خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍نومبر 2009ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایک اور عید الاضحی منانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ اَضحٰی قربانی کو بھی کہتے ہیں اور اِس عید میں کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے بھیڑ بکری گائے وغیرہ کی قربانیاں مسلمان حسب توفیق کرتے ہیںاور بڑی کثرت سے کی جاتی ہیں۔ اور جن کو حج کی توفیق ملتی ہے وہ بیت اللہ کے حج پر بھی جاتے ہیں اور یہ حج بھی اسی قربانی کی یاد میں ہے جو ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی بیوی حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے دی۔ اس بے آب و گیاہ جگہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن سے ہی قربانیاں لینی شروع کر دیں اور ان قربانیوں پر پورا اترنے پر پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دوبارہ اپنی بیوی اور بچے کو ملنے آئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے گھر کی نشاندہی فرما کر اسے دوبارہ کھڑا کرنے کا حکم فرمایا تا کہ اللہ تعالیٰ کے اس پہلے گھر کی طرف دنیا کی توجہ پیدا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کو بھی یاد رکھا جائے۔
پس عید الاضحی انہی قربانیوں کی یاد کی عید ہے۔ نیز حج جو ہے یہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے ان تین بزرگوں کی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کی نظر میں قبولیت کا مقام حاصل کرنے پر دنیا کو یہ بتانے کے لئے بھی ہے کہ توحید کے قیام کے لئے بھی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور دینی چاہئیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بھی قربانیوں کے تسلسل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مومنین کی آپس کی محبت اور اکائی بھی صرف توحید سے وابستہ ہے اور اس کے لئے بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح آپس کی محبت کو دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اگر تو اس اعلیٰ مقصد یعنی توحید کے قیام کے لئے حج کی ادائیگی کی جا رہی ہے، اگر اس اعلیٰ مقصد کے لئے دنیا بھر کے مسلمان عید قربان مناتے ہیں اور یہ عید مناتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں جانوروں کی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں اور نماز عید بھی ادا کر رہے ہیں تو یقینا یہ ان قربانیوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو چنا تھا۔ اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں تو پھر یہ سب کچھ دنیاوی تہواروں کی طرح ہے۔ اور حج بھی اگر صرف دنیاوی شہرت کی خاطر ہے کہ حج کرنے سے حاجی کا ٹھپّا لگ جائے گا تو اس کی بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایک دور دراز کے غریب آدمی کا حج صرف اس کی حج کی نیت پر اس لئے قبول کر لیا تھا کہ اس نے اپنے حج کے لئے جمع کئے ہوئے کئی سالوں کے زادِ راہ کو اپنے ہمسائے کی بھوک مٹانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لئے قربان کر دیا تھا اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حج قبول فرمایا بلکہ اس کی قربانی کے نتیجہ میں اتنے اعزاز سے نوازا کہ جو لوگ مکّہ مکرمہ میں حج پر گئے تھے ان کے حج بھی اس ایک شخص کے حج کی وجہ سے قبول ہوئے، نہ کہ ان کے اپنے حج کے مناسک ادا کرنے اور عبادتیں کرنے کی وجہ سے۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از شیخ فرید الدین عطارصفحہ 127,128 ناشر شمع بک ایجنسی لاہور )
پس یہ مقام خدا تعالیٰ نے قربانیاں کرنے والوں کو دیا ہے اور ایک مومن کویہ مقام سارا سال بھی دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے ملتا رہتا ہے۔ پس یہ وہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اولیاء، اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اپنے قول و فعل میں قائم فرماتے ہیں اور یہی عمل صالح ہیں جو بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتے ہیں۔
حج بیشک اسلام کا ایک رکن ہے اور حسب توفیق و شرائط اس کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ایک بہت بڑی نیکی ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ حج گناہوں کو یوں دھو ڈالتا ہے جیسے پانی میل کو دھو دیتا ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی الجزء الثالث صفحہ416-417حدیث نمبر 4997 دار الکتب العلمیہ بیروت) لیکن جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے جن کا نام علی بن مُوَفِّق تھا کی ہمسائے کے خاندان کی بھوک مٹانے کی نیکی نے حج کرنے پر فوقیت حاصل کر لی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ اگر کسی کا ہمسایہ فاقہ میں ہے تو اس کے لئے شرعاً حج جائز نہیں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 18 ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس اللہ تعالیٰ کو وہ تقویٰ پیارا ہے اور اس کی جزا اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کرتے ہوئے حاصل کیا جائے یا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔(الحج:38) کہ یاد رکھو قربانیوں کے گوشت اور خون اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ پس لاکھوں آدمیوں کا حج اور حج کے وقت ذبح کئے گئے جانور ان حاجیوں کے کسی کام نہ آ سکے حتی کہ ایک بہت بڑے بزرگ کو اللہ تعالیٰ نے علی بن مُوَفِّق کے حج کی قبولیت کی اطلاع حرم میں ہی خواب دکھا کر دی تھی جو خود بھی حج کر رہے تھے۔ ان کا بھی حج قبول نہیں ہؤا۔ ہؤا تو ایک ایسے قربانی کرنے والے کا جس کا دل تقویٰ کی وجہ سے ہمسائے کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہوا تھا۔
(ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از شیخ فرید الدین عطارصفحہ 127,128 ناشر شمع بک ایجنسی لاہور )
پس یہ عید جس میں آج ہم خوش بھی ہیں، خوشی سے منا بھی رہے ہیں، بڑے بھی اور بچے بھی اور حسب توفیق صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور تیار ہو کر عید پڑھنے کے لئے آئے ہیں اور جن کے عزیز حج پر گئے ہیں وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے عزیز رشتہ دار بزرگ حج کا فریضہ بھی اس سال ادا کر رہے ہیں۔لیکن جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کہ ہمارے حج، ہمارے جانوروں کی قربانیاں، ہماری عیدیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس وقت قبول ہوتی ہیں جب خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہم ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوں۔ ہم یہ جو اپنے عمل ہیں سب کچھ اپنے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہوں۔ ہم اس بات کا اقرار کر رہے ہوں کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں اور پھر ہم یہ اقرار آج خدا تعالیٰ کے سامنے کریں کہ جس طرح تو کہے ہم اپنے آپ کو تیری خاطر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔
پس آج عید الاضحی منانا ہم سب کے لئے، جن کو اس عید پر قربانی کرنے کی توفیق ملی ہے یا نہیں ملی، اس عہد کی تجدید کا دن ہونا چاہئے کہ اے خدا!حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام نے تیری رضا کے حصول کے لئے جس طرح کی قربانی کا معیار قائم کیا، ہم بھی اسی طرح کی قربانی کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم تیرا قرب پانے کے لئے اپنی جان، مال، وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ذرا سا بھی خیال دل میں لائے بغیر ہر وقت تیار ہیں۔ ہماری خواہشات ہماری قربانی پر کبھی حاوی نہیں ہوں گی۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے عہد کر کے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا (الصّافات:106) کی آواز آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو پکار کر کہتا ہے کہ تُو نے میرا قرب پانے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنے کے میرے حکم اور اپنے عہد کو پورا کر دیا۔ تُو میرا قرب پا گیا۔ میں نے اشرف المخلوقات کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ بلا مقصد اس کی گردنیں کاٹی جائیں۔ میں نے باقی مخلوق کو تیرے لئے جو مسخّر کیا ہے تو آج اس کی جگہ مینڈھے، بکرے یا کسی جانور گائے وغیرہ کی قربانی کر کے اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دے ۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم دونوں کی دعاؤں کو سنتے ہوئے تمہاری نسل میں سے مَیں تو وہ عظیم نبی مبعوث کرنے والا ہوں جس نے پھر قربانیوں کے نئے باب رقم کرنے ہیں۔ پس تم دونوں میرے مقرب بن گئے اور اِنَّا کَذَالِکَ نِجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ کہ ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں کے عظیم گروہ میں شامل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس کی خاطر کی گئی قربانیوں کی محدود جزا نہیں دیتا بلکہ نسل در نسل بلکہ ہزاروں سال بعد بھی دعاؤں اور قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے جزا دیتا چلا جاتا ہے اور اس کا نظارہ دکھاتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ایک ایسا وجود پیدا فرمایا جو کسی محدود قوم کی اصلاح کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ پوری دنیا کی اصلاح کے لئے اور توحید دلوں میں بٹھانے کے لئے آیا تھا۔ باوجود اس کے کہ آج مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے کم ہے لیکن سب سے زیادہ جس نبی کا نام روزانہ لے کر اس پر درود بھیجا جاتا ہے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی وجہ سے ہی آج ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یاد رکھا جاتا ہے اور وہ بھی اس درود کا حصہ بن گئے ہیں۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے انعام دینے کے اور نوازنے کے طریقے۔
پس آج ہم بھی خوش قسمت ہیں کہ ہم اس عظیم نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جو ہزاروں سال پہلے کی گئی قربانیوں کے عظیم الشان انعام کو پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین نبی اور رسول بن گئے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے اس پہلے گھر میں دوبارہ توحید کے قیام کے لئے قربانیوں کے لئے اچھوتے، نئے اور عظیم نمونے قائم کر دئیے۔ مکّہ کی ابتدائی تیرہ سالہ زندگی پہ اگر نظر ڈالیں تو اس میں قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مکّہ کے قریب ایک بستی سے جب اوباشوں اور بدمعاشوں کے پتھراؤ سے لہو لہان جبکہ سر سے لے کر پاؤں تک آپ کا خون بہہ رہا تھا واپس آتے ہوئے سستانے کے لئے ایک جگہ تشریف فرما ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے فرشتہ آ کر اس وقت یہ عرض کرتا ہے کہ مَیں پہاڑوں کافرشتہ ہوں۔ حکم دیں تو ان دو پہاڑوں کو ملا کر اس بستی کو بیچ میں ہی کچل ڈالوں۔ تو اللہ تعالیٰ کا پیارا، محبت مخلوق میں سرتاپا ڈوبا ہوا، خدا تعالیٰ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی دے کر بھی اس کو حقیر قربانی سمجھنے والا، بے چین ہو کر فرشتے کو جواب دیتا ہے کہ نہیں نہیں ایسا نہ کرنا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آج جنہوں نے میرا خون بہایا ہے ایک دن ان کی نسلوں میں سے میرے لئے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے قطرات محبت ٹپکیں گے۔ یہ لوگ اللہ اور رسول کے لئے اپنا خون بہائیں گے۔ آپ اس یقین سے پُر تھے کہ میری یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ تو قربانیوں کا عظیم اجر دیتا ہے۔ مَیں آج ان کو ختم کروا کر ان کی بستی کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر معمولی بدلہ کیوں لوں۔ یہ تھی آپ کی سوچ۔ اصل بدلہ تو اس دن ہو گا جس دن ان کی زبانوں سے اللہ اکبر اور توحید کے نعرے بلند ہوں گے۔ باوجود اس کے کہ ہمیشہ آپ نے اس دن کو اپنی زندگی کا سخت ترین دن کہا ہے لیکن پھر بھی اس قوم کے لئے ہمدردی کے جذبات دل میں رکھے اور یہ سوچا کہ اگر یہ نہیں تو ان کی نسلیں ہی جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گی۔(صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین ۔۔۔ حدیث نمبر 3231) اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ نے ایسے قربانی کرنے والے اور توحید سے چمٹ جانے والے جانثار پیدا کئے کہ گرم تپتی ریت پر ننگے بدن گرم پتھر سینے پر رکھوا کر تکلیف برداشت کرنا گوارا کر لیا لیکن دل میں قائم توحید پر آنچ نہ آنے دی۔ کوئلوں پر لیٹنا گوارا کر لیا لیکن خدائے واحد پر ایمان سے منہ نہ موڑا۔ ننگے بدن تپتی ریت پر لیٹ کر مسلسل کوڑے کھاتے ہوئے بیہوش ہو جانے کے بعد پھر ہوش میں آکر اس سلوک کو دہرایا جانا گوارا کر لیا لیکن اَحد اَحد کی آواز کو بند نہ ہونے دیا حتی کہ عورتوں تک نے دو اونٹوں پر بندھ کر جسم کے دو ٹکڑے کئے جانا برداشت کر لیا لیکن خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل سے نکلنے نہ دیا۔ یہ وہ قربانیاں تھیں جو توحید کے قیام کے لئے مکہ کی سرزمین پر ایک مثال قائم کر گئیں اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ یہ قربانیاں کیا رنگ لائیں۔ صرف دس سال کے قلیل عرصے میں وہی ظالم جو دنیاوی وجاہت کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے ان قربانیاں کرنے والوں کے زیر نگیں کر دئیے گئے۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس پہلے گھر کو جو توحید کے قیام کے لئے قائم ہوا تھا، جس کے لئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے یہ دعا کی تھی جس کا قرآن شریف میں ذکر آتا ہے کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ ا لرَّحِیْمُ (البقرۃ:129)اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امّت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس دعا کے برخلاف توحید کے قیام کی بجائے وہ گھر، اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر 360بتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور اس وجہ سے شرک کا گڑھ بن گیا تھا، جب مسلمانوں کے زیر نگیں ہوئے تو کسی طاقت کے خوف سے نہیں بلکہ خالص اپنے دل کی آواز کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ لوگ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اعلان کرنے والے بن گئے جو مشرکین میں سے شمار ہوتے تھے۔ پس کیا یہ عظیم قربانیوں کا وہ عظیم الشان نتیجہ نہیں جو تھوڑے عرصے میں چشم فلک نے دیکھا۔ آج بھی جو لاکھوں مسلمان مکّہ مکرمہ میں پہنچ کر یہ فریضہ ادا کرتے ہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور پھر ان کی اس دعا کہ جو قرآن شریف میں اس طرح درج ہے کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عََلَیْۡہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ:130)اور اے ہمارے رب! تُو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تُو ہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشتے ہوئے جو عظیم رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں مبعوث فرمایا، ان کی قربانیوں کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے بھی یہ حج کیا جاتا ہے۔ وہاں مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدوں اور پاک اور مطہّر بندوں نے خالص ہو کر قربانیاں پیش کی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قربانیاں پیش کی تھیں اور قبولیت کا اعزاز پایا تھا۔ آج بھی اسی سوچ کے ساتھ اور اسی طرح خالص ہو کر کیا جانے والا حج اور قربانیاں اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بنیں گی جس غرض کے لئے اس گھر کی بنیاد رکھی گئی تھی اور قربانی کرنے کا حکم ہوا تھا۔ ورنہ یہ حج بھی بے فائدہ ہے اور یہ قربانیاں بھی بے فائدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو صاف اعلان فرما دیا ہے کہ اصل چیز تمہارا تقویٰ ہے۔
آج مسلمان ملکوں میں تو قربانی اور جہاد کے نام پر بچوں اور نوجوانوں کو خود کش حملوں کے ذریعہ سے معصوموں کا خون کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے اور پھر اسے بڑے فخر سے بیان بھی کیا جاتا ہے کہ ہم نے ان کی ایسی تربیت کر دی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کوئی ان بدفطرت جو اسلام کے نام نہاد علمبردار بنے ہوئے ہیں ان سے پوچھے کہ کیا تم نے کبھی اپنے بچے بھی اس اہم مقصد کے لئے پیش کئے ہیں؟ ان کو بھی اس قربانی کے لئے پیش کیا ہے؟ ہمیشہ جواب آپ نفی میں دیکھیں گے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی نوجوان کارروائی سے پہلے پکڑا جائے جو اِکّا دُکّا بعض پکڑے بھی گئے ہیں تو وہ روتے ہوئے یہی کہتا ہے کہ ہمارے ماں باپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ہمیں ان ظالموں کے ہاتھوں بیچ دیا اور اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ یا ان کے ہاتھوں مر جاؤ یا خود اپنے آپ کو اڑا کر مر جاؤ۔ اور بعض دفعہ ان کی ایسی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں یہی ہے۔ برے بھلے کی تمیز ہی ان لوگوں کو نہیں رہتی۔ تو اس بات کو خدمت اسلام سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس ہی نہیں کروایا جاتا۔ جہاں یہ حکم ہے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، مریضوں حتی کہ ہر وہ شخص جس نے ہتھیار نہیں اٹھایا اسے جنگ کی حالت میں بھی کچھ نہیں کہنا۔ اس کے برعکس یہاں کیا ہو رہا ہے؟ بھرے بازاروں میں، عبادتگاہوں میں، مسجدوں میں، بلا تمیز چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے، عورت مرد کی جان لے لی جاتی ہے۔ ایک ہنستا بستا گھر خوش خوش بازار خرید و فروخت کے لئے جاتا ہے تو شام کو ان کی لاشیں گھر آتی ہیں۔ یہ کون سا اسلام ہے اور یہ کون سی قربانی ہے۔ اگر اسلام میں کبھی جنگوں کی اجازت دی گئی تو ایک مقصد کے لئے، ظلم کو ختم کرنے کے لئے۔ اور اس میں اللہ اور رسول کا حکم ہے کہ جو تم پر ہتھیار نہ اٹھائے اس پر ہتھیار نہیں اٹھانا۔ اور پھر یہ کہ یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ ظلم کی بیخ کنی کی جائے نہ کہ ہر ایک ایرے غیرے کا اور نام نہاد تنظیموں کا۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا بھی قربانی کرنا اور اس کے لئے تیار ہونا ایک عظیم مقصد کے لئے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا قربانی کرنا بھی ایک عظیم مقصد کے لئے تھا۔ حکومتوں کے حصول کے لئے نہیں تھا اور کسی سیاسی وجہ کے لئے نہیں تھا اور بچوں کو خود کشی پر آمادہ کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کئے۔ خود کشی تو بذات خود ایک ایسا فعل ہے جو گناہ ہے۔ اور روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کا جنازہ نہیں پڑھا۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب ترک الصلاۃ علی قاتل نفسہ حدیث نمبر 978 ) پس یہ آپ کی ناپسندیدگی کا اظہار ہے اور جس کام کو اللہ اور رسول کے نام پر کیا جا رہا ہے اس میں تو ان کی خوشنودی شامل ہی نہیں ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا آجکل کے خود کش تو نہ صرف اپنے آپ کو ختم کرتے ہیں بلکہ درجنوں اور بعض دفعہ سینکڑوں معصوموں کی موت کا باعث بن جاتے ہیں اور قتل کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور پھر معاشرے کا امن برباد کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ کونسا توحید کا قیام ہے جو ان خود کش حملوں سے عمل میں آ رہا ہے۔
پس آج ہم احمدی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے پر وارد کرتے ہوئے، اپنے پر لاگو کرتے ہوئے، ایسی بامقصد قربانیاں دینی ہیں اور اس کے لئے اپنی نسلوں کو بھی تیار کرنا ہے جو توحید کے قیام کے لئے ہوں، جو خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے ہوں، جو اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہوں ،جو معاشرے کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہوں، جو آپس کے اتحاد کے لئے ہوں، جو معاشرے کا امن قائم کرنے کے لئے ہوں۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام جب خانہ کعبہ کی بنیادیں کھڑی کر رہے تھے تو یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ جو شہر آباد ہونے کی تُو ہمیں خوشخبری دے رہا ہے، ہماری تیرے سے یہ دعا ہے اور یہ عاجزانہ دعا ہے کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا(البقرۃ: 127)۔ اس جگہ کو ایک پر امن آبادی بنا دے۔ یہ شہر خوب پھلے اور بڑھے لیکن پُر امن ہو۔ فتنہ و فساد اور لڑائیوں کی آماجگاہ نہ بن جائے۔ پس ان قربانی کرنے والوں نے جو شہر بسایا اس کے لئے امن کی دعا کی۔ یہ دعا صرف اس جگہ کے لئے مخصوص نہیں تھی بلکہ یہ پیغام تھا بعد میں آنے والوں کے لئے بھی اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو محسن انسانیت کے ماننے والے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جو اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جو ایک جانور کو بھی تکلیف میں دیکھتے تھے تو بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ یہ پیغام کیا ہے؟ کہ اے خدائے واحد کی عبادت کرنے والو اور اے توحید کے قیام کے لئے کوشاں لوگو! تمہارے یہ مقصد اس وقت حاصل ہوں گے جب اللہ اکبر اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی آواز کے ساتھ امن کے قیام کا بھی نعرہ لگاؤ گے۔ اس کی اتباع میں قائم ہونے والا اللہ کا ہر گھر امن کا گہوارہ ہو اور اس کے اندر محبت، مودّت کے چشمے پھوٹیں اور جب یہ ہو گا تو سمجھو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کا ادراک تمہیں حاصل ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے گھر سے اللہ اکبر اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی صدا کے بعد شہروں کے امن برباد کرنے کے منصوبے بننے کی آوازیں آ رہی ہوں یا خبریں آ رہی ہوں۔ ایک دوسرے پر غلیظ قسم کے الفاظ سے گند اچھالے جا رہے ہوں تو نہ تو یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں کا ادراک حاصل کیا گیا ہے، ان کو سمجھا گیا ہے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کو پہچانا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ اسلام کے ذریعہ سے دنیا کے امن کے قیام کا ایک عظیم اعلان تھا۔ بخاری میں یہ خطبہ جس حد تک درج ہے وہ بیان کرتا ہوں۔
حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے دن ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہانتک کہ ہم سمجھے کہ آپ اس مہینے کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ تو آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحج کا مہینہ نہیں؟ ہم نے کہا بیشک ذوالحج کا مہینہ ہی ہے۔ فرمایا یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہانتک کہ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟ ہم نے کہا ضرور۔ فرمایا تو پھر یاد رکھو کہ تمہارے خون، تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں( یعنی کہ ان کی عزت تمہارے دل میں ہونی چاہئے یا عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ہوں اور تم پر یہ حرام ہیں) جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں، اس روز تک کہ تم اپنے رب سے ملو، اس طرح حرام ہے۔ سنو! کیا میں نے اللہ کا حکم پورے طور پر پہنچا دیا ہے۔ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا اے میرے اللہ! گواہ رہ۔ چاہئے کہ جو یہاں موجود ہے وہ غیر موجود کو یہ بات پہنچا دے کیونکہ بسا اوقات جسے بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔ سو میرے بعد پھر کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑاتے ہو۔(صحیح البخاری کتاب الحج باب الخطبۃ ایام المنی حدیث نمبر 1741 )
کیا یہ عید، یہ حج، یہ قربانیاں آپ کے اس عظیم خطبے پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے والی نہیں ہونی چاہئیں؟ یقینا ہیں اور ہونی چاہئیں۔ آپ نے اس خطبہ میں جان، مال، آبرو کا تقدس صرف اس مہینے اور اس مقام کے لئے مخصوص نہیں فرمایا تھا بلکہ اِلٰی یَوْمٍ تَلْقَوْنَ رَبَّکُم۔ اس روز تک کہ تم اپنے رب سے ملو۔ ہمیشہ کے لئے امن، آشتی، صلح اور محبت کا پیغام دے دیا۔ سب خون بہا اور قصاص اور سودی لین دین ختم کر دئیے کہ یہ امن اور صلح کے قیام میں بہت بڑی روک ہیں، یہ قربانیوں کی ضد ہیں۔ پھر یہ کہہ کر کہ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو، کیا مطلب ہے اس کا؟ یہی کہ فتنہ فساد تمہیں کفر کی طرف لے جائے گا۔ یہ حرکتیں کر کے تم اپنے آپ کو اسلام سے باہر کر رہے ہو گے، مرتد ہو رہے ہو گے۔ پس اگر کفر سے بچنا ہے تو رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(محمد:30) کے قرآنی حکم کے نظارے دکھانے ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لئے قربانیوں کے معیار بلند کرنے ہوں گے اور یہ باتیں آگے پہنچاتے چلے جانے کا حکم بھی ہے تا کہ تاقیامت یہ حسین تعلیم جو ہے وہ آگے چلتی چلی جائے اور پھیلتی چلی جائے۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں وہ اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے فیصلہ سنیں۔ آپ فرما رہے ہیں کہ تم میں سے مرتد وہ ہیں جو کلمہ گوؤں کی گردنیں اڑا رہے ہیں۔ انہیں قتل کر رہے ہیں۔ناجائز ان کی زندگیاں ان سے چھین رہے ہیں۔
کل ہی میں نے ایک شہید کا جنازہ بھی پڑھایا جن کو پرسوں شہید کیا گیا تھا۔ کیا ردّ عمل احمدی نے دکھایا؟ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور اللہ اور اس کے رسول کی عدالت میں اپنا معاملہ رکھ دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ ان سینکڑوں شہید احمدیوں کے قاتلوں کے ساتھ وہ کیا سلوک کرتا ہے۔ احمدیوں کی شہادتیں تو انہیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی قربانیوں کی یاددلاتی ہیں۔ پس آج اے احمدیو اور شہیدوں کے پیارو! تم خوش ہو کہ تمہارے پیارے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور تم اللہ اور رسول کے آخری فرمان کے مطابق حقیقی اور سچے مومن ہو اور آج حقیقی عید الاضحی صرف اور صرف تمہارے سے وابستہ ہے۔
پس اس عید پر پھر یہ عہد کریں کہ ہم مسیح محمدی کے غلاموں میں ہو کر صرف اور صرف ایک مقصد کو سامنے رکھیں گے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی توحید کا قیام اور اس کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرتے چلے جانا۔ اپنی عبادت کے معیار کو اونچے سے اونچے کرتے چلے جانا۔ اپنے دلوں کو تقویٰ سے بھرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق کو بھی ادا کرتے چلے جانا۔ اپنے اندر اتحاد اور یکجہتی کے نئے معیار قائم کرتے چلے جانا۔ اور جب یہ باتیں ہوں گی تو جس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اجر سے نوازا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ کی اُمّت کے تقویٰ پر چلنے والوں سے لا محدود اجروں کا وعدہ فرمایا اس سے ہم بھی فیض پاتے چلے جائیںگے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ قربانیاں جو ہیں یہ ہمیشہ رنگ لاتی ہیں اور آج بھی ہماری قربانیاں ہی ہیں جو دنیا میں انقلاب عظیم برپا کرنے کا باعث بنیں گی۔ پس ان قربانیوں کی روح کو اپنے اندر سے کبھی مرنے نہ دیں کہ یہی روح پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’ اصل روح کی قربانی ہے اور بکروں کی قربانیاں روح کی قربانی کے لئے مثل سایوں اور آثار کے ہیں‘‘۔
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 68 )
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔
اب اس کے بعد آپ سب کو عید مبارک بھی ہو۔ یہاں بیٹھے ہوؤں کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی احمدی یہ خطبہ سن رہے ہیں یانہیں سن رہے، ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ یہ عید ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور حقیقی قربانیوں کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابھی ہم دعا کریں گے۔ دعا میں شہیدان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ ان کی اولادوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے اور کبھی ایسی حالت نہ ان پہ آئے کہ جہاں وہ کسی بھی عمل سے اپنے والدین یا بزرگوں کی روح کو تکلیف پہنچانے کا باعث بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ دعا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے والے ہوں اور اس روح سے یہ صدمہ برداشت کرنے والے ہوں۔ اسیران جو ہیں وہ بھی اس وقت پاکستان میں کافی ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ وہ بھی مسلسل بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔ بعضوں کو موت کی سزا بھی ملی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی بھی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ مالی قربانیاں کرنے والے ہیں ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ واقفین زندگی کے لئے کہ ان کو بھی اللہ تعالیٰ صحیح رنگ میں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے۔ بے نفس ہو کر وہ خدمت دین کرنے والے ہوں۔ ہر ضرورتمند کے لئے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کی مشکلات کو دور فرمائے، تکلیفوں، پریشانیوں کو دور فرمائے۔ اُمّت مسلمہ کے لئے بھی دعا کریں کہ یہ بھی آجکل بڑے ہی دردناک حالت سے گزر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں امام زمان کو ماننے کی توفیق عطا ہو تا کہ امت کی یہ مشکلات اور پریشانیاں دور ہوں۔