خطبہ عیدالاضحیہ امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ستمبر2017ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

لَنْ يَّنَالَ اللّهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ۔ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلٰى مَا هَدٰكُمْ۔ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج:38)

               اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ ان تک پہنچے گا ۔اسی طرح اس نے تمہارے لئے انہیں مسخّر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس بناء پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

               یہ آیت قربانیوں کے مضمون کو بیان کرنے والی آیات میں سے ہے اور حج کے مضمون کو بیان کرنےو الی آیات کے ساتھ یہ رکھی گئی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی حکم ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے وہ چاہے حج کے لئے جائیں یانہ جائیں وہ قربانی کرنے کی توفیق کی وجہ سے ان دنوں میںجانوروں کی قربانی ضرور کریں ۔ چنانچہ اسی وجہ سے دنیا میں کروڑوں مسلمان عید الاضحی جو حج اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانی کے حوالے سے منائی جاتی ہے اس میں جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں ۔لیکن صرف جانوروں کی قربانی کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں ٹھہرتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے اور مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اصل چیز تمہارے دلوں کی پاکیزگی اور تقویٰ ہے جس کی اللہ تعالیٰ قدر فرماتا ہے۔

               پس ایک مومن اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ میں نے عید پر اتنے موٹے اور اتنے قیمتی جانور کی قربانی دی۔ اگر تقویٰ نہیں اور قربانیاں تمہیں تمہارے دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں دلا رہیں تو چاہے تم جتنے بھی موٹے اور قیمتی جانور کی قربانی دے لو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بے فائدہ ہے۔ اس مضمون کی حکمت اور اس کی گہرائی اور تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف جگہوں میں بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے میں آپ کے بعض حوالے پیش کرتا ہوں۔

                اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اسلام نام ہے اپنی روح کو کامل رضا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے قدموں میں رکھ دینا یا اپنے آپ کو ذبح کرنے کے لئے پیش کر دینا۔ فرماتے ہیںکہ یہ مقام خدا تعالیٰ کی کامل معرفت کے بعد ملتا ہے اور کامل معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑ ھ معرفتِ کاملہ ہے۔ پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی محبت ،اس کا خوف اور اس کے مقام اور اس کی ذات کی پہچان یہ چیزیں ہیں جو معرفت پیدا کرتی ہیں اور جب یہ معرفت پیدا ہوتی ہے تو پھر انسان ہر گناہ سے بچتا ہے۔ اور آپ فرماتے ہیں کہ پھر انسان کو گناہوں سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا صحیح فہم اور ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں’’ پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفّارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے‘‘۔ نفس کی قربانی ہو تو تبھی انسان صحیح مسلمان بنتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ’’ اسلام کے معنی ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا‘‘۔ فرمایا کہ’’ یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے‘‘۔ خوشی اور رضا سے گردن تبھی انسان پیش کرتا ہے یا قربانی تبھی دی جاتی ہے جب محبت بھی کامل ہواور عشق بھی کامل ہو۔ اور فرمایا کہ’’ اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے۔ نہ کسی اَور چیز کی ضرورت۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے۔لَنْ يَّنَالَ اللّهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ۔ (الحج38)یعنی تمہاری( قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے‘‘۔ کیا قربانی ہے؟ ’’کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو‘‘۔(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 151-152)

               پس یہ نکتہ اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو خوفناک ہو اور تبھی کہہ رہا ہو کہ  مجھ سے ڈرویعنی خوفناک ہے اس لئے اس سے خوف کھانا ضروری ہے۔ نہیں ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا ہے جو کسی انتہائی پیار کے رشتہ کے ناراض ہونے سے ہوتا ہے۔ جیسے بچے کو اگر ماں کا خوف ہے کہ وہ ناراض نہ ہو جائے تو اس لئے نہیں کہ ماں کوئی خوفناک چیز ہے بلکہ ماں جیسا پیار کہیں نہیں ملتا اور بچے کا ماں کے ساتھ  ایک خاص تعلق ہوتا ہےجس وجہ سے وہ اس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا۔ اس کی ہر بات کی قدر کرنا جانتا ہے۔ بڑی عمر کو پہنچ کر بھی ماں باپ سے محبت کرنے والے بچے نہیںچاہتے کہ ماں باپ ناراض ہوں۔ اور ان کو راضی رکھنے کے لئے ہر کوشش کرتے ہیں۔ یا دنیاوی محبتوں میں ہم دیکھتے ہیں جو عارضی محبتیں ہیں کہ محبوب کے نخرے برداشت کرنے کے لئے بعض دنیا دار کیا کچھ نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ عارضی محبتیںہیں جس کی ایک وقت میں انتہا ہوتی ہے اور پھر اکثر ایک وقت میں ایسی محبتیں ختم بھی ہو جاتی ہیں ۔لیکن خدا تعالیٰ کی محبت ایسی ہے جو دنیا و آخرت سنوارنے والی ہے۔ پس یہ جو خوف خدا تعالیٰ کا ہے جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اپنے دلوںمیں پیدا کرو ،یہ محبت کی وجہ سے ہے ۔یہ خدا تعالیٰ کے مقام کی قدر کی وجہ سے ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہو اس کاحقیقی خوف نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے گناہ انسان اس لئے کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اسے نہیں ملی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے زبانی محبت کا دعویٰ تو ہے لیکن اکثر اوقات دنیاوی چیزوں کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت پر غالب آ جاتی ہے۔ اسی لئے انسان عارضی دنیاوی فائدوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات بھول جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک تو کہا جاتا ہے لیکن دنیاوی مالکوںکو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بسا اوقات پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ اکثر اوقات انسان کو ایسی پکّی عادتیں بھی ہو جاتی ہیںکہ وہ بالکل لاپرواہ ہوکرکام کر رہا ہوتا ہے۔ خیال ہی نہیں آتا کہ کوئی خدا بھی ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور جس کی مجھ پر نظر ہے۔ پس آپ نے فرمایاکہ جو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت رکھتے ہیں وہ اس کے خوف اور اس کی محبت کے بھی اعلیٰ معیار رکھتے ہیں اور یہ معیار رکھنے والے پھر گناہ کرنے میں بیباک نہیں ہوتے۔ وہ ان گناہوں سے پاک ہوتے ہیں ۔وہ دن رات اس فکر میں ہوتے ہیں کہ اپنے محبوب کو کس طرح راضی رکھیں۔ہر وقت اس کے حکموں کی تعمیل کرنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ دنیاوی مفادات کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح نہیں دیتے اور اس کے لئے اپنے نفس اور اپنی خواہشات کی قربانی بھی دینی پڑے تو دیتے ہیں اور اس قربانی کا نام ہی آپ نے فرمایا کہ اسلام ہے۔ یا ہمارے عہد بیعت میں جو ہم کہتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا تو یہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا حقیقی معیار اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے مقام کی، اس کی ذات کی معرفت حاصل ہو۔ اور یہ بھی واضح ہو جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ نفس کی قربانی اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہے یہ کسی مجبوری یا بے دلی کے ساتھ نہ ہو بلکہ اپنی دلی خوشی اور رضا سے ہو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہو۔

               اس مضمون کو آپ نے اور جگہ بھی بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام نے بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اوراپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔ لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  لَنْ يَّنَالَ اللّهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ(الحج38)‘‘بھیڑ بکریوں کی قربانی تو ایک نمونہ ہے یہ جائزہ لینے کے لئے کہ جس طرح یہ چھوٹی چیز ہماری خاطر قربان ہو رہی ہے اور ہم اس کو قربان کر رہے ہیں کیا ہم بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے نفس کی قربانی کر سکتے ہیں یا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تو یہ ظاہری نمونے ہیں جو انسان کے سامنے رکھے گئے ہیں تا کہ وہ اپنے جائزے لیتا رہے۔ آپ اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے۔ مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ ۔اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ ۔جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 99 حاشیہ)

               پھر ظاہری قربانیوں اور ظاہری نماز روزہ اور عبادتوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہ یہ کیوں رکھی گئی ہیں آپ نےایک جگہ مزید وضاحت بیان فرمائی ۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سُکھا دیتے ہیں‘‘۔ جوگی جو ہیں ان کی ایسی ریاضتیں  ہوتی ہیںکہ اپنےہاتھ ایک جگہ ایک پوزیشن پہ رکھیں گے اور کئی کئی دن کئی کئی مہینے وہیں رکھیں گے یہاں تک کہ  ان کے ہاتھ سوکھ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ’’ اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں‘‘۔ تکلیفیں تو ہیں لیکن اس سے ان کو کوئی نور نہیں حاصل ہوتا ’’اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے۔ بلکہ اندرونی حالت اُن کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر اُن کی روحانیت پر نہیں پڑتا‘‘۔ اس ریاضت کا، اس کوشش کا، اس مشقت کاجس میں وہ اپنے آپ کو ڈالتے ہیں کوئی روحانی اثر ان پہ نہیں ہوتا۔ فرمایا’’ اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ يَّنَالَ اللّهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْکُمْ(الحج38)یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کاگوشت اور خون نہیں پہنچتابلکہ تقویٰ پہنچتاہے۔ حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے‘‘۔ صرف ظاہری کھال اور ظاہری چمک دمک نہیں چاہئے بلکہ اصل مغز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ فرمایا کہ’’ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی ضرورت کیاہے؟‘‘ کیا ضرورت ہے نمازیں پڑھنے کی روزہ رکھنے کی۔ روح میں صرف ایک جذبہ پیدا ہو جانا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں دل میں خیال کر لیا اور کافی ہے۔فرمایا کہ ’’اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکّی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو رُوح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیّت پیدا نہیں ہو سکتی‘‘۔ اگر جسم کو مشقت میں نہیں ڈالو گے، روح کو جسم کے ساتھ نہیں چلاؤ گے یا جسم کو روح کے ساتھ نہیں چلاؤ گے تو پھر نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ احساس نہیں پیدا ہوتا ہے کہ ہر حاجت کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے ،اس کی عبادت کرنی ہے ،اس کی بندگی اختیار کرنی ہے ۔اور فرمایا کہ ’’وہ نیازمندی اور عبودیّت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے‘‘۔ مقصد تو یہی ہے جسم کی عبادت کا بھی ،روح کی عبادت کا بھی کہ نیاز مندی بھی پیدا ہو۔ عبودیت بھی پیدا ہو۔ ہر وقت  یہ احساس پیدا ہوکہ ہمیں حاجت کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے ہی جھکنا ہے اور اسی کی بندگی اختیار کرنی ہے اور اسی کی عبادت کرنی ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہیں تو یہ پیدا نہیں ہو سکتیں۔فرمایا’’اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔اور یہ جوگی اِسی قسم کے ہیں۔ روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہوجاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متأثر ہو ہی جاتی ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 4 صفحہ 420-421۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چلنے ضروری ہیں اور ایک مومن کو یہی حکم ہے کہ ظاہری عبادتیں اور قربانیاں بھی اپنا تقویٰ بڑھانے کے لئے کرو، اپنی روح کی بہتری کے لئے کرو۔ اپنے دل کو، اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے کرو۔

                تقویٰ کیا ہے جو آخری مقصد ہے اور جو ہماری قربانیوں اور عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول بناتا ہے۔ اس بارے میں بڑی وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شمار جگہ اپنی تحریر و تقریر میں بیان فرمایا۔ ایک موقع پر تقویٰ کی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ  ’’ اہلِ تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں ۔یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے ۔بڑے بڑے عارف اور صدّیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے‘‘۔ غصہ کو دبانا، غصہ سے بچنا یہ بہت بڑی کڑی منزل ہے بلکہ عارفوں اور صدیقوں کے لئے بھی بہت بڑی منزل ہے۔ فرمایا’’ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ تکبر اور غرور غصہ کی حالت میں پیدا ہوتا ہے ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب ،عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔انسان کو غصہ کیوں آتا ہے ؟اس لئے کہ اس کے اندر بعض حالتوں میں تکبر اور غرور پایا جاتا ہے ۔وہ دوسرے کو اپنے سے حقیر سمجھ رہا ہوتا ہے اور اپنے کو بڑا سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کی ذرا سی غلطی پر اس کو غصہ آ جاتا ہے ۔اس لئے فرمایا غصہ بھی تکبر اور غرور کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ ‘‘

               پس جو لوگ جلد غصہ میں آ کر لڑنے بھڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ان کے لئے اس میں سوچنے کا مقام ہے۔ چاہے وہ گھریلو تعلقات میں غصہ ہے ،میاں بیوی کے تعلقات میں ان پر غصہ کے اظہار ہیں یا اپنے معاشرتی تعلقات میں غصہ کے اظہار ہیں ۔ہر جگہ جہاں بھی ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر اس قربانی کی عید میں اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ ہم اپنے غصہ کو بھی قربان کریں اور اپنے نفس کو قربان کر کے اس کو بہتر بنائیں۔ فرمایا کہ کیونکہ غضب  اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔

                فرمایا’’ مَیں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر ِاستخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یاچھوٹا کون ہے ۔یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔‘‘ فرمایا’’ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں‘‘۔بڑی عزت و احترام سے پیش آتے ہیں’’ لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے ۔اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے ۔کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِيمَانِ۔وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(الحجرات12)‘‘اور ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد نہ کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگنا بہت بُرا ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی لوگ وہ ہیں جو ظالم ہیں۔ فرمایا کہ’’ تم ایک دوسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسَّاق و فُجّار کا ہے ۔جو شخص کسی کو چِڑاتاہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔‘‘ فرمایا’’ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سےکُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرّم و معظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰكُمْ۔ اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔(الحجرات 14) ‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ 36۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)تم میں سب سے زیادہ معزر اللہ کے نزدیک وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یقینا اللہ تعالیٰ دائمی علم رکھنے والا اور باخبر ہے۔

               پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ سچی معرفت عاجزی اور انکساری سے آتی ہے اس لئے انسان کو انتہائی عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور گرنا چاہئے اور اس سے ہی مدد بھی مانگنی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اَور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبّر اور فخر نہ کرے۔ نہ علمی ، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو اِن ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے۔ ‘‘ظاہری آنکھ سے بھی ہم دیکھتے ہیں جو اسی وقت استعمال ہوتی ہے جب روشنی ملتی ہے اور یہ روشنی آسمان سے ہی آتی ہے۔’’ اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے‘‘۔ چاہے وہ روحانی روشنی ہے یا ظاہری روشنی ہے۔ فرمایا ’’آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے ‘‘جو دلوںکی روشنی ہے جو اپنے دلوں کے اندھیروں کو دُور کرتی ہے’’ اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے۔‘‘ دلوں کے اندھیروںکو دور کرنے کے لئے ایسی روشنی ہے جو تقویٰ اور طہارت کی روشنی ہے اور دلوں میں تقویٰ اور طہارت پیدا کرتی ہےفرمایا کہ وہ بھی ’’ آسمان ہی سے آتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے۔ اور چاہے تو دُور کر دے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے۔‘‘ اپنے آپ کو کوئی چیز نہ سمجھے۔ ’’اورآستانۂ اُلوہیت پرگر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اُس نورِ معرفت کو مانگے جو جذباتِ نفس کو جلا دیتا ہے۔‘‘ پس نفس کے جذبات کو جلانا ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس نور معرفت کو مانگنے کی ضرورت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتا ہے۔ اور فرمایا’’ اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔‘‘ یہ نور معرفت ہو گا تو جذبات نفس کو بھی جلائے گا اور ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور دل میںحرارت، گرمی بھی پیدا کرے گا ۔’’ پھر اگر اُس کے فضل سے اُس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے ‘‘ جب اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہو جائے، دل کھل جائے، دلوں میں نور بھر جائے تو پھر کیا ہونا ہے؟’’ تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو‘‘۔ جوں جوں انسان کے دل کی روشنی بڑھتی جائے اس میں عاجزی اور انکسار بڑھتا چلا جانا چاہئے۔ فرمایا’’ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لا شئے سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی ۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں’’ مَیں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانے میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔ ‘‘فرمایا’’ عام طور پر تکبّر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبّر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اَور ہی قسم کی ہو رہی ہے ۔اُن کو اصلاحِ نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔اس لئے ان کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اَور ہی قسم کے ہیں جیسے ذکرِ اَرّہ وغیرہ جن کا چشمۂ نبوت سے پتا نہیں چلتا۔‘‘ آجکل کے مختلف لوگوں نے مختلف قسم کے ذکر بنا دئیے ہیں۔ اپنے آپ کو علماء بھی سمجھتے ہیں، صوفی سمجھتے ہیں لیکن آپ فرماتے ہیں کہ ایسی ایسی بدعتیں پیدا کر دی ہیںجن کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ثابت نہیں ہے۔ فرمایا کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آ جاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو اور اِس کو اُس نے اِس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔‘‘ پس بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کے افراد کی کہ وہ تقویٰ پیدا کریں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے امید رکھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں’’ پس( تم پہ) فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو۔ اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 7 صفحہ 276 تا 278۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               جماعت کو تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک اور موقع پر فرمایا۔ ’’اے وَے تمام لوگو جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوںکو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صِدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقینا ًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا‘‘۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) حدیث بھی ہے۔ اِنَّمَا اْلاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہؐ … الخ حدیث 1)اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ اگر نیک نیت سے یہ کام ہو رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جزا دیتا ہے۔ اگر بدنیت ہے تو اس کی سزا ہے۔ فرمایا کہ’’ ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے ۔‘‘ رستے میںمشکلات بھی آتی ہیں۔’’ سو خبر دار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ۔ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔ جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے ۔نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا ۔سو تم اس کو مت چھوڑو۔‘‘ خدا کو نہ چھوڑو۔ اس کے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہو۔ آپ فرماتے ہیں’’ دیکھو مَیں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے۔ اگرچہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چنتا ہے۔ وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے۔ جو اس کو عزت دیتا ہےوہ بھی اُس کو بھی عزت دیتا ہے۔ ‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

               پس اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھو گے تو اللہ تعالیٰ عزت بھی دے گا۔ تمہارے پاس بھی آئے گا تمہاری دعائیںبھی قبول کرے گا۔ یہ آپ ہمیں فرما رہے ہیں۔ پس یہ وہ حالت ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے والے بھی بنیں اور آسمان سے پختہ تعلق جوڑنے والے بھی بنیں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک الہام کے بارے میں بڑے درد کے ساتھ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے اور تقویٰ کے معیار بلند کرنےکا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ’’ کل (یعنی 22؍جون 1899ء )بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔‘‘ فرمایا’’ اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ مَیں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے۔‘‘ پھر فرمایا کہ’’ میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا’’ جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ 303۔  ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس اس طرف بہت توجہ دینے کی ہمیں ضرورت ہے۔

               اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس درد کو سمجھتے ہوئے حقیقی تقویٰ دلوں میں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری عبادتیں ،ہماری قربانیاں خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔

               اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں اسیران راہ مولیٰ کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ اسیری سے گزر رہے ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی وجہ سے ان کو ان قربانیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے بھی جلد انتظام فرمائے۔ جو جماعت کی وجہ سے مقدمات میں گرفتار ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ان مقدمات سے بری فرمائے۔ پاکستان اور الجزائر اور دنیا کے ہر اس ملک کے رہنے والے احمدیوں کے لئے دعا کریں جو احمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مشکلات میں سے گزر رہے ہیں۔ جماعت کی عمومی ترقی اور تقویٰ کے معیار بلند ہونے کے لئے بہت دعا کریں۔ مسلم اُمّہ کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے اور تقویٰ کے حقیقی معنوں اور حج اور قربانی کے حقیقی مضمون کو سمجھتے ہوئے یہ زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہو گی۔

               خطبہ ثانیہ اور دعا  کے بعد فرمایا:سب کو عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں