خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 7؍اکتوبر2005ء

رمضان میں عبادتوں کے معیار بلند کرنے اور قرآن کریم پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ا یک طریق صدقہ وخیرات کرنا بھی تھا۔
اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیا ان پر ہم قائم ہیں۔
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان سے پاک اور معصوم ہوکرنکلیں اور پھر یہ پاک تبدیلیاں ہماری زندگیوں کا ہمیشہ کے لئے حصہ بن جائیں۔
منڈی بہاؤالدین کے قریب مونگ رسول کے مقام پر احمدیہ مسجد میں نمازیوں پر شرپسندوں کی طرف سے فائرنگ کا المناک واقعہ۔ آٹھ افراد شہید اور متعدد زخمی۔
احمدیوں کو اس لئے ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہاہے کہ ہم نے اللہ کی طرف بلانے والے منادی کو قبول کیا۔
ان حرکات سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مجرموں کو پکڑنے کے خود سامان فرمائے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 7؍اکتوبر 2005 ء (07؍اخاء 1384ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:184)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو روزوں کی فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور فرمایا یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو، تاکہ تمہارے اندر خدا کا خوف پیدا ہو، تاکہ تمہارے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ خدا کی ناراضگی مول لے کر کہیں ہم اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے والے نہ بن جائیں۔ تاکہ یہ احساس پیدا ہو اور اس کے لئے کوشش کرو کہ ہم نے خدا کا پیار حاصل کرنا ہے۔ تو یہ مقصد ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں روزے رکھنے چاہئیں اور یہ وہ مقصد ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں رمضان کا انتظار ہونا چاہئے۔ تبھی ہم گزشتہ سال میں جو رمضان گزرا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس میں جو ہم نے نیکیاں کی تھیں، جو تقویٰ اختیار تھا، جو منزلیں ہم نے حاصل کی تھیں، ان کا فیض پا سکتے ہیں۔
اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں۔ کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا۔ اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ فرض روزے رکھو گے تو تقویٰ پر چلنے والے ہو گے نیکیاں اختیار کرنے والے ہو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ ہمارے اندر تو ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ہم کہہ سکیں کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو گیا ہے۔یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ خداتعالیٰ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ بندہ جھوٹا ہو سکتا ہے اور ہے۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر ہی کمزوریاں اور کمیاں ہیں یا تو پہلے رمضان جتنے بھی گزرے ان سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا، یا وقتی فائدہ اٹھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھاکہ تقویٰ کا جو معیار گزشتہ رمضان میں حاصل کیا تھا، یہ رمضان جو اَب آیا ہے، یہ ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور تقویٰ حاصل کرنے کے اگلے درجے دکھاتا۔
پس جنہوں نے گزشتہ سال کے رمضان میں اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں، جو تقویٰ حاصل کیا،جو تقویٰ کے معیار اپنی زندگیوں کے حصے بنالئے وہ تو خوش قسمت لوگ ہیں اور اب ا ن کے قدم آگے بڑھنے چاہئیں۔ اور جو بھُلا بیٹھے یا جنہوں نے کچھ حاصل ہی نہیں کیا ان کو سوچنا چاہئے کہ روزے ہمیں کیا فائدہ دے رہے ہیں۔ اگر کسی چیز کا فائدہ ہی نہیں ہے تو اس کو کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن جیساکہ مَیں نے کہا روزوں کا فائدہ ہے اور یقینا ہے، اللہ تعالیٰ کا کلام کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ پس ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ اے میرے خدا میری گزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرما اور اس رمضان میں مجھے وہ تمام نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیرا قرب دلانے والی ہوں اور مجھے اس رمضان کی برکات سے فیضیاب کرتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ جب ہم اس طرح دعا کریں گے اور اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے تو ان نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ بہت سی برائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی جن کے ترک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے۔ ورنہ تو ہمارے یہ روزے، روز ے نہیں کہلا سکتے۔ یہ صرف فاقے ہوں گے۔ ایک بھوک ہو گی کہ صبح سے شام تک نہ کھایا، نہ پیا۔
پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ

لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

تبھی پورا ہو گا جب ہم ان حکموں پر بھی عمل کریں گے اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اور رمضان میں تو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کے کرنے کی وجہ سے عام حالات کی نسبت ان کا کئی گنا بڑھا کر اجر دیتا ہے بلکہ بے حساب دیتا ہے۔ پس یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ روزے میرے لئے ہیں اور مَیں ہی ان کی جزا ہوں۔ یہ اس لئے ہے کہ بندہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو تمام جائز چیزوں سے روکتا ہے۔جو نہ کرنے والی ہیں ان سے تو رُکنا ہی ہے، جائز چیزوں سے بھی رُکتا ہے۔ نیکیوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ برائیوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیاربڑھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے، پہلے بندہ کو ہی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی ذمہ داری بندہ کی ہی لگائی ہے کہ بندہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو پھر مَیں اس کی طرف دو ہاتھ آؤں گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف چل کر جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دوڑ کر اس کی طرف آؤں گا۔ پس ایک مومن کو ہر وقت یہ فکر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے،تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے پیار کرنے والے خدا کی طرف جاؤں تو ایسے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ رمضان میں عام دنوں سے زیادہ دوڑ کر آتا ہے اور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رمضان میں ان برکتوں اور ثواب اور اجر کا کوئی حساب ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ عام حالات کی نسبت دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضلیت کا علم ہوتا تو میری اُمّت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں۔چنانچہ آپؐ نے فرمایا یقینا جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزیّن کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔ (الترغیب والترھیب۔کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان)
پس یہ ہوائیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاک بندوں کوجنہوں نے یہ عہد کیا ہو کہ اپنے اندر رمضان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اونچا اڑاکر لے جانے والی ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی ہیں۔یہ جو فرمایا کہ سارا سال جنت کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے اس کا فیض یونہی نہیں مل جاتا۔ یقینا روزوں کے ساتھ عمل بھی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اتنا اہتمام فرما رہا ہو کہ سارا سال جنت کی تیاری ہو رہی ہے کہ رمضان آ رہا ہے میرے بندے اس میں روزے رکھیں گے، تقویٰ پر چلیں گے، نیک اعمال کریں گے اور میں ان کو بخشوں گااور میں قرب دوں گا۔ تو ہمیں بھی تو اپنے دلوں کو بدلنا چاہئے۔ ہمیں بھی تو اس لحاظ سے تیاری کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ نے موقع میسر کیا ہے اس سے فیض اٹھانا چاہئے۔
رمضان کے کچھ اور فضائل بھی مختلف احادیث میں ہیں ان میں سے میں چند ایک بیان کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خداتعالیٰ کس کس طرح اپنے بندوں کو رمضان میں نوازتا ہے یا نوازنا چاہتا ہے۔ پس یہ بندہ کا بھی کام ہے کہ اس کی طرف بڑھے اور تقویٰ پیدا کرے۔ اگر ان شرائط کے ساتھ روزے رکھے جائیں جن کے کرنے کا ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہی روزے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنا رہے ہوں گے۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے شعبان کے آخری روز خطاب فرمایا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ ایسا بابرکت مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں۔ اور جس کی راتوں کا قیام اللہ تعالیٰ نے نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو اس میں اپناتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو اس کے علاوہ جملہ فرائض کو ادا کر چکا ہو۔ اور جس شخص نے ایک فریضہ اس مقدس مہینے میں ادا کیا، وہ اس شخص کی طرح ہو گا جس نے ستّرفرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے۔ اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔ اور یہ مواسات و اخوت کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔(الترغیب والترھیب کتاب الصوم۔الترغیب فی صیام رمضان)
تو دیکھیں کیا کیابرکتیں ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے روزہ رکھ رہے ہیں اور تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس نیت سے کئے گئے عمل پھر اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اتنا دے گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ صرف ایک اچھی عادت اورنیکی کاکام کرنے کا اجر اتنا ہے کہ گویا تمام فرائض جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم نے ادا کر دئیے۔ اور رمضان میں تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا کئے گئے ایک فرض کا ثواب اتنا ہے کہ عام حالات میں ادا کئے گئے 70فرائض جتنا ثواب ہوتا ہے۔ اتنا بڑھا کر اللہ میاں رمضان میں دیتا ہے۔ تو ان دنوں کی ایک ایک نیکی عام حالات کی 70-70نیکیوں کے برابر ثواب دلا رہی ہے۔ لیکن یہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ثواب تبھی ہو گا جب ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر رہے ہوں گے۔
پھر فرمایا: یہ صبر کا مہینہ ہے۔ بہت سی باتوں سے مومن صبر کر رہا ہوتا ہے۔ صرف کھانے پینے سے ہی نہیں ہاتھ روک رہابلکہ اور بھی بہت سے کام ہیں جن سے رکتا ہے۔ بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن سے رکتا ہے۔ دشمنوں کی زیادتیوں پر صبر کرتا ہے۔ بعض دفعہ اپنے حقوق چھوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَآء وَجْہِ رَبِّھِمْ (الرعد:23)

اور ایسے لوگ جنہوں نے اپنے رب کی رضاحاصل کرنے کے لئے صبر کیا۔ پس یہ صبر جو اللہ کی خاطر کیا جائے وہ نیکیوں کے ساتھ مشروط ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو صبر کرو اور جواب نہ دو اور اتنا کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں تو تمہارے لئے یہ اجر کا موجب ہو گا۔ تمہیں اس کا ثواب ملے گا۔ اور جب ایک مومن کو رمضان میں ایسے صبر کی عادتیں پڑ جاتی ہیں تو پھر زندگی کا حصہ بن جانی چاہئیں تاکہ جنت کا وارث بنانے والی ہوں۔ یہ فرمایا کہ اگر اللہ سے رحم، درگزر اور بخشش مانگتے ہو تو خود بھی دوسروں کے غمخوار بنو، ان کی تکلیفوں کا خیال رکھو، ان کا بھی کچھ احساس اپنے دل میں پیدا کرو۔ اللہ کی خاطر ہمدردی کر رہے ہو تو اس کا رنگ ہی کچھ اور ہونا چاہئے۔ جب اللہ کی خاطر دوسروں سے نیک سلوک ہو گا تو یہ نیک سلوک اپنے مفادات متاثر ہونے سے کم نہیں ہو گا بلکہ اپنی فطرت کا حصہ بن چکا ہو گا۔ اور جب ایک دوسرے سے ہمدردی اور درگزر سے کام لے رہے ہوں گے تو یہ اس دنیا میں بھی جنت کا باعث بن رہا ہو گا اور اگلے جہان میں بھی ہمیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہو گا۔
پھر یہ بھائی چارے اور محبت و پیار کا مہینہ ہے۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کے قصور اللہ کی خاطر معاف کر رہا ہو گا۔ ہر رشتہ دوسرے رشتے کے قصور معاف کر رہا ہو گا۔ہر تعلق دوسرے تعلق کے قصور معاف کر رہاہو گااور بھائی چارے کی فضا اللہ تعالیٰ کی خاطر پیدا کر رہا ہو گا۔ تو اس مہینہ کی برکت کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ایک فعل کے عام حالات کی نسبت 70گنا ثواب دینے کی وجہ سے ہم پھلانگتے اور دوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منزل کی طرف جا رہے ہوں گے اور جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے۔
پھر فرمایا کہ مومن کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے مومن کا رزق بھی حلال رزق ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ تھوڑی سی محنت اور تھوڑے سے رزق میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے ذرائع سے مہیا کرتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ مومن اللہ کی خاطر بہت سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کی عبادت میں زیادہ وقت گزار رہا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت میں رمضان میں زیادہ وقت گزر رہا ہوتا ہے۔ دوسری عبادتوں میں زیادہ وقت گزر رہا ہوتا ہے۔ تو دنیا کے دھندوں کو کم کرکے ان نیکیوں کے لئے ایک مومن وقت نکال رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بھی بے انتہا نوازتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق دنیاوی ضروریات بھی اس کی پوری کرتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر خالص ہو کر عمل کرنے سے ہو گا۔ اور یہ اسی وقت ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی رحمت ملے گی اور بخشش کئی گنا بڑھ جائے گی۔ جب ہم تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے اور ان نیکیوں کو بجا لا رہے ہوں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں روزوں کی فضیلت کے بارہ میں اور اس کی برکات حاصل کرنے کے طریق کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں۔
آگے فرمایا: (اس میں سے کچھ میں پہلے بیان کر چکا ہوں) اس ذات کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روز ہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول إنی صائم اذا شتم)
تو اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ روزے کی میں جزا دوں گا تو ویسے بھی ہر عمل کی جزا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ لیکن دوسرے سارے عمل ایسے ہیں جن میں یہ نیکیاں ہیں، جائز باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا برائیاں ہیں جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن رمضان میں روزہ رکھ کر ایک مومن ناجائز باتوں سے تو رک ہی رہا ہوتا ہے، بعض جائز باتیں بھی خدا کی خاطر چھوڑ رہاہوتا ہے۔ اور پھر عام حالات کی نسبت پہلے سے بڑھ کر نیکیاں کر رہا ہوتا ہے۔ نیکیاں کرنے کی توفیق پا رہا ہوتا ہے۔ پھر اپنے اندر تبدیلی پید اکرنے کی کوشش کرتے ہوئے بُرائی کا جواب بھی اللہ کی خاطر نیکی سے دے رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر بھی بے حساب رکھا ہے یہ سوچ کر کہ تم میری خاطر کچھ عمل کر رہے ہو یا کرو گے تو میں اس کا اجر بے حساب دوں گا۔ ہر بات کا، ہر کام کا، ایک فرض کے ادا کرنے کا 70گنا ثواب ملتا ہے۔ تومطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے اس فعل سے کہ اس نے اللہ کی خاطر روزہ رکھا اور تمام نیکیاں بجا لانے اور برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ کی بلکہ بعض جائز باتیں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو عام حالات میں انسان کر سکتا ہے ان سے بھی اس لئے رکا کہ اللہ کا حکم ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ اس کی جزا بن گیا۔ پس یہ عبادت بھی خالص ہو کر اس کے لئے کرنا اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہی اس کی رحمتوں کا وارث بنائے گااور بے حساب رحمتوں کا وارث بنائے گا اور خالص ہو کر ہم اس کی خاطر یہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے مومن کی ہر حالت اور ہر حرکت پر پیار آتا ہے جو اس کی خاطر یہ فعل کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے بعض دفعہ جو منہ سے بو آتی ہے اللہ تعالیٰ کو وہ بھی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا مضبوط قلعہ ہے۔ پس یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے۔ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے۔ تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق ملے گی۔ یہ ڈھال اس وقت تک کار آمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہو گا۔ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہو گا۔ میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر،بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے۔ تو جب روز وں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوے میں بڑھانے والے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنا محاسبہ کرتے رہناچاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبۂ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (الجامع الصحیح مسند الامام الربیع بن حبیب۔ کتاب ا لصوم باب فی فضل رمضان)
تو اس بات کو اس حدیث میں مزید کھول دیا کہ صرف روزے رکھنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ روزے ان تمام لوازمات کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتہ چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:’’ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صُبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں ‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسرکیا‘‘۔ پس جب ہم اس طرح اپنی صبحوں اور شاموں سے گواہی مانگ رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ ہمارے گزشتہ گناہ بھی معاف ہو رہے ہوں گے۔ اور آئندہ تقویٰ پر قائم رہنے اورمزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہو گی۔ ورنہ ہمارے روزے بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپؐ فرما رہے تھے رمضان آ گیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس سے بخشا نہ گیا۔ اوراگر وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔ (الترغیب والترھیب کتاب الصوم۔الترغیب فی صیام رمضان)
پس اس حدیث سے مزید بات کھلتی ہے کہ بخشے جانے کے لئے صرف رمضان کا آنا ضروری نہیں ہے اوررمضان کی مبارکبادیں دینا کافی نہیں ہے جب تک اس میں روزے اس کوشش کے ساتھ نہ رکھے جائیں گے کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا ہے ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ صرف ایک سال یا ایک مہینہ کے عمل سے تو نہیں بخشے جائیں گے۔ یہ مسلسل عمل ہے۔ باوجود اس کے کہ ذکر ہے کہ جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آگے یہ بتایا کہ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ سارے بخشے جائیں۔ اس کے لئے عمل کرنے ہوں گے۔ پس اس طریق سے ہمیں اپنے روزوں کو سنوارنا چاہئے تاکہ یہ نیکیاں اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا :ہاں ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے رکھنا فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیاہے۔پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہو۔ یعنی بالکل معصوم ہو جاتا ہے۔(سنن نسائی کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر والنضر بن شیبان فیہ)
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں اسی طرح پاک ہو کر اور معصوم ہو کر نکلیں اور پھر یہ پاک تبدیلیاں بھی ہماری زندگیوں کا ہمیشہ حصہ بن جائیں۔ رمضان میں عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے اور قرآن کریم پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریق صدقہ و خیرات کرنا بھی تھا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ان دنوں میں آپؐ اموال اس طرح خرچ کرتے تھے کہ اس خرچ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے۔ پس رمضان کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اموال کی قربانی بھی تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے والے ہوں اور ہمارے روزے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے لئے ہوں اور پھر یہ برکتیں ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔ جو کمزوریاں ہیں اس رمضان میں دور کریں۔دوبارہ کبھی پیدا نہ ہوں۔ اورہمیشہ اللہ کی بخشش اور رحمت اور پیار کی چاد رمیں لپٹے رہیں۔
روزہ کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے‘‘۔ فرمایا: ’’روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتاہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلّی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اورتہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا نہیں مل جاوے‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ102جدید ایڈیشن)
اللہ کرے کہ حقیقت میں اس رمضان میں ہمارا تزکیہ نفس ہو اور روحانی حالت میں بہتری پیدا ہو اور آئندہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔
ایک افسوسناک خبر بھی ہے۔ ٹی وی پر بھی آ چکی ہے۔ کافی لوگوں نے سن بھی لی ہو گی۔ آج صبح منڈی بہاؤالدین پاکستان کے نزدیک ایک جگہ مونگ رسول ہے جہاں صبح فجر کی نماز کے وقت جب احمدی نماز ادا کر رہے تھے دو دہشت گرد، دہشت گرد تو نہیں کہنا چاہئے، مخالفین احمدیت ہی ہوں گے، دہشت گردی تو آپس میں جب ان کی لڑائیاں ہوتی ہیں ان کے لئے دہشت گردی ہے ہم نے تو جواب نہیں دینا۔ ہمارے ہاں تو جو حملے کئے جاتے ہیں وہ اس لئے کہ ہم احمدی ہیں۔ بہرحال وہ مسجد میں آئے اور نمازیوں پر فائرنگ کرکے فرار ہوگئے،۔ جس سے 8؍ احمدی شہید ہو گئے اور تقریباً 20 زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں دوبڑی عمر کے بزرگ تھے۔ ایک کی 70سال اور دوسرے کی 73سال عمر تھی۔ کچھ اور تفصیلات ابھی آنی ہیں۔ باقی تقریباً سارے نوجوان ہی تھے۔ ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا جس کی عمر16سال ہے۔ ایک12 سال کا بچہ بھی شدید زخمی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان شہداء کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور زخمیوں کو شفا عطافرمائے۔ ان کے رشتہ داروں، عزیزوں اور سب احمدیوں کو صبر اور حوصلے کے ساتھ، یہ بہت بڑا صدمہ ہے، اس کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ان مجرموں کو پکڑنے کے بھی خود سامان پیدا فرمائے۔ رمضان میں جہاں احمدی نیکیوں کے حصول اور خداتعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ مُلّاؤں کے تربیت یافتہ نام نہاد مسلمان ٹولہ، سارے مسلمان تو ایسے نہیں ہیں ان میں سے ایک مخصوص ٹولہ ہے، یہ لوگ اپنی طرف سے یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کرکے شاید ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہیں۔حالانکہ ان حرکات سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ احمدیوں کو اس لئے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہاہے کہ ہم نے ایک منادی کی آواز پر یہ کہا، زمانے کے امام کی آواز پر یہ کہا جس نے ہمیں بلایا کہ اللہ کی طرف آؤ اور ہم نے اٰمَنَّا کہہ دیا۔ تو بہرحال اور تفصیلات آئیں گی تو انشاءاللہ کبھی ذکر کروں گا۔ فی الحال صبح ہی یہ واقعہ ہوا ہے زیادہ تفصیلات تو نہیں ہیں۔ لیکن ان دنوں میں جماعت کے لئے ہر شر سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا میں تینوں جگہوں پر خاص طور پر احمدی ظلم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کوہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں