خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍اکتوبر2005ء
رمضان میں جو تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں، رمضان کے بعد بھی ان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کوتوفیق دے کہ وہ دعاؤں میں لگا رہے اور اپنی ایمانی اور عملی حالت کو بڑھانے کی کوشش کرے۔
یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺکی طرف منسوب ہونے والوں کو عقل اور سمجھ دے اور وہ اس زمانے کے امام کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت نہ دیں۔
(آئینۂ کمالات اسلام سے قوم کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک درمندانہ دعا کا تذکرہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 28؍اکتوبر2005ء (28؍اخاء 1384ہجری شمسی ) بمقام مسجد بیت الفتوح لندن برطانیہ
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ :۔۱۸۷)
رمضان آیا اور بڑی تیزی سے گزر گیا، صرف چند روز باقی رہ گئے ہیں، پانچ چھ دن۔ جب رمضا ن شروع ہو تو انسان سوچتا ہے، ایک مومن سوچتا ہے کہ یہ تیس دن ہیں، اس میں بڑی نیکیاں کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ مَیں یہ بھی کر لوں گا، مَیں وہ بھی کرلوں گا جس سے خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکوں۔ لیکن آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ کیا! صرف چند روز رہ گئے؟ اور رمضان کا آخری جمعہ بھی آ گیا۔ مَیں تو کچھ بھی نہیں کر سکا۔ سوچنے والا، صحیح مومن یہی سوچتا ہے۔ تو بہرحال اب یہ چند دن بھی یہ احساس دلا دیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے جتنا سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں، خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی کوشش کریں، اس سے مدد مانگیں تو یہ احساس اور یہ عمل ہر قسم کی نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ دلانے والا ہو گا اور اس کی عبادت کی طرف خالص ہو کر متوجہ کرنے والا ہو گا، اس کے فضلوں کا وارث بنانے والا ہو گا۔ اس آخری عشرہ میں تو پہلے سے بڑھ کر خداتعالیٰ اپنے بندے کی طرف متوجہ ہو تا ہے۔ قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے بلکہ ان دنوں میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃالقدر کہا ہے اور یہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس ایک رات کی عبادت انسان کو باخدا انسا ن بنانے کے لئے کافی ہے۔ تو اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خالص ہو کر ان چھ دنوں میں ہی خداتعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو کیا بعید کہ یہ چھ راتیں بلکہ ان میں سے ایک رات ہی ہمارے اندر انقلابی تبدیلی لانے والی ہو، خدا کا صحیح عبد بنانے والی بن جائے اور ہماری دنیا و آخرت سنور جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد پیدائش تو یہی بتایا ہے کہ اس کے عبادت گزار بندے بن جائیں۔ یہی پیدائش کا مقصد ہے۔ پس اپنی عبادتوں کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے یہ چند دن رہ گئے ہیں۔ اور ان چند دنوں کے بارے میں خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا۔ پس یہ گناہگار سے گناہگار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کرلو۔ پس جن کو اس رمضان کے گزرے ہوئے دنوں میں دعاؤں کا موقع ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے، اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کا موقع ملا ہے یا جن کو اپنی شامت اعمال کی وجہ سے گزرے ہوئے دنوں کی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں پیدا کرتے ہوئے ان آخری دنوں کی برکات سے فیض اٹھاتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان بقیہ دنوں کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ دن جو ہیں ان کو دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلے بھی رمضان سے متعلقہ احکامات ہیں اور اس کے بعد بھی جو آیات آتی ہیں ان میں بھی۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں۔ میں دُعا کرنے والے کی دُعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ تو اس میں اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا طریق ہمیں سمجھا دیا۔ پہلی بات تو یہ کہ صرف اپنی دنیاوی اغراض کے لئے ہی میرے پاس نہ آؤ بلکہ مجھے تلاش کرنے کے لئے میرے پاس آؤ۔میری رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ جب مجھ سے مجھے مانگو گے تو پھر مَیں تمہیں بتاؤں گا کہ مَیں تمہارے سے دورنہیںہوں۔ مَیں تو تمہارے قریب ہوں بلکہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اور مَیں اپنے لئے اپنے بندے کی پکار سن کر دوڑتا ہوا اس کی طرف آتا ہوں۔ مگر تم اس طریقے اور سلیقے سے مجھے پکارو تو سہی جومَیں نے تم کو بتائے ہیں۔ صرف اپنا مطلب پڑنے پر ہی مجھے آواز نہ دو ۔ جب کسی مشکل میں گرفتار ہو جاؤ صرف اسی وقت مجھے نہ پکارو۔ صرف کسی ضرورت اور تکلیف کے وقت ہی نہ مجھے پکارو گو کہ ایسی تکلیف کی حالت میں بھی پکارنے والوں کی تکلیفیں اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے۔ لیکن صرف ایسی صورت میں پکارنے سے دوستیاں قائم نہیں ہوتیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بندے کا خداتعالیٰ کے ساتھ دوست کا معاملہ ہے ۔پس اصل اورپائیدار اور ہمیشہ رہنے والی دوستی کے لئے دوست کی باتیں بھی ماننی پڑتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری بات پر لبیک کہو۔ جو میں کہتا ہوں اسے مانو تو پھر یہ ہماری دوستی پکی ہو گی۔ اس لئے پہلا حکم جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے یہی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو۔ صرف رمضان کے تیس دن عبادتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ فرمایا کہ میرا حکم یہ ہے کہ مستقل عبادت کرو ۔ روزانہ کی پانچ نمازیں باجماعت ادا کرو جو فرض کی گئی ہیں ۔ مردوں کے لئے یہی حکم ہے کہ مسجد میں جا کے اداکریں یا جہاں بھی سنٹر ہے وہاں جا کے ادا کریں، عورتوں کے لئے حکم ہے گھروں میں پانچ نمازیں پڑھیں، وقت پر نمازیں ادا کریں۔ اپنی نمازوں کی خاطر دوسری مصروفیات کو کم کریں۔ جس طرح آج کل رمضان میں ہر ایک کوشش کرکے نمازوں کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے۔ تو اس طرح رمضان کے بعد بھی وقت پر پانچوں نمازیں ادا کرو۔ کوئی دوستی اللہ تعالیٰ کی دوستی سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس ذات پر ایسا ایمان ہو جو کسی اور پر نہ ہو اور ہمیشہ اسی کو مدد کے لئے پکارو۔ یہ نہ ہو کہ بعض دفعہ بعض معاملات میں مدد کے لئے تم غیراللہ کی طرف جھک جاؤ، ان سے مدد مانگنے لگو۔ اگر یہ صورت ہو گی تو یہ کمزور ایمانی حالت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی ایمانی حالت کو بڑھائو۔ میرے پر پختہ اور کامل یقین رکھو۔ ہم کہہ تو دیتے ہیںکہ ہمیں خدا پر بڑا پکّا ایمان ہے لیکن بعض دفعہ ایسے عمل سرزد ہو جاتے ہیں جو ہمارے دعوے کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایمان کی تعریف یہ ہے کہ حق کی یا سچائی کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہو جائے۔ اب ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد، یہ تصدیق کرنے کے بعد کہ آپؑ خدا کے مسیح ہیں اور حق پر ہیں کس حد تک ہم نے آپؑ کی باتوں کی فرمانبرداری کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے آپؑ نے جن شرائط پر ہم سے بیعت لی ہے اس تعلیم پر کس حد تک ہم عمل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو احکامات دئیے ہیں ان پر کس حد تک عمل کرکے ہم فرمانبرداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اور کس حد تک ہم نے فرمانبرداری کرنی ہے اس فرمانبرداری کی مزید وضاحت، اس ایمان کی حالت کی مزید وضاحت اس طرح ہوتی ہے کہ ہمارا دل بھی اس بات کی تصدیق کر رہا ہو ہماری زبان بھی اس بات کا اقرار کر رہی ہو اور ہمارے ہر عضوکا، جسم کے ہر حصے کا عمل بھی اس بات کی تصدیق کر رہا ہو۔ تو یہ ہے ایمان کی حالت۔ اکثر دفعہ اکثر کا دل تو اس بات کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے یا کم از کم یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے، یہ بات حق ہے، یہ سچ ہے لیکن وہ صرف دل میں یہ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں گو بعض دفعہ زبان سے بھی اظہار کر دیتے ہیں کہ یہ بات حق ہے، یہ سچ ہے اور میرا دل خدا پر ایمان لاتا ہے۔ مَیں خدا کو مانتا ہوں۔ لیکن اس چیز سے ایمان مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ جسم کے ہر عضو سے، ہر حصے سے یہ اظہار ہونا چاہئے کہ میرا کوئی بھی عمل خداتعالیٰ کی تعلیم کے خلاف نہ ہو، تب جا کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتقاد بھی ہو، قول صدق بھی ہو اور عمل صالح بھی۔ یہ ساری چیزیں اکٹھی ہوں گی تو اس کو ایمان کہا گیا ہے اور اگر یہ تینوں چیزیں اکٹھی نہیں ہیں تو کامل ایمان بھی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پر ایمان لائو اور اس طرح ایمان لاؤ۔
اب دیکھیں کتنے خداتعالیٰ کے احکامات ہیں، کتنوں پر ہم عمل کرتے ہیں۔ عبادت کو ہی لے لیں، کیا ہم اس کا حق ادا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ہیں، کیا ہم ان کو ادا کرتے ہیں۔ اگرکسی معاملے میں ذرا سا کہیں اپنا مفاد آجائے تو فوراً سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے مفاد کی فکر ہوتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو اور پھر دعا کے لئے صبر سے مانگتے چلے جانے کی شرط ہے۔ جلدبازی کرتے ہوئے بیچ میں چھوڑ دینا دعا مانگنے کا طریق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ جب صبر سے دعا کرتے ہیں اور جب بھی دعا کرتے ہیں صبر سے کرتے ہیں اور جلدبازی نہیں کرتے جب اس طرح کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے مقصود کو پا لیتے ہیں۔ اور ان کا مقصود کیا ہوتا ہے۔ کیا چیز انہوں نے حاصل کرنی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، جیسا کہ فرمایا
وَالَّذِیْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ (الرعد:23)
اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے صبر کرتے ہیں، مستقل مزاجی سے اس سے دعائیں مانگتے ہیں اور پھر مانگتے چلے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا پھر مَیں دعاؤں کو سنتا بھی ہوں بشرطیکہ اس کا حق ادا کیا جائے یعنی یہی کہ صبر کے ذریعہ سے مانگتے چلے جائیں اور مقصد بھی ان کا یہ ہو کہ میری رضا حاصل کرنی ہے تو باقی چیزیں تو ضمنی چیزیں ہیں، وہ تو مل ہی جائیں گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے گی۔ فرمایا کہ
سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ (الرعد:25)
تمہارے اس صبر اور ثابت قدمی کی وجہ سے تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے اس طرح مانگنے کی وجہ سے تمہیں میری نعمتیں حاصل ہوں۔
پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور اچھے انجام کی خبر مل رہی ہوتو پھر کسی اور طرف جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ ایک مومن کو صبر سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے اور جب ہم دعائوں میں خداتعالیٰ سے اس کی رضا اور توجہ مانگیں گے تو غیرضروری دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ دوسری سب دعائیں غیر ضروری بن جائیں گی۔ کبھی ہمارے منہ سے ایسی دعائیں نہیں نکلیں گی جو بعض دفعہ جلد بازی میں آ کر ایسی ہو جاتی ہیں جو خیر سے خالی ہوں۔ ایسی دعائیں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی جن میں صرف اور صرف اپنی ذات کا لالچ ہو ،صرف اور صرف دنیاوی ضروریات ہی ان کا محور ہو، دنیاوی ضروریات کے گرد ہی گھوم رہی ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ کی مرضی مل جائے گی تو خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خود ہمارا کفیل ہو جائے گا۔ خود ہی ہماری ضروریات پوری کرنے والا ہو گا۔ بعض دوسری دعائیں کرنے والوں جن کے اندر دعاؤں کی وجہ سے تبدیلیاں پیدا ہوئی ہوتی ہیں ، ان کو دیکھ کر بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ خیال آیا ہے کہ ہم بھی دعاؤں کی طرف توجہ کریں، ہم بھی ان جیسے بنیں۔ اگر یہ توجہ پیدا ہوئی ہے تو شرط یہ ہے کہ ان رمضان کے تیس دنوں کے بعدصبر ٹوٹ نہ جائے بلکہ دعاؤں کی عادت جو اس خالص ماحول کی وجہ سے پڑ گئی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے کہ ہم دعائیں کریں، یہ خیال آتا ہے تو اب یہ چیزیں زندگیوں کا حصہ بننی چاہئیں۔ ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اب ہم اس عادت کو جو ہمیںیا اس چیز کو جو ہم نے اپنائی ہے، اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لیں۔
جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔ تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے بھی ہمیں نجات دے۔ ہماری دعائیں قبول فرمائے، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (سورۃ البقرہ :۔۱۸۷)
یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے۔اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہو تو پھر توبہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اوراسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘۔ (البدرجلد 2مورخہ 24؍ اپریل1903ء صفحہ107)
پس یہ سچے دل کا اقرار ہے یہی ہے جو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ان بقیہ دنوں میں ہمیں خاص طور پر یہ اقرار کرنا چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس اقرار پر قائم رہیں اور رمضان کے بعد بھی جو تبدیلیاں ہم اپنے اندر پیدا کی ہیں ان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں، ان کو جاری رکھ سکیں۔ ہم اپنے اس عہد پر قائم رہیںکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور دعا کے ساتھ ساتھ جب ہم اپنا جائزہ لیں گے کہ کیا ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھ رہے ہیں تو پھر ہمیں مزید اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو گی، مزید توبہ کرنے کی توفیق ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی۔ نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملے گی۔ اور جب اس طرح ہو رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہماری توبہ قبول کرتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہو گا، مزید نیکیوں کے دروازے کھلتے چلے جائیںگے۔ پس یہ برکت اسی وقت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کام ہو رہے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ دعا خداتعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (سورۃ البقرہ :۔۱۸۷)
یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاںہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تومَیں اس کا جواب دیتا ہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیائے صالحہ کے ذریعے ملتا ہے کبھی کشف والہام کے واسطے سے۔ علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خداتعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔ غرض دُعا بڑی دولت اور طاقت ہے۔ اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی گئی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیھم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جائے ‘‘۔
(الحکم جلد9مورخہ17؍جنوری 1905ء صفحہ3)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ ان آخری دنوں میں خاص طورپر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ دعاؤں میں لگا رہے اور اپنی ایمانی اور عملی حالت کو بڑھانے کی کوشش کرے۔ دعائوں کی قبولیت کے لئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل کر رہا ہوتا ہے۔ پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت زیادہ دعائوں پر زور دیں اور رمضان کی برکات سمیٹنے کی ہر احمدی کوشش کرے۔ اور زیادہ تر دعائیں یہ ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور تب ہی ہمارا دعائیں کرنا ہماری زندگی کا مستقل حصہ بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی رضا ہم حاصل کر لیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لئے اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الاعتکاف۔ باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من شہر رمضان)
پس ہمارے سامنے یہ اُسوہ ہے۔ ان بقایا دنوں میں ہمیں چاہئے کہ خاص توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ دن گزاریں دعاؤں میں لگ جائیں اور اپنی دنیا وآخرت سنوارنے والے بن جائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر ۔ باب فضل لیلۃ القدر)
گزشتہ گناہ بخشے جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس کو آئندہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہو جائے گی اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے گی اور اس کا ہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے گا۔ پس ایک مومن جب اپنی غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے، اپنا محاسبہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا، اس کے آگے جھک رہا ہو گا، دعائیں کررہا ہو گا تو یہ دن یقینا اس میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے والا دن ہو گا۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ ا ن دنوں کواپنی زندگیوں کو سنوارنے کا ذریعہ بنالیں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام۔ باب ما جاء فی ثواب الاعتکاف)
پس دیکھیں، رمضان کی تبدیلیوں کو جو پاک تبدیلیاں دل میں پیدا ہوتی ہیں ان کو مستقل بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے۔ عید کی خوشیوں میں اکثر لوگ بھول جاتے ہیں، (اگلے جمعے عید بھی آنی ہے) کہ نماز بھی وقت پہ پڑھنی ہے کہ نہیں۔ تو رات کی عبادت کی طرف، نوافل کی طرف توجہ دلا کر یہ بتا دیا کہ فرائض تو تم نے پورے کرنے ہی ہیں لیکن اگرہمیشہ کی رضا اور خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو راتوں کو بھی ان دنوں میں عبادت سے سجاؤ۔ رمضان کے بعدبھی اور خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب خوشی کے موقعے ہوتے ہیں۔ جب آدمی کو دوسری طرف توجہ زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔ صرف ڈھول ڈھمکوں اور دعوتوں میں ہی نہ وقت گزار دو۔ پس یہ عبادتیں جو ہیں یہ زندگی کا مستقل حصہ بننی چاہئیں۔
دعاؤں کے سلسلے میں چند اور احادیث ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور کس طرح ہم دعاؤں کے فیض حاصل کر سکتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آچکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے زیادہ مفید بات دعا ہے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔(سنن الترمذی ۔کتاب الدعوات۔ باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید)
تو اللہ تعالیٰ کی محبوب دعاؤں میں سے سب سے زیادہ محبوب دعا اس سے عافیت طلب کرنا ہے، اس کی رضا حاصل کرنا ہے، اس کی پناہ میں آنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر باقی چیزیں تو ایک مومن کو خود بخود مل جاتی ہیں۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے۔
پس یہ دعاؤں کا تعلق مستقل قائم رہے گا تو پھر ہی قبولیت دعا کے غیرمعمولی نظارے بھی نظر آئیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تندسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے۔ ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔
مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے‘‘، کبھی تھکتے نہیں۔’’ اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھریوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے۔ اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ۔ اور پورے صدق اوروفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا۔ اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ خود بخود انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ دعا قبول ہو گئی۔ اپنے اندر ایک تبدیلی نظر آ رہی ہوتی ہے۔
فرمایا ’’پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیرمتبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے‘‘۔ صفات تو اس کی وہی ہیں لیکن ایک نیا انداز ہوتا ہے جب ایک انسان تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ ان صفات کے ساتھ ہی۔’’ جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کی شان میں اس کے تبدیلی یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے‘‘۔ یہی وہ خاص چیزیں ہیں جو انسان میں دعا کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے معجزات ہیں۔
’’غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے‘‘۔ ایک مٹی کو بھی قیمتی چیز بنا دیتی ہے۔’’ اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے۔ اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے‘‘۔(لیکچر سیالکوٹ ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ224-222)
پس یہ ہے دعا کرنے کا طریق اور یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہم سے توقعات۔ خدا کرے کہ اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک اس فلسفہ کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے اور یہ بہتر تبدیلیاں، پاک تبدیلیاں پھر ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔
ان دنوں میں اپنے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اس کے حکموں پر عمل کرنے اور چلنے کی توفیق ملے، اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کی ہمیں توفیق ملے۔رمضان کی برکات ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں۔ جو نیکیاں ہم نے اپنا لی ہیں ان کو کبھی چھوڑنے والے نہ ہوں۔ اور جو برائیاں ہم نے ترک کی ہیں وہ کبھی دوبارہ ہمارے اندر داخل نہ ہوں۔ ہماری اولاد در اولاد اور آئندہ نسلیں بھی خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور نیکیوں پر چلنے والی ہوں۔ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوںکو عقل اور سمجھ دے اور وہ اس زمانے کے امام کا انکار نہ کریں۔ اس کو پہچان لیں اور اس انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت نہ دیں۔ ہمارے دل تو بہرحال ان کی تکلیفوں سے بے چین رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعائوں کی توفیق دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصے میں قوم کے بارے میںکچھ دعائیںکی ہیں۔ ان میںسے چنددعائیں ایک آدھ لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ مَیں پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آپؑ نے فرمایا: اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بار ے میںمیری تضرعات کو سن۔ مَیں تیرے نبی خاتم النبییّن و شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ۔ اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما۔ ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما۔ انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں۔ اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگزر فرما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور ان کے بلند درجات اور راتوں کو قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القریٰ مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ۔ تُو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا۔ تُو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ انہیں وہ کچھ سمجھا جو تُو نے ہمیں سمجھایا ہے۔ اور ان کو تقویٰ کی راہوں کا علم عطا کر۔ (ترجمہ از عربی عبارت آئینۂ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد 5 صفحات23-22)
اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان سب کے سینے کھولے۔