خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍اکتوبر2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

 جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ آج ہم عید الاضحی منا رہے ہیں۔ اس عید کا اور حج کا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں سے تعلق ہے۔ اس عید کا تعلق اُس دَور سے ہے جب آدم کی اولاد میں جہاں ذاتی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے وہاں اپنے اہل کی قربانی کا نیا دَور بھی شروع ہوا۔ ذاتی قربانی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلی دفعہ اس وقت دی جب توحید کے قیام کے لئے بتوں کو توڑ کر اپنوں کی مخالفت لے کر قربانی کی اور پھر آگ میں بھی ڈالے گئے،گو خدا تعالیٰ نے اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ اور آپ نے اپنے اہل کی قربانی اپنے بچے کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو کر کی۔ اسی طرح بچے نے اپنی قربانی کی۔ یہ قربانی ذبح کرنے کے لئے تیار ہونے کی صورت میں بھی تھی اور اپنے سے علیحدہ کرنے کی صورت میں بھی تھی۔ لیکن یہ ذبح کرنا یا ذبح کرنے کے لئے تیار ہونا شاید اس زمانے کے لئے ایسی بڑی قربانی نہ ہو جس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے کیونکہ اس زمانے میں انسانی جان کو قربان کرنے کا رواج تھا۔ لیکن اس قربانی کا معیار بلند ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تقریبًا نوّے سال کی عمر میں اولاد ملتی ہے اور اس اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بیوی بچے کو ایک بے آب و گیاہ جگہ پہ آپ چھوڑ آتے ہیں۔ تو یہ اپنے اہل کی قربانی کا بڑا اونچا مقام ہے۔ کیونکہ ایسی جگہ جہاں نہ کھانے کو کچھ ہو، نہ پینے کو کچھ ہو، جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ ہو، ایسے میں بیوی بچے کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں اور یہ کوئی چھوٹی قربانی نہیں ہے۔ لیکن یہ قربانی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ قربانی تو ابتدا تھی اس قربانی کی جس کی انتہا ہونی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتانا تھا کہ مَیں انسان کو کس حد تک قربانی کے اعلیٰ معیاروں پر قائم کر سکتا ہوں۔ پس یہ انتہا ہوئی ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے۔ یہ انتہا ہوئی انسان کامل کے ذریعہ سے جس کے نمونے اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی میں نظر آتے ہیں۔

               حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بیشک ہمارے لئے ایک نمونہ ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے سامنے ایک کامل اُسوہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے اس کے انتہائی اونچے مقام ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں جو واقعات گزرے اور جن امتحانوں سے انہیں گزرنا پڑا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید اور نصرت فرمائی اس کے بلند نمونے اور زیادہ وسعت کے ساتھ نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’یہ محقّق امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خُو اور طبیعت پر آئے تھے۔ مثلاً جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید سے محبت کر کے اپنے تئیں آگ میں ڈال لیا اور پھرقُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا (الانبیاء:70) کی آواز سے صاف بچ گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تئیں توحید کے پیار سے اس فتنہ کی آگ میں ڈال لیا جو آنجنابؐ کے بعث کے بعد تمام قوموں میں گویا تمام دنیا میں بھڑک اٹھی تھی اور پھر آواز  وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ: 68) سے جو خدا کی آواز تھی اس آگ سے صاف بچائے گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا جو خانہ کعبہ میں رکھے گئے تھے۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے بھی بتوں کو توڑا اور جس طرح حضرت ابراہیم ؑ خانہ کعبہ کے بانی تھے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ کی طرف تمام دنیا کو جھکانے والے تھے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی۔ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بنیاد کو پورا کیا۔ آپ نے خدا کے فضل اور کرم پر ایسا توکّل کیا کہ ہر ایک طالب حق کو چاہئے کہ خدا پر بھروسہ کرنا آنجناب( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم )سے سیکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم میں پیدا ہوئے تھے جن میں تو حید کا نام و نشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُس قوم میں پیدا ہوئے جو جاہلیت میں غرق تھی اور کوئی ربّانی کتاب ان کو نہیں پہنچی تھی۔ او ر ایک یہ مشابہت ہے کہ خدانے ابراہیم کے دل کو خوب دھویا اور صاف کیا تھا یہاں تک کہ وہ خویشوں اور اقارب سے بھی خدا کے لئے بیزار ہو گیا او ردنیا میں بجز خدا کے اس کا کوئی بھی نہ رہا۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واقعات گزرے اور باوجودیکہ مکّہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی شعبہ قرابت نہ تھا۔ (یعنی کہ جہاں جہاں رشتہ داری نہ تھی) مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہو گئے اور بجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا۔ پھر خدا نے جس طرح ابرہیم ؑ کو اکیلا پا کر اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہو گئی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اکیلا پا کر بے شمار عنایت کی اور وہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دیئے جو نجوم السماء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے‘‘۔

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ476-477۔ حاشیہ)

               اب دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے مشرکین نے آگ جلائی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مثال دی اور اس میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بارش بھیجی اور وہ آگ ٹھنڈی ہو گئی اور ابراہیم علیہ السلام اس آگ سے بچ گئے۔ مشرکین کیونکہ ظاہری چیزوں کو دیکھتے ہیں جب انہوںنے دیکھا کہ آگ بھڑکانے کے بعد فوراً ہی بادلوں نے آ کر بارش برسا دی ہے اور اسے ٹھنڈا کر دیا تو انہوں نے وہم میں مبتلا ہو کر کہ شاید یہی خدا کی مرضی ہے ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ دیا۔ لیکن مکّہ والوں نے ناکامیاں دیکھنے کے باوجود لڑائی کی آگ دس سال تک بھڑکائی لیکن ناکام رہے۔ وہی لڑائیاں جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے جلانے کے لئے کی گئی تھیں، آپ کو ختم کرنے کے لئے کی گئی تھیں وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ  کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

               ’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے۔  وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ: 68) یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا۔ حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دئیے۔ وطن سے نکالا۔ دانت شہید کیا۔ انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے۔ سو درحقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفّار کے حملوں کی علّت غائی (بنیادی مقصد ان کا)اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا۔ سو کفّار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے محفوظ رکھا‘‘۔ (ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 301حاشیہ)

               پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن کریم کی یہ پیشگوئی ہے کہ  وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ  (المائدۃ: 68) اور پہلی کتابوں میں (بھی) یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا‘‘۔(ملفوظا ت جلد8 صفحہ 11۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس ابراہیم علیہ السلام کو وقتی طور پر آگ میں ڈالا گیا اور آگ بجھنے سے شگون لیتے ہوئے ان مشرکین نے دوبارہ آگ نہیں بھڑکائی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سالوں آگ بھڑکائی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے اعلان کر دیا تھا کہ تم کوشش کر کے دیکھ لو کامیاب نہیں ہو گے اور وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ پس ایک چیلنج کے سامنے ہوتے ہوئے اس کا توڑ نہ کر سکنا چیلنج کرنے والے کی اصل کامیابی ہوتی ہے اور اس سے اس پیشگوئی کی بڑائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اور پھر ابراہیم علیہ السلام کی آگ تو اپنے خاندان یا قوم نے بھڑکائی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکائی جانے والی آگ تو تمام قوموں اور اس وقت جہاں جہاں بھی دنیا میں آپ کا پیغام پہنچا وہاں بھڑکائی گئی بلکہ آج تک یہ آگ آپ کے خلاف بھڑکائی جا رہی ہے اور مقصد اس آگ کے بھڑکانے کا کسی نہ کسی طرح آپ کے نام کو بدنام کرنا ہے۔ کسی طریقے سے اسلام کو بھی دوسرے مذاہب کی طرح نام نہاد مذہب بنانا ہے یا وہ مذہب بنانا ہے جو اپنی اصلیت میں نہیں ہے یا اس کی کوئی اصلیت نہیں۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور چیلنج ہے کہ تم یہ نہیں کر سکو گے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں غالب کرنا ہے۔ انشاء اللہ۔

                پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ توحید کے قیام کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  اپنے جذبات کی بھی اور اپنے بیوی اور بیٹے کی بھی قربانی کی اور انہیں مکّہ میں لا بسایا جہاں نہ کھانے کو کچھ تھا، نہ پینے کو۔ لیکن خدا تعالیٰ کے حکم سے یہاں چھوڑنا اس لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کے پہلے گھر کی پھر انہی بنیادوں پر تعمیر ہو جس کے نشان مٹ چکے تھے تا کہ پھر توحید دنیا میں پھیلے۔ جیسا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دعا کر رہے تھے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلَ  رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرۃ:128) اور جب ابراہیم اس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقیناتُو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ پھر آگے یہ دعا ہے۔  رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّک اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(البقرۃ:129) اور اے ہمارے رب! ہمیں دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امّت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

               پس ان کی دعا نے قبولیت کا درجہ پایا۔ ذریّت میں سے بہت سے فرمانبردار پیدا ہوئے۔ ایسے فرمانبردار جنہوں نے پھر ذریّت میں انتہائی معراج پر پہنچنے والے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عبادت اور قربانیوں کے طریق سیکھے۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد بیعت نبھایا اور توحید کے قیام اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی۔ جنہوں نے خدائے واحد کی پرستش اور عبادت کے لئے راتوں کی نیندوں کی پرواہ نہ کی اور اپنا خاص تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑا۔ لیکن عبادتوں اور توحید کے قیام کے لئے یہ تڑپ تو انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھی تھی۔ یہ انقلاب تو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور دعاؤں سے آیا تھا کہ وہ باخدا انسان بن گئے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں اور دعاؤں نے جہاں ان جاہلوں کو باخدا انسان بنایا وہاں خانہ کعبہ جو آپ کی بعثت سے پہلے توحید کی بجائے شرک کی آماجگاہ بن چکا تھا اور سینکڑوں بُت اس میںتھے اسے بُتوں سے پاک کیا اور جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(بنی اسرائیل:82)۔پس حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھاگنا ہی ہے، کا نعرہ لگاتے ہوئے، اس کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے ایک ایک بُت کو پاش پاش کر کے خانہ کعبہ کو دائمی توحید کا مرکز بنا دیا۔ اور جس طرح حضرت ابراہیم نے ذات کی اور اہل کی قربانی کر کے خانہ کعبہ کو بنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہمیشہ کے لئے بتوں سے پاک کر کے توحید کے قیام کا مرکز بنا دیا اور آپ کو تمام دنیا کو خانہ کعبہ کی طرف جھکانے والا بنا دیا اور بہت بڑی بڑی قربانیاں اس کے لئے دیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیاد کو پورا کیا اور ہمیشہ کے لئے یہی اب توحید کا نشان ہے۔ پس بنیادیں استوار کرنے کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوئی تا کہ توحید کا قیام ہو۔ تو اس کی انتہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی اور اب تاقیامت اس نے توحید کا مرکز رہنا ہے۔ انشاء اللہ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگ حج کے لئے بھی جاتے ہیں۔ کروڑوں مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا کیا۔

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مشترک بات حضرت ابراہیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بیان فرمائی کہ ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں توحید کا نام و نشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس قوم میں پیدا ہوئے اس کی جہالت کی بھی انتہا تھی۔ وہاں بھی توحید کا نشان نہیں تھا۔ کوئی ربّانی کتاب ان تک نہیں پہنچی تھی۔ لیکن جب کامل اور مکمل کتاب، جب آخری شرعی کتاب، جب تاقیامت جاری رہنے والی اور سب مضامین پر حاوی کتاب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری تو آپؐ کی قوت قدسی سے جانوروں والی خصلت رکھنے والے جو جاہل اُجڈ لوگ تھے وہ انسان بنے۔ پھر تعلیم یافتہ انسان بنے۔ پھر باخدا انسان بنے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتے ہوئے، اس کتاب سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے، آپ سے علم و حکمت سیکھتے ہوئے، علم و معرفت میں عبور حاصل کرتے ہوئے، توحید کے علمبردار بنتے ہوئے دنیا کے رہنما بن گئے۔

               جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے کہ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(آل عمران: 165)کہ یقینا اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

               پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا کہ جب اس نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلانے کے لئے ان کے اندر انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر چلیں جو کہ ان کی طرح اور ان میں سے ہی ہیں۔ پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ آپ کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی روحانیت کو بلند کریں۔ امن اور سلامتی پھیلائیں۔ حکمت کی باتیں سیکھیں اور سکھائیں۔ مگر افسوس ہے کہ آج اس تعلیم کو مسلمانوں کی اکثریت نے بھلا دیا ہے اور اس وقت رہنمائی سے محروم ہیں۔ نہ آپ اس سے کچھ سیکھ رہے ہیں نہ آگے رہنمائی کر سکتے ہیں اور باوجود تعلیم کامل ہونے کے اور موجود ہونے کے دوبارہ گمراہی میں چلے گئے ہیں۔ لیکن کیونکہ کتاب کی علم و حکمت کی باتوں کا اور توحید کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا اور جس نے تاقیامت پورے ہوتے رہنا ہے۔ اس لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیجا جنہوں نے پھر ایک جماعت قائم کر کے اس سے ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ہر قربانی کے لئے ایک عہد لیا ہے۔ پس ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اِدراک حاصل کرنے کے لئے سورۃ جمعہ میں ’’ آخرین‘‘ پر ڈالی گئی اس ذمہ داری پر غور کرے۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کی قدر کرے۔ اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرے اور ان لوگوں میں شامل ہو جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کے مقصد کو جاننے والا اور اسے پورے کرنے والا ہو۔ ان لوگوں میں شامل ہو جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔ ان لوگوں میں شامل ہو جو توحید کے قیام کے لئے بھرپور کوشش کرنے والا ہو۔ ان لوگوں میں شامل ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والا ہو۔ اگر اس طرف ہم توجہ کریں گے تبھی ہم ’’آخرین‘‘ کی اس فوج میں شامل ہوں گے جنہوں نے توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا ہے اور دنیا کو خانہ کعبہ  کی طرف جھکنے والا بنانا ہے۔ خانہ کعبہ کی طرف جھکنے والا بنانے کے لئے پہلے خود اس کی طرف جھکنے کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بلند کرنے کی ہم میں سے ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ یہ امن اور سلامتی کا گھر ہے ۔ اگر اس گھر کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو اپنے ہر عمل سے امن اور سلامتی پھیلانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانے کے لئے اپنے اندر کے تکبّر کو نکالنے کے لئے ضرورت ہے۔

               پس تربیت کے ہر پہلو پر جب ہماری نظر ہو گی، جب نفس کو پاک کرنے کی طرف توجہ ہو گی تبھی ہم اپنی عملی حالتوں کی بہتری سے تبلیغ کے کام بھی کر سکیں گے اور دنیا کو خانہ کعبہ کی طرف جھکنے والا بھی بنا سکیں گے۔ ورنہ خانہ کعبہ کی طرف ظاہری منہ پھیرنا اور اس کی طرف منہ کر کے عبادت کرنا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ حج اگر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پس پشت ڈال کر کئے جاتے ہیں تو کوئی فائدہ نہیں دیں گے جب تک کہ حقیقی عبادتوں کے معیار قائم نہیں ہوتے۔

                پس ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر صرف ظاہری چیزوں پر ہی اکتفا کرنا ہوتا تو مسیح موعود کے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر آخرین کے بارے میں خوشخبری دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ظاہری کام، بکروں کی قربانی اور حج اور بظاہر نمازوں کی ادائیگی تو دوسرے مسلمان بھی کر ہی رہے ہیں لیکن پھر بھی مسلمانوں کی عمومی حالت انحطاط کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آج مسلمانوں کی مثالیں ظلم پھیلانے والوں کے طور پر دی جا رہی ہیں۔ غیر مسلموں کو اسلام پر اعتراض کی جرأت اس لئے پیدا ہو رہی ہے کہ گو مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز تو پڑھتے ہیں لیکن اس کی تعمیر کے مقصد کو بھول رہے ہیں۔ خانہ کعبہ تو سلامتی اور امن کی نشانی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن آج مسلمان ،مسلمان ہی کی گردن کاٹ رہے ہیں۔ حتی کہ کل عرب ممالک میں عید تھی تو عید کے دن بھی ایک فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو بموں سے اڑا رہا تھا۔ دونوں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے عبادت (کرنے) کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دونوں حج کے مناسک ادا کرتے ہیں۔ دونوں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھتے ہیں۔ پس جب ہم ایسی حرکتیں دیکھتے ہیں تو پھر ہر احمدی کی توجہ پہلے سے بڑھ کر اس طرف ہونی چاہئے کہ اس نے اس عید سے کیا سبق حاصل کرنا ہے۔ اس نے بکرے صرف گوشت کھانے کے لئے قربان نہیں کرنے بلکہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کرنے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کی روح کیا تھی۔ وہ ہمیں کیا سبق دینا چاہتے تھے۔ پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی حکومت کو اپنے پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کا عہد ہم نے اپنے عہد بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کیا ہے۔ اس پر عمل ہی ہمیں کتاب کے پڑھنے کا حق ادا کرنے والا بنائے گا۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے دلوں کو خدا تعالیٰ نے دھویا۔ اپنے دلوں کو دھلوانے کے لئے پہلے ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے تبھی ہم میں اور غیر میں ایک فرق نظر آئے گا۔

                دین کی خاطر بعض اوقات اپنوں سے تعلقات کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔ رشتہ داریوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دینی پڑی۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر یہ قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ مکّہ کے ہر گھر میں آپ کا رشتہ اور تعلق تھا لیکن آپ کے دعویٰ کے بعد، آپ کے توحید کے قیام کے اعلان کے بعد سب نے آپ سے تعلق توڑا اور کسی رشتے کا پاس نہ کیا۔ کون سا ظلم تھا جو آپؐ پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ لیکن آپ نے یہی اعلان فرمایا کہ توحید کے قیام سے مَیں کبھی نہیں ہٹ سکتا چاہے تم جتنا بھی مجھے لالچ دے دو۔ میرے ایک ہاتھ پر سورج رکھ دو اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دو تب بھی میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقصد کے لئے قربانی کرتا چلا جاؤں گا اور خداتعالیٰ کے پیغام کو پھیلاتا چلا جاؤں گا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 201 طلب ابی طالب الی الرسولﷺ… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) بیشک خانہ کعبہ کی تعمیر میں جو پتھر استعمال ہوئے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔(یہ تو محض) پتھر ہیں لیکن اس گھر کا بہت اونچا مقام ہے کیونکہ یہ توحید کے قیام کی نشانی ہے۔

               پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قربانی کے یہ اعلیٰ معیار قائم کئے تو آپؐ کے صحابہ بھی اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے نہ صرف ہر قربانی کے لئے تیار ہوئے بلکہ بے دریغ قربانیاں دیں۔ پس ہم جو آخرین میں شمار ہوتے ہیں ہمیں بھی ان قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے ہر رشتہ کو ثانوی حیثیت دیں۔

                حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پراللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل اور احسان ہے کہ وہ آپ کو ایسے جانثار عطا فرماتا رہتا ہے جو ہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں حتی کہ نئے آنے والے بھی اس قربانی کا مزہ چکھتے ہیں۔ دو دن پہلے ہی تازہ الفضل میں ایک احمدی عرب کا بیعت کا واقعہ بیان ہو رہا تھا کہ احمدیت کی وجہ سے باپ نے اسے گھر سے نکال دیا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ فوج میں تھا وہاں کورٹ مارشل ہوا ۔سختیاں کی گئیں۔ ماں ناراض ہو گئی۔ لیکن پھر بھی ایمان پر قائم رہا۔ اور ایسی مثالیں دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف لوگوں کی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں۔ پس جب تک ہم قربانیوں کے ان معیاروں پر قائم رہیں گے تو صحیح معنوں میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد کو نبھاتے رہیں گے۔ حقیقی عیدیں ان قربانیوں کو زندہ رکھنے سے ہی منائی جا سکتی ہیں۔

               پس یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ اپنی نسلوں کو بھی ان حقیقی عیدوں کا ادراک پیدا کروائیں۔ ان کی اس نہج پر تربیت کریں کہ وہ بھی ذاتی اور اہلی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ ورنہ اگر یہ قربانیوں کی اہمیت کا تسلسل ہم نے اپنی اولادوں میں قائم نہ رکھا۔ اگر ہم خود اس کی اہمیت کو بھول گئے تو پھر انعامات سے بھی محروم کر دئیے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جب خاندان اور عزیزوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑا تو کیا آپ اکیلے رہ گئے؟ نہیں۔ بلکہ آپ کو اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح شمار ہو گئی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا اکیلے رہ گئے؟ نہیں۔ بلکہ آپ کو وہ مخلص اور فدائی اور ہر قربانی کے لئے تیار صحابہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جو آسمان کے ستاروں کی طرح نہ صرف بڑی تعداد میں تھے، بڑی کثرت میں تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے ایسے چمک رہے تھے کہ دنیا کے ایک حصے نے بھی ان کی روشنی سے فیض پایا۔ جہاں جہاں وہ پہنچے اس روشنی کو پھیلاتے چلے گئے۔ پس آج ہمیں اس اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

                حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس مقصد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قربانی کی عید سے یہ سبق لینا چاہئے کہ ہم نے اپنی اولاد کو قربانی کے لئے تیار کرنا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے تیار کیا تھا تبھی تو وہ ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں تم دنبہ ذبح کر دو۔ اب دنبہ تو انسان کی جان کا بدل نہیں ہو سکتا اور نہ یہ کوئی ایسی قیمتی چیز تھی جو اُن کے بیٹے کے متبادل تھی۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے تو دنبہ ایک معمولی چیز تھی کیونکہ ان کے پاس تو جانوروں کے ریوڑ تھے۔ کافی دولتمند تھے۔ جو شخص مہمانوں کے آنے پر فوراً ایک بچھڑا ذبح کر سکتا ہے اس کے لئے دنبہ ذبح کرنا تو معمولی چیز ہے۔ پس اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اور ہماری اولادیں دنبے نہ بنیں۔ اپنے نفس کے دنبوں کو ذبح کریں۔ صرف دنیاوی لحاظ سے ہم اولاد کی تربیت نہ کریں، صرف ان کے کھلانے پلانے کا خیال نہ رکھیں، ان کو صحتمند نہ بنائیں بلکہ ان میں انسانیت پیدا کریں۔اتنا پیار اور لاڈ نہ کریں کہ وہ صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو جائیں، ان میں انسانیت نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہ رہے۔ وہ اپنے مقصد پیدائش کو نہ پہچانیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو دنبے کے ذبح کرنے کا کہہ کر اللہ تعالیٰ یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ اپنی اولاد میں سے دنبہ پن ختم کرو گے تو وہ انعامات کی وارث بنے گی اور جب تک یہ ختم رہے گا وارث بنتی چلی جائے گی اور نبوت ان میں قائم رہے گی۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد 2 صفحہ114-115 )

                پس اس نکتے کو ہم میں سے ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اپنی اولاد کی صرف دنیاوی صحت کی طرف اور بہتری کی طرف ہم توجہ نہ رکھیں کہ اس سے ہمیں دنیاوی فائدے ہوں گے بلکہ ان کی تربیت، ان کو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا فہم و اِدراک، ان کو اخلاق حسنہ میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلانا ،ان میں توحید کے قیام کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے پر توجہ پیدا کرنا، یہ ضروری چیزیں ہیں جو ہماری ذمہ داری ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم خود بھی ان باتوں پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اور جب یہ ہو گا تو ہم آخرین کی اس جماعت میں شامل ہونے والے ہوں گے جس نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے اپنی عیدوں کو منانا ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ابراہیم کہا ہے اور آپ کو بھی کثرت سے جماعت کے پھیلنے کی خوشخبری دی ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اُرِیْحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا  یعنی میں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔ آپؑ فرماتے ہیں اس کے ساتھ ہی دل میں ایک تفہیم ہوئی جس کا مطلب یہ تھا جیسا کہ میں نے ابراہیم کو قوم بنایا۔

(تذکرہ صفحہ 530ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

               پس اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے لوگ کثرت سے عطا فرمائے گا جو حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی طرح قربانیوں کو بھی یاد رکھیں گے اور توحید پر قائم رہنے والے ہوں گے۔ توحید کو پھیلانے والے بھی ہوں گے اور اس کے لئے کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔ اپنے نفس کو دنبہ بنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی طرف ان کی توجہ ہو گی۔ صرف اور صرف دنیا ان کا مقصد نہیں ہو گا یا دنیا کا کمانا ان کا مقصد نہیں ہو گا بلکہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں گے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               اب دعا ہو گی۔ دعامیں دین کی خاطر مشکلات میں گرفتار لوگوں کے لئے دعا کریں۔ اسیرانِ راہ مولیٰ کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ جان کی قربانی کرنے والوں کے لئے، شہداء کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی دین پر ہمیشہ قائم رکھے۔ اپنے اور اپنی نسلوں کے دین پر قائم رہنے کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم سے راضی ہو اور ہم سے وہ کام کروائے جو اس کی منشاء ہے۔ مالی قربانی کرنے والوں کے لئے بھی دعا کریں۔ مسلمان امّت کے لئے، امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل اور سمجھ دے اور وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ ظلم و تعدّی سے باز آنے والے ہوں۔ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔ خانہ کعبہ جو توحید اور امن اور سلامتی کا نشان ہے اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ مسلمان لیڈر بھی اور مسلمان رعایا بھی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی خوبصورت تصویر دنیا کو دکھانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے خوبصورت پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی ہمیںتوفیق عطا فرمائے اور دنیا میں رہنے والا ہر شخص خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بن جائے۔

               حج کے دوران جو واقعات ہوئے ہیں، جو حادثہ ہوا ہے اس کے نتیجہ میںسینکڑوں افرادکی موت واقع ہوئی۔ ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ کئی معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے دعا کروائی اور اس کے بعد فرمایا:

سب کو عید مبارک ہو۔ جمعہ کے دن عید کے ساتھ گو اجازت ہے کہ جمعہ نہیں بھی پڑھا جاتا۔ ظہر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ لیکن ہم انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ ادا کریں گے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں