خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 24؍جون 2005ء

اگر اپنے بچوں کو معاشرہ کی گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچاناہے تو سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ نمازوں میں باقاعدہ کریں
جلسے کے ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنے کی بھی ٹریننگ حاصل کریں
(کینیڈا اور دوسرے مغربی ملکوں میں شادیوں کے بعد میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہونے اور عائلی جھگڑوں کے افسوسناک واقعات میں اضافہ پر تشویش کا اظہار اور ان تلخیوں کومٹانے اور اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کے لئے نہایت اہم تاکیدی نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 24؍جون 2005ء (24؍احسان 1384ہجری شمسی)بمقام انٹرنیشنل سینٹر۔ٹورانٹو(کینیڈا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور اس خطبہ کے ساتھ ہی آغاز ہو رہاہے۔ اللہ تعالیٰ یہ جلسہ آپ کے لئے، تمام شامل ہونے والوں کے لئے اور کسی مجبوری کی وجہ سے نہ شامل ہونے والوں کے لئے بھی بے شمار برکات کا حامل بنائے، بے شمار برکات لانے والا ہو، پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو۔ سب کو تقویٰ میں بڑھانے والا ہو اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا اس کو پورا کرنے والا ہو۔ہمیشہ ہمارے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قیام اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ہو۔ اور اس کے لئے ہم اپنے آپ میں بھی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ تعلیم جاری رکھنے والے ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان جلسوں کا مدعا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ……… ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں۔ اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو۔ اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں۔ اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو۔ اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں ‘‘۔ (شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ395-394)
تو یہ ہیں وہ مقاصد جن کے حاصل کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں آواز دی ہے۔ آخرت کی طرف انسان تبھی جھک سکتا ہے جب دل میں خدا کا خوف اس طرح ہو کہ اس کو تمام طاقتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہوں اور جب یہ خیال یقین میں بدل جائے گا کہ وہ خدا ایک ہے، مجھے پیدا کرنے والا بھی ہے، مجھے پالنے والا بھی ہے، مجھے دینے والا بھی ہے، میرے کام میں یا میرے کاروبار میں برکت بھی اسی کے فضل سے پڑنی ہے۔ اگر اس کی عبادت کرنے والارہا، اگر اس کے آگے جھکنے والا رہا، تو اس کی نعمتوں سے حصہ پاتا رہوں گا۔ اگر میرے اندر نیکیوں پر قائم رہنے کی رُوح رہی تومَیں اس کے فضلوں کا وارث بنتا رہوں گا۔ اگر اس کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے، تقویٰ پر چلتے ہوئے، اس کے حقوق بھی ادا کرتا رہا اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرتا رہا تو اس کے انعاموں سے حصہ پانے والا ہوں گا۔ اگر یہ سوچ رہی تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ضرور اپنے انعاموں سے نوازتا رہے گا۔ لیکن یہ تقویٰ اور خداتعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے معیار اُس وقت قائم ہوتے ہیں جب اُس کے تمام حکموں پر عمل ہو رہا ہو۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور پھر وہی بات کہ اُس وقت ہوتا ہے جب ذہن میں ہر وقت، ہر لمحہ، خدا، خدا اور خدا رہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے خدا ترسی بھی رہے گی، پرہیزگاری بھی رہے گی، اللہ کی مخلوق کے لئے نرم جذبات بھی رہیں گے، آپس میں محبت بھی رہے گی۔اور جب یہ چیزیں پیدا ہوں گی تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ایک نمونہ بن سکیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا یہ نمونے ہم اپنے اندر قائم کر رہے ہیں یا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ کیا ہم نے آپس میں محبت اور بھائی چارے کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں جن کی توقع ہم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے اندر عاجزی کے اعلیٰ معیار قائم کر لئے ہیں ؟ کیا ہمارے اندر وہ روح پیدا ہو چکی ہے جب ہم کہہ سکیں کہ ہم اپنی ضرورتوں کو اپنے بھائی کی ضرورتوں پر قربان کر سکتے ہیں ؟ کیا ہمارے اندر اتنی عاجزی اور انکساری پیدا ہو گئی ہے کہ ہم اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھیں اور جہاں خدمت کا موقع ملے اس سے کبھی گریز نہ کریں ؟ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جب ہم کہہ سکیں کہ اگر ہمیں اپنے عزیزوں کے خلاف یا اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑی تو دیں گے اور سچ کے قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے؟ کیا ہم دینی ضروریات کے لئے ہر وقت تیار ہیں؟ یا صرف دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا نعرہ ہی ہے جو ہم لگا رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ کیا کہیں یہ تو نہیں کہ دعویٰ تو ہم یہ کر رہے ہوں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا مَیں کسی کو دوست بناؤں اور چھوٹے چھوٹے بت مَیں نے اپنے دل میں بسائے ہوں، پانچ وقت نمازوں میں سستی دکھائی جا رہی ہو۔ اور یہ سستی اکثرمَیں نے دیکھا ہے، دکھائی جاتی ہے۔ مَیں نے بعض دفعہ ملاقاتوں میں جائزہ لیاہے کہ نمازوں کی طرف باقاعدگی سے متعلق اگر پوچھو کہ توجہ ہے کہ نہیں تو اکثر یہ جواب ہوتا ہے کہ کوشش کرتے ہیں یا پھر کوئی گول مول سا جواب دے دیتے ہیں۔ حالانکہ نمازوں کے بارے میں تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو قائم کرو۔ باجماعت ادا کرو۔ اور نماز کوو قت مقررہ پر ادا کرو۔ جیسا کہ فرمایا

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا (النساء:104)۔

یقینا نماز مومنوں پر وقت مقرر ہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں طبعاً اور فطرتاً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز مَوْقُوتَہکے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں ‘‘۔ (الحکم جلد نمبر6نمبر35مورخہ یکم اکتوبر1902ء صفحہ14۔بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود؈ جلد نمبر 2صفحہ264)۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو وقت مقررہ تو علیحدہ رہا، نمازوں میں اکثر سستی کر جاتے ہیں۔ کیا ایسا کرکے ہم اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ (البقرۃ:239)

تو نمازوں کااور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو۔ اور اللہ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔
پس ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انہیں وقت مقررہ پر ادا کرنا چاہئے۔ اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لے کر آنا ہے، اگر توحید کو قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والا بننا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہوں گے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہو گی، کاموں کے عذر کی وجہ سے دوپہر کی یا ظہر کی نماز اگر آپ چھوڑتے ہیں تو نمازوں کی حفاظت کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔ بلکہ خدا کے مقابلے میں اپنے کاموں کو، اپنے کاروباروں کو اپنی حفاظت کرنے والا سمجھتے ہیں۔ اور اگر فجر کی نماز تم نیند کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر رہے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا کا خوف ہے اور ہم اس کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی دوسری نماز اگر عادتاً یا کسی جائز عذر کے بغیر وقت پر ادا نہیں ہو رہی تو وہی تمہارے خلاف گواہی دینے والی ہے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم خدا کا خوف رکھنے والے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہے۔ اور جب یہ نمازوں میں بے توجہگی اسی طرح قائم رہے گی اور نمازوں کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر یہ رونا بھی نہیں رونا چاہئے کہ خداہماری دعائیں نہیں سنتا۔
نمازوں کی حفاظت اور نگرانی ہی اس بات کی ضامن ہو گی کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو گناہوں اور غلط کاموں سے پاک رکھے۔ہماری نمازوں میں باقاعدگی یقینا ہمارے بچوں میں بھی یہ روح پیدا کرے گی کہ ہم نے بھی نمازوں میں باقاعدہ ہونا ہے۔ اس کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح ہمارے والدین کرتے ہیں۔ اور جب یہ بات ان بچوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے گی، بیٹھ جائے گی کہ ہم نے نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرنی ہے تو پھر والدین کو یہ چیز اس فکر سے بھی آزاد کر دے گی کہ اس مغربی معاشرے میں جہاں ہزار قسم کے کھلے گند اور برائیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، ہر وقت والدین کو یہ فکررہتی ہے کہ ان کے بچے اس گند میں کہیں گر نہ جائیں۔ دعا کے لئے لکھتے ہیں، کہتے بھی ہیں اور خود کوشش بھی کرتے ہوں گے، دعا بھی کرتے ہوں گے۔ اگراپنے بچوں کو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ نمازوں میں باقاعدہ کریں۔ کیونکہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے کی ضمانت ان بچوں کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دے رہی ہیں۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآء وَالْمُنْکَرَ (العنکبوت:46)۔

یعنی یقینا نماز بدیوں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ گویا ان نمازوں کی حفاظت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان نمازوں کے ذریعہ سے ضمانت دے دی ہے کہ خالص ہو کر میرے حضور آنے والے اب میری ذمہ داری بن گئے ہیں کہ مَیں بھی اس دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں سے ان کی حفاظت کروں اور ان کو نیکیوں پر قائم رکھوں، تقویٰ پر قائم رکھوں۔ ایسے لوگوں میں شامل کروں جو تقویٰ پر قائم ہوں ،جو میرے پاکباز لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں میں شامل کروں جو میرا انعام پانے والے لوگ ہیں۔ پس یہ سب سے بنیادی چیز ہے جس کی ٹریننگ اور جس کے کرنے کا عزم آپ نے ان جلسے کے دنوں میں کرنا ہے۔ جو نمازوں میں کمزور ہیں انہوں نے ان دنوں میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس میں باقاعدگی اور پابندی اختیار کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہو کہ ان دنوں میں جلسے کی وجہ سے یا میرے دورہ کی وجہ سے، دوسری مصروفیات کی وجہ سے چند دنوں کے لئے نمازیں جمع کرکے پڑھائی جاتی ہیں۔ تو بچوں کے ذہنوں میں یا نوجوانوں کے ذہنوں میں یا بعض سست لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ رہ جائے کہ یہ نمازیں جمع کرکے پڑھنا ہی ہماری زندگی کا مستقل حصہ ہے بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نمازیں وقت مقررہ پر ادا کرو تو اس کے مطابق ادا ہونی چاہئیں۔ سوائے اس کے کہ مسافر ہوں یا دوسری جائزضرورت ہو، جس طرح مثلاً آج کل یہاں بعض شہروں میں سورج سوا نو بجے یا ساڑھے نو بجے یا بعض جگہ پونے دس بجے غروب ہوتا ہے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھا لی جاتی ہیں۔ لیکن جب وقت بدل جائیں گے تو پھر وقت پہ ادا ہونی چاہئیں۔ تو بہرحال دین میں آسانی ہے اس لئے سہولت میسر ہے لیکن فکر کے ساتھ نمازیں ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔ اور یہ ہمیشہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ آسانی دنیاداری یا سستی کی وجہ سے نہ ہو۔
یہ جومَیں نے کہا تھا کہ نمازوں میں ’ کمزور لوگ‘۔ سے مراد وہ لوگ ہیں جو بے وقت اور جمع کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جوپوری پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ انہیں بھی ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جبکہ دعاؤں کا ماحول ہے، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہوئے یا تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہر قدم پر یہاں شیطان کھڑا ہے جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو دور لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے خلاف جہاد کریں۔ اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کا اوڑھنا بچھونا عبادت تھی آپ ؐ بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لئے دعا کیا کرتے تھے اور کس طرح دعا کیا کرتے تھے۔ اس کا ایک روایت میں یوں ذ کر آتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے تیری عزت کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو وہ ذات ہے جو مرنے والی نہیں جبکہ جن و انس
مر جائیں گے۔(مسلم کتاب الذکر)
پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے، اس کی پناہ میں آنے کے لئے، شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنے کے لئے کہ وہ قائم رہنے والی، قائم رکھنے والی ذات ہے، باقی سب کچھ فنا ہونے والی چیزیں ہیں استغفار کرتے ہوئے اس کی پناہ میں آئیں۔ اس کا عبادت گزار بندہ بننے کے لئے اس کا فضل مانگتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر فضل فرمائے اور ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے۔ جب عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم ہو جائیں گے یا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کوشش شروع ہو جائے گی تو باقی نیکیاں بھی جو انسان کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں ان کی طرف بھی توجہ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور وہ، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا ہو، نمازوں کی ادائیگی کرنے والا ہو اور پھر یہ بھی ہو ساتھ کہ بندوں کے حقوق مارنے والا بھی ہو۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے اس دعویٰ کے خلاف ہے۔ اگر بظاہر بعض نمازی ایسے نظر آتے ہیں جو نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق بھی غصب کرنے والے ہوتے ہیں، حقوق مارنے والے ہوتے ہیں تو وہ ان نمازیوں میں شامل نہیں ہیں جو خالص ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس زمرے میں شامل ہو جائیں گے جن کے بارے میں فرمایا کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون:5) ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تو نمازیوں کو جو نما ز کا حق ادا کرنے والے ہیں، نیکیوں پر چلاتا ہوں،۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اس فکر کے ساتھ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور ہمیشہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ آپس میں محبت اور اخوت کی فضا پیدا ہو، بھائی چارے کی فضا پیدا ہو۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں ایک دوسرے کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔ تو تقویٰ کا اعلیٰ معیار تبھی قائم ہو سکتا ہے جب پیار، محبت اور عاجزی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی روح پیدا ہو۔ کیونکہ جس میں اپنے بھائی کے لئے محبت نہیں اس میں تقویٰ بھی نہیں۔ جس میں انکسار نہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہے۔ جس دل میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نرمی نہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہے۔جو بیوی یا خاوند ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ بھی تقویٰ سے خالی ہیں۔ جو عہدیدار اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہیں۔ غرض کہ جو دل بھی اپنی اَنااور تکبر یا کسی بھی قسم کی بڑائی دل میں لئے ہوئے ہے وہ تقویٰ سے عاری ہے۔ جو بھی اپنے علم کے زعم میں دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے وہ تقویٰ سے خالی ہے۔لیکن جو لوگ اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عاجزی اور انکساری دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں، ان کے حقوق ادا کرتے ہیں، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں اور یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں خداتعالیٰ کا خو ف ہے، صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے اس کی مخلوق سے محبت پر بھی ان کو مجبور کیا ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے بے انتہا انعام پانے والے ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ ایک حدیث میں اس بارے میں ذکر آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ اور آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے مَیں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والأدب۔ باب فضل الحب فی اللہ تعالیٰ)
تو دیکھیں جو لوگ خداتعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے، اس کے رعب اور اس کی عظمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ان کے دل اس خوف سے کانپتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا نہ کرکے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائیں۔ ایسے بندے وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہیں۔
پس یہ وہ روح ہے جو ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے۔ کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد آپ ہی وہ قوم ہیں جن پر دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے انجام بخیر کے لئے اور اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے کے لئے کرنی ہو گی۔ اور جلسے کے یہ دن اس بات کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے ٹریننگ کے طور پر ہیں۔ اس کی ابتدا آج سے ہی ہو جانی چاہئے۔ آج سے ہی ہر دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں، اپنے معیار اونچے کرنے ہیں۔ جو ناراض ہیں وہ ایک دوسرے کو گلے لگائیں، جو روٹھے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے کو منائیں۔ جنہوں نے گلے شکوے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں وہ ان گلوں شکووں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں۔ اور ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنے کی بھی ٹریننگ حاصل کریں۔ یہ عہد کریں کہ پرانی رنجشوں کو مٹا دیں گے۔ ایک دوسرے کے گلے اس نیت سے لگیں کہ پرانی رنجشوں کا ذکر نہیں کرنا۔ ایک دوسرے سے کی گئی زیادتیوں کو بھول جانا ہے۔کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ حقیقی مومن بن کر رہنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی گئی عبادتیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں۔ اور اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کی گئی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگیاں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں۔ اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق مومن بن جائیں۔ تبھی ہم مومن بن سکتے ہیں جب یہ باتیں اپنے اندر پیدا کریں گے جن کے بارے میں ایک روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے۔
حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توُ مومنوں کو ان کے آپس کے رہن، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والأدب۔باب تراحم المومنین وتعاطفھم وتعاھدھم)
خدا کرے آپ لوگ اپنے ماحول میں پیدا ہوتی ہوئی برائیوں کو ایک جسم کی طرح دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں۔
مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا۔ یا کوشش یہ ہوتی ہے کہ لڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ
انڈر سٹینڈنگ (Understanding) نہ ہو۔ اور ان کا آپس میں اعتما دپیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے۔ ان لڑکوں کو کچھ تو خد ا کا خوف کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کاموقع دیا۔ تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی۔ ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو20-15لاکھ روپیہ خرچ ہوتا۔ مفت میں یہاں آ گئے۔ کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں۔ تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں۔ یہاں آ کر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں۔ اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں۔ اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں ،چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں۔
پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو۔ پھر بعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں۔اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایااور پھر بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔
کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے۔ غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہاہے۔ اور پھر اس طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔ بعض بچیوں کے جب دوسری جگہ رشتے ہو جاتے ہیں تو ان کو تڑوانے کے لئے غلط قسم کے خط لکھ رہے ہوتے ہیں۔کوئی خوف نہیں ایسے لوگوں کو۔اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کی ان کو کوئی بھی فکرنہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سایۂ رحمت سے دور رہنے کی ان کو کوئی بھی پروا نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ کے رسول کے حکم کے خلاف چلتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس تکلیف پرایک جسم کی طرح،جس طرح جسم کا کوئی عضو بیمار ہونے سے تکلیف ہوتی ہے اُسے محسوس کریں، بے چینی کا اظہار کریں وہ بے حسی میں بڑھ جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو۔ میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے۔ یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہدو پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں۔ وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی۔ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں۔ ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے۔ جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خداتعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے۔ دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے۔ دنیا کو دھوکا دے سکتے ہو کہ میری بیوی نے یہ کچھ کیا تھا یا بعض اوقات بیویاں خاوند پہ الزام لگا دیتی ہیں لیکن (اکثرصورتوں میں بیویوں پر ظلم ہو رہا ہوتا ہے)لیکن خداتعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مرد،عورت کو دھوکا دیتے ہیں۔ لڑکیاں بھی بعض اس زمرے میں شامل ہیں لیکن ان کی نسبت بہت کم ہے۔
اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہیں۔ عہدیداروں کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویّوں کو بدلیں۔ اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کارروائی کرنی پڑے۔
مرد کو اللہ تعالیٰ نے قَوَّام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ایک صحابی کی اپنی بیوی سے سختی کی باتوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ جو صحابہ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات پر اس قدر رنج اور غصہ تھا کہ ہم نے کبھی ایسی حالت میں آپ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور صحابی اس مجلس میں بیٹھے تھے جو اپنی بیوی سے اسی طرح سختی سے پیش آیا کرتے تھے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ حالت دیکھ کر اس مجلس سے اٹھے، بازار گئے، بیوی کے لئے کچھ تحفے تحائف لئے اور گھر جا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھے اور بڑے پیار سے اس سے باتیں کرنے لگے۔بیوی حیران پریشان تھی کہ آج ان کو ہو کیا گیا ہے۔ یہ کایا کس طرح پلٹ گئی، اس طرح نرمی سے باتیں کر رہے ہیں۔ آخر ہمت کرکے پوچھ ہی لیا، پہلے توجرأت نہیں پڑتی تھی۔ کہنے لگے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیویوں پر سختی کرنے کی وجہ سے بہت غصے کی حالت میں دیکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ میری شکایت ہومَیں اپنی حالت بدلتا ہوں۔
تو دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں۔ ان صحابی نے فوراً توبہ کی اور نمونہ بننے کی کوشش کی۔ آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ ایسے ہیں جو ان صحابہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بننے کی کوشش کی اور بنے۔آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں۔ آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں۔ اور جو لڑکی والے ہیں زیادتی کرنے والے، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں۔تو ان جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں وہ دور ہو سکتی ہیں۔ اگرایسی چیزیں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں۔ ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اللہ کا خوف کرنا چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روی میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے مصائب میں سے ایک مصیبت اس سے کم کر دے گا۔ اور جو کسی مسلمان کی ستّاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الأدب باب المواخاۃ)
پس اپنے دل میں ہر وقت یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ اس کو سب علم اور خبر ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے۔ اگر اس نے آپ کی برائیوں کو دنیا پر ظاہر کر دیا تو آپ کا کیا حال ہو گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ستّاری فرمائے تو اس سے زیادہ اور بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ انسان گناہگار ہے، غلطی کا پتلا ہے اس سے اگر اللہ تعالیٰ حساب کتاب لینے لگ جائے اور ستاری نہ فرمائے تو کیا رہ جاتا ہے۔
پس آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں۔ دوسرے کی ضروریات کو اس لئے پوراکریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا باعث بنے گی اور آپ کی ضرورتیں بھی خداتعالیٰ پوری فرماتا رہے گا۔ دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے اللہ تعالیٰ آپ کی بھی تکلیفیں دور فرمائے گا۔ اور سب سے بڑی بات جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا ہے کہ قیامت کے دن ستاری ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زمرے میں شامل فرمائے جن سے ہمیشہ ستاری اور مغفرت کا سلوک ہوتار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق آپ کی خواہش کے مطابق ایسی جماعت بنے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بھی ہو اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہو۔ آپس میں محبت اور اخوت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والی بھی ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہرہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اوراپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو‘‘۔(اطلاع منسلکہ آسمانی فیصلہ)
پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ ماحول تو یہاں میسر آ گیا ہے کہ ان تین دنوں میں دنیاداری سے ہٹ کر خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی محبت، سب محبتوں پر غالب آ جائے۔ اور یہ محبت اس وقت تک غالب نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی محبت ٹھنڈی نہ ہو جائے۔ اگر نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح جلدی جلدی پڑھ رہے ہیں کہ دنیا کے کام کا حرج نہ ہو جائے تو یہ تو انقطاع نہیں ہے۔ یہ تو دنیا سے تعلق توڑنے والی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی کاموں کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ یہ بھی ناشکری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کام کے جو موقعے دئیے ہیں ان سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ لیکن اگر یہ کام، یہ کاروبار، یہ جائیدادیں خداتعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو پھر ایسے کام بھی، ایسی ملازمتیں بھی، ایسے کاروبار بھی ایسی جائیدادیں بھی پھینک دینے کے لائق ہیں۔ اگر ملازمتوں میں، کاروباروں میں خداتعالیٰ کو بھلا کر دھوکے اور فراڈ کئے جا رہے ہیں تو ایسے کاروبار اور ایسی ملازمتوں پر لعنت ہے۔ لیکن اگر یہی کام، یہی کاروبار، یہی جائیدادیں اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں تو یہی چیزیں ہیں جو بندے کو خداتعالیٰ کے سایہ رحمت میں رکھ رہی ہیں اور سایہ رحمت میں رکھنے کے قابل بنا رہی ہیں۔ پس احمدی کی دنیاداری بھی دین کی خاطر ہونی چاہئے۔
پھر ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔اوربے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصّہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگزنہ بڑھا وے۔ جیسے دنیاکے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔ خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلدخدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ99 جدید ایڈیشن)
پس ہم میں سے ہر ایک اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں سے کہلا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد اعلیٰ اخلاق بھی اپنائے جائیں۔ دراصل تو اعلیٰ اخلاق بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا ہی ایک حصہ ہیں۔ کیونکہ اعلیٰ اخلاق بھی تقویٰ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اپنی محبت اور اس کے نتیجے میں تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جن برائیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے ان سے مکمل بچنے والے ہوں۔ اپنے دلوں کو کینوں اور بغضوں سے پاک کرنے والے ہوں۔ اپنی ذاتی رنجشوں کو جماعتی رنگ دینے والے نہ ہوں۔کسی عہدیدار سے ذاتی عناد یا رنجش کی وجہ سے اس عہدیدار کی حکم عدولی کرنے والے نہ ہوں۔ اور اسی طرح عہدیداران بھی اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی کے خلاف ایسی کارروائی نہ کریں جس سے ان کے عہدے کا ناجائز استعمال ظاہر ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو موقع دیا ہے کہ وہ جماعتی عہدیدار بنایا گیاہے اس پر خدا کا شکر کریں۔،نہ کہ اس وجہ سے گردنیں اکڑ جائیں اور تکبر اور رعونت پیدا ہو جائے۔ جماعتی عہدیداران کو اپنی عبادتوں میں بھی اور اعلیٰ اخلاق میں بھی ایک نمونہ ہونا چاہئے۔ عاجزی اور انکساری کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں۔ عدل اور انصاف کے بھی تمام تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ پس جہاں ایک عام احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، صبر سے کام لے، ایک دوسرے کے قصور وں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق جماعت کا فرد بنے تاکہ دشمن کے ہنسی ٹھٹھا سے بھی بچے۔ کیونکہ جب احمدی اتنے دعووں کے بعدایسی غلطیاں کرتا ہے تو دشمن کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے، مخالفین کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے۔ اور کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی غیرت رکھتا ہے ایسی حرکتوں کی وجہ سے وہ احمدی جس نے دشمن کو ہنسی کا موقع دیا اللہ تعالیٰ کے قرب سے گر جاتا ہے۔ تو جب ایک عام احمدی کی ایسی حرکتوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تو جو عہدیدار ہیں وہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں زیادہ ہیں۔ اس لئے ان کو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا اہل بنائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر سکیں۔
اوریہ جلسے کے جو دن ہمیں میسر آئے ہیں ان کو کھیل کو داور گپیں لگانے اور مجلسیں لگانے میں ضائع کرنے کی بجائے دعاؤں اور اپنی اصلاح کی کوشش میں گزاریں۔ جلسے کے تمام پروگرام کسی نہ کسی رنگ میں علم اور روحانیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اس سوچ میں نہ رہیں کہ فلا ں مقرر اچھی تقریر کرتا ہے اس کی تقریر سننی ہے اور فلاں کی نہیں سننی۔ بلکہ تمام پروگرام سنیں۔ خواتین بھی اپنی گپوں کی محفلوں کی بجائے ان دنوں کو روحانیت بڑھانے میں صرف کریں کیونکہ ان کی مجلسیں زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ دعاؤں میں وقت گزاریں۔ اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے،جماعت کے لئے دعائیں کریں۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعائیں کریں۔ اس سے بھی تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور بڑھتا ہے۔ جن کے خلاف ایک دوسرے کو شکوے شکایتیں ہیں، ان کے لئے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ دعاؤں کو سننے والا بھی ہے۔ قبول کرنے والا بھی ہے۔ آپ کی نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کی وجہ سے ہو سکتا ہے ان لوگوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے اور جن کے خلاف آپ کو شکوے اور شکایتیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور ان کی اصلاح ہو جائے۔ اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور جب نیکی نیتی سے ہر ایک دوسرے کے لئے دعائیں کر رہا ہو گا تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت کا درجہ دے گا اور آپ کی اس سوچ کی وجہ سے یقینا رحمت کی بارش نازل فرمائے گا۔ پس مَیں پھر کہتا ہوں کہ ان دنوں کو عبادتوں اور ذکر الٰہی میں گزاریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے قرب کے نمونے بھی قائم کریں اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے بھی قائم کریں۔ اور دشمن کو شماتت کا موقع دینے کی بجائے، ہنسی ٹھٹھا کا موقع دینے کی بجائے اس جلسے کو اپنے اندر پاک تبدیلیوں کا ایک نشان بنا دیں اور دنیاپر ثابت کر دیں کہ وہ مسیح جس نے اس دنیا میں آکر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی تھیں اور پاک نمونے قائم کرنے تھے ہم ہیں جو اس کے مصداق ٹھہرے ہیں اور اب ہم کبھی اپنے اندر سے ان پاک تبدیلیوں کو مرنے نہیں دیں گے۔ انشاء اللہ۔
اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں