خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ستمبر 2009ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطَانَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔ (البقرۃ:208۔209)
الحمد للہ کہ آج ہم اس کے فضل سے ایک اور عید الفطر منانے کی توفیق پا رہے ہیں۔ عید الفطر ہم اس خوشی میں مناتے ہیں کہ ایک مہینہ ہم نے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے، اس کے حکم کے مطابق اپنے آپ کو اُن کاموں سے بھی روکے رکھا جن کے عام طور پر اور عام دنوں میں کرنے پر کوئی پابندی نہیں اور ہر طرح سے جائز ہے۔ پھر اپنی روحانی بہتری اور ترقی کے لئے، اخلاقی بہتری اور ترقی کے لئے، قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کی تلاوت کی برکات سے فیض پانے کے لئے، گزشتہ انتیس دنوں میں ہر ایک نے اپنی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق کوشش بھی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ حکم فرمایا کہ اِن دنوں میں فرض نمازوں کی ادائیگی اور زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے باجماعت نمازوں کی ادائیگی نیز اپنی نمازوں کو مزید نکھارنے، خدا تعالیٰ سے قربت کا موقع حاصل کرنے، کیونکہ رمضان کو فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ(البقرۃ:187) سے خاص نسبت ہے، اور پھر روحانیت کے اعلیٰ معیار کے حصول کی کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنوں میں خاص طور پر میں اس کوشش کرنے والے کی پکار کا جواب دوں گا۔ نمازوں کی فرضیت تو ویسے بھی ہر ایک عاقل بالغ مسلمان پر لازم ہے لیکن جن سے ان دنوں میں سستیاں ہو گئیں وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں۔ اکثر نے اللہ تعالیٰ کے اس اعلان پر کہ مَیں پکارنے والے کی پکار کا جواب دوں گا پوری طرح خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بھی سامنے رکھا کہ اپنے اخلاقی معیار بھی اس قدر بلند کرنے کی کوشش کرو کہ جو پہلے کے مقابلے میں واضح طور پر نظر آئیں۔ رمضان میں چھوٹی موٹی دوسروں کی ناراضگیوں اور لڑائیوں کی باتوں پر صرف اِنِّیْ صَائِمٌ کہہ کر ایسے لوگ دوسری طرف نہیں چلے گئے بلکہ سخت تکلیف دِہ اور فساد انگیز حالات میں بھی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں ہوتے ہیں اُس خلق کا بھی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کہ وَالَّذِیْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّھِمْ(الرعد:23)۔ اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی خاطر صبر کیا پر پوری طرح عمل کیا۔پس یہ سب کچھ اس لئے ایک مومن کرتا ہے اور ایک سچے احمدی مسلمان نے کِیا کہ اطاعت کا اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کرنا ہے کیونکہ رمضان اطاعت کا بھی اعلیٰ ترین معیار سکھانے کے لئے آتا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اسی اطاعت کے جذبے سے جائز چیزیں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑتاہے۔
پس یہ روحانیت میں ترقی، اخلاق میں ترقی اطاعت میں ترقی کے جو معیار حاصل کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے، جس ٹریننگ سے ہم گزشتہ دنوں میں گزرے ہیں اس کو اپنے ساتھ اب چمٹائے رکھنا ہے۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے رمضان المبارک کے مبارک دنوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔
رمضان شروع ہوتا ہے تو ایک یہ بھی رسم بن گئی ہے کہ ایک دوسرے کو کہا جاتا ہے رمضان مبارک۔ رمضان کی مبارکباد دی جاتی ہے۔ ٹھیک ہے بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن کہنا یہ چاہئے کہ رمضان شروع ہو گیا آپ بھی دعا کریں، مَیں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہ رمضان آپ کے لئے بھی اور میرے لئے بھی مبارک کرے اور ہم اس سے ہر طرح سے فیض پانے والے ہوں۔ بعض لوگوں کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ سرسری طور پر’رمضان مبارک ہو‘ کہہ کر سمجھتے ہیں کہ رمضان کا فرض ادا ہو گیا۔۔ تو جب اس مبارک رمضان کے مبارک ہونے کی روح کو سمجھ لیں گیتبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے رمضان کے مبارک دنوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی عید ہم اس خوشی میں منا رہے ہیں کہ ہم نے یہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کر کے انہیں ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے کا عہد کیا ہے۔ اور اس عہد کے نتیجہ میں ہم انشاء اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننے والے ہیں اور جب خدا تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننے کی خوشخبری ہمیں مل رہی ہے تو پھر ہم یہ عید کیوں نہ منائیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم یہ عید مناؤ۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو آج اس عید کو منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ رمضان نے ہمیں اطاعت کا سبق دیا کہ جائز چیزیں بھی ہم نے چھوڑیں اور اس اطاعت کے جذبے کے تحت ہم عید بھی منا رہے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ سب کچھ، یہ صبر، یہ حوصلہ، یہ اخلاق کے نمونے، یہ پاک تبدیلیاں، اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے کی طرف توجہ اور آج کا عید منانا ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری اور اطاعت کے جذبے سے کر رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہمیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا(النساء:14) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ اسے جنت میں داخل کرے گا جس کے اندر نہریں بہتی ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔
پس جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں جنّتوں میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری دی ہے تو یہ اُنتیس دن کی اطاعت کے بدلے میںنہیں ہے ۔یہ سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینے کی اطاعت کے بدلے میں نہیں ہے بلکہ اطاعت کے نمونے ہمیشہ قائم کرنے والے کے لئے خوشخبری ہے۔ اس ہمیشہ کی اطاعت کے بدلے میں اس دنیا میں بھی فوری بدلے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عید دکھائی اور اس لئے دکھائی کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی بجا آوری کرنے والے اور اس کی رضا کی جستجو اور تلاش کرنے والے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں اور اس کا اجر جنت کی صورت میں ہو گا۔ اس دنیا میں یہ جنّت عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی وجہ سے اطمینان قلب کی صورت میں ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:29)۔ پس سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اِس دنیا میں بھی اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ پس یہ معیار جو ہم نے رمضان میں حاصل کرنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کئے یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس دنیا میں اطمینان قلب نصیب ہو اور جس کو اطمینان قلب نصیب ہو جائے اس کے لئے اور کون سی جنت ہے جو اس کو چاہئے۔ ایک دنیا دار کے پاس سب کچھ ہوتا ہے لیکن بے چین ہوتا ہے۔ کئی بڑے بڑے امیر کبیر لوگ ہیں لیکن رات کو سونے کے لئے ان کو نیند کی دوائی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ گھبراہٹ اور بے چینی میں دن کو بھی پریشان حال رہتے ہیں۔ اگر دولت بے چینیاں دُور کر سکتی، سکون دے سکتی تو امیر لوگوں کو کبھی بے چینی اور گھبراہٹ نہ ہوتی۔ لیکن جائزہ لیں تو عموماً امیر لوگوں کو زیادہ دل اور گھبراہٹ کی بیماریاں ہوتی ہیں خاص طور پر ان کو جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا۔ پس اگر کسی نیک آدمی کو کوئی بیماری ہو، تکلیف ہو تو وہ اس بات پر بے چین ہوتا ہے کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض ادا کئے یا نہیں کئے۔ اسے دنیا داری کی خاطر گھبراہٹ نہیں ہوتی ۔
پس ہمیں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں یہ موقع عطا فرمایا اور ہم نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے گنتی کے چند دن روزے رکھے اور اس کے ساتھ اپنی روحانی بہتری کی طرف توجہ بھی دی تو ہمیں اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے اب روزوں کے بعد بھی اپنی عبادتوں کے معیار قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر اخلاق کی بہتری کی طرف اگر ہم نے توجہ دی اور اِنِّیْ صَائِمٌ کہہ کر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا تو یہ روزہ دار نہ ہونے کے باوجود بھی اب یہ خُلق قائم رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاق قائم کرنے کا حکم دیا ہے توہر سال انتیس تیس دن کے لئے اس کے معیار پہلے سے بہتر قائم رکھنے کے لئے موقع بھی میسر فرما دیا ہے کہ تمہارے پاس یہ بہانہ نہ رہے کہ مَیں دنیا کے ماحول سے متاثر ہو کر زمانے کی رَو میں بہہ کر اچھے اخلاق پر عمل کرنا اور ان کا مظاہرہ کرنا بھول گیا۔ فرمایا کہ یہ گنتی کے چند دن ہم تمہیں مہیا کر رہے ہیں پس بھولنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ اگر روزوں میں تم اِنِّیْ صَائِمٌ کہہ کر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر سکتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر وہ طاقت اور استعداد ہے جس سے تم اپنے جذبات کو کنٹرول کر سکتے ہو۔ پس اب جبکہ یہ مظاہرہ کر چکے ہو تو اسے اب اس اپنی زندگی کا دائمی حصہ بناؤ پھر میری جنتوں کے وارث بنو گے۔ اس دنیا میں بھی جنت نظیر معاشرے میں رہو گے اور آخرت میں بھی اس انعام کے مستحق ٹھہرو گے۔ جو شخص اپنی اصلاح کرتا ہے، عبادتوں کے معیار بلند کرتا ہے، اخلاق کے معیار بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھاتا ہے تو وہ پھر اپنے آپ کو دنیا کے اس ماحول سے بھی باہر نکالتا ہے جس میں عبادتوں کی طرف سے لاپرواہی برتی جا رہی ہو، جس میں بدخلقیوں کے نمونے دکھائے جا رہے ہوں، جس میں اپنے آپ کو والدین یا بزرگوں اور بڑوں اور نظام جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کے باغیانہ رویّے دکھائے جا رہے ہوں۔ یہ ماحول پھر ایسی طبیعتوں سے میل نہیں کھاتا۔ لازماً پھر ایسا شخص پاکیزہ ماحول کی تلاش میں ہوتا ہییا اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشش کرتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہے۔ پس جب یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں تو وہی پھر حقیقی عید منانے والی بناتی ہیں۔ ورنہ آج عید کے لئے جمع ہو کر اچھے کپڑے پہن کر اور آج کے دن نمازوں کی بھی پرواہ نہ کر کے اگر ہم نے عید منائی تو یہ عید نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایک قابل افسوس جھمگٹا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اپنی عیدوں کو تکبیرات سے خوبصورت بناؤ۔(المعجم الاوسط جلد 5 صفحہ 215 باب من اسمہٖ عبد اللہ حدیث 4373)
عید کے دن اگر یہ خیال رہے کہ مَیں نے خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہے۔ تبھی تکبیرات کی طرف بھی توجہ رہے گی تبھی یہ خیال رہے گا کہ جو نیکیوں کے حصول کی کوشش میں نے رمضان میں کی اس کا شکرانہ آج تکبیرات کی صورت میں ادا کروں، دعاؤں کی صورت میں ادا کروں، ذکر الٰہی کی صورت میں ادا کروں۔ آج ان تکبیرات پر غور کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی بڑائی اور کبریائی کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کروں اور جب یہ اِدراک حاصل ہو جائے گا تو قدرتی طور پر پھر ہر آنے والا لمحہ جو ہے خدا تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار بنانے والا ہو گا۔ اس کے حکموں اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو گا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا مطیع بن جائے اس کے لئے ہر روز ہی پھر روزِ عید ہو جاتا ہے۔ پس یہ عید حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے نہ کہ زندگی بخش قربانی کا انتیس روزہ مظاہرہ کرتے ہوئے عید کے روز روحانی مردنی اپنے اوپر وارد کرتے ہوئے ہم عید منائیں۔ پس جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں وہی حقیقی عید منانے والے ہیں۔ جس دن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی برائیوں کو دور کرنے کا عہد کیا، جس دن انسان نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کیا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا تو حقیقی عید وہی ہو گی۔ پس آج اگر ہم اپنے رمضان کو بھولنے کا نہیں بلکہ یاد رکھنے کا عہد کریں تو ہماری عید مبارک عید ہے اور ہمارا رمضان بھی بڑا مبارک رمضان ہے۔ ہماری دنیاوعاقبت بھی اس سے سنور جائے گی اور یہ عید ہماری دنیاوعاقبت سنوارنے والی عید بن جائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر ہے اور مبارک دن ہے؟ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو اِن سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضب الٰہی کے نیچے اسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگاجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضب الٰہی سے نجات دیدے۔ توبہ کرنے والا گنہگار جو پہلے خدا تعالیٰ سے دُور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دُور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ(البقرۃ: 223)بیشک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔ پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کر توتوں سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہد صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لئے اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہے کہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 148-149۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
پس حقیقی عید یہی ہے کہ جوپاک تبدیلیاں ہیں وہ پیدا کی جائیں، اپنی حالتوں کو بدلا جائے۔ پس اگر ہم نے یہ رمضان اس کوشش میں گزارا ہے کہ سچی توبہ کریں اور اپنی پوری کوشش بھی کی ہے تو ہمارے لئے ہر دن جو رمضان میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے چڑھا تھا عید کا دن تھا لیکن اس کا اظہار ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آج کر رہے ہیں۔
یہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں ان کا یہ ترجمہ ہے کہ :اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنی جان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتا ہے۔ لوگوں میں ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
پھر فرمایا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب اطاعت کے دائرے میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقینا وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔
اس میں خدا تعالیٰ نے بعض حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ پاک تبدیلیوں کا اظہار کس طرح ہو تا ہے۔ یہ کس طرح پتا چلے کہ واقعی ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کی ہے۔ فرمایا کہ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ۔ کہ اپنی جان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ جو سچی توبہ کرنے والے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول چاہنے والے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر پھر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ اور جو اپنی جان خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنے کے لئے تیار ہو اس سے یہ کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلے گا۔ وقتی جوش کے تحت، غصّہ میں اور اَناؤں کی خاطر اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے بھی جان قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کی قربانی اپنی خاطر ہوتی ہے یا اگر ملک کے سپاہی بھی ہیں تو ان کی اس قربانی کا ایک تو عوض ان کو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے، ایک رقم مل رہی ہوتی ہے، پھر ان کی ایک ٹریننگ، سوچ ہی اس طرح بنا دی جاتی ہے کہ صرف تم نے یہ کام کرنا ہے اور اس کا مقصد بھی خدا تعالیٰ کی رضا نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پاک تبدیلی پیدا کرنے والے جو ہیں وہ سوچ سمجھ کر لیتے نہیں ہیں۔ ان کو کوئی دنیاوی لالچ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی رضا سے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جان پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی رضا کے حصول کے لئے اپنی جان کا سودا خدا تعالیٰ سے کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کو بیچتے ہیں اور نفس کو بیچنا صرف وقتی جوش کے تحت نہیں ہوتا۔ جان قربان کرنا نہیں صرف بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مستقل طور پر زندہ رہتے ہوئے حقوق العباد بھی ادا کرنے ہیں اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے ہیں۔ بعض مواقع پر حقوق العباد کی ادائیگی جو ہے وہی حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف لے جاتی ہے۔ پس ایسے لوگ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کوشاں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے بندوں کے حق میں اللہ تعالیٰ بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
پس حقیقی عید کا اظہار ایک مومن سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ ہر طرح کے حقوق ادا کر رہا ہو۔ ہر روز اپنی زندگی جو ہے اس کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بیچنے والا ہو۔ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں ہیں جو اس جذبے سے قربانی کے لئے تیار ہیں اور کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اسے بجا لانا ہے۔ اپنی روحانیت سنوارنے کے ساتھ دوسروں کے جذبات کی خاطر بھی قربانی دیتے ہیں اور یہ قربانی اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ ان کی نظر صرف اپنے بیوی بچوں اور اپنی ذاتی ضروریات پر نہیں ہوتی بلکہ غریبوں اور یتیموں کا بھی ان کو خیال رہتا ہے۔
پس عید میں پاک تبدیلی کا اظہار ایک احمدی سے اس صورت میں بھی ہونا چاہئے کہ وہ یتیموں اور غریبوں کے لئے بھی قربانیاں کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ غریب اور سائل کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یتیم کی پرورش کرو۔ پس دنیا میں ہر جگہ یتیموں کا خیال رکھنے اور غریبوں اور ضرورتمندوں کی ضروریات کے لئے بھی احمدیوں کو اپنے دلوں کو پہلے سے زیادہ کھولنا چاہئے۔ یہاں یوکے(UK) کی احمدیہ انجنیئر ایسوسی ایشن یا یورپین چیپٹر کے ہیں انہوں نے ایک بہت اچھا منصوبہ بنایا ہے کہ افریقہ میں ایک گاؤں کو لینا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے خرچ پر بجلی اور پانی کی سہولت مہیا کریں گے اور یہ ممبران جو ہیں وہ کہتے ہیں ہم خود اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبے کو قبول کرے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نیکیوں کا یہ کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی بھی پھر ان پر اس طرح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت دے رہا ہے اَور ملکوں سے بھی صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے لازمی چندہ جات کے علاوہ بھی ایسے کار خیر کے جو کام ہیں ان میں حصہ لینا چاہئے۔ لازمی چندہ جات کا ایک بہت بڑا حصہ جو ہے وہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف چلا جاتا ہے جیسے مساجد بنانا ہے، مشنز کھولنا ہے، لٹریچر شائع کرنا ہے اور تبلیغ کے دوسرے ذرائع ہیں۔ ان میں بہت بڑی رقم استعمال ہوتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو مخیر اور صاحب حیثیت لوگ ہیں ان کو ایسی قربانیوں میں بھی حصہ لینا چاہئے جو غریبوں کے حقوق کی بجا آوری کے لئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رَؤُوْفٌ بِالْعِبَاد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں ان کے ساتھ وہ رأفت اور محبت کرتا ہے۔ چنانچہ خود فرماتا ہے وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو ما دام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔ ‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 90۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)یعنی ایسی پاک زندگی کا وارث ان قربانیوں کی وجہ سے ہو جو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا مشاہدہ کرے۔ اپنی زندگی کا جو کچھ ہے وہ وقف کر دے۔ بیشک انسان کے اپنے حقوق ہیں، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ہیں، ان کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے لیکن صرف نفس پرستی کا خیال نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ صورتحال ہو گی تو اگلے جہان میں بھی ایسے لوگ پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
پھر اگلی آیت میں خدا تعالیٰ مومنوں کو توجہ دلاتا ہے کہ ایمان کامل کرنے کے لئے کامل اطاعت ضروری ہے۔ یعنی صرف حقوق اللہ کی ادائیگی سے اطاعت کے معیار بلند نہیں ہوںگے۔ صرف حقوق العباد کی ادائیگی سے اطاعت کے معیار بلند نہیں ہوں گے۔ صرف ایک مہینے کی عبادت اور قربانی سے اطاعت کے معیار بلند نہیں ہوں گے صرف قرآن کریم کے چند احکامات پر عمل کرنے سے اطاعت کے معیار بلند نہیں ہوں گے۔ صرف اپنی مرضی کے فیصلوں کو قبول کرنے سے نظام جماعت کی اطاعت کے معیار بلند نہیں ہوں گے۔ بلکہ فرمایا تمہارا کُل وجود، تمہاری کُل سوچ، تمہارے تمام جذبات اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گے تو تبھی تمہارے انفرادی طور پر بھی اطاعت کے معیار بلند ہوں گے اور من حیث الجماعت بھی ایک نکھر کر چیز سامنے آئے گی۔
بعض لوگ مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ اطاعت کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب ان کے خلاف جماعت میں یا قضا میں کوئی معاملہ آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ نہیں ہم نے یہ فیصلہ ملکی عدالت سے کروانا ہے۔ اور جب ملکی عدالت میں فیصلہ لے جانے کے بعد یہ شک ہو جائے کہ ہمارے خلاف فیصلہ ہونے والا ہے تو پھر دوڑتے ہیں واپس کہ نہیں اب جماعت فیصلہ کر دے۔ تو اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کہ فرمانبرداری میں داخل ہو جاؤ کا یہ مطلب بھی ہے کہ اطاعت کامل ہو، نظام جماعت پر اعتماد پورا ہو۔ اگر فیصلہ خلاف بھی ہو تو کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ۔ یہ نہیں کہ جہاں شریعت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو وہاں شرعی طریقے سے اپنے مسائل حل کرواؤ، جہاں ملکی قانون زیادہ فائدہ مند نظر آئے وہاں ملکی قانون سے فائدہ اٹھاؤ۔ پس اللہ تعالیٰ اطاعت کا حکم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ شیطان کے پیچھے نہ چلو یہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ ہر وقت اگر یہ مدّ نظر رہے گا کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنی ہے تو شیطان سے خدا تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی کوشش بھی ہو گی۔
رمضان میں مجھے بہت سے خطوط آئے کہ دعا کریں کہ رمضان کی پاک تبدیلیاں ہمارے اندر ہمیشہ قائم رہیں اور شیطان کا غلبہ دوبارہ نہ ہو تو اس کے لئے اگر ہم ایک کوشش سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر چھوٹی سے چھوٹی قربانی اور ہر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے بھی تیار رہیں گے تو تبھی شیطان سے بھی دور رہیں گے کیونکہ قربانیوں کی طرف تو شیطان نہیں لے جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرتے رہیں گے تو یہ تبدیلیاں جو رمضان میں ہم میں پیدا ہوئی ہیں وہ ہمیشہ رہنے والی تبدیلیاں ہوں گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان بڑے عجیب عجیب ذریعوں سے حملے کرتا ہے۔ بعض نیکیوں کی طرف توجہ دلا کر ہی نیکیوں سے روک دیتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کس میں ہے اور ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا ایک نظام ہے اور نظام جماعت سے چمٹ کر ہی نیکیاں، نیکیاں کہلا سکتی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی گروہ کو خوشخبری دی ہے جو ایک جماعت ہو گا۔(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ حدیث 2641) پس جماعت سے منسلک رہنا اور جماعت کی اطاعت کرنا بھی نیکیوں میں بڑھانے کا باعث بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
پس رمضان نے جو اطاعت کا مضمون ہمیں سمجھایا ہے کہ جائز کاموں کے کرنے اور نہ کرنے میں بھی اطاعت کو ملحوظ رکھو تو اجر پاؤ گے اس مضمون کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور یہی ہماری عید ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے۔ ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعتِ خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے‘‘۔ (اپنے تمام وجود کو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے اور مخلوق کی خدمت کے لئے بنایا گیا ہے) ’’اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں ایسے ذوق و شوق و حضور دل سے بجا لاتا ہے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے‘‘ ۔(یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کام کرنا)’’ اور ارادہ اس کا خدائے تعالیٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہو جاتا ہے اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے اور تمام اعمال صالحہ نہ مشقّت کی راہ سے بلکہ تلذّذ اور احظاظ کی کشش سے صادرہونے لگتے ہیں۔‘‘ (اعمال صالحہ جبری نہیں ہوتے بلکہ ان اعمال کو بجا لانے کے لئے اس کو ایک لذّت آتی ہے، ایک سرور آتا ہے، ایک مزا آ رہا ہوتا ہے۔ اور ایک حظ اٹھا رہا ہوتا ہے، لطف اٹھا رہا ہوتا ہے اس لئے وہ کرتا ہے اور یہی) وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے۔‘‘(یعنی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کر کے اور مخلوق کی خدمت کر کے جو سرور ملتا ہے۔ فرمایا یہی جنت ہے جو اس دنیا میں ملتی ہے) ’’اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گا وہ درحقیقت اسی کی اظلال و آثار ہے جس کو دوسرے عالم میں قدرتِ خداوندی جسمانی طور پر متمثّل کر کے دکھلائے گی۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 385)اگلے جہان میں جو ملے گا وہ اس کے نمونے ہوں گے گو یہ چیز تو نہیں ہو گی لیکن اس کو کس طرح دکھلائے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کو اگلے جہان میں ایک مثال کے رنگ میں پیش کر کے دکھائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ حقیقی لذتوں سے فیض پانے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہیں اور فرمانبرداری کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں۔ اپنے اعمال پر نظر رکھنے والے ہوں اور وہ اعلیٰ اعمال بجا لانے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والے ہوں اور اگر ہمارے قدم اس طرف اٹھتے رہے تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے اور یہی ہمارا ایک مقصد ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب ہم دعا کریں گے۔ دعاؤں میں سب سے پہلے تو مَیں آپ کو بھی عید مبارک کہتا ہوں اور تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی۔ بہت ساری جگہوں پر احمدیوں نے آج ایسے حالات میں عید منائی ہے جو کھلے طور پر اپنی خوشیوں کا اور عید کا اظہار بھی نہیں کر سکے۔ بعض پابندیاں ان پر لگی رہیں۔ بعض جگہ چھپ کر احمدیوں نے عید کی نماز پڑھی۔ تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے ایسے حالات پیدا کرے کہ وہ آزادی سے اور اپنی مرضی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق عیدیں منانے والے ہوں۔ بہرحال تمام دنیا کے احمدیوں کو بہت بہت عید مبارک ہو۔ دعاؤں میں اسیران کو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ شہداء کو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولادوں کا کفیل ہو۔ ان کو اپنی حفاظت و امان میں رکھے اور بیماروں کو شفا عطا فرمائے۔ مالی قربانی کرنے والے احمدیوں کو اپنی جناب سے بے انتہا نوازے۔ ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے اور ہر ضرورتمند، ہر بیمار، ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے مجبور اور لاچار ہے اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد و نصرت فرمائے اور اس کی پریشانیاں اور تکلیفیں دُور فرمائے۔