خطبہ عیدالاضحیہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍نومبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج ہم اپنی زندگی کی ایک اور عید الاضحٰی منانے کے لئے جمع ہیں۔ یہ عید جو قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے، وہ قربانی جس نے انسان کو قربانی کے نئے اسلوب سکھائے، وہ قربانی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تھی، وہ قربانی جو توحید کے قیام کے لئے تھی۔ پس اس عید پر ہمارا جمع ہونا اس لئے نہیں کہ ہم نے ایک خوشی کا دن مناناہے۔ بیشک خوشی بھی اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق ہم مناتے ہیں اور عیدوں پر خوشیاں منانا بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پہلو اپنے اندر رکھتا ہے لیکن اس کے پیچھے جو عظیم مقاصد ہیں اُن کو ہمیشہ ہمیں اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور اس روح کو اپنی نسلوں میں بھی قائم کرنے کے لئے کوشش اور دعاؤں سے کام لینا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں اُس قربانی نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش فرمائی قربانی کے نئے اسلوب سکھائے، نئے راستے کھولے جس میں دلی خوشی سے اطاعت کے اعلیٰ ترین معیار کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور توحید کے قیام کے لئے مسلسل قربانی کی ایک مثال قائم کی جس میں کسی ایک شخص کی قربانی نہیں تھی بلکہ پورا گھرانہ شامل تھا، پورا خاندان شامل تھا۔
پس آج ہمیں اس عید پر جمع ہو کر یہی کوشش اور دعا کرنی چاہئے کہ ہم اور ہماری نسلیں بھی وہ معیار حاصل کرنے والی ہوں جن کا محور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہو۔ اس زمانے میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے اُس فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مرتبہ مخاطب کر کے ابراہیم کے نام سے پکارا ہے۔ پس اس زمانے کے ابراہیم سے منسوب ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے ہمیں اُس بنیادی مقصد کو دیکھنا ہو گا جس کے حاصل کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے خاندان نے کوشش کی تھی اور وہ مقصد توحید کے قیام کے لئے کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دینا تھا۔
قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی رؤیا کی بنا پر حضرت اسماعیل سے اُن کی جان کی قربانی مانگی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیٹا بخوشی اس قربانی کے لئے تیار ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے عین موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قربانی سے روک دیا کہ ظاہری طور پر اولاد پر چھری پھیرنا یا کسی جان کی قربانی سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ وہ عظیم مقصد تب حاصل ہو گا جب مستقل قربانی کے لئے اپنی اولاد کو تیار کرو۔ اور وہ مستقل اور مسلسل قربانی اُس وقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کے لئے انسان کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا جُوآ اپنی گردن پر نہیں ڈالتا اور جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار ہو گا تو تب ہی توحید کے قیام کی خالص کوشش ہو گی۔ اور یہی وہ ذبحِ عظیم ہے جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قربانیوں کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے اپنی نیک اولادوں اور اولاد در اولاد میں جاری رکھنے کی تلقین کی۔ ذبح عظیم ایک شخص کی جان لینے سے تو نہیں ہو سکتا۔ اس ذبح ہونے کا انسانیت کو کیا فائدہ ہونا تھا۔ ہاں انسانیت کو تبھی فائدہ ہو سکتا تھا جب خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور توحید کے قیام کے لئے قربانی دی جاتی۔ دنیا میں توحید کے قیام کے لئے کوشش کی جاتی۔ انسانیت کو خدائے واحد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ عبادت کے طریق سکھائے جاتے۔ پس جہاں ذبحِ عظیم کی قربانی کا ذکر کیا، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ (الصفّٰت:109) یعنی بعد میں آنے والوں میں بھی یہ ذکرِ خیر باقی رکھا کہ یہ وہ آباؤاجداد تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اپنا مطمح نظر رکھا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بننے کے لئے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا اور توحید کے قیام کے لئے بھر پور کردار ادا کیا۔ موت تو ہر ایک کو ایک دن آنی ہے، کامیاب موت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش میں آئے۔ کامیاب موت وہ ہے جو توحید کے قیام کی کوشش میں آئے۔ اِن قربانی کرنے والوں کا یہ ذکرِ خیر جو خدا تعالیٰ نے بعد میں آنے والوں میں جاری رکھا اس کی انتہا اور اس کا عروج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے زمانے میں ہوا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کا پھل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ملا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)اور اے ہمارے رب! ہماری یہ بھی التجا ہے کہ تو انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو اُنہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور اُنہیں پاک کرے۔ یقینا تُو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں وہ نبی مبعوث فرمایا جن کے ذبحِ عظیم کے نمونے ایک نئی شان سے نظر آنے لگے۔ بلکہ آپ کی بیعت میں آنے والوں کے نمونے بھی قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کرنے لگے۔ کامل اطاعت و فرمانبرداری اور توحید کے قیام کے لئے نئے معیار قائم ہونے لگے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو پھر نبی کی اولاد اور بچپن سے ہی ایسے ماں باپ کے زیرِ تربیت تھے جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ تھا، یقین تھا، ایمان تھا، توحید پر قائم تھے۔ ایک اُن کی گھر کی تربیت تھی اور پھر سب سے بڑھ کر نبوت کا مقام بھی اللہ تعالیٰ نے اُن کو دینا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان کی تربیت بھی فرمائی تھی۔ اس لئے بھی انہوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تو وہ تھے جو روحانی لحاظ سے قبولِ اسلام سے پہلے مُردے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کے ذریعے ایسا زندہ کیا کہ وہ توحید کے قیام کے لئے اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت کمربستہ رہنے لگے۔ یا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ پہلے اُنہیں، اُن جاہل لوگوں کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان بنایا، پھر تعلیم یافتہ انسان بنایا، پھر باخدا انسان بنایا اور پھر یہ باخدا انسان اطاعت اور فرمانبرداری، قربانی اور عبادت کے وہ معیار قائم کرنے والے بن گئے کہ ایک دنیا کو حیران کر دیا۔ انہوں نے توحید کے قیام کے لئے جانیں قربان کیں اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، بے دھڑک کھڑے ہو کر انہوں نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے قربانیوں کی وہ مثالیں قائم کیں جنہوں نے مدّتوں اُمّت مسلمہ میں ایک تلاطم برپا رکھا اور وہ اپنے مقصدِ پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جب چند صدیوں بعد دنیا داری غالب آ گئی، اور مسلمان اُس روح کو بھول گئے جو ایک حقیقی مسلمان میں ہونی چاہئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس دعا کو بھول گئے جو ذبحِ عظیم کی مثال قائم کرنے کے لئے آنے والے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو بھول گئے،جب اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنی گردن اُس طرح ڈالنے سے دور ہٹ گئے جس طرح قربانی کا جانور قصائی کے آگے اپنی گردن ڈالتا ہے۔ جب اسلام کے اِن معنوں کو بھول گئے کہ اسلام تو اپنی تمام خواہشات چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مکمل طور پر قبول کرنا ہے۔ جب ان معنوں کو بھول گئے کہ اسلام خدا تعالیٰ کی ذات میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کرنا ہے۔ جب مرضات اللہ کی جگہ ذاتی خواہشات نے لے لی تو پھروہ نتائج بھی نکلنے بند ہو گئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور ایک دنیا پر حکمرانی کرنے والے اپنے ملکوں میں ہی محکوم ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’آج غور کر کے دیکھو کہ بجز ہنسی اور خوشی اور لہو ولعب کے روحانیت کا کونسا حصہ باقی ہے۔ یہ
عید الاضحیہ پہلی عید سے بڑھ کر ہے۔ اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں۔ مگر سوچ کر بتلائو کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیںجو اس ضُحٰی میں رکھا گیا ہے۔ عید رمضان اصل میں ایک مجاہدہ ہے اور ذاتی مجاہدہ ہے اور اس کا نام بذل الرُّوح ہے‘‘۔ (یعنی روح کی سختی کرنا) ’’مگر یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں، ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس کہ توجہ نہیں کی گئی۔ خدا تعالیٰ نے جس کے رحم کا ظہور کئی طرح پر ہوتا ہے اُمّت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہ بڑا بھاری رحم کیا ہے کہ اَور اُمّتوں میں جس قدر باتیں پوست اور قشر کے رنگ میں تھیں‘‘ (کھال کے رنگ میں تھیں، ایک خول کے رنگ میں تھیں) ’’اُن کی حقیقت اس اُمت مر حومہ نے دکھلائی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 327 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہاں تو صرف یہ سوال نہیں کہ عید کو بھول گئے، مکمل طور پر تعلیمات کو ہی بھول گئے۔
سعودی عرب میں ابھی گزشتہ دنوں یعنی پرسوں جو عید گزری ہے ، اس میں امامِ کعبہ نے بھی مکّہ میں حج کے خطبہ میں مسلمان ملکوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے، مسلمان اُمّت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور یہ کہ ہمیںوحدت کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ لمبا چوڑا خطبہ ہے لیکن اُس کا خلاصہ یہی ہے ۔لیکن اب ان کے لئے یہ وحدت حاصل کرنا اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا پہلی بات تو یہ کہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔ نہ غیرت رہی ہے نہ دین رہا ہے، جس سے دین بھی گیا اور دنیا بھی گئی۔ اُمّتِ مسلمہ کو ایک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر ہی چلنا ہو گا۔ کسی کے خود ساختہ طریق اور کسی امام کا کوئی طریق کام نہیں آ سکتا۔ اُسی امام کا طریق کام آئے گا جس کو خدا تعالیٰ نے امام بنا کر بھیجا ہے۔ اُس شخص کے ساتھ جڑنا ہو گا جس کو خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ پس زمانے کے امام کے ساتھ جڑنے والے ہی اُس مقصد کو پا سکیں گے اور اُن دعاؤں کے وارث بن سکیں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کی دیواروں کو کھڑا کرتے ہوئے کی تھیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہی اعلان فرمایا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنانے والے، لوگوں کو پاک کرنے والے اور کتاب و حکمت سکھانے والے بنے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو خدا تعالیٰ کی ہی تقدیر تھی بڑی شان سے پوری ہوئی، اسی طرح آخرین میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عاشقِ صادق آپؐ کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کے طور پر پیدا ہوگا، جو پھر اُن مقاصد کو پورا کرے گا جن کے حصول کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پورے خاندان نے قربانی دی تھی جس کے لئے وہ اپنی اولادوں کو ان قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے رہے جو تعمیر کعبہ کا سب سے بڑا مقصد تھا، یعنی توحید کا قیام اور جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرما کر ذبحِ عظیم کے وہ نمونے قائم فرمائے کہ جن کو سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور حمد زبان پر جاری ہو جاتی ہے۔
پس آج ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ اگر ہم نے اس قربانی کی عید کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو خدا تعالیٰ کی فنا کا چولہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر پہن لیں کیونکہ یہی ہمیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں وہ کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرو۔ آپؐ کے احکامات کو بجا لاؤ۔ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کی کامل پیروی کرو۔ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُولَ (سورۃ النور:56) کی اعلیٰ مثالیں قائم کرو۔ عبادتوں کے ایسے اعلیٰ معیار قائم کرو کہ تمہاری ہر حرکت و سکون سے توحید کا اظہار ہوتا ہو۔ جب ایسی حالت ہو تو خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کا بہت پاس کرتا ہے، بہت لحاظ رکھتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی ایسی حالت فرائض کے ساتھ نوافل سے ہوتی ہے۔ یعنی جب انسان فرائض ادا کر رہا ہو اور پھر نوافل بھی ادا کر رہا ہو تو پھر یہ قرب کی حالت ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ایسے بندے کا ولی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اُس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اُس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤںہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ سے محبت کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے آج ہمیں اپنے نفس کی مسلسل قربانیوں کی ضرورت ہے۔ یہی مسلسل کوشش ہمارے اندر توحید کا ادراک پیدا کرے گی اور اللہ تعالیٰ سے یہی تعلق ہمیں دشمن سے نجات دلائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم احمدیت کے راستے میں مخالفین کی طرف سے اُن کے زعم میں کھڑی کی گئی روکوں کو جلد دور ہوتا دیکھیں۔ روکیں تو بیشک ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان روکوں کو بھی دُور فرمائے جو وقتاً فوقتاً یہ مخالفین اپنے زعم میں کھڑی کرتے رہتے ہیں جس سے ایک عارضی پریشانی تو بہرحال ہوتی ہے لیکن اس کے لئے عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بیشک آج احمدیوں کی اکثریت اپنے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کر رہی ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کے بہت اعلیٰ معیار ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اپنی نسلوں میں بھی اس روح کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کئے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ احساس ہمیں آگے اپنی نسلوں میں بھی پیدا کرنا ہو گا۔ بیشک اسلام نے غالب آنا ہے، بیشک اس زمانے میں احمدیت کا غلبہ مقدر ہے لیکن ہمارے لئے اس غلبے کو اپنی زندگی میں دیکھنے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے دامن کو اس طرح پکڑیں کہ اِنِّیْ قَرِیْبٌ اور اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ( کہ مَیں تمہارے قریب ہوں، یقینا اللہ کی مدد قریب ہے) کی پُرشوکت آواز ہم سن سکیں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آج مسیح موعود کی جماعت ہی ہے جو توحید کا حقیقی ادراک رکھنے والی ہے یا رکھ سکتی ہے اور اس کی خاطر قربانیاں دے رہی ہے۔ بہت سے ہیں جو دے رہے ہیں بلکہ من حیث الجماعت جماعت ہی قربانیاں دے رہی ہے۔ آج اگر کوئی اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ(البقرۃ:214) کی آواز سن سکتا ہے تو وہ احمدی ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی اَور نہیں۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ جہاں ہم خود اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر کو دیکھیں وہاں دنیا کو بھی توحید کا پیغام دے کر ایک ہاتھ پر جمع کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد اب ہم دعا کریں گے۔ دعاؤں میں شہدائے احمدیت کے خاندانوں کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے۔ اُن کے پیاروں کی قربانیاں جلد رنگ لائیں اور ہم احمدیت کی ترقی کو کئی گنا پھلتے پھولتے دیکھیں۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کو دعاؤں میںیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ اب پاکستان سے باہر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ جو اسیر ہیں یا جو اسیری کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں، وہ پیدا ہورہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں مصر میں احمدیت کی وجہ سے مقامی مصری احمدیوں کو اسیری کے دن گزارنے پڑے لیکن بہرحال اُن کی تورہائی ہوگئی اور وہاں کی جو حکومت بدلی ہے اُس سے پہلے ہی ہوگئی۔ آج کل شارجہ کے ہمارے ایک بہت مخلص عرب دوست احمدیت کی وجہ سے اسیری کے دن گزار رہے ہیں اور یہ عید بھی انہوں نے اسیری میں کی ہے۔ اکیلے احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مضبوط احمدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کی رہائی کے بھی سامان پیدا فرمائے۔ اسی طرح ہندوستان میں ہمارے ایک معلم کو گزشتہ جلسہ قادیان سے پہلے جلسے پر آتے ہوئے جب وہ نومبائعین کولے کر آ رہے تھے، اغوا کیا گیا تھا۔ ابھی تک اُن کا پتہ نہیں چل رہا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی بھی جلد بازیابی کے سامان پیدا فرمائے۔
پاکستان میں مختلف جگہوں پر ہمارے بعض احمدی اغوا ہیں، جن میں سے ایک دس بارہ سال کا بچہ بھی ہے ۔ اپنے باپ کے ساتھ اُس کو بھی اغوا کرنے والوں نے اغوا کر لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد بازیابی اور رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ جماعت کے لئے مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ جو سست ہیں اُن کی توفیق بڑھانے اور اُن کی سستیاں دور کرنے کے لئے دعا کریں۔ واقفینِ سلسلہ کے لئے دعا کریں۔ بعض تو بڑے نامساعد حالات میںبڑی وفا کے ساتھ وقف کی روح کو قائم رکھے ہوئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور اپنی حفاظتِ خاص میں رکھے۔ ان کی کاوشوں اور کوششوں کے بہترین پھل لگائے۔ تمام بیماروں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ جو لوگ پریشان ہیں اُن کی پریشانیوں کے دُور ہونے کے لئے دعا کریں۔ مختلف لحاظ سے جو ضرورتمند ہیں ان ضرورتمندوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ کسی بھی طریقے سے جو مشکلات میں گرفتار ہیں اُن کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ تمام دنیا کی جماعتوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ رکھے۔ تمام اُمّتِ مسلمہ کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں اور جو کھوئی ہوئی ساکھ ہے اُس کو دوبارہ قائم کرنے والے ہوں۔ تمام انسانیت کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو بھول کر یہ جس تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اس سے محفوظ رکھے اور اپنی پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو، توحید کے پیغام کو دنیا میں احسن رنگ میں پھیلانے والے ہوں۔
خطبہ ثانیہ اور دعاکے بعد حضورانور نے فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سب کو عید مبارک بھی ہو۔ آپ لوگوں کو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی احمدی ہیں سب کو عید مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔