خطبہ عيدالفطرسیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍نومبر2004ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ(الانفال:47)

الحمد للہ کہ رمضان خيريت سے گزر گيا اور آج ہم سب يہاں اکٹھے ہو کر عيد منا رہے ہيں۔ يہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہی ہے کہ اس کی خاطر جو چند دن کے ليے ہم نے اپنے آپ کو جائز چيزوں سے روکا تھا اس نے اس کے بدلے ميں آج عيد کی خوشياں دی ہيں۔ تو يہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے سلوک کے مطابق ہے کہ کوئي بھي نيکي تم کرو گے تو لازماً وہ اس کا اجر دے گا۔
انسان سو دنیاوی دھندے اپنی بہتری کے ليے کرے ليکن اس کی کوئی ضمانت نہيں ہے کہ ضرور اس کے آخر ميں اس کے ليے خوشی کے سامان ہوں گے يا کوئی بھی کام وہ کرتا ہے تو ضرور اس کے بہتر نتائج نکليں گے جبکہ خداتعالیٰ کی خاطر کی گئی نیکی کے لازمی بہتر نتائج نکلتے ہيں۔ اللہ تعالیٰ اجر ديتا ہے اور اس کے اظہار کے طور پر تمہیں سمجھانے کے ليے اس نے ان روزوں کے بعد ہميں يہ عيد کا دن دکھايا ہے اور يہ عيد کا دن اس ليے رکھا گيا ہے تا کہ يہ اظہار ہوتا رہے کہ ميري خاطر تمہاری جو تنگياں اور تکليفيں اور برداشت تھی اس کے بعد تمہيں خوشی مہيا کرتا ہوں۔ تو يہ عيد کا دن ہميں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا يہ پيغام ہے کہ تمہارے ہر نيک عمل کا اللہ تعالیٰ ضرور تمہيں اجر دے گا اور اس سے تمہيں خوشی پہنچے گی۔ اس کے بدلے ميں تمہارے ليے خوشی کے سامان مہيا ہوں گے۔ اس ليے ہميشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو، اس کے ديے ہوئے احکامات پر عمل کرتے رہو اور ان حکموں ميں سے ايک حکم يہ بھی ہے کہ آپس ميں بھائی بھائی بن کر رہو، ايک دوسرے کا خيال رکھو۔ اگر اس طرح رہو گے تو وہ ہميشہ تمہارے ليے خوشيوں اور عيدوں کے سامان پيدا فرماتا رہے گا۔ يہ آيت جو مَيں نے تلاوت کی ہے اس ميں بھي اسي طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے، اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے آپس ميں جھگڑا نہيں کرتے بلکہ پيار اور محبت سے رہتے ہيں۔ پس تم بھی اگر اللہ اور اس کے رسول کي اطاعت کرنے والے ہو تو آپس کے لڑائی جھگڑوں کو ختم کرو۔
ان لڑائی جھگڑوں کي وجہ سے نہ صرف اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرنے والے ہو گے بلکہ تمہارا جو جماعت کی وجہ سے ايک رعب قائم ہوا ہوا ہے وہ رعب بھي جاتا رہے گا، تمہاري طاقت ختم ہو جائے گی۔ دشمن اور مخالف تمہارے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے فائدہ اٹھائے گا۔ شيطان تمہارے ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تمہارے اندر وسوسے پيدا کرے گا اور ان ميں سے ايک يہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ميں نظام سے نفرت پيدا کر دے کيونکہ اس کی ايک صورت يہ بھی ہو سکتی ہے کہ لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تم اگر اپنے معاملے نظام جماعت کے پاس لے کر جاؤ گے تو جس فريق کے خلاف بھی فيصلہ ہو گا اس کے دل ميں کچھ نہ کچھ جماعتی عہديدار کے خلاف بدگماني پيدا ہو گی، اس کے متعلق بدگمانی پيدا ہو گی اور پھر يہی نہيں کہ تمہاري اس بات سے دشمن فائدہ اٹھائے گا بلکہ اس وجہ سے تمہارے اندر بزدلی بھی پيدا ہو جائے گی۔ بزدل آدمی جب لڑائي جھگڑے کر رہا ہوتا ہے تو پھر مقابلے کے ليے اپنے جتھے بنانے کی کوشش کرتا ہے، گروہ بنانے کي کوشش کرتا ہے اور پھر يہ مدد کرنے والے تمہارے سے اپنے کام بھی نکلواتے ہيں۔ تمہيں غلط راستوں پہ چلاتے ہيں۔ تمہيں عہديداروں کے متعلق باتيں بھی کريں گے اور ايسی بہت ساری باتيں پيدا ہوں گي جو قباحتيں پيدا کرنے والی ہوں۔ تو پھر يہ ايک شيطاني چکر ہے جو شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر يہ بھی ہے کہ پھر باتيں چھپی نہيں رہتيں۔ آپس کے جو لڑائی جھگڑے اور نفرتيں ہيں وہ پھر چھپے نہيں رہتے ۔وہ پھر غيروں تک بھی پہنچتے ہيں اور ان پر تمہارا ايک جماعت ہونے کی وجہ سے، ايک فردِ جماعت ہونے کی وجہ سے جو رعب ہے وہ رعب ختم ہو جاتا ہے۔ اس ليے فرمايا کہ اگر ايسے معاملات پيدا ہو جائيں تو صبر سے کام لو۔ اگر بہت ہی سنجيدہ معاملہ ہے جس کے حل کيے بغير گزارہ نہيں تو نظامِ جماعت کو بتا دو وہ تمہارے ليے کوئی بہتر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور پھر تم بہرحال صبر کر کے خاموش ہو جاؤ۔ اگر تمہارا يہ صبر خدا کي خاطر ہو گا، اس ليے ہو گا کہ جماعتی وقار کو ٹھيس نہ لگے، لوگوں کو جماعت پر انگلياں اٹھانے کا موقع نہ ملے، غيروں کو جماعت پر انگلياں اٹھانے کا موقع نہ ملے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر مَيں تمہارے ساتھ ہوں۔ میری خاطر کيونکہ تم نے يہ کام کيا ہے تو مَيں بہرحال پھر تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہاری بہتری کے سامان پيدا کرنے کي کوشش کروں گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو تو اس کو اپنی جناب سے ايسے سامان مہيا فرماتا رہتا ہے جو انسان کے ليے تسکين کا باعث بنتے رہتے ہيں، جو اس کے ليے خوشی کا سامان پيدا کر ديتے ہيں اور اللہ تعاليٰ جماعت کے وقار کی خاطر تمہاری اس قربانی کی بہت قدر کرتا ہے۔
پس يہ رمضان اور يہ عيد تمہيں يہ بھی سبق دے رہے ہيں کہ عام زندگی ميں بھی خدا کی خاطر دی گئی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ تمہارے ليے خوشی کے سامان پيدا فرمائے گا ان شاءاللہ۔ اس ليے جو ايک مہينہ کي ٹريننگ تم نے لی ہے اس کو اپنی زندگيوں کا حصہ بناؤ۔ سيدنا حضرت اقدس مسیح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ ’’اسلامی فرقوں ميں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے۔ پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا لَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِيْحُكُمْ۔جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے۔ اس لئے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کيا تا لوگ فرقہ بنديوں سے نکل کر اس جماعت ميں شامل ہوں جو بیہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سيدھے راستے پر چل رہي ہے جو نبی کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بتايا۔‘‘  (ملفوظات جلد10صفحہ370-371)
تو ديکھيں حضرت مسیح موعود عليہ السلام نے دنيا کو بتايا ہے، يہ اعلان فرما رہے ہيں، دوسرے مسلمانوں کو يہ دعوت دے رہے ہيں کہ جس پاک جماعت کا قيام مقدر تھا وہ بن چکی ہے۔ اس ليے اگر ايک ہو کر رہنا ہے تو آؤ اور اس جماعت ميں شامل ہو جاؤ کيونکہ اب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے طريق پر چلتے ہوئے ايک ہو کر رہنے والی اور جماعت کی مضبوطی کا احساس کرنے والی، لڑائی جھگڑوں سے بچنے والی يہی ايک جماعت ہے۔
تو ديکھيں يہ کتنی بڑی توقعات ہيں جو حضرت مسیح موعود عليہ الصلوٰة والسلام اپنی جماعت سے کر رہے ہيں، ہم سے کر رہے ہيں۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کريں۔ اپنی معمولی معمولی لڑائيوں اور ذرا ذرا سي بات پر زُود رَنجيوں اور رنجشوں کو ترک کريں۔ آپس ميں محبت اور پيار سے زندگی گزارنے کی کوشش کريں۔ ايک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈاليں۔
يہ ضروری نہيں ہوتا کہ ہر بات کا بدلہ ليا جائے اور لڑائی جھگڑوں کو بڑھايا جائے بلکہ عفو، درگزر اور صبر سے کام لينا چاہيے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث ٹھہريں۔
پس اس عيد کے دن جو ہر ايک کے ليے خوشی کا دن ہے اپني خوشيوں کو اَور بڑھانے کے ليے ان لوگوں سے بھی آگے بڑھ کر گلے مليں جن سے شکر رنجياں ہيں، ناراضگياں ہيں ،تلخياں ہيں۔ آپس ميں بول چال بعضوں کی بند ہے، چاہے وہ دوست ہوں، عزيز ہوں يا دفتروں ميں کام کرنے والے ہوں۔ مياں بيوي ہوں، ساس بہو ہوں، بہن بھائی ہوں تو جو بھی ہوں جب خدا کی خاطر اور جماعت کی مضبوطی کی خاطر ان ناراضگيوں کو دور کريں گے اور اپنے معاملات خدا پر چھوڑتے ہوئے صبر سے کام ليں گے تو اللہ تعالیٰ يہ اعلان فرما رہا ہے کہ ميں تمہارے ساتھ ہوں۔ ان محبتوں کو پھيلانےکی وجہ سے نہ صرف ذاتی طور پر تم فائدہ اٹھاؤ گے بلکہ تمہاری يہ بات جماعتی مضبوطی کا بھی باعث بنے گی اور جب ہر ايک کو اس بات کا احساس ہو جائے گا تو يہی چيز عيد کی بھی حقيقی خوشيوں کی ضامن بن جائے گی، حقيقی خوشياں دينے والی بن جائے گی۔ اللہ تعاليٰ سب روٹھے ہوؤں کو اس کی توفيق عطا فرمائے۔
ايک روايت ميں آتا ہے جو حضرت ابوہريرہؓ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ تعالیٰ قيامت کے دن فرمائے گا کہاں ہيں وہ لوگ جو ميرے جلال اور ميري عظمت کے ليے ايک دوسرے سے محبت کرتے تھے آج جبکہ ميرے سائے کے سوا کوئي سايہ نہيں ميں انہيں اپنے سايہ رحمت ميں جگہ دوں گا۔
(صحيح مسلم کتاب البر والصلةوالآداب باب في فضل الحب في اللہ حديث6548)
تو ديکھيں يہ ہے سلوک جو اللہ تعالیٰ اپنے سے محبت کرنے والے اور اطاعت کرنے والوں سے کرتا ہے کہ اپنے سايہ رحمت ميں جگہ دے گا جب کوئي اَور سايہ نہيں ہو گا۔
پھر ايک روايت ميں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سب سے بڑی فضيلت يہ ہے کہ تُو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہيں ديتا اسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے درگزر کر۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ373 مسند معاذ بن انس حديث15703 عالم الکتب بيروت 1998ء)
پس يہ ہے فضيلت جو آج ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہيے۔ جو تعلق رکھتا ہے جو تمہارا خيال رکھتا ہے اس سے تعلق رکھنا تو کوئی بڑی بات نہيں، اس کی تو کوئی حقيقت نہيں ہے، اس ميں تو کوئی فضيلت نہيں ہے بلکہ فرمايا فضيلت اس ميں ہے کہ جو تمہارے سے تعلق توڑتا ہے، جس سے تمہيں تکليف پہنچی ہے، جو تمہارے حق مار رہا ہے، جو تمہاريیبرائياں کرتا پھرتا ہے ان سب کو معاف کرو اور ان سے تعلق جوڑو اور اللہ کی خاطر جوڑے گئے تعلق جو ہيں اور اللہ کی خاطر کی گئی معافی جو ہے، درگزر جو ہے يہی تمہارے ليے فضيلت کا باعث ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ‘‘تمام انبياء عليہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک يہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقيقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت ميں ايک خاص رنگ پيدا کيا جاوے۔ جب تک يہ باتيں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔’’(ملفوظات جلد3 صفحہ95)اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسماً نہيں بلکہ دل کی گہرائيوں سے يہ تعلق جوڑنے کی توفيق عطا فرمائے۔
پھر آپؑ فرماتے ہيں ’’اس جماعت کو تيار کرنے سے غرض يہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ايک عضو ميں تقویٰ سرايت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بےجا غصہ اور غضب وغيرہ بالکل نہ ہو۔’’ فرمايا ‘‘ميں نے ديکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں ميں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کينہ اور بغض پيدا ہو جاتا ہے۔ اور آپس ميں لڑ جھگڑ پڑتے ہيں۔ ايسے لوگوں کا جماعت ميں سے کچھ حصہ نہيں ہوتا اور ميں نہيں سمجھ سکتا کہ اس ميں کيا دِقّت پيش آتي ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ايک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا ميں صبر سے تربيت ميں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکيب يہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے ليے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر ديوے اور دل ميں کينہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جيسے دنياکے قانون ہيں ويسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنيا اپنے قانون کو نہيں چھوڑ تی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کيسے چھوڑے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ127)
ان برائيوں کا مطلب يہی ہے کہ پھر جو نتيجہ نکلے گا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سزا ہو گی۔ پس جب تک تبديلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزديک کچھ نہيں۔ خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہيں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہيں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفاتِ حسنہ ميں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ ليکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ايک حصہ ابھی تک ان اخلاق ميں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہيں یعنی دشمن کو ہنسی ٹھٹھے کا موقع نہيں مل رہا بلکہ ايسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہيں۔اللہ تعالیٰ کا قرب نہيں پاتے۔
اللہ تعالیٰ ہميں نيک راہوں پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے اور ہميشہ اس کا قرب پانے والے ہوں۔ ہماری حقیقی عيديں تو تبھی ہوں گی جب ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت ميں داخل ہوں گے، کامل اطاعت ميں داخل ہوں گے اور جب ہم اس کے سايہ رحمت ميں جگہ پانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہميں اس کی توفيق عطا فرمائے۔
عيد کے ضمن ميں بھي مَيں ايک دو اَور باتيں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ايک حديث ہے۔ روايت ميں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ اپنی عيدوں کو خدا کي کبريائی بيان کرتے ہوئے سجاؤ۔
(کنز العمال جزء8 صفحہ546 باب صلاة عيد الفطر حديث24094 مؤسسة الرسالة بيروت 1985ء)
ايک اَور روايت ميں ہے کہ آپؐ نے فرمايا کہ تکبير و تحليل اور حمد و ثنا کرتے ہوئے اور خدا کی تقديس ظاہر کرتے ہوئے اپنی عيدوں کو زينت بخشو۔
(کنز العمال جزء8 صفحہ546 باب صلاة عيد الفطر حديث24095 مؤسسة الرسالة بيروت 1985ء)
تو عيد کا دن صرف اچھے کپڑے پہن کر اچھے کھانے کھا کر گزارنے کا نام نہيں ہے بلکہ عيد کے ليے عيد گاہ ميں آتے جاتے اور سارا دن بھي ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ميں صرف کرنا چاہيے۔ نمازوں کا بھی باقاعدہ خيال رکھنا چاہيے۔ نمازوں کی حاضری کی طرف بھی توجہ دينی چاہيے جس طرح رمضان ميں ہوتی رہی ہے۔ آج يہاں بيت الفضل ميں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے صبح کی نماز پہ تو کافی لوگ آئے ہوئے تھے جو قريب کے تھے۔ اللہ کرے کہ يونہی مسجديں نمازيوں سے بھری رہيں۔ ہماری اصل عيد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ميں ہی ہے اور يہی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ تمہاری عيدوں کی زينت صرف خوشياں منانے ميں نہيں ہے۔ يہ تہوار تو اَور لوگ بھی ڈھول ڈھمکے کر کے، باجے بجا کے مناتے ہيں۔ آج کل بھی يہاں بڑے پٹاخے بج رہے ہيں، ان کا کوئی دن ہے جو منائے جاتے ہيں پچھلے دنوں ميں منائے جا رہے تھے۔ بلکہ عيد کی زينت کو بڑھانے کے ليے اللہ تعالیٰ کو ياد کرنا بہت ضروری ہے اور نہ صرف فرض نمازوں کی حاضری بلکہ راتوں کو زندہ کرنے والے کے ليے بھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے خوشخبری دی ہے۔
ايک روايت ميں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو شخص محض للہ دونوں عيدوں کی راتوں ميں عبادت کرے گا تو اس کا دل ہميشہ کے ليے زندہ کر ديا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہيں مرے گا جب سب دنيا کے دل مر جائيں گے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصيام باب فيمن قام في ليلتي العيدين حديث1782)
ديکھيں کس قدر خوشخبری ہے ان لوگوں کے ليے جو عيد کی راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے زندہ کرتے ہيں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفيق عطا فرمائے اور ہر احمدی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا بن جائے۔ خدا کرے کہ يہ عيد جماعت کے ہر فرد کے ليے خوشيوں کی خبريں لے کے آئے اور ہميشہ ان خوشيوں سے حصہ پانے والے ہوں۔
اب ہم دعا کريں گے۔
سب دعا ميں شامل ہوں گے ان شاء اللہ۔ دعا ميں سب دنياکے احمديوں کو، اسيران کو، شہدائے احمديت کي اولادوں کو؛ سب دنيا کے مجبوروں، بے کسوں کو، ضرورت مندوں کو ياد رکھيں۔ اللہ سب کے ليے خوشيوں کے سامان پيدا فرمائے اور سب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے بن جائيں۔
اب عيد مبارک کا پيغام دينا بھی رہ گيا ہے۔ سب کو يہ عيد مبارک ہو اور جيسا کہ مَيں نے کہا ہميشہ خوشياں لے کر آئے۔ ربوہ کے رہنے والوں کے ليے بھی اور پاکستان کے رہنے والے احمديوں کو عيد مبارک۔ قاديان کے رہنے والوں کو بھی عيد مبارک۔ دنيا کے ہر خطے ميں رہنے والے احمديوں کو عيدمبارک۔ اللہ تعالیٰ سب کی عيد کو اور آئندہ آنے والی عيدوں کو خوشيوں سے بھر دے۔
(خطبہ ثانيہ و دعا)

اپنا تبصرہ بھیجیں