خطبہ عیدالاضحیہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍اکتوبر2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج بھی مَیں اُس سے ملتا جلتا ایک مضمون بیان کروں گا جو کل خطبہ میں بیان کیا تھا۔ یایہ اُس کے ایک حصہ کے بارے میں یا اُس ایک حصہ کے تسلسل کے بارے میں جاری ہو گا۔

               مسلمانوں کی حالت اُس وقت بھی ایسی تھی کہ ہر ایک چیخ چیخ کر پکار رہا تھااور اُن کی وہ حالت یہ اعلان کر رہی تھی کہ کوئی آئے اور ان کا وقار بلند کرے۔ کوئی آئے اور ان میں پیار و محبت پیدا کرے۔ کوئی آئے اور ان کے دلوں میں انسانی قدروں کا احساس دلائے۔ کوئی آئے اور ان کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرے۔ کوئی آئے اور ان کو امت واحدہ بنائے اور کوئی آئے اور توحید کو حقیقی رنگ میں دنیا میں قائم فرمائے۔ کل مَیں نے حالیؔ کی مسدس کے بند کا ایک شعر پڑھا تھا۔ آج اس بند کے پہلے دو شعر بھی سنا دیتا ہوں جس میں انہوں نے اُس وقت مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا ۔ کہتے ہیں   ؎

نہ ثروت رہی اُن کی قائم نہ عزت                         گئے چھوڑ ساتھ اُن کا اقبال و دولت

ہوئے علم و فن اُن سے ایک ایک رخصت            مٹی خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت

(مسدّس حالی صفحہ 32 ۔ فیروز سنز لاہور ۔ طبع اول 1988ء)

پس یہ حالت تھی۔ جوں جوں یہ مسدس جو ہے آپ پڑھتے جائیں، ہر شعر ہر بندنہ صرف اُس زمانے کا نقشہ کھینچ رہا ہے بلکہ موجودہ زمانے کی حالت زار کا بھی نقشہ کھینچ رہا ہے۔ آج بھی ہر مسلمان چاہے وہ مسلمان لیڈر ہو یا عام مسلمان ہو۔ ہر ایک جو ہے اب اس کوشش میں ہے کہ اُس کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل ہو۔ پہلے تو صرف لیڈر ہی ،سیاستدان ہی یہ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، حکومتوں پر قبضے کر رہے تھے، اب حکومت کے لالچ میں مذہب کے نام پر علماء نے بھی اپنے گروہ اور پارٹیاں بنا لی ہیں۔  یہ لوگ، یہ علماء پہلے فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے تھے۔ اب اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں اور نام نہاد جہادی تنظیموں کے نام پر بھی کلمہ گو، کلمہ گوؤں کی گردنیں مار رہا ہے اور ڈھٹائی اتنی ہے کہ مجال ہے جو اپنے غلط رویوں کی اصلاح کے لئے اپنے رویے میں ہلکی سی بھی لچک پیدا کر لیں۔ ان کی اس ناقابلِ اصلاح حالت کا جو نقشہ حالی نے ایک سو بیس پچیس سال پہلے کھینچا تھا، آج بھی جیسا کہ میں نے کہا، وہی نظر آتا ہے۔ بلکہ فکر اور غور کرنے والی آنکھ دیکھے تو اَور زیادہ بھیانک نظر آتا ہے۔ ایک طبقے کو لالچ اور حکومت نے مزید اندھا کر دیا ہے اوریہ لوگ زیادہ اندھے ہو چکے ہیں ۔ حالی لکھتے ہیں کہ :

نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر               ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر

(مسدّس حالی صفحہ33 ۔ فیروز سنز لاہور ۔ طبع اول 1988ء)

پس یہ آج بھی ہر درد رکھنے والے مسلمان کی آواز ہے۔ اور اس میں مایوسی کا اظہار بھی ہے کہ شاید اب ہم لوگ اصلاح کے قابل نہیں رہے۔ لیکن یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو نہیں سن رہے اور جانتے بوجھتے ہوئے علماء بھی اور لیڈر بھی عوام کی تباہی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ بلکہ خود یہ رونا رونے والے بھی اس چیز سے محروم رہے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن کر آنے والے کو قبول کریں۔ عوام جو ہیں لوگوں کی ان باتوں کو سنتے ہیں جو غلط باتیں ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی آیا ہے اُس کی آواز پر کان نہیں دھر رہے ۔ صرف یہی نہیں کہ کان نہیں دھر رہے بلکہ اس کی مخالفت میں تمام حدیں بھی توڑ رہے ہیں۔ تمام جائز اور ناجائز کام احمدیوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کرنے کو تیار ہیں اور کرتے ہیں۔ کاروباری لوگ ہیں تو احمدیوں کی رقمیں دبائی ہوئی ہیں۔ اُن کو دینے سے انکاری ہیں۔ یہ معلوم ہے، علم ہے، اچھی طرح پتہ ہے کہ حرام کھا رہے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ احمدیوں کو لُوٹنا اور ان سے حرام کھانا بھی ثواب ہے۔ یہ تعلیم ہے جو ان کے علماء ان کو دے رہے ہیں۔ حالی نے شاید ایسی ہی غلط تعلیم دینے والے علماء اور ظلم کرنے والے لیڈروں کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ  ؎

ہوئے رُوکھ جن کے جلانے کے قابل

(مسدّس حالی صفحہ33 ۔ فیروز سنز لاہور ۔ طبع اول 1988ء)

               یعنی جن کے درخت جلانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ وہ درخت جو شجرِ سایہ دار بنتے ہیں، وہ علماء جو دین سکھانے والے ہیں، وہ لیڈر جو قوم کا درد رکھنے  والے ہیں، اُن کے اپنے ذاتی مفادات اتنے ہو گئے ہیں کہ وہ اس قابل ہی نہیں رہے کہ اُن سے کوئی امید رکھی جائے۔ اب تو وہ ایسے درخت بن چکے ہیں جو سوائے جلانے کے اور کسی کام کے نہیں رہے۔ اس لئے وہ کسی اور کام نہیں آ سکتے کیونکہ یہ لوگ اسلام کی تعلیم سے ہٹ گئے ہیں۔ یہ مسلم اُمّہ میںفتنہ و فساد پیدا کرنے کی جڑ ہیں۔ یہ درخت جو ہیں یقینا جلانے کے قابل ہونے تھے اور ہوئے کیونکہ اب صرف اُس درخت نے دنیا کو فائدہ پہنچانا تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا اور یہ درخت اُس وقت لگنا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں کی اور اُن کے علماء کی یہ حالت ہونی تھی جو ہے، جس کا رونا رو رہے ہیں۔ احادیث میں آتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا( اس کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں) کہ’’ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اُس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے۔‘‘

(الجامع لشعب الایمان للبیہقی۔  الثامن عشر من شعب الایمان و ھو باب فی نشر العلم۔… فصل قال:’’ و ینبغی لطالب العلم أن یکون… جلد 3 صفحہ 317-318  حدیث 1763۔  مکتبۃ الرشد ریاض 2004ء)

یعنی تمام خرابیوں کا یہ لوگ ہی سرچشمہ ہوں گے۔

               پھر ایک جگہ فرمایا کہ’’ میری اُمّت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا۔ یہ کنز العمال کی حدیث ہے۔ لوگ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ اُنہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے‘‘۔

(کنز العمال جلد 7 جزء 14 صفحہ 124 ۔ کتاب القیامۃ من قسم الاقوال ، الباب الاول : فی امور تقع قبلھا ، الفصل الرابع: فی ذکر اشراط الساعۃ الکبری ، الخسف والمسخ و القذف۔ حدیث 38724۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

یعنی علماء کا اپنا دین بھی اور کردار بھی خراب ہو چکا ہو گا اور قابلِ شرم ہو گا۔

               پھر حضرت ثعلبہ بحرانی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب  دنیا سے علم چھین لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ علم و ہدایت اور عقل و فہم کی کوئی بات اُنہیں سجھائی نہ دے گی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ     یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! علم کس طرح ختم ہو جائے گا جبکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہم میں موجود ہے اور ہم اُسے آگے اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کیا تورات اور انجیل یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود نہیں ہے لیکن وہ اُنہیں کیا فائدہ پہنچا رہی ہیں؟‘‘

(اسد الغابۃ جلد اول صفحہ 323 ’’ ثعلبۃ البہرانی ‘‘۔ دار الفکر بیروت 2003ء)

 یعنی عمل نہیں رہے گا۔ اور پھر جب غلط قسم کی تفسیریں آئیں گی تو قرآن کی اصل تعلیم کو ہی بالکل توڑ مروڑ کر رکھ دیں گے۔

               پھر حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے یکدم نہیں چھینے گا بلکہ عالموں کی وفات کے ذریعے ختم ہو گا۔ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ انتہائی جاہل اشخاص کو اپنا سردار بنا لیں گے اور اُن سے جا کر مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم۔ حدیث 100)

               آجکل آپ ٹی وی چینل دیکھ لیں، عجیب عجیب مضحکہ خیز قسم کے پروگرام آ رہے ہوتے ہیں۔ استخارہ کا ایک چینل ہے، وہیں کتاب کھولتے ہیں، دو چار سوال پوچھے اور استخارہ پتہ نہیں کیا، کیا کہ نہیں کیا بہرحال اُسی وقت جواب دے دیا کہ تمہارے ساتھ یہ ہو گا اور وہ ہو گا۔ انہوں نے پیسہ کمانے کا  عجیب ذریعہ بنا لیا ہے۔

               پھر حضرت ابوہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور پوچھا کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور باتوں میں مصروف رہے۔ کچھ لوگوں نے دل میں خیال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کی بات سنی تو ہے مگر پسند نہیں فرمائی۔ اور کچھ لوگوں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بات سنی ہی نہیں۔ غرض جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم کر لی تو دیہاتی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: قیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ دیہاتی نے عرض کیا یا  رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جواب سن لو کہ جب امانتیں ضائع کی جائیں گی تو قیامت یا زوالِ امت کے وقت کا انتظار کرنا۔ اُس نے پوچھا امانتیں کس طرح ضائع ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نااہل اور غیر مستحق لوگوں کے سپرد اہم کام کئے جائیں گے۔

(صحیح البخاری،کتاب العلم، باب من سئل علمًا و ھوَ مشتغل فی حدیثہ۔ الخ۔ حدیث 59)

                یعنی اقتدار بددیانت اور نااہل لوگوں کے ہاتھ آ جائے گا اور وہ اپنی بد دیانتی اور فرض ناشناسیوں کی وجہ سے قوم کو برباد کر دیں گے۔ اور یہی سب کچھ آجکل ہم دیکھ رہے ہیں۔ کسی ایک مسلمان ملک میں بھی اس سے مختلف صورتحال نہیں ہے۔

               پس جب یہ سب کچھ آجکل کے علماء کے متعلق بھی اور سرداروں کے متعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے اور یہ سچ ثابت ہو رہا ہے تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں سے علم ملے، ان سے قرآن کی تفسیر ملے، ان سے توحید کی طرف رہنمائی ملے۔ لیکن مسلمان دوسری اُمّتوں کی طرح نہیں ہیں جن کو رہنمائی کی کوئی امید نہیں ہے۔ جن کے لئے اب صرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ جن کے دین میں بگاڑ پیدا ہو تو پھر اُسے سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ جن کے لئے دین کی اصلیت اور بنیادی تعلیم کو کھو بیٹھنا مقدر ہے۔نہیں، مسلمان تو وہ خیر اُمّت ہیں جن کی یہ سب حالت ہونے کے باوجود جس کا نقشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچا ہے اور جو میں نے احادیث کے حوالے سے بیان کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ امید بھی دلائی ہے بلکہ یقین دہانی کروائی ہے کہ خدا تعالیٰ  اُمّت اور کل انسانیت کی اصلاح کے لئے آخرین میں بھی ایک شخص مبعوث کرے گا جو ایمان کو ثریا سے واپس لائے گا۔ جو اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ مضبوط جڑوں پر قائم کرے گا۔ جو پھر تمام مسلمانوں اور نیک فطرت لوگوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آئے گااور اُن کو اُمّت واحدہ بنائے گا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق ہو گا۔

               پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام پر کان دھرنے کی ضرورت ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایمان کو ثریا سے لانے والے کا ساتھ دیں۔ جب یہ تسلیم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق دین کے نام نہاد علمبرداروں کی یہ حالت ہے تو پھر آپ نے جو اُس کا علاج پیش فرمایا ہے، اُس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ بیشک سر ٹکراتے پھریں، اس آنے والے کے علاوہ کوئی نہیں آئے گا جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز کرے یا کہہ لیں کہ جس سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ وابستہ ہے۔ کہنے کو تو ہم کہتے ہیں کہ دنیا میںآجکل اسلامی حکومتیں قائم ہیں ، تقریباً آدھی دنیا میں مسلمان حکومتیں ہیں۔ مسلمان ممالک کو اکٹھا رکھنے کے لئے مسلمان ممالک کی ایک تنظیم بھی قائم ہے لیکن اس تنظیم کا اسلامی دنیا پر کیا اثرہے؟ کیا کوئی اثر نظر آتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ غیر مسلم دنیا پر اس تنظیم کی شوکت واضح ہوتی لیکن ہو کیا رہا ہے کہ اپنے ہی ملک میں یعنی اسلامی ملکوں میں ان کے کہنے سننے میں کوئی نہیں ہے۔ اسلامی ممالک نے اپنی پالیسیاں بنانے کے لئے، اپنی یکجہتی قائم کرنے کے لئے، اپنی اکائی کا اظہار کرنے کے لئے ایک تنظیم تو بنا لی لیکن اس کے جو ممبر ہیں ہر ایک کا قبلہ مختلف ہے۔ پھر دیکھیں دہشت گرد تنظیمیں جتنی ہیں ، یہ سب سے زیادہ اسلامی ملکوں میں ہیں۔ قتل و غارت کی انتہائی حدوں کو چھونے کے واقعات سب سے زیادہ اسلامی ملکوں میں ہو رہے ہیں۔ اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے لئے اور اپنی کرسی بچانے کے لئے عوام الناس پر سب سے زیادہ ظلم اسلامی ملکوں میں ہو رہے ہیں۔ اُن کی جائیدادیں لوٹی جا رہی ہیں۔ اُن کو حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اُن کی جانوںکو جانوروں سے بھی بدتر سمجھ کر قتل و غارت گری کی جا رہی ہے۔ بعض تو یہ سب کچھ اقتدار کی ہوس کے لئے کر رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب ظلم خدا کے نام پر بھی روا رکھے جا رہے ہیں۔ شریعت کے نام پر خون بہائے جا رہے ہیں۔ رسول کے نام پر، ہاں اُس رسول کے نام پر جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین فرمایا ہے، ان ظلموں کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔

                آج بڑی عید ہے، قربانی کی عید ہے جس میں اس وقت مسلمانوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی بجائے، اُن کی گردن پر چھری پھیرنے کی بجائے اُس زمانے میں ہمیشہ سے قائم اُس رسم کو ختم کر دیا کہ انسانی جانوں کو قربان کیا جائے۔ اب انسان کی جگہ جانور ذبح ہوں گے۔ لیکن ان اسلامی ملکوں میں انسانی جان کو تو جانوروں سے بھی زیادہ ارزاں سمجھا جاتا ہے۔ معصوم جانوں، بچوں عورتوں کے خود کُش حملوں کے ذریعے چیتھڑے اُڑائے جاتے ہیں۔ اُن کا پتہ ہی نہیں لگتا، پہچان ہی نہیں رہتی کہ جسم کا کونسا حصہ ہے، کہاں گیا ہے۔ گھر سے ایک بچہ نکلتا ہے، ماں باپ کو نہیں پتہ کہ شام کو واپس بھی آئے گا یا نہیں اور اگر آئے گا تو اس کی لاش بھی پہچانی جائے گی کہ نہیں؟ عید والے دن یہ ظالمانہ کام کئے جا رہے ہیں۔ کل افغانستان میں بھی اسی طرح عید پر دھماکہ ہوا اور کئی درجن آدمی مار دئیے۔ شام میں،سیریا میں آجکل حالات خراب ہیں تو نہ حکومت انصاف سے کام لے رہی ہے اور نہ ہی حکومت مخالف ٹولہ۔یا کہا جاتا ہے کہ اُن میں کچھ دہشت گرد بھی شامل ہو گئے ہیں یا تنظیمیں شامل ہو گئیں۔ کوئی بھی عقل اور انصاف سے کام نہیں لے رہا۔ عقل تو دور کی بات ہے اپنے عملوں میں اور معصوموں کی جانیں لینے میں یہ جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ یہ حال کسی ایک ملک کا نہیں ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا ہر جگہ یہ حال ہے۔ پاکستان میں ہر روز درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ افغانستان میں درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ باقی بعض اور افریقن ملکوں میں بھی یہ حال ہے۔عرب ملکوں میں یہ حال ہے۔ اور شریعت اور مذہب کے نام پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ غیروں کو شریعت پر استہزاء کرنے اور اعتراض کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔

               گزشتہ دنوں ایک چودہ پندرہ سال کی لڑکی ملالہ کے واقعہ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہوئی ہے اور اسلام کے مخالفین کو استہزاء اور اعتراض کا موقع دیا گیا ہے۔ اس لئے اُس کو سزا دی گئی، اُس کو گولی مار کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ بعض تنظیموں کے بارے میں حقائق لکھا کرتی تھی اور یہ مارنے والے کہتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے اس کا قتل کرنا جائز ہے۔ کیونکہ قرآن میں ایک لڑکے کا واقعہ آتا ہے کہ اُس نے کیونکہ بڑے ہو کر باغی بننا تھا، اس لئے نبی نے اُسے قتل کر دیا  ۔ شاید یہ لوگ سورۃ کہف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ حقیقی علم تو ان کو ہے نہیں اور جس مسیح موعود نے حقیقی علم دینا تھا، اُس کو ماننے کو تیار نہیں۔ بس ظاہری چیز دیکھ کے تویہ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ وہ قتل تو غیر اخلاقی تعلیمات کا قتل تھا۔ اپنی اصلاح کرنا تھا، نفس کی اصلاح کرنا تھا۔ بہر حال اس وقت مَیں اس کی تفصیل میںنہیں جا رہا۔ لیکن یہ بتا رہا ہوں کہ یہ اُن کے عمل ہیں جو صرف ظلموں کی انتہا ہیں اور غیروں کو موقع دے رہے ہیں۔ کیونکہ جو اسلام مخالف ہیں وہ اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور یہ بھی سوچا سمجھا فائدہ ہی ہے۔ وہاں پاکستان میں یا مختلف جگہوں پر تو روزانہ کئی ملالہ زخمی ہو رہی ہیں۔ کئی ملالہ ایسی ہیں جن کی بہنیں اور بھائی اور باپ اور ماں قتل کئے جا رہے ہیں۔ کسی کو نہ علاج کے لئے باہر بھجوایا گیا، نہ اُس پر اتنا شور مچایا گیا۔ تو یہ بھی ایک سوچی سمجھی سکیم ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیاد مسلمانوں نے خود مہیا کی ہے۔ پھر ملکوں کے اندر ہی نہیںبلکہ مسلمان ملکوں کے وقار باہر بھی گر چکے ہیں۔ آپس میں اتحاد و تعاون نہ ہونے کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رہی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم بیشک بنی ہوئی ہے لیکن بیکار۔ ضرورت کے وقت یہ غیروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اب ترکی اور شام کی آپس کی چپقلش ہے یا ابتدائی جنگ کی صورت ہے۔ دونوں طرف سے وقتاً فوقتاً حملے ہو رہے ہیں۔ یہاں بھی معصوم شہری قربان ہو رہے ہیں۔ لیکن بہر حال جو بات میں کہنی چاہتا ہوں وہ یہ کہ یہاں کے ایک تبصرہ نگار نے یعنی مغربی ممالک میں سے کسی نے لکھا کہ ترکی امریکہ کے کہنے پر یہ حملے کرتا ہے اور ہر حملہ اور ہر عمل سے پہلے امریکہ سے ہدایت لی جاتی ہے۔ تو یہ تو اسلامی حکومتوں کا حال ہے۔ کہاں تک یہ بات سچ ہے کہ امریکہ سے پوچھا جاتا ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن ان ملکوں کے تبصرہ نگاروں کو جرأت اس لئے ہو رہی ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ اسلامی ممالک کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے اور یہ مغرب کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہے کہ جس توحید کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے،ا ُس سے یہ دور ہٹ گئے ہیں۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ بیشک زبانوں پر ہے لیکن دل اس سے خالی ہیں۔ وہ عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس نے خانہ کعبہ کو بتوں سے خالی کروایا تھا، آج اقتدار اور ہوس نے ان بتوں کو دلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر یہ لوگ توحید کو کس طرح قائم کر سکتے ہیں؟ ان میں سے اکثریت کے ظاہر کے حج ہیں لیکن دل شاید کسی اور کعبے کا طواف کر رہے ہیں۔ روایات میں جو واقعہ آتا ہے کہ صرف ایک آدمی کا حج قبول ہوا اور وہ بھی وہ تھا جو حج پر نہیں آیا تھا۔ (تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ   صفحہ 165 باب 15 ، حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کے حالات و مناقب۔ ناشر: ممتاز اکیڈمی لاہور)  تو یہ مثالیں پرانی نہیں ہیں۔ آج پہلے سے بڑھ کر یہ مثالیں ہو رہی ہیںکہ جب صرف دکھاوے کے حج کئے جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کس کا حج قبول کر رہا ہے، کس کا نہیں۔ حج سے احمدیوں کو روکا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ جن احمدیوں کے دلوں میںحج کرنے کی تڑپ ہے اور نہیں جا سکتے، اُن کے حج قبول ہو رہے ہیں یا اُس اکثریت کے جو ظلم کر کے پھر حج کرنے چلی جاتی ہے۔ توحید کی حقیقت اور اصلیت کو یہ لوگ بھول چکے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تو توحید کے قیام کے لئے خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کی تھیں۔ اور پھر ایک عظیم نبی کے مبعوث ہونے کی دعا کی تھی جو دنیا کو توحید کا پیغام دے۔ خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنائے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت کی یہ حالت ہے کہ ظاہر میں تو توحید کا اعلان ہے لیکن سینکڑوں قسم کے شرک میں مبتلاہیں اور اس شرک کو ختم کرنے کے لئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی توحید کو قائم کرنے والے مسیح و مہدی کی پیشگوئی فرمائی تھی جس نے دوبارہ دنیا میں ایمان قائم کرنا تھا۔ جس نے دلوں کے بتوں کو بھی توڑ کر توحید کو قائم کرنا تھا اور ظاہری بتوں کو بھی۔ جس کے قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ آپ کایہی مقصد تھا ناں کہ توحید کا قیام ہو اور یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اگر توحید کے قیام اور خانہ کعبہ کے مقاصد کوپورا کرنے کے لئے اور یہاں سے امن اور سلامتی پھیلانے کے لئے اپنی نسل میں سے ایک عظیم نبی کے مبعوث ہونے کی دعا کی تھی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پا گئی اور اس عظیم نبی نے بتوں کے آگے جھکنے والوں کو ایک خداکے آگے جھکنے والا بنا دیا۔ نسل در نسل دشمنیاں رکھنے والوں کو امن اور سلامتی کا سفیر بنا دیا۔ تو اس عظیم نبی نے بھی اپنے عظیم مقاصد کو تاقیامت جاری رکھنے کے لئے ایک غلام صادق کی دعا کی تھی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار سے’ ہمارا مہدی‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ (سنن الدار قطنی جزء 2 صفحہ 51 ۔ کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف و الکسوف و ھیئتھما۔ حدیث 1777ء)

               پس وہ غلام صادق آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے بھیجا کہ اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرو۔ جس دین کو آپ کے زمانے میں اسلام کا درد رکھنے والے کھنڈر سے تشبیہ دے رہے تھے اُسے آپ نے نئے سرے سے اصل بنیادوں پر استوار کیا۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ’’ اے ابراہیم! تجھ پر سلام۔ ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ تو مجھ سے ایسا ہی ہے جیسا میری توحید اور تفرید۔‘‘(تذکرہ صفحہ 148۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

               پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق نے ہی وہ درجہ پایااور جو توحید کے قیام کے لئے وہی مقام پا گیا جو خانہ کعبہ کی تعمیر کی وجہ سے ابراہیم نے پایا تھا۔ آپ کا توحید کے قیام کے لئے درد اور آپ کا توحید کے قیام کے لئے کام اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابراہیم کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے آپ پر سلام بھیجا۔ پھر ایک اور الہام میں فرمایا کہ ’’غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ مَیں نے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت تیرے لئے لگایا اور تُو آج ہمارے لئے صاحب مرتبہ اور امین ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 199 مع حاشیہ۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

 پھر یہ بھی فرمایا کہ دَوْحَۃُ اِسْمَاعِیْل۔ کہ اسماعیل کا درخت۔ (تذکرہ صفحہ 507۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

لغت میں دوحہ کے مختلف معنی ہیں۔ ایک یہ بھی لکھا ہے کہ دَوْحَہ ایسے درخت کو کہتے ہیں جو بہت بڑا اور پھیلنے والا ہو۔ (لسان العرب زیر مادہ ’’دوح‘‘)

               پس یہ درخت جو اللہ تعالیٰ نے لگایا ہے، یہ اس لئے پھیلنے پھلنے کے لئے اور پھولنے کے لئے ہے کہ دنیا کو پتہ چلے کہ جو درخت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں سے لگا تھا جس نے تمام دنیا کو اپنے سائے کے نیچے لے کر امن اور سلامتی مہیا کرنی تھی اور کی یعنی وہ عظیم رسول مبعوث ہوا، وہ ختم نہیں ہو گیا۔ اُس کی لکڑی علماء کی شکل میں جیسا کہ حالی نے کہا، سوکھی شاخیں بن کر جلانے کے قابل نہیں رہ گئیں۔بلکہ یہ درخت اس عاشقِ صادق کے ذریعہ سے پھر ہرا بھرا درخت بن چکا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق اُس درخت کی جڑوں میں سے ہی ایک ایسا درخت نکال دیا ہے جو اپنی اصل کے مطابق ہی امن و سلامتی کا سایہ دینے والا درخت ہے، جو توحیدکے پھلوں سے دنیا کو آشنا کرنے والا ہے۔ اب مولوی چاہے جتنا شور مچا لیں، جتنا چاہیں احمد کو محمدؐ سے جدا کرنے کی کوشش کریں۔ سوائے اس درخت کے کسی اور جگہ سے وہ فیض نہیں اُٹھا سکتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں صفات یعنی محمدی اور احمدی کا حامل ہے۔ مخالفین نے گزشتہ ایک سو پچیس سال کی کوششوں میں سوائے شور شرابے اور اپنی ہی بدنامی کے کیا پایا۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے جو درخت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا، اُس کی شاخیں دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہیں۔ مخالفت کی آندھیاں جو چلتی ہیں تو اس درخت کے پتے ذرا سے ہلاتودیتی ہیں لیکن نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ پس کیا اب بھی ان علماء اور اُن کے پیچھے چلنے والوں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں ہمیں کامیاب کیا اوردشمن ذلیل ہوئے۔ کفر کے فتوے لگائے، قتل کا مقدمہ کیا،غرضیکہ انہوں نے کوئی دقیقہ ہماری بربادی کااٹھانہ رکھا ۔مگر کیا خداتعالیٰ سے کوئی جنگ کرسکتا ہے؟ ہماری ترقی کے خود مخالف ہی باعث اورمُحرّک ہیں۔ بہت لوگوں نے انہیںکے رسائل سے اطلاع پاکر ہماری بیعت کی ‘‘۔ (اور یہ آج بھی اسی طرح ہو رہا ہے۔ کئی عرب جو احمدی ہو رہے ہیں، وہ خط لکھتے ہیں کہ مخالفت کی ویب سائٹ اور ٹی وی چینل دیکھ کے اور مولویوں سے گفتگو کر کے ہماری توجہ پیدا ہوئی کہ ہم احمدیت کے بارے میں معلومات لیںاور پھر اس کو سچا سمجھ کے انہوں نے قبول بھی کیا) پھر آپ فرماتے ہیں۔’’ اگرواعظ وغیرہ ہمار ی طرف سے ہوتے تو ہمیں ان کا بھی مشکور ہوناپڑتا اوریہ بھی ایک شعبہ شرک کا ہوجاتا، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچایا۔ ایک آبپاشی اور تخم ریزی تو کسان کرتاہے اورایک خود خدا کرتاہے۔ ہم اورہماری جماعت خداتعالیٰ کی تخم ریزی اورآبپاشی سے ہیں۔ خدا کے لگائے ہوئے پودا کوکون اکھاڑسکتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 501 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ :’’میرے پر ایسی رات کوئی کم گزرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلّی نہیں دی جاتی کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں۔ اگر چہ جو لوگ دل کے پاک ہیں، مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اُسی کے مُنہ کی قسم ہے کہ مَیں اب بھی اُس کو دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کانتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہود ااسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔ مَیں ہر روز اِس بات کے لئے چشم پُرآب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے‘‘۔(اربعین نمبر 3۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 399-400)

               پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے وعدے کے مطابق اس عاشقِ صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقیقی تعلیم کی اشاعت اور اُس کا قیام ہونا تھا ۔لیکن ہر قربانی کی عید بھی ہمیں اس طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے کہ ہم نے بھی اس درخت کے سینچنے کے لئے ہر وقت نہ صرف تیار رہنا ہے بلکہ اپنی جان، مال، وقت اور عزت ، جس وقت جس چیز کی ضرورت ہو، وہ پیش کر دیں گے۔

               اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

                یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جماعت کے لئے قربانی کے ساتھ ساتھ ایک تو ہر فرد جماعت کے لئے من حیث الجماعت مجموعی طور پر قربانی کر رہا ہے، ایک دوسرے کے لئے بھی قربانی کا اظہار ہونا چاہئے۔ ہر شخص کو ہر دوسرے شخص کے لئے بھی قربانی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر یہ روح ہماری جماعت میں ترقی کرے گی تو جماعت کے بہت سے اندرونی مسائل بھی خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا حق تھا، اس لئے ہم نے لینا ہے۔ دوسرا فریق جو ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارا حق تھا اور وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو لینا ہے۔ دونوں اسی بات پر لڑتے رہتے ہیں اور جو تعمیر کے لئے وقت ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ جو ترقی کے لئے وقت دینا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر دونوں ضد پر اتر آئیں تو کبھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ پس اگر خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہے کہ وہ ہر قسم کے نقصان پورے کرتا ہے اور اس بات کی کوشش کا حصہ بننا ہے کہ ہم نے امن اور سلامتی کے پھیلانے والے بننا ہے تو اگر اپنے حق چھوڑنے بھی پڑیں تو چھوڑ دینے چاہئیں۔ جب یہ سوچ پیدا ہو گی پھر دیکھیں کہ ہمارے معاشرے میں ہماری جماعت کے افراد کے اخلاق میں مزید خوبصورتی اور نکھار پیدا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ہر سطح پر ہم قربانی دینے والے ہوں۔ عید کی قربانی سے صرف ایک بکروں کی قربانی کا یا چار ہزار سال پہلے کی قربانی کا سبق نہ لیں بلکہ اس قربانی کو آج بھی ہر سطح پر جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               اب خطبہ ثانیہ کے بعد دعا ہو گی۔ اور دعاؤں میں شہداء کے خاندانوں کو یاد رکھیں جنہوں نے اس درخت کی آبیاری کے لئے اپنے خون بہائے ہیں، اپنے خون کی قربانیاں دی ہیں۔ اسیران کو یاد رکھیں وہ بھی کافی عرصے سے تکلیفوں میں وقت گزار رہے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ہیں، پاکستان میں بھی ہیں۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کو بھی یاد رکھیں۔ واقفینِ زندگی کو بھی یاد رکھیں، وہ بھی مختلف جگہوں پر قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہر بیمار اور ضرورتمند کو بھی یاد رکھیں۔ مسلم اُمّہ کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو ان حالات سے باہر نکالے اور عقل اور سمجھ عطا فرمائے اور اسی طرح انسانیت کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں