھیں ؟، اس کی عبادتیں بھی خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہی تھیں اور ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں اور اس کے خوف اور خشیت کی وجہ سے ہیں تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نمازوں میں مسجدوں میں حاضری کم ہو۔ اگر ظہر عصر کی حاضری کم ہے اپنے اپنے کاموں میں دور ہونے کی وجہ سے مسجد میں اکٹھے نہیں ہو سکتے تو مغرب عشاء اور فجر کی حاضری تو انتہا تک پہنچنی چاہئے۔ امیر صاحب کہہ رہے تھے کہ ہمارا خیال ہے اگلے دس پندرہ سال کے لئے یہ مسجد ہمارے لئے کافی ہے۔ میں نے ان کو کہا ایک تو اگر سارے نمازی آنے شروع ہوں تو یہ مسجد کافی نہیں ہے۔ دوسرے کیا خیال ہے آپ کا دس پندرہ سال تک آپ نے دعوت الی اللہ نہیں کرنی؟ اپنی تعداد کو نہیں بڑھانا؟
پھر یہ بھی ذکر کردوں جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ اس آیت میں آیا ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیں گے۔ اس لئے اس مسجد کے افتتاح کے دن سے یہ بھی عہد کریں کہ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں گے، تمام رنجشیں دور کریں گے۔ اور اس مسجد سے ہمیشہ امن اور سلامتی کا پیغام دنیا کو پہنچاتے رہیں گے۔ اور پھر اس نیت سے مسجد میں آ کر دعا بھی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ذاتی دعائیں بھی قبول فرمائے گا اور جماعتی مضبوطی بھی عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ پھر صرف یہی نہیں کہ خود ہی مسجد میں آنا ہے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی مسجد میں لانا ہے اور ان کا بھی مسجد سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ ان کو بھی ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کروانی ہے۔ ان کی بھی اس نہج پہ تربیت کرنی ہے کہ ان کو بھی احساس ہو کہ ان کا اوڑھنا بچھونا نمازوں میں ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں ہے۔ اس معاشرے میں جہاں وہ رہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کی تربیت کرنی ہو گی،ان کو برے بھلے کی تمیز سکھانی ہو گی۔
اگر اپنے گھر سے ہی نیکیوں کو پھیلانے اور نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر تو کامیابی ہوگی۔ اگر نہیں کریں گے تو اس کا باہر بھی کوئی اثر نہیں ہو گا۔ کوئی دعوت الی اللہ بھی کارگر نہیں ہو گی۔ اگر ہر عہدیدار خواہ وہ جماعتی عہدیدار ہو یا ذیلی تنظیموں انصار،خدام یا لجنہ کے عہدیدار ہوں-ان نیکیوں اور عبادتوں کو اپنے گھروں میں رائج نہیں کریں گے تو باہر بھی کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ انقلاب لانے والے پہلے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں- وہی قوم ترقی کرتی ہے جن کے لیڈروں کے اپنے نمونے اعلیٰ ہوں، جن کے عہدیدار خود مثالیں قائم کرنے والے بنیں- پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کے ہر فرد پر، ہر بچے پر، ہر بڑے پر، ہر عہدیدار پر کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرتے ہوئے پاک نمونے دکھائیں- عبادتوں کے معیار قائم رکھیں تاکہ سب سے بڑی نعمت جو خلافت کی نعمت ہے وہ آپ میں ہمیشہ قائم رہے۔
نمازوں کی اہمیت کے بار ے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر تاکید فرمائی ہے اور ڈرا کر بھی اور جزا کے لالچ کے ساتھ بھی اس طرف توجہ دلائی ہے، اس کے بارے میں چند روایات سناتا ہوں-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے۔ (ترمذی کتاب الایمان۔ باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ)
دیکھیں کس قدر سخت ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے، ایمان لانے والا وہ ہے جو نمازوں میں باقاعدہ ہے ورنہ اس میں اور کافر میں کوئی فرق نہیں- اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندوں سے نرمی کے سلوک کرنے کے لئے کئی سہولتیں دی ہوئی ہیں اگر پھر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا تو پھر یہ بدقسمتی ہے اور انتہائی بھیانک انجام ہے جو اس حدیث میں بتایا گیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس سلسلے میں کبھی کبھار اگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو درگزر فرمانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب عزوجل فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھو کیا اس نے اس کو مکمل طور پر ادا کیا تھا یا نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ پس اگر اس کی نماز مکمل ہو گی تو اس کے نامہ اعمال میں مکمل نماز لکھی جائے گی۔ اور اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہو گی تو فرمائے گا دیکھیں کیا میرے بندے نے کوئی نفلی عبادت کی ہوئی ہے۔ پس اگر اس نے کوئی نفلی عبادت کی ہو گی تو فرمائے گا کہ میرے بندے کی فرض نماز میں جو کمی رہ گئی تھی وہ اس کے نفل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا اسی طرح مواخذہ کیا جائے گا۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب قول النبی ﷺ کل صلوٰۃ لایتمھا صاحبھا تتم من تطوع)
اللہ تعالیٰ کی نظر میں نماز پڑھنے والے کی کتنی قدر ہے۔ ظاہر ہے جو باقاعدہ نمازی ہوں گے انہیں ہی نفلوں کی طرف توجہ ہو گی، وہی نفل پڑھنے والے بھی ہوں گے۔ تو فرمایا کہ اگر ایسے لوگوں کی فرض نمازوں میں کوئی کمی رہ جائے تو یہ نفلوں سے پوری کر دو۔ کیونکہ جسے نفلوں کی عادت ہے وہ فرض یقینا جان بوجھ کر نہیں چھوڑ سکتا۔ کوئی عذر ہو گا تو وہ نماز میں نہیں آ سکے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ذرا غور کریں کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزرتی ہو وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہ جائے گی؟ صحابہؓ نے عرض کی اس کی میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے۔ (بخار ی کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوٰت الخمس کفارۃ)
اب یہ حدیث عموماً بہت سارے لوگوں نے سنی ہو گی، ذہن میں ہوتی ہے۔ اگر کہیں حوالہ دینا ہو تو پیش بھی کر دیتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم ہو رہا ہوتاہے۔ اس لئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے، ان کو دوہراتے رہنا چاہئے۔ اب کون ہے دنیا میں جسے ذرا سا بھی خدا کا خوف ہو اور وہ یہ کہے کہ میں خطاکار نہیں ہوں یا میرے اندر کمزوریاں نہیں ہیں- تو مومن کے لئے خوشخبری ہے کہ تمہاری یہ ساری خطائیں، کمزوریاں، غلطیاں معاف ہو سکتی ہیں، دور ہو سکتی ہیں بشرطیکہ نمازیں باقاعدہ ادا کرنے والے ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’نماز اصل میں دعا ہے۔ نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے۔ کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتاہوں (یعنی آواز دے رہا ہے) مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں- میں بہت رحم کرتا ہوں، بے کسوں کی امداد کرتا ہوں- لیکن ایک شخص جو مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا، نہ اپنی مشکل کا بیان کرکے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہو گا۔ یہی حال خداتعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے۔ قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 54 جدید ایڈیشن)
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ باجماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے اکیلے نماز پڑھنے سے 25گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ اور مزید فرمایا اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں- ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ 27گنا زیادہ افضل ہے۔ (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر باجماعت نماز پڑھنے کو بہرحال فوقیت دی ہے، افضل ٹھہرایا ہے۔ اور پھر آگے فجر کی نمازکی اہمیت بھی واضح فرمائی کہ اس پر جب تم نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے آؤ گے تو استقبال کرنے والے تمہارے لئے دعائیں کرنے والے فرشتوں کی تعداد بھی وہاں دوسری نمازوں کی نسبت زیادہ ہو گی۔ جانے والے فرشتے بھی یہ کہہ رہے ہوں گے کہ اس کی نیکیاں شمار کرتا جاؤں کہ نماز میں آ رہا ہے اور آنے والے بھی یہ کہتے ہیں کہ نیکیاں شمار کر لو کہ نماز میں آیا ہے۔ تو فجرکی نماز کا تو کئی گنا زیادہ ثواب ہے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ان شرائط پر کی کہ میں نماز قائم کروں گا، زکوٰۃ ادا کروں گا، ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا اور یہ کہ مشرکوں سے تعلقات نہ رکھوں گا۔ (سنن نسائی کتاب البیعۃ۔ باب البیعۃ علی فراق المشرک)
اب یہ مشرکوں سے تعلقات نہ رکھنے کی شرط بھی اس لئے ہے کہ زیادہ دوستیاں ایسے لوگوں سے جن کو خدائے واحد پر یقین نہ ہو، کم علم والے میں، خدا سے دوری کا باعث بن سکتی ہیں- ایسی باتیں اس کی عبادت سے دور لے جا سکتی ہیں- خاص طور پر نوجوانوں کو اپنے ماحول کا جائزہ لینا چاہئے، اپنے دوستوں کا جائزہ لینا چاہئے، کہیں کوئی خاموشی سے، غیر محسوس طریقے سے آپ کو اپنے زیر اثر تو نہیں کر رہا۔ خدا کی عبادت کا جو مقصد ہے اس سے دور تو نہیں کر رہا۔ اور آپ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا جومقصد ہے اس سے دور تو نہیں کر رہا۔ وہ یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب لایا جائے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم یقینا مَیں تجھ سے محبت رکھتا ہوں- پھر آپؐ نے فرمایا اے معاذ! مَیں تجھے وصیت کرتاہوں کہ تم ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا،

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔

کہ اے اللہ تو مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیرا ذکر،تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں- (سنن ابی داؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب ما جاء فی الاستغفار)
دیکھیں کیا پیارا انداز ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانے کا۔ اور پھر جب انسان خدا سے اس طرح دعا مانگ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادت کی توفیق بھی بڑھا دیتا ہے۔
پھر زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ رات کو دیر تک عبادت کرتے یہاں تک کہ جب رات کا آخری وقت ہوتا تو اپنے اہل وعیال کو’ الصلوٰۃ الصلوٰۃ‘یعنی نماز کا وقت ہو گیاکہتے ہوئے جگاتے اور قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرماتے

وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا۔ لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا۔ نَحْنُ نَرْزُقُکَ۔ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی (سورۃ طٰہ :133)

یعنی تو اپنے اہل کو نماز کی تاکید کرتا رہ اور تو خود بھی اس پر قائم رہ اورہم تجھ سے رزق نہیں مانگتے۔ کیونکہ ہم تجھے رزق دے رہے ہیں- اور انجام تقویٰ کا ہی بہتر ہے۔ (مؤطا امام مالکؒ۔ باب ما جاء فی قیام رمضان)
اس طرح ہر احمدی کو اپنے بیوی بچوں کو نماز کی تلقین کرتے رہنا چاہئے، اس کے لئے اٹھاتے رہنا چاہئے، نمازوں پہ لاتے رہنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ انعامات اس وقت تک نازل فرماتا رہے گا جب تک کہ خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی عبادت کی طرف مائل رکھیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نمازوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اور سب بلائیں دور ہو تی ہیں- مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ402جدید ایڈیشن)
یاد رکھو کہ یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی۔ لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون:6-5)

یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں- نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اوربے حیائی سے بچایا جاتا ہے۔ مگر جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ403 جدید ایڈیشن)
خدا کرے کہ کسی احمدی کی نماز بھی بے خبری کی نماز نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی نماز نہ ہو۔ بلکہ اس کے انعاموں کو حاصل کرنے والی نماز ہو۔ ہر احمدی کی نماز اس کی ذات پر اور اس کے خاندان پر بھی انعامات لانے والی ہو۔ اور جماعتی طور پر بھی یہ دعائیں اکٹھی ہو کر جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہوں-
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے` اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں- اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں- وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں، ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ282-281 جدید ایڈیشن)
اس ضمن میں یہ بھی عرض کردوں کہ مردوں اور بچوں کو تو عموماً عادت پڑ جاتی ہے لیکن عورتوں کی طرف سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کی صفیں نہ سیدھی ہوتی ہیں نہ ایک صف میں کھڑی ہوتی ہیں- جس کو جہاں جگہ ملے کھڑی ہو جاتی ہیں، بیچ میں بعض دفعہ کئی کئی صفیں خالی ہوتی ہیں- اس لئے لجنہ اماء اللہ کی جو تنظیم ہے ان کے جو عہدیدار ہیں ان کی سیکرٹری تربیت ہیں، صدر ہیں وہ اپنی لجنات کو اس طرف توجہ دلائیں کہ جب مسجدوں میں آئیں تو پہلے پہلی صف مکمل کریں، پھر دوسری صف اور جو بچوں والی خواتین ہیں وہ آخر میں جا کے بچوں کو علیحدہ لے کے بیٹھیں- اوّل تو بچوں کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان پہ اتنا فرض ہی نہیں لیکن عیدوں اور جمعوں پہ جہاں علیحدہ انتظام ہوتا ہے، وہاں بیٹھنا چاہئے اور صفیں بہرحال تسلسل سے بننی چاہئیں اور قائم رہنی چاہئیں-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے استغفار ہے، درود شریف۔ تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ311-310 جدید ایڈیشن)
میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ بعض لوگ خط لکھتے ہیں کہ کوئی خاص دعا، کوئی خاص وظیفے بتائیں، ملاقات میں بھی بعض عورتیں اور مرد اس بات کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب پوچھو تو پتہ لگتا ہے کہ بعض خواتین بھی مرد بھی نمازیں بھی پوری نہیں پڑھ رہے ہوتے اور وظیفے کی تلاش میں ہوتے ہیں- حالانکہ پہلے بنیادی حکموں پر تو عمل کریں اور جب اس پر عمل کریں گے تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمام باتیں، وظیفے، ذکر اسی میں آجائیں گے۔ نمازکو ہی اگر سنوار کر پڑھا جائے تو اسی میں تسلّی ہو جاتی ہے۔
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے فرمایا: ’’نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں-‘‘ (یہ کاروباری لوگوں کے لئے ہے ذرا نوٹ کر لیں) ’’مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے۔ تو آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ہے تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں-
نما زکیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا۔ کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلّت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔ اس سے اپنی حاجات کا مانگنا، یہی نماز ہے۔ ایک سائل کی طرح کبھی اس مسؤل کی تعریف کرنا کہ توُ ایسا ہے۔ اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا، پھر اس سے مانگنا۔ پس جس دین میں یہ نہیں، وہ دین ہی کیا ہے۔ انسان ہر وقت محتاج ہے۔ اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو۔ کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کر لیں- خداتعالیٰ کی محبت، اسی اس کا خوف اس کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 189-188 جدید ایڈیشن)
پس وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ بعض مجبوریوں اور بعض کاموں کی وجہ سے نماز وقت پر نہیں پڑھ سکتے ان کو یہ ارشاد اور یہ حدیث اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔ کپڑے گندے ہونے کا بہانہ نہ سہی کوئی اور بہانہ ہی سہی۔ لیکن بات یہی ہے کہ کسی بہانے سے نماز کو ٹالا جا سکے۔ پس یہ بنیادی ستون ہے اس کی طرف ہر احمدی کو بہت توجہ دینی چاہئے اور ٹالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’جہاں تک ہو سکے پاک اور صاف ہو کر اور نفی ٔخطرات کرکے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایسی گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد وثنا حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں- لیکن یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی او ر خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق و شوق اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اس کی نماز میں پیدا ہو جائے‘‘۔ یعنی ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے کہ ا س طرح کی جو کیفیت ہے وہ پیدا ہو جائے یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ فرمایا کہ:’’گویا وہ خدا کو دیکھ لے او رظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں- اسی وجہ سے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کے لئے مستعد ہے۔ پس آیت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معانی ہیں کہ جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے نماز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں- مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں’‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 139-138)
یہ ساری چیزیں فرمایا کہ اس طرح پیدا نہیں ہو سکتیں- اس کے لئے بہرحال کوشش کرنی ہو گی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا ہو گا۔ ورنہ تو اس کے بغیر یہ سب چیزیں بیکار ہیں- پھر جب یہ نمازیں پڑھنے والے ہو جائیں تو پھر نفلوں سے اپنی عبادتیں سجانے کا بھی حکم ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ فرائض کی طرف توجہ ہو، نماز قائم کرنے کی طر ف توجہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب رات کا آخری پہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے جومجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں- یعنی رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ نیچے آتا ہے اور کہتا ہے کوئی ہے جو دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں- کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے تو میں اس کو بخش دو ں- کوئی ہے جو مجھ سے رزق طلب کرے میں اسے رزق عطا کروں- کوئی ہے جو مجھ سے اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے دعا کرے تو میں اس کی تکلیف دور کروں- اللہ تعالیٰ یونہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 521 مبطوعہ بیروت)
پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ابدی بنانے کے لئے، ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے کے لئے، نمازوں کے قیام کے لئے،مسجدوں کو بھی آباد رکھیں اور نفلی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’جو خداتعالیٰ کے حضور تضرّع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لے گا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں- جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعاکرنے کا موقع بہرحال مل جائے گا۔ اِس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں- جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے۔ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درددل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعامیں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دورکر دیتی ہے۔ لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے۔ زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خداتعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آ جاتا ہے۔ جب خداتعالیٰ ڈیوڑھی میں آ گیا پھر اندر آنا کیا تعجب ہے۔ پھر یاد رکھو کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں دانستہ ہرگز غفلت نہ کی جاوے۔ جو ان امور کو مدنظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا یا یوں کہو کہ جسے دعا کی توفیق دی جاوے گی ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 182 جدید ایڈیشن)
پھر آپؑ نے فرمایا:’’اے وے تمام لوگو! (اے وہ تمام لوگو) جو اپنے تئیں میری جماعت میں شمار کرتے ہو(جو اپنے آپ کومیری جماعت میں شمار کرتے ہو)آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کرترک کرو۔ یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا’‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 15)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں حقیقت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں، ہماری قربانیاں، ہمارا نیکیوں پر قائم رہنا، اپنی نسلوں میں انہیں رائج کرنا اور ان کو پھیلانے کی تمام کوششیں خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو جائیں تاکہ ہم اس کے انعاموں کے وارث ٹھہریں- اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق تمکنت حاصل کریں اور تمکنت حاصل کرنے والوں میں شمار کئے جانے والے ہوں- اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو پھیلانا ہے۔ مومنین کے گروہ کو تمکنت اور مضبوطی عطا فرمانی ہے۔ ہر ایک کو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ میں بھی ان میں شامل ہو کر اس سے حصہ پانے والا بنوں- کہیں دھتکارا نہ جاؤں- اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اس وقت ہو گا جب اس کے خوف اور خشیت کی وجہ سے مسجدوں کو آباد کرو گے، مسجدوں میں آؤ گے، باجماعت نمازوں کی طرف توجہ دو گے، عبادالرحمن بنو گے۔
پس ہماری یہ مسجد بھی اور ہماری تمام مساجد بھی اگر اس جذبے سے نمازیوں سے بھری رہیں تو پھر کوئی طاقت بھی آپ کی مضبوطی میں کبھی رخنہ نہیں ڈال سکتی۔ کبھی کمزور نہیں کر سکتی۔ آپ کی تمکنت کو چھین نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں