خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 23؍دسمبر2005ء

اس جلسے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھو۔
اپنے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرو۔ آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کرو۔
آپ لوگوں کے اخلاص و وفا اورتعلق کو دیکھ کر بے اختیار اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت پر پیار آتا ہے۔
ان دنوں میں خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوسمیٹتے ہوئے اپنے رب کی پہچان، فہم وادراک اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔
(جلسہ سالانہ قادیان کی مناسبت سے خدمت کرنے والے کارکنان اورمہمانوں کو نہایت اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 23؍دسمبر 2005ء (23؍فتح 1384ہجری شمسی)بمقام جلسہ گاہ۔قادیان دارالامان (بھارت)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ تین دن بعد قادیان کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہاہے اور انشاء اللہ تعالیٰ دنیائے احمدیت اپنے گھر بیٹھے بھی براہ راست جلسہ سے فیض پا سکے گی۔ جلسہ سالانہ کا آغاز 1891ء میں اس چھوٹی سی بستی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ اور اس کا مقصد اللہ اور اس کی مخلوق سے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے لوگوں کا، مومنوں کا ایک تعلق جوڑنا تھا۔
اس جلسے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھو، یہ دنیا چند روزہ ہے، آخر کو انسان نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اس لئے اپنی آخرت کی بھی فکر کرو، اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرو۔ شیطان بہت سے دنیاوی لالچ دے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے ہوئے شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اپنے اندر زہد اور تقویٰ پیدا کرو۔ خدا ترسی کی عادت ڈالو۔آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کرو۔کیونکہ یہ آپس کے معاشرے کے تعلقات خداتعالیٰ کا خوف اور زہد و تقویٰ پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں۔ شیطان کے حملوں سے بچنا، اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنا یہ سب چیزیں اُس وقت ہوں گی جب افراد جماعت عاجزی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوں گے اور سچائی کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوں گے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوں گے۔تو یہ ہے خلاصہ ان مقاصد کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جلسہ سالانہ منعقد کرکے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کی روح اور تڑپ پیدا نہیں ہوتی۔ اب یہاں جلسے کی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے، رونقیں شروع ہو گئی ہیں۔ باہر سے آنے والا ہر مہمان اور یہاں کا رہنے والا ہر شخص صرف اس رونق کو دیکھ کر اور بازاروں میں پھر کر خوش نہ ہو بلکہ ابھی سے جلسے کے استقبال کے لئے جو ایک لحاظ سے شروع بھی ہو چکا ہے دعاؤں میں مشغول ہو جائے۔ ہر ایک اس جلسے کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی گئی دعاؤں کا وارث بننے کے لئے دعاؤں میں مصرو ف ہو جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ان برکات کو سمیٹ سکے۔ نیز جلسے کے ہر لحاظ سے کامیاب ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدا ت اور رحمتوں اور فضلوں کے نازل ہونے کے لئے بھی دعائیں کریں۔ جو لوگ اس مقصد کے لئے سفر اختیار کرکے آ رہے ہیں ان کے خیر وعافیت سے یہاں پہنچنے کے لئے دعا کریں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ان کا حافظ ہو۔ بھارت کے دُور دراز علاقوں سے لوگ آرہے ہیں یا آنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن مخالفین کی بعض حرکات کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان بے چارے غریب لوگوں کے لئے دعا کریں، بڑی تکلیف اٹھا کر جلسے میں شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سفر کے ہر شر سے بچائے اور ہر خیر ان کا مقدر کر دے۔ سفر کئی طرح کے ہوتے ہیں لیکن بہت ہی بابرکت ہے وہ سفر جو دینی اور روحانی اغراض کے لئے کیا جائے۔ اس لئے جہاں بہت سے لوگوں کو دعاؤں کا موقع مل رہا ہو گا اپنے ساتھ ان سب کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جو یہاں آ رہے ہیں،سفرمیں ہیں یا آنے کی خواہش اور تڑپ رکھتے ہیں لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے آنہیں سکے۔
جلسے کی مناسبت سے مَیں یہاں کے رہنے والوں، کارکنوں اور مہمانوں کو چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال ایسے مہمان بھی یہاں آئے ہیں جو بڑی کوشش کرکے دور دراز علاقوں سے یا دوسرے ملکوں سے یہاں آئے ہیں یا آ رہے ہیں۔ میرے یہاں آنے کی وجہ سے بعض ایسے لوگ بھی آئے ہیں اور مجھے ملے ہیں جو صحت کی کمزوری یا دوسری روکوں کے باوجود راستے کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیک خواہشات کو اور تمناؤں کو اور دعاؤں کو جن کو لے کر وہ یہاں آئے ہیں قبول فرمائے۔یہ سب لوگ بڑے پیار اور خلوص سے مل رہے ہیں۔ آنکھوں میں پہچان اور شدت کے جذبات ہیں اور یہ جذبات بالکل نئے احمدیوں میں بھی ہیں جنہوں نے ایک دو سال پہلے بیعت کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے صدیوں کے بچھڑے ملے ہوں۔ یہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کی خلافت سے محبت کی وجہ سے ہے۔ یہ حالت دیکھ کر، آپ لوگوں کے، مہمانوں اور یہاں کے رہنے والوں کے اخلاص و وفا اور تعلق کو دیکھ کر بے اختیار اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت پر پیار آ تا ہے۔احمدیوں کی یہاں چھوٹی سی جگہ ہے، یہاں کی احمدی آبادی کے جس گلی کوچے میں جاؤ نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کی صدا گونج رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ حقیقت میں اپنی کبریائی ہر احمدی کے دل میں راسخ کر دے۔جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی حقیقت کو پائے رکھیں گے اس وقت تک راستے کی کوئی روک ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ پس ان دنوں میں خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے رب کی پہچان، فہم و ادراک اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کے مطابق عمل کرنے والے ہوں کہ:
’’ اے سننے والو سنو کہ خداتم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُس کے ہو جاؤ، اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، نہ آسمان میں نہ زمین میں ‘‘۔ اللہ ہمیں ایسا بنا دے، ہم اس کے ہر حکم پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ اس کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی مثالیں ہمیں جماعت احمدیہ کے اندر نظر آتی ہیں۔ زبان، معاشرہ، قبیلہ، قوم، ملک مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی پہچان ہے، ایک دوسرے کے لئے قربانی کا شوق ہے۔ آج آپ دیکھ لیں بہت سے لوگ مختلف جگہوں سے آئے ہیں جو اس حسین معاشرے کے گواہ ہیں۔ قادیان کی مختصر سی احمدی آبادی آنے والوں کے لئے کس طرح خوشی سے اپنے آراموں کو تج کر حضرت مسیح موعود؈ کے مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہے۔ اپنے گھر مہمانوں کو دئیے ہوئے ہیں۔ جن کے زیادہ مہمان آرہے ہیں، انہوں نے اگر صحنوں میں گنجائش ہے تو صحنوں میں چھولداریاں یا خیمے لگا کر رہائش کی جگہیں بنائی ہوئی ہیں۔
یہ نظارے دیکھ کر ربوہ کے جلسوں کے نظارے بھی نظر کے سامنے گھوم جاتے ہیں، جب وہاں جلسے ہوتے تھے تو یہی نظارے نظر آتے تھے۔ یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل ربوہ اور اہل پاکستان کی بے بسی کے دن بھی اپنے فضلوں سے بدلے اور وہ چہل پہل، وہ رونقیں، وہ قربانیوں کی مثالیں، دوبارہ وہاں جاری ہو جائیں۔ تو بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آنے والے مہمانوں کی اہل قادیان خوب خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور یہ سب اپنے گھر بار اور جو بھی دوسری سہولتیں میسر ہیں، اس پاک مقصد کے لئے آنے والے مہمانوں کے لئے مہیا کر رہے ہیں۔ 24گھنٹے ان کے لئے اپنی خدمات وقف کی ہوئی ہیں۔ لیکن جب کام کی زیادتی ہو تو غیر ارادی طور پر بعض دفعہ کارکنان سے مہمانوں کی دل آزاری ہو جاتی ہے۔ کارکنان کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے، جیسا کہ کل بھی مَیں نے مختصراً کارکنان کے معائنہ کے وقت خطاب میں کہا تھا کہ جو بھی حالات ہوں، انتہائی وسیع حوصلگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بعض دفعہ ایسے مواقع پیش آجاتے ہیں کہ مہمان کی طرف سے کسی بات کا مطالبہ ہوتا ہے جو یا تو جلسے کے حالات کے مطابق جائز نہیں ہوتا یا فوری طور پر اس کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو مہمان اس بات پر سخت رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور جواباً کارکن بھی اسی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایک کارکن کو زیب نہیں دیتا۔جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہر حالت میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے اس لئے احتیاط کریں۔ بعض نئے معاونین بھی ہوتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اس خدمت کا اعزاز پایا ہے بعض طبیعت کے لحاظ سے گرم مزاج کے یا غصیلے ہوتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر اپنی طبیعت پر کنٹرول نہیں تو ڈیوٹی سے معذرت کر دیں۔ یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے جو کسی بھی صورت ایک احمدی کارکن کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خداتعالیٰ کی خاطر آئے ہوئے مہمان ہیں۔ اس لئے مومن کی یہ شان ہے کہ ان کا احترام کرے۔
اللہ تعالیٰ نے مومن متقی کی یہ نشانی بتائی ہے کہ

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس (آل عمران:137)

یعنی مومن غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ تو جب عام انسان سے بھی اس سلوک کا حکم ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کرکے آتے ہیں۔ ان سے تو بڑ ھ کر عفو اوردرگزر کا سلوک ہونا چاہئے اور خداتعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل ہونا چاہئے کہ

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا

یعنی لوگوں سے پیار اور محبت سے بات کیا کرو۔ یقینا ممکن ہے کہ اپنے رویے کی سختی کے بعد آپ کے نرم رویے اور درگزر اور پیار کو دیکھ کر مہمان خود ہی شرمندہ ہو کر اپنے بے موقع مطالبے سے دست بردار ہو جائے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ یہ آنے والے مہمان نیک ارادے سے آنے والے ہیں یقینا کارکنان کے اعلیٰ اخلاق کے رویّے سے ان میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا احساس بڑھے گا جبکہ آپ کے سخت رویّے سے سوائے کج بحثی یا جھگڑے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
پھر یہاں کارکنان بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک تو یہاں بھارت کے رہنے والے ہیں جن میں آگے پھر قسمیں ہیں۔ معاشرے اور روایات کے لحاظ سے فرق ہے۔ ایک تعداد تو یہاں قادیان کے رہنے والوں کی ہے۔ یہ باوجود مختلف قومیتوں کے ہونے کے کم و بیش ایک مزاج کے ہیں۔ ان پرماحول نے کچھ اثر ڈالا ہوا ہے۔ ان میں جامعہ وغیرہ کے طلباء بھی ہیں ان پر بھی خاص ماحول کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ وہ واقف زندگی ہیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں گزارنے کا عہد کیا ہے۔کچھ تربیت اور ٹریننگ کا اثر ہوتا ہے ان کے مزاج بدلتے ہیں۔ اور ہر اس طالب علم کا جس نے اپنی زندگی وقف کی ہے بلکہ ہر واقف زندگی کا مزاج بدلنا چاہئے۔ دوسرے کچھ کارکنان ہندوستان کے جنوب سے یا کشمیر سے آنے والے ہیں۔ یہی مجھے زیادہ نظر آئے ہیں، جب مَیں دو تین جگہ پر گیا ہوں۔ ان کے رہن سہن میں، معاشرے میں بہت فرق ہے۔ اس لئے بعض دفعہ مزاجوں کے خلاف بات ہو جائے یا کسی وجہ سے غلط فہمی ہو جائے تو آپس میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ پھر جیسا کہ مَیں نے کہا باہر سے آنے والوں کی دوسری قسم خاص طورپر پاکستان سے آنے والے کارکنان بھی ہیں جو شوق سے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ تو یاد رکھیں کہ آپ جس جذبے کو لے کر آئے ہیں اس جذبے کے ساتھ خدمت کر سکتے ہیں۔ آپ کو بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہاں موقع نہیں ملتا۔بعض کے لئے یہ بالکل نیا کام ہے اس لئے بعض کو شاید کام کرنے میں دِقت بھی ہو، سمجھ نہ بھی آتی ہو کہ کیا کرنا ہے۔لیکن اگر بے لوث خدمت کے جذبے سے اور اپنے افسر کی اطاعت کے جذبے سے کام کریں گے تو آپ خدمت کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی ہوں گے۔ تو دونوں قسم کے کارکنان یہ یاد رکھیں کہ یہاں آپ کسی جگہ کے خاص شہری ہونے یا کسی خاص قبیلے یا علاقے کے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے بلکہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے کر رہے ہیں اور کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے اس لئے ایک احمدی کا نمایاں وصف چاہے وہ کہیں کا بھی شہری ہو یہ ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمت کرنی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں تبھی آپ کا یہ جذبہ ہر وقت بیدار رہے گا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس نبی کے غلام ہیں جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے کو مہمان کی عزت اور تکریم کرنے کے لئے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تین دن تک اس کی مہمان نوازی کرو۔ اس طرف خاص توجہ دلائی ہے۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان سے مہمان نوازی کو باندھا ہے۔ تو اس حدیث میں یہ تین دن کی مہمان نوازی کی جو ہدایت ہے یہ تو مہمان کو احساس دلانے کے لئے ہے کہ میزبان پر بوجھ نہ پڑے۔ لیکن اگر نظام جماعت کی طرف سے زائد عرصہ کی میزبانی ہو رہی ہے تو آپ لوگوں نے جو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے توآپ سب کو، تمام کارکنوں کو اتنا عرصہ خوش دلی سے میزبانی کرنی چاہئے۔
اور پھر آپ اس غلام صادق کے نمونے دیکھیں کس قدر خوبصورت ہیں کہ اندھیری راتوں میں لالٹین کی روشنی میں جا کر مہمان کو دودھ پلا رہے ہیں۔ مہمان آتے ہیں تو خود ہی طشتری میں کھانا لگا کر مہمان کے لئے لا رہے ہیں اور کبھی کسی طرح اور کبھی کسی طرح مہمان کی مہمان نوازی کے اہتمام کر رہے ہیں۔ آسام سے آئے ہوئے مہمانوں کے بارہ میں مشہور واقعہ ہے کہ وہ آئے اور کسی وجہ سے مہمان خانے کے عملے سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پتہ لگا کہ مہمان ناراض ہو کر ٹانگے میں بیٹھ کر واپس روانہ ہو گئے ہیں تو کس طرح آپ ان کے پیچھے جلدی جلدی روانہ ہوئے۔ اتنی جلدی میں کہ جوتی بھی چلتے چلتے پہنی۔ اور جب راستے میں ان مہمانوں کو جا لیا، ان کو راستے میں پکڑ لیا، ان کے پاس پہنچ گئے، تو حضور علیہ السلام نے ان سے خود ہی لنگر خانے کے عملے کے رویے پر معذرت کی۔ ان کو واپس چلنے کے لئے کہا۔ پھر ان کو ٹانگے پر بٹھانے کی کوشش کی کہ مَیں پیدل چلتا ہوں آپ ٹانگے پر بیٹھ کر چلیں۔لیکن مہمان بھی شرمندہ تھے۔ وہ ساتھ چلے اور واپس آئے، آخر قادیان پہنچے۔ حضور علیہ السلام نے خود ہی ٹانگے سے سامان اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ مہمان بھی شرمندہ ہیں روک رہے ہیں اور خود ہی سامان اتارنا چاہتے ہیں۔ مہمان خانے کا عملہ بھی شرمندہ ہے فوراً سامان اتارنے کے لئے آگے بڑھا۔ پھر آپ نے عملے کو نصیحت کی کہ مہمان دُور سے آئے ہیں ان کے جذبات کا خیال رکھا کرو۔پھر ان کے علاقے کے رواج اورمزاج کے مطابق ان کے لئے خاص طور پر کھانا تیار کروایا۔ تو یہ ہیں نمونے مسیح پاک علیہ السلام کے۔
پھر کچھ عرصے بعد آخری عمر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے، طبیعت کی وجہ سے بھی اور مہمانوں کی زیادہ آمد کی وجہ سے بھی خود تو اس طرح براہ راست نگرانی نہیں کر سکتے تھے تو لنگر خانے کے، مہمان خانے کے نگران کو ہدایت کی کہ مہمانوں کا خیال رکھا کرو۔مَیں نے تم پر اعتماد کیا ہے اس اعتما پر پورا اترو۔ تو بہرحال یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ اب ان جلسوں پر آپ لوگ ہیں یا کارکنان ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ مہمانوں کی خدمت کریں۔ اس لئے پوری طرح حقِ مہمان نوازی ادا کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان جو یہاں آتے ہیں ان میں امیر بھی ہوتے ہیں غریب بھی ہوتے ہیں لیکن آپ نے ان سب کی خدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان سمجھ کر کرنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے دنوں میں جو یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ہی کھانا پکا کرے گا اس لئے تھاکہ سب مہمان برابر اور ایک طرح ٹریٹ (Treat)کئے جائیں، ایک طرح ان کی خدمت کی جائے تاکہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی تخصیص نہ ہو کہ یہ خاص مہمان ہیں اور یہ عام مہمان ہیں۔ تو آج بھی یہ روایت قائم ہے۔ لنگر خانوں میں ایک طرح کا کھانا پکتا ہے بلکہ بعض لوگ اپنے گھروں میں ٹھہرنے والے مہمانوں کے لئے علیحدہ کھانا بھی تیار کرتے ہیں لیکن اکثر یہ ہوتاہے کہ مہمان لنگر خانے کے کھانے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تو بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ مہمانوں کی عزت اور احترام اور تکریم کرنی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا بعض دفعہ ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں کہ سختی کرنے کی مجبوری ہوتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طو رپر سختی ہو جاتی ہے۔ لیکن ایک کارکن کو اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے تب بھی جذبات پر کنٹرول کرنا چاہئے۔ غلطی سے کوئی لفظ نکل بھی جائے تو فوری طور پر معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کرنا چاہئے۔
جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ یہاں مختلف ملکوں اور معاشر وں اور مزاجوں کے کارکنان ہیں لیکن آپ سب نے آپس میں ایک ہو کر کام کرنا ہے۔ آپس میں پیار محبت اور قربانی کے اعلیٰ نمونے دکھانے ہیں۔ بعض دفعہ بعض نوجوان جو زیادہ جوشیلی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ذرا سی بات پر جوش میں آ جاتے ہیں اور جھگڑکر نہ صرف فضا کو مکدر کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی دوسروں پر، غیروں پر، دیکھنے والوں پر بھی جماعت کا اچھا اثر قائم نہیں کر رہے ہوتے۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں بھی آپ خدمت کر رہے ہیں وہاں بعض عملہ یاکام کرنے والے غیر از جماعت یا غیر مسلم بھی ہوتے ہیں مثلاً لنگر خانوں وغیرہ میں آپ مزدوروں کوکسی قسم کی غلط حرکت کرکے غلط تاثر دے رہے ہوں گے۔ پس اس سے بھی بچیں۔
کچھ عرصے کی بات ہے مجھے ایک نوجوان نے لکھا کہ 1991ء میں آپ کی یہاں ڈیوٹی تھی، یعنی میری یہاں ڈیوٹی تھی۔ اُس وقت مَیں نے لنگر خانہ نمبر1میں بطور نائب ناظم کے لنگر میں ڈیوٹی دی تھی۔ اس لڑکے کی بھی یہاں ڈیوٹی تھی یہیں قادیان انڈیا کے رہنے والے تھے۔ اس لڑکے نے کہا کہ اسے غصہ آ گیا اور وہ کہتا ہے کہ مَیں نے ایسے الفاظ کہے جس سے پاکستانی معاونین اور کام کرنے والے، ڈیوٹی دینے والے جو آئے ہوئے تھے،ان کے خلاف غصے کا اظہار ہوتا تھا۔ تو مجھے اس نوجوان نے لکھا کہ اس وقت مَیں بالکل نوجوانی کی عمر میں تھا۔ اس لئے غصہ بھی زیادہ آتا تھا تو آپ نے مجھے دیکھا اور اس بات پر کچھ نہیں کہا او رمسکرا دئیے۔ اور میرے دوبارہ یا تیسری مرتبہ کہنے پر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے سمجھایا کہ ہم کس طرح ڈیوٹی دیں گے؟ ہم کون ہیں ؟ اس نوجوان پر اثر ہوا ہو گا تو اس نے یہ بات آج تک یاد رکھی ہے ورنہ اس وقت مَیں نائب ناظم کی حیثیت سے اس کی سرزنش کرتا یا شکایت کرتا یا پاکستانی جو دوسرے معاونین تھے ان کے غصے کو بھڑکنے دیتا تو صرف نفرتیں بڑھتیں اور کچھ بھی نہ ہوتا۔ تو یہ بات اس نے بارہ تیرہ سال یاد رکھی ہے اور اب مجھے لکھی ہے۔
تو آپس میں ڈیوٹیاں دینے والے پیار محبت سے کام کیا کریں۔ اس طرح جہاں کام کے بہتر نتائج نکلیں گے وہاں آپ خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بھی ٹھہریں گے۔وہاں آپ جماعت کا نیک اثر قائم کرنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس طرح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر بعض دفعہ افسران قومیت کے کمپلیکس (Complex)کی وجہ سے اپنے ماتحت افسران سے بلاوجہ چڑ جاتے ہیں۔ یہ ساری عملی باتیں ہیں جو سامنے آتی ہیں جن کو مَیں بیان کر رہا ہوں اور مَیں دیکھ چکا ہوں۔ اس سے کام پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ معاونوں اور مزدوروں کے کاموں پر بھی اثر پڑرہا ہوتا ہے اس لئے افسران صیغہ جات بھی اپنے ماتحتوں اور دوسرے شعبے کے افسران کے متعلق وسعت حوصلہ سے کام لیا کریں۔ افسران شعبہ جات تو بہرحال یہیں کے رہنے والے ہیں، اکثریت ان میں سے قادیان کی ہے یا شاید مربیان بھی ہوں گے۔ باہر سے آنے والے کارکنان مکمل طور پر ان سے تعاون بھی کریں اور ان کی اطاعت بھی کریں، کسی قسم کا شکوہ نہ پیدا ہونے دیں۔ لیکن بہرحال دونوں طرف سے ایک دوسرے کی خاطر بعض چیزیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ناظمین یا افسران شعبہ یا شعبوں کے جو انچارج ہیں وہ بھی یہ یاد رکھیں کہ بحیثیت نگران آپ کی تمام تر ذمہ داری ہے کہ شعبے کا کام صحیح طور پر اور صحیح نہج پر چل رہا ہو۔ اگر پاکستان سے آئے ہوئے کارکنان یا کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے کارکنان یا کوئی بھی کارکنان جو آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں، وہ صرف آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں چاہے وہ کسی بھی عمر یا لیول (Level)کے ہوں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ یہاں کے جو افسران اور انچارج بنائے گئے ہیں ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ کسی بھی شکایت یا بے قاعدگی کی صورت میں جوابدہ شعبہ کا افسر ہو گا۔ اس لئے کبھی آپ لوگوں کا یہ جواب نہ ہو کہ فلاں شخص جو پاکستان سے آیا تھا یا فلاں شخص جو فلاں ملک سے آیا تھا اور جس کو انتظامیہ نے اس کے تجربے کی وجہ سے ہمارے ساتھ لگا دیا تھا اس کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جس کی بھی کوتاہی ہو چاہے وہ معاون کی ہو افسران شعبہ یا نگران صیغہ جات کی جو بھی ہوں جو قادیان یا بھارت کے رہنے والے ہیں وہی ذمہ دار ہیں۔ اور بحیثیت افسر وہ اپنے سب کارکنوں کے نگران ہیں۔ اور یہی اصول ہمیں بتایا گیا ہے کہ نگران ہی اپنی زیر نگرانی کام کرنے والوں کے لئے یا اپنی رعایا کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کل معائنے کے دوران بھی کہا تھا کہ کارکنوں کی ڈیوٹیوں کی ادائیگی کی نگرانی بھی آپ نے کرنی ہے ان کے اخلاق کی نگرانی بھی آپ نے کرنی ہے، ان کی نمازوں کی ادائیگی کی پابندی کے بارے میں بھی آپ ذمہ دار ہیں۔تو ہر شعبے کا ہر کارکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا گیا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ جس طرح ہر مہمان کے لئے چاہے وہ غریب ہے یا امیر ہے جیسا کہ مَیں نے کہا، مہمان نوازی، کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرنا ہے۔ اسی طرح ہر مہمان کی عزت کرنا بھی آپ پر فرض ہے۔ اور کارکنوں کے یہی نمونے ہیں جو نئے آنے والوں کو مزید قریب لانے کا موجب بنتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ اچھے کھاتے پیتے مہمان کی خدمت تو ہو رہی ہو۔ ان کی عزت و احترام تو ہو رہا ہو اور یہاں دُور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی ہو رہی ہو۔
پھر جو باہر سے، دوسرے ملکوں سے مہمان آ رہے ہیں وہ بھی خیال رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں یا آئے ہیں ،جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اس لئے آپ یہاں آ کر اس ماحول کے تقدس اور احترام کا بھی خیال رکھیں۔ اس میں سلام کو رواج دینابھی ہے، ایک دوسرے سے محبت سے ملنا ہے، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ہے۔ سلام کو رواج دینا صرف سارے مہمانوں کا کام ہی نہیں بلکہ مہمان ہوں، میزبان ہوں، باہر کے ہوں، آپس میں اس ماحول میں سلام کو خوب رواج دیں تاکہ ہر غریب امیر میں یہ احساس پیدا ہو کہ ہم ایک جماعت ہیں۔ معاشرے اور مالی حالات کے فرق کے باوجود بحیثیت انسان، بحیثیت احمدی ہم بھائی بھائی اور ایک دوسرے کے لئے باعث عزت و تکریم ہیں۔ یہ نمایاں وصف ہے جو ہر احمدی میں اِن دنوں میں نظر آنا چاہئے۔ کسی کا علم، کسی کی نیکی یا اور خصوصیات بے فائدہ ہیں اگر اپنے غریب بھائیوں کے لئے دل میں عزت و احترام نہیں ہے۔
پھر مَیں مہمانوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جو ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آ رہے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کی طرف ہمیشہ نظر رکھیں۔ اپنے میزبانوں سے انتظامیہ سے غیر ضروری توقعات وابستہ نہ کریں۔ بے آرامی بھی اگر ہو تو اس کو برداشت کریں۔ جلسے کے یہ چنددن ہیں اور پھر آپ آئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں۔
باہر سے جو آنے والے ہیں خاص طور پر یورپ وغیرہ سے، بعض اوقات ان کو سردی بھی لگے گی، خاص طور پر گھروں کے اندر سردی لگے گی، کیونکہ وہاں ان کو ہیٹنگ (Heating) کی عادت ہے، یہاں وہ چیزیں اور وہ سہولتیں میسر نہیں۔ لیکن اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کر رہے ہوں گے تو اس کوفت میں بھی مزا آئے گا۔
بستروں کے لئے مَیں گزشتہ خطبے میں بھی بتا چکا ہوں کہ لے کر آئیں۔جو آ گئے ہیں اگر نہیں لائے تو یہاں سے خریدنے کا انتظام کریں، انتظامیہ سے رابطہ کرکے جو بھی میسر ہوسکتا ہے بہرحال جو توفیق رکھتے ہیں وہ خریدیں تاکہ نظام پر بوجھ نہ پڑے۔ پھرجب جلسہ ختم ہو گا اور اگر آپ کے بستر بہتر حالت میں اور نئی حالت میں اور اچھی حالت میں ہوں تو جاتے ہوئے آپ یہاں کے انتظام جلسہ کو دے کر جا سکتے ہیں تاکہ اگلے سال مہمانوں کے کام آ سکیں۔ یہ بھی آپ کے لئے ایک ثواب کمانے کا ذریعہ ہے۔ تو بہرحال جن کو یہاں کے انتظام کے تحت بستر ملیں، جیسے بھی ہیں اس پر صبر شکر کریں۔
اس سال آج تو کچھ سردی کا ذرا سا زور ہے، 1991ء کی نسبت تو بہت کم سردی ہے شاید جلسے کے دنوں میں بڑھتی چلی جائے۔ بہرحال 1991ء میں مجھے یاد ہے کہ شدید سردی تھی اور رضائی اور لحاف ناکافی ہوتے تھے اس لئے سویٹر اور جیکٹ پہن کر ہی سونا پڑتا تھا۔ توبہرحال مہمان یہ بات یاد رکھیں کہ بجائے میزبان سے توقعات رکھنے کے خود جس حد تک انتظام کر سکتے ہیں جو آسودہ حال ہیں وہ اپنے انتظام کریں تاکہ جو غریب ہیں ان کے لئے جو انتظام ہے اس کے تحت جس حد تک سہولت میسر کی جاسکتی ہے، کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ سب مہمانوں کو صبر اور برداشت سے یہ دن گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی جو جلسے پر آتے ہیں اسی جذبے کے تحت آتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ بعض غصیلی طبیعتیں یا نازک مزاج اپنے رویے کی وجہ سے انتظامیہ کے لئے بھی تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور ماحول کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسی صورت جب ہو تو مہمان خود بھی جو ایک دوسرے کے واقف ہیں، ایک دوسرے کو پیار اور حکمت سے سمجھاتے رہیں۔ پھر سب احمدی چاہے وہ میزبان ہیں یا مہمان، اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ یہاں ہمارے جلسے پر بہت سے غیر از جماعت اور غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں۔ شوق سے شامل ہونے کے لئے آ جاتے ہیں اور عموماً بڑے متاثر ہو کر جاتے ہیں اور اب تو ایم ٹی اے کے کیمروں کی نظر بھی آپ پر ہو گی۔ اس لئے جلسے کے دوران اور سڑکوں وغیرہ پر آپ کی ہر حرکت اور سکون سلجھا ہوا ہونا چاہئے جو دوسروں پر نیک اثر ڈالنے والا ہو۔
یہاں کی ایک بڑی پڑھی لکھی شخصیت ہیں، ان کے زیرانتظام سکول بھی چلتے ہیں مجھے ملنے آئے تھے انہوں نے مجھے بتایاکہ مَیں بچپن سے اپنے والد صاحب کے ساتھ جلسے پر آ رہاہوں اور اب تو عادت پڑ گئی ہے اس لئے ہمیشہ شامل ہوتا ہوں حالانکہ وہ غیر مسلم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ قطع نظر اس کے کہ ہمارے مذہب اور احمدیوں کے مذہب میں فرق ہے لیکن جو باتیں جلسے میں ہوتی ہیں وہ ایسی پیاری اور نیکی کی باتیں اور نیکی کی طرف بلانے والی باتیں ہوتی ہیں کہ انہیں ضرور سننا چاہئے اور اس لئے مَیں شامل ہوتا ہوں۔ تو دیکھیں غیروں پر بھی ہمارے جلسوں کا ایک نیک اثر ہے۔ ہمارے بزرگوں نے جو اثر پیدا کیا اور اسے قائم رکھا۔ ہمارا بھی کام ہے کہ اپنی روایات کو قائم رکھیں۔ جس تعلیم کا دعویٰ ہے اس پر سختی سے کار بند ہوں۔ اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کے لئے بھی نیک نمونے قائم کریں۔ اس لئے ہر احمدی کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ اس نے نیک اور پاک نمونوں کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے۔ اگر ہم صرف نیک باتیں کرتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے تو یہ نیکی کی باتیں بے فائدہ ہیں۔ ایک احمدی میں کبھی بھی دو عملی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ جلسے بھی ہماری تبلیغ کے ذریعے ہیں اس لئے ہر احمدی کو جو اس میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے اپنی اصلاح کی طرف ان دنوں میں توجہ دینی چاہئے اور اپنے قول و فعل کو ایک کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے۔ فرمایا ہے

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:4-3)

یعنی اے مومنو! وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ خدا کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ ہے۔ اس کے عذاب کو بھڑکانے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:’’ یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک عمل نہ ہو۔ اَور باتیں عنداللہ کچھ وقعت نہیں رکھتیں ‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء)۔یعنی ادھر ادھر کی باتیں مارنا یابہانے کرنا یا وضاحتیں کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتیں۔ عمل ہی ہے جو وقعت رکھنے والی چیز ہے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ اسلام کا دعویٰ کرنا اورمیرے ہاتھ پر بیعت توبہ کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں۔ منہ سے دعویٰ کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت نہ دینا خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتا ہے اور اس آیت کا مصداق ہو جاتا ہے

لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:4-3)۔ ……

پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعویٰ ہے یا جو میرے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعویٰ کے مطابق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آجاتا ہے۔ اس سے بچنا لازم ہے۔(تفسیر حضرت مسیح موعود؈ زیر سورۃالصف)۔ اس غضب سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ دعائیں کرتے رہو کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خد انہ رکھے‘‘۔(تفسیر حضرت مسیح موعود؈ زیر سورۃالصف)
پس آپ سب جن کو اللہ تعالیٰ نے جلسے سے چند دن پہلے مسیح پاک کی اس روحانیت سے پُر اور پیاری بستی میں آنے کاموقع دیا ہے، مختلف جگہوں پر جاتے ہیں، پرانی عمارتیں ہیں، بہشتی مقبرہ ہے، ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ تو یاد رکھیں کہ آپ نے اپنے قول و فعل میں یک رنگی پیدا کرنی ہے اور یہ کیفیت پیدا کرنے کے لئے دعائیں کرنی ہیں۔ جو آرہے ہیں وہ بھی یہاں کے دن رات دعاؤں میں گزاریں۔ اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا بنائیں اور اپنے نمونوں سے غیروں پر بھی نیک اثرات قائم کریں۔ ہر جگہ ہر موقع پر آپ سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے، بازاروں میں پھرتے ہوئے، سودے خریدتے ہوئے، جو غیر مسلم ہیں ان سے باتیں کرتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے، کوئی بھی غیر ضروری اور غیر اخلاقی بات کسی احمدی کے منہ سے نہ نکلے۔ مختلف شخصیات جو مجھے ملی ہیں ان سے ملنے سے یہی تاثر ملتا ہے بلکہ بعض نے تو کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی نظر میں قادیان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ہر احمدی جو یہاں مختلف جگہوں سے آیا ہے وہ یاد رکھے کہ اس نے اس کے مقام اور تقدس کو مزید اجاگر کرنا ہے۔ یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم سچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا، یہی آپ کا نیک نمونہ خاموش دعوت الیٰ اللہ اور تبلیغ ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ جلسے کے دنوں میں یہاں مختلف جگہوں سے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے لئے نئی شکلیں ہوں گی، پہچانتے بھی نہیں ہوں گے کیونکہ قادیان کی تھوڑی سی آبادی ہے، اس سے پانچ چھ گنا زیادہ آبادی باہر سے آ ئی ہو گی تو ایسے مجمعوں میں بعض دفعہ شرارتی عنصر یا ایسا طبقہ آ جاتا ہے جو شرارت کرنے والا ہو۔ اس لئے جب تک کسی کے بارے میں صحیح علم نہ ہو جائے محتاط بھی رہیں او رنظر بھی رکھیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کی بعض حرکتیں شک میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر کسی پہ شک ہو تو ہر احمدی کو نظر رکھنی چاہئے اور فوری طور پر انتظامیہ کو بھی بتا دینا چاہئے۔ خاص طور پر عورتوں میں نگرانی کی خاص ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لمبی تربیت کے بعد اس طرف توجہ پیدا ہو چکی ہے اور عموماً لوگ اس کا احساس کرتے ہیں۔ آپ کو انتظامیہ کی طرف سے تحریراً بھی ہدایات دی جا رہی ہیں یا مل چکی ہیں، اعلا ن بھی ہوتا رہتا ہے۔ کوئی مشکوک چیز دیکھیں، کوئی مشکوک آدمی دیکھیں،کوئی اور ایسی چیز دیکھیں جس سے آپ کے دل میں شک گزرے تو فوری طو رپر انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہمارے ساتھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے بڑھ کر ہماری حفاظت تو اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ لیکن بعض نئے آنے والوں کو، نوجوانوں کو مَیں اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کیونکہ ہر احمدی کی یہ ٹریننگ بھی ہونی چاہئے کہ وہ محتاط بھی ہو، نظر رکھنے والا بھی ہواور ہوشیار بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کوہر شر سے محفوظ رکھے اور آپ سب اس بستی اور اس جلسے کی برکتیں اور روحانیت سمیٹنے والے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں