خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍دسمبر2007ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوْااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ۔ وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ۔(الحج:38)اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے۔ ترجمہ ہے کہ: ہر گز     اللہ تعالیٰ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے تمہارے لئے انہیں مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی۔ اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

               آج ہم عید الاضحی منا رہے ہیں جو قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔ اس عید پر جن کو توفیق ہے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ پھر حج کرنے والوں کی طرف سے ہزاروں لاکھوں جانور ذبح ہو رہے ہوتے ہیں۔ آج یا کل دنیا میںکروڑوں جانور ذبح ہو رہے ہوں گے ۔ لیکن کیا یہ قربانی اور عید کی خوشیاں جو ہیں جو ہم عید پہ  مناتے ہیں یہی اس عید کا مقصد ہیں؟ یہ بکرے اور بھیڑیں ذبح کرنا اور خود بھی بار بی کیو سے لطف اٹھانا، ان کے گوشت سے تکّے بنا کر اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی اپنے ساتھ اس میں شامل کرنا، کیا یہی اس قربانی کا مقصد ہے؟ کیا یہ کوئی ایسا کام ہے جس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہو اور بات پر مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ آج میں تم پر بہت خوش ہوں کہ تم بکرے اور بھیڑیں اور گائیاں اور بعض لوگ اونٹ بھی ذبح کرتے ہیں، یہ جانور ذبح کر رہے ہو۔ کیا صرف یہاں آ کر دو رکعت عید کی نماز پڑھ لی اور پھر مجبوری سے طوعاً و کرہًا خطبہ سن لیا اور پھر جلدی گھروں کی طرف دوڑ لگائی کہ جا کر جانور ذبح کرنا ہے۔ اکثر ملک جہاں جانور ذبح کرنے کی اجازت ہے لوگ خود جانور ذبح کرتے ہیں۔ یورپ میں تو اس طرح اجازت نہیں ہے لیکن بعض جگہ یہاں بھی کرتے ہیں۔ اور پھر ہم یہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ایک اہم فریضہ ہم نے سرانجام دے لیا۔ پاکستان میں بھی مَیں نے دیکھا ہے بلکہ بعض دفعہ بعض لوگ ربوہ میں بھی یہ کرتے ہیں کہ جب ہم عید پڑھ کر واپس آ رہے ہوتے تھے، عید کے پانچ سات منٹ بعد ہی جب آ رہے ہو تے تو بعض لوگ اتنے تھوڑے عرصے کے اندر اندر ہی اپنے جانور ذبح کر کے بیٹھے ہوتے تھے۔ وہاں تو یہاں کی طرح پابندی نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اسی طرح افریقن ممالک میں بھی جہاں چاہے ذبح کر لو کوئی ضروری نہیں ہے کہ خاص جگہ ہو۔ سڑک کے کنارے ذبح کر لئے جاتے ہیں۔ اکثر آپ میں سے جانتے ہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ عید کی نماز پڑھ کر جتنی بھی جلدی آ جاؤ سڑکوں پر بڑے جانور گائے وغیرہ بھی ذبح کی ہوئی نظر آتی ہیں بلکہ بعض تو جانوروں کی کھال بھی اتار کر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ گوشت کی کٹائی بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسے لوگ اور خاص طور پر قصاب، اکثریت تو مسلمان ہی ہوتے ہیں بلکہ ہوتے ہی مسلمان ہیں جن سے قربانی کروائی جاتی ہے، یا تو عید کی نماز نہیں پڑھتے یا کم از کم خطبہ نہیں سنتے اور جانوروں کو ذبح کرنے کی فکر ہوتی ہے کہ جائیں گے اور جانور ذبح کر کے قربانی کا گوشت کھانا ہے اور صرف یہ سنّت پوری کرنی یاد رہ جاتی ہے کہ عید الاضحی پر یا قربانی کی عید پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے بعد قربانی کے گوشت سے ناشتہ تناول فرمایا کرتے تھے۔

(سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی الاکل یوم الفطرقبل الخروج حدیث نمبر542 )

یہ بات ہم میں سے بہت سے بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کی جو عید ہے، یہ جو عید الاضحی ہے اس کی روح کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے اور اپنی اُمّت میں اس روح کو قائم کرنے کے لئے تعلیم دینے والے تھے۔ قربانی کی عید کے پیچھے صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ بکرا ذبح کر لو اور عید کی نماز کے بعد سب سے پہلا یہی کام کرو کہ بکرا ذبح کرنا ہے اس کے بعد اس کا گوشت کھانا ہے۔ اس قربانی کی عید کے پیچھے قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھ آپ کی بیوی اور بیٹا شامل ہوئے۔ جس میں حضرت ہاجرہ نے بھی حصہ لیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی حصہ لیا اور جس کی انتہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں آ کر مکمل ہوئی اور آپ کے صحابہ نے بھی آپ کے فیض سے حصہ لیتے ہوئے اس کی مثالیں قائم کیں۔

               پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہر سال جو عید آتی ہے اس سے ہم اپنے روحانی معیار کس طرح بلند کر سکتے ہیں۔ اپنی قربانیوں کے معیار کس طرح بلند کر سکتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے ان بکرے، دنبے، گائے وغیرہ ذبح کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ تو وہ مقصد پورا کرنے والے انسان دیکھنا چاہتا ہے ورنہ یہ گوشت وغیرہ جو ہیں یہ اگر صرف ذبح کرنے کی نیت سے ہی کئے جا رہے ہیں تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی تلاوت کی ہے کہلَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَایاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ہر سال جب عید الاضحی مناتے ہیں تو وہ روح تلاش کریں جو ان قربانیوں کے پیچھے ہونی چاہئے اور ہے اور وہ روح کیا ہے؟ اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دے دیا ہے۔ فرمایاوَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ لیکن تمہارے دل کا تقویٰ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ قربانی کے اس فلسفے کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’ خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔ لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔(الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ ۔ جب کوئی تقوی اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے‘‘۔(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد 23 صفحہ99 حاشیہ)

                پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’قانون قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ معرفت کاملہ کے بعد ملتا ہے۔ خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کاملہ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔’’ پس جس کو معرفت کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی‘‘۔ یہی تقویٰ ہے کہ اللہ کا خوف ہو اور اس کی محبت ہو۔ ’’اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی ہے اس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔ ‘‘

               پس ہر گناہ سے بچنے کے لئے یہ جو نجات ہے وہ اسی وقت ہوتی ہے جب تقویٰ ہو اور محبت اور معرفت  اللہ تعالیٰ کی کامل ہو، اس کا خوف دل میں ہو۔ فرماتے ہیں کہ ’’پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفّارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے۔ جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کررہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنی ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا۔ یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے‘‘۔ پس یہ ہے اسلام کہ اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان پر پوری طرح عمل کرنے کے لئے تیار ہو جانا اور اس کے لئے ہر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جانا۔

                فرماتے ہیں کہ :’’ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت، کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتاہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔(الحج:38) یعنی تمہاری( قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو‘‘۔میرے احکامات پر عمل کرو۔

(لیکچر لاہور،روحانی خزائن جلد20صفحہ151-152)

               پس یہ ظاہری نمونے اس روح کو قائم کرنے کے لئے ہیں۔ ورنہ ہمارا جانور قربانی کرنا یہ نیکی نہیں ہے۔ نہ گوشت کھانا نیکی ہے۔ نہ ہی یہ گوشت اور خون اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔ پس ہمیں اپنی ظاہری قربانیوں کے پیچھے وہ روح پیدا کرنی چاہئے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کامل معرفت حاصل کرنے اور ان راستوں پر چلنے کی کوشش کی وجہ سے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو گئی تھی جبھی وہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہوئے تھے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا خدا تعالیٰ سے یہ ایک  تعلق اور محبت اور ایمان اور یقین ہی تھا جو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا تھا کہ اگر یہ خدا کا حکم ہے تو میں پھر اپنے بچے سمیت اس قربانی کے لئے تیار ہوں جو خدا تعالیٰ ہم سے لینا چاہتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے آگے ہماری جان کی حیثیت ہی کیا ہے، اور بیٹے کا معیار بھی دیکھیں۔ ان ماں اور باپ کی جو تربیت تھی اور خدا تعالیٰ سے جو محبت تھی ان کے سامنے جو عملی نمونہ تھا اس کی وجہ سے اس بیٹے نے باوجود چھوٹی عمر کا ہونے کے، باوجود تقویٰ اور گہری محبت کی گہرائی کے اثرات نہ سمجھنے کے پھر بھی وہ یہی جواب دیتا ہے کہ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ(الصّافات:103)کہ اے میرے باپ یعنی اے میرے ابّا! جس بات کا تجھے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر۔ پس یہ تھے معیار ان باپ، ماں اور بچے کے جن کی یاد میں اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو ہمیشہ کے لئے قائم فرما دیا۔ اس قربانی کی یاد کوہمیشہ کے لئے قائم فرما دیا۔ تو یہ قربانی کی یاد اس لئے ہمیشہ کے لئے قائم فرما دی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیوی بچے کو ایک بے آب و گیاہ جگہ میں معمولی خوراک اور پانی کے ساتھ چھوڑ کر ایک ایسی قربانی دی تھی کہ سوائے اس شخص کے جو سب محبتوں کو خدا تعالیٰ کی محبت پہ قربان کرنے والا ہو کوئی ایسا عمل نہیں کر سکتا جس کو بظاہر یہ نظر آ رہا ہو کہ میرا یہ بیٹا اور بیوی اس ویران جگہ میں زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتے۔ چند دنوں کے بعد ان کا مرنا یقینی نظر آ رہا تھا۔ تبھی تو حضرت ابراہیم شدت جذبات سے حضرت ہاجرہ کی بات کا جواب نہیں دے سکے تھے اور صرف انگلی اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ لیکن حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا دل بھی نبی کی صحبت کی وجہ سے ہر قربانی کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے گردن آگے رکھنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ پس یہ کامل فرمانبرداری کی روح تھی جس نے قربانی دینے کے لئے انہیں تیار کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا کہ فرمایا ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ پس یہ قربانی اور کامل اطاعت و فرمانبرداری تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کی قبول کی اور ان کو ایک مقام عطا کیا اور اس قربانی کو پھر اللہ تعالیٰ نے بے جزا نہیں چھوڑا۔ بغیر جزا دئیے نہیں چھوڑا۔ نہ صرف ماں بیٹا محفوظ رہے بلکہ کچھ ہی عرصے بعد اس جگہ کے ارد گرد آبادی بھی ہو گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو ریت کے اس میدان میں چھپے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس سب سے قدیم گھر کی بنیادوں کی نشاندہی کر کے اس کو دوبارہ اپنی بنیادوں پر کھڑا کرنے کا حکم دیا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اس کی تعمیر کا کام کیا۔ تو یہ دونوں باپ بیٹا جب یہ بنیادیں کھڑی کر رہے تھے۔ کام بھی کئے جاتے تھے اور دعائیں بھی کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ اس کو قبول فرما لے۔ اس قربانی کو قبول فرماوے۔ یہ دعائیں بھی کر رہے تھے کہ اب یہ جگہ ہمیشہ آباد رہے اور نہ صرف آباد رہے بلکہ ایسا شہر اس کے گرد بن جائے جو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر ہو۔ جہاں کوئی خون خرابہ نہ ہو۔ اور یہاں کے رہنے والوں کے لئے تیری جناب سے ہر قسم کے پھلوں کا رزق پہنچتا رہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں بھی ہمیشہ نیکیوں پر قائم رکھ۔ تیرے حضور ہم قربانیوں کے معیار حاصل کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اور پھر صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری اولادوں میں سے بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو تیرے کامل فرمانبردار اور قربانی کرنے والے ہوں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہمیں یہ دعائیں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دعا کے حوالے سے فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل علیہ السلام یہ دعا کر رہے تھے رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ ا لرَّحِیْمُ (البقرۃ:129)اور اے ہمارے رب ہمیں اپنے دو فرمانبر دار بندے بنا دے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امّت پیدا کر دے۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

               پس یہ دعا تھی کہ ہمیں ہمیشہ ایسے طریق کی طرف رہنمائی کرتے رہنا جو تیری رضا حاصل کرنے کے طریق ہیں۔ باوجود اس کے کہ ایک بے آب و گیاہ جگہ میں ماں اور بیٹا رہ کر اور باپ اپنے جگر گوشے جو بڑھاپے کی اولاد تھی اور بیوی کو چھوڑ کر قربانی کی ایک بڑی مثال قائم کر چکے تھے اور اللہ تعالیٰ سے یہ خوشنودی حاصل کر چکے تھے جس کا قرآن کریم میں یوں ذکر آتا ہے۔ وَاِذِ ابْتَلیٰٓ اِبْرَاھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ۔ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا(البقرۃ:125)اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض کلمات سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر دیا تو اس نے کہا مَیں یقینا تجھے لوگوں کے لئے ایک عظیم امام بنانے والا ہوں۔ پھر بھی یہی عرض کرتے ہیں کہ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ تا کہ کبھی بھی ہم سے کوئی ایسی بات نہ ہو جو ہماری قربانیوں کو ضائع کرنے والی ہو جائے۔ حالات کے مطابق اے اللہ تُو بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کس طرح کی قربانی چاہئے۔ پس تیری رہنمائی اور تیری رضا ہی اصل چیز ہے۔ اس سے ہمیں کبھی باہر نہ نکالنا۔ یہ تھیں ان کی دعائیں۔ اور پھر یہ دعا مانگی جس سے آئندہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی بقا وابستہ ہے۔ اپنی ذریّت میں سے ایک ایسے نبی کے مبعوث ہونے کی دعا مانگی جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بڑھ کر قربانیوں کی مثالیں قائم کرنے والا ہو۔ اور وہ دعا یہ تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ۔اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(البقرۃ:130)

اور اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تُو ہی کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

               اللہ تعالیٰ نے ان باپ بیٹے کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ تُو اعلان کر دے کہ میں وہی عظیم رسول ہوں جس کی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تو یہ دعا کی تھی کہ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا۔ لیکن تُو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر دے کہ میرے پر تو ان قربانیوں اور ان عبادتوں کے تمام معیار ختم ہو گئے ہیں۔ میں وہ کامل انسان اور عظیم رسول ہوں جس پر انسانی استعدادوں کی انتہاؤں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب نئے طریق سیکھنے کا سوال نہیں بلکہ میں اب اِس حد تک خدا میں جذب ہو چکا ہوں کہ میرا اپنا کچھ ہے ہی نہیں۔ سب کچھ خدا کا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرواتے ہوئے فرماتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الانعام:163)۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی وضاحت میںفرماتے ہیں کہ :

               ’’اُن کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میری جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالَموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل المسلمین ہوں۔ یعنی دنیا کی ابتدا سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو جو خدا کی ساری امانتیں اسے واپس دینے والا ہو‘‘۔

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ162-163)

                یہ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ  رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ کہ اے ہمارے رب ہمیں دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اور پھر دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ۔ اے ہمارے رب تُو ان میں انہی میں سے عظیم رسول مبعوث کر۔ پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اعلان کیا کہ میں نے تمہاری قربانی اور دعاؤں کو قبول کیا اور یہ عظیم رسول اب اعلان کرتا ہے کہ نہ صرف اس کی عبادتیں اور قربانیاں اب وہ معیار حاصل کر چکی ہیں جو پہلوں کے لئے بھی عدیم المثال ہیں، اس نبی کے زمانے کے لئے بھی ایک مثال ہیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی ایسا عظیم اُسوہ ہیں جس سے باہر رہ کر نہ عبادتیں، عبادتیں کہلا سکتی ہیں اور نہ قربانیاں، قربانیاں کہلا سکتی ہیں۔ اور پھر یہ اعلان کیا کہ میں اوّل المسلمین ہوں کہ میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں اور میری مسلمان ہونے کی حالت، میری فرمانبردار ہونے کی حالت، اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ اور اس پر سب کچھ قربان کرنے کا مقام سب سے بلند ہے۔ نہ میرے سے پہلے اس قسم کا کوئی مقام پا سکا، نہ میرے زمانے میں پا سکتا ہے، نہ میرے بعد پانے والا ہو گا اور یہی آپ کے کامل انسان ہونے کی، آپ کے خاتم الانبیاء ہونے کی حقیقت ہے۔ جس میں دنیا کے سب انسان جو ہیں وہ بھی شامل ہیں اور تمام انبیاء بھی شامل ہیں۔ کوئی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ مقام جو آپ کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا صرف آپ کی ذات تک ہی نہیں تھا بلکہ امّت کو بھی حکم دیا تھا کہ یہ عظیم رسول تمہارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ اس لئے اگر اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا دعویٰ ہے تو ان راستوں پر قدم مارو جن کے عظیم نمونے اس عظیم رسول نے قائم فرمائے۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ تبھی تم حقیقی پیرو کہلا سکتے ہو۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :

               ’’ان کو جو اے رسول تیری پیروی کرنا چاہتے ہیں کہہ دے کہ میری نماز، میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا زندہ رہنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ جو میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ بھی اس قربانی کو ادا کر گئے‘‘۔

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب،روحانی خزائن جلد12 صفحہ368 )

 اور پھر ہم نے دیکھا کہ اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے ان خود سر اور خود پسند اور روحانی لحاظ سے مُردوں کو ایسا زندگی بخش پیغام دیا کہ ان کی خود سری اور خود پسندی کا نام و نشان مٹ گیا اور انہوں نے بھی زندگی اور موت اور اپنی قربانیوں کو خالص فرمانبردار بنتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا کے حضور پیش کر دیا اور اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے آپ کے اُسوے پر چلتے ہوئے وہ نمونے دکھائے کہ مثالیں قائم کر گئے۔ عبادتوں کے وہ معیار قائم کئے کہ جن کی مثال نہ پہلے ملتی تھی، نہ بعد میں اب تک ملتی ہے۔ اس وقت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صحابہ تھے، عورتوں نے، مردوں نے مکمل نمونے قائم کئے جو ہمارے لئے ایک مثال بن گئے ہیں۔ راتوں کو زندہ کر دیا۔ جانوں کی قربانی کی ضرورت پڑی تو جانیں دے دیں۔ عبادتیں کرنے لگے تو ساری ساری رات عبادتیں کرتے رہے اور ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے کہ جن سے نیند دُور ہو۔ بہرحال قربانیوں کی اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں قائم کرتے چلے گئے جو ہمارے لئے بھی نمونہ ہیں۔ جانی قربانی کی ایک مثال دیتا ہوں  کہ کس طرح  جان قربان کرنے کے لئے کوشش کی۔

               حضرت خالد بن ولید کا واقعہ ہے جب ان کی وفات کا وقت آیا تو وہ رو رہے تھے اور رو رو کر بہت برا حال تھا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا موت سے ڈرتے ہیں یا کوئی اور غم ہے۔ آپ تو اسلام لانے کے بعد اسلام کی بڑی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ڈر آپ کو کس چیز کا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بے اجر نہیں چھوڑے گا۔ کہنے لگے موت کا غم نہیں ہے۔ اس لئے مَیں نہیں رو رہا۔ مَیں نے اسلام لانے کے بعد اسلام کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے خطرناک سے خطرناک جگہوں پر بھی دشمن کا مقابلہ کیا۔ تم ذرا میری ٹانگوں پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھو۔ میرے بازو پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھو۔ میری کمر پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھو۔ میرے سینے پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھو۔ میرے تمام جسم کو دیکھ لو۔ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں زخموں کے نشان نہ ہوں۔ میں نے تو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے اور شہادت کے شوق میں خطرناک سے خطرناک جگہ پر جا کر لڑنے کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ لیکن آج مجھے رونا اس بات پر آ رہا ہے کہ بستر پر میری موت آ رہی ہے اور میدان کارزار میں نہیں آئی، میدان جنگ میں نہیں آئی۔ کہیں کوئی خدا کی ناراضگی نہ ہو جو مجھے شہادت کا مقام نہیں ملا۔

(ماخوذ از تاریخ دمشق الکبیر جلد 18صفحہ 197ذکر من اسمہ خالد،الطبع الاولیٰ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

 تو یہ تھے وہ موتی اور ہیرے جو اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسی سے اپنے ماننے والوں میں پیدا کئے جو تمام زندگی مسلسل قربانیاں دیتے چلے گئے اور اول المسلمین کے حقیقی پیرو بنے۔ جن سے خدا راضی ہوا اور خدا نے رضی اللہ عنہم کہہ کے ان سے راضی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پھر بھی ان کو یہ فکر ہے کہ ہماری قربانیاں شاید قبول نہیں ہو رہیں۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریّت میں سے ہمیشہ کے لئے فرمانبرداروں کے پیدا ہونے کی دعا مانگی تھی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر، آپ کو خاتم الانبیاء بنا کر قیامت تک کے لئے آپؐ کی شریعت کو ہمیشگی بخش دی۔ دوام عطا فرما دیا۔ اور اب احیائے موتی کے نظارے، اپنی قربانیوں سے زندگی حاصل کرنے کے نظارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کے ذریعہ سے ہی ہونے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے اپنے خطبہ میں بتایا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو احیائے موتی کا چوتھا نظارہ یا چوتھا پرندہ جس نے زندہ ہونا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ہونا دکھایا تھا۔ کیونکہ یہ مسیح و مہدی ہی ہے جو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق ہے۔ جس نے اپنے آقا کے اُسوے پر چلتے ہوئے اپنی قربانیاں اور اپنی عبادتیں اور اپنا جینا اور اپنا مرنا خدا کے لئے خالص کر لیا تھا اور اپنی جماعت میں بھی یہ روح پھونکی اور اس کے لئے مسلسل کوشش کی۔

               پس آج ہماری قربانی کی عید تبھی حقیقی قربانی کی عید ہو سکتی ہے جب ہم اپنے قربانی کے جانوروں اور عید کی خوشیوں کے پروگراموں کو صرف دیکھنے والے نہ ہوں بلکہ اپنے نفسوں کو قربان کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت کا جؤا مکمل طور پر اپنی گردنوں میں ڈالنے والے ہوں۔ اپنے معیار قربانی بڑھاتے چلے جانے والے ہوں۔ ان قربانیوں کو زندہ رکھنے والے ہوں جو اس زمانے میں دین کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے دیں۔ جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دئیے لیکن اپنے ایمان پر آنچ نہیںآنے دی۔

                پس آج ہم عید قربان کی خوشی جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں منا رہے ہوں وہاں ان شہدائے احمدیت اور ان کی اولادوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے احمدیت اور حقیقی اسلام کی خاطر اپنی جان کے نذرانے پیش کئے اور قربانی کے مفہوم کو سمجھا اور اس کی عملی تصویر بنے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں پر بھی رحم فرمائے اور فضل فرمائے اور دین و دنیا کی حسنات سے ان کو نوازے۔ اور اس بات پر ہم اپنے اس عہد کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں جو ہم کرتے ہیں کہ جان مال وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوں گا۔ اس کے لئے بھی ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔

                آجکل انڈونیشیا میں ایک جگہ مینس لور (Manislor) ہے۔ اس کے علاقے میں بڑے سخت حالات ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے انڈونیشیا میں بڑے سخت حالات ہیں۔ ہماری کئی مسجدیں گرائی گئی ہیں۔ ان کو نقصان پہنچایا گیا۔ دو دن پہلے بھی دو مسجدوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس نے ہماری بعض مسجدیں سِیل کر دیں۔ پھر احمدیوں کے گھروں پر حملے کئے اور ان کو توڑا پھوڑا گیا۔ کئی احمدیوں کو زخمی کیا۔ پرسوں بھی ایک احمدی کو زخمی کیا تو  ان کے لئے بھی دعا کریں کہ یہ سب لوگ جو ان دور دراز کے علاقوں کے رہنے والے ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا۔ آپ کے مسیحیت اور مہدیت کے دعوے کو قبول کیا۔ اس پر قائم ہوئے۔ ایمان کو آپ نے مضبوط رکھا ہے۔ اپنے ایمان پر کسی بھی رشتہ داری اور خوف اور لالچ کو اہمیت نہیں دی۔ وہاں اکثریت غریب لوگوں کی ہے جو مشکل سے اپنے پیٹ پالتے ہیں لیکن ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جسمانی نقصان اور موت تو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن روحانی نقصان اور موت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے۔ پس یہی احیائے موتی ہے اور یہی احیائے دین ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں قائم فرمایا ہے۔ ہاں جیسا کہ مَیں نے کہا اس روحانی زندگی کے حصول کے لئے بعض دفعہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جانوں کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جس کے لئے اس دنیا میں بسنے والا ہر احمدی تیار رہتا ہے اور یہی احیائے دین کی خوبصورتی اور دلیل ہے کہ ایک ہی مقصد کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے پاکستانی احمدی بھی قربانی دے رہا ہے اور انڈونیشین احمدی بھی قربانی دے رہا ہے۔ بنگلہ دیشی احمدی بھی قربانی دے رہا ہے اور سری لنکن احمدی بھی قربانی دے رہا ہے۔ ہندوستانی احمدی بھی قربانی دے رہا ہے اور افریقن احمدی بھی قربانی دے رہا ہے۔ بلکہ اب تو ایسٹ یورپ کے بعض ممالک میں بھی احمدیوں پر حالات تنگ کئے جا رہے ہیں۔ پس یہ عید قربان ان تمام حالات اور قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر ہمیشہ اس روح کو قائم رکھنے والی ہونی چاہئے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار بندے بننے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچی فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنا خالص عشق عطا فرماتے ہوئے ہمارے دلوں پر جلوہ گر ہو۔ ہمیشہ ہم سے ہر قسم کی تاریکیاں دُور رہیں اور اس کا نور ہمیشہ ہم پر ظاہر ہو تا کہ ہم قربانیوں کی روح کو ہمیشہ سمجھتے رہیں۔

               ابھی خطبہ کے بعد دعا ہو گی انشاء اللہ ۔ دعا میں شہداء کو بھی یاد رکھیں جنہوں نے جماعت کی خاطر قربانیاں دیں۔ ان کے بچوں کو بھی یاد رکھیں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے۔ اسیران کو جو احمدیت کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ان کو یاد رکھیں۔ احمدیت کی وجہ سے کسی بھی مشکل میں گرفتار جو لوگ ہیں ان سب کو یاد رکھیں۔ مجاہدین اور مبلغین احمدیت کو یاد رکھیں جو احمدیت کے پیغام کو پہنچانے میں مدد دے رہے ہیں۔ دعوت الی اللہ کرنے والوں کو یاد رکھیں جو اپنا وقت اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربان کرنے کے لئے دیتے ہیں اور تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کو یاد رکھیں۔ تمام احمدیوں کو جو دنیا کے کسی بھی ملک میں بس رہے ہیں ان سب کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے۔ مسلمان ملکوں میں جو آجکل حالات ہیں مسلمان، مسلمان کو مار رہا ہے، کاٹ رہا ہے، قتل کر رہا ہے ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور وہ حقیقی اسلام کو سمجھنے والے ہوں۔ پاکستان کے حالات ہیں، عرب ملکوں کے حالات ہیں، عراق وغیرہ کے حالات ہیں، فلسطین کے حالات ہیں، تمام ملکوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان جگہوں پر امن قائم کرے اور ان کو حقیقی اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ مسیح و مہدی کو ماننے والے ہوں۔ اسی طرح تمام دنیا کے دوسرے ممالک جو ہیں ان کے لئے دعا کریں۔ دنیا کا امن اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں۔

               ابھی دعا کرتے ہیں لیکن دعا سے پہلے میں آپ کو بھی عید مبارک کہنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے عید ہر لحاظ سے مبارک فرمائے اور دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کو عید مبارک ہو۔ پاکستان میں بھی، انڈونیشیا میں بھی، سری لنکا میں بھی، بنگلہ دیش میں بھی، ہندوستان کے احمدی بھی، افریقہ کے احمدی بھی، یورپ و امریکہ کے بسنے والے احمدی بھی، ہر ایک کو عید مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر لحاظ سے یہ عید ان کے لئے بے انتہا برکتوں والی ثابت ہو۔ اب دعا کر لیں۔

(دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ عربی میں خطبہ ثانیہ پڑھنا رہ گیا تھا۔ یہ سنت بھی پوری کرنی ضروری ہے۔ چنانچہ حضور نے خطبہ ثانیہ عربی میں پڑھا۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں