خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍جنوری 2004ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوْااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ۔ وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ
(سورۃ الحج آیت 38)
آج قربانی کی عید ہے۔ اس عید پر جس کو بھی توفیق ہو وہ جانور کی قربانی کرتا ہے۔ یہاں مغربی ممالک میں اس طرح قربانی کا تصور نہیں ہے۔ جو یہاں کے پرانے رہنے والے ہیںشاید ان کو صحیح طرح نہ پتہ ہو۔ جو اہتمام ایشیا کے ممالک میں یا افریقن ممالک میں (یا شاید تیسری دنیا کے اور بھی ممالک میں ہوتا ہو)۔ جہاں بڑے اہتمام سے بکرے خریدے جاتے ہیں۔ گائے خریدی جاتی ہیں یا بعض لوگ اونٹ کی بھی قربانی کرتے ہیں۔ ان دنوں میں بکروں بھیڑوںکی تلاش اور زیادہ قیمتی بکرے خریدنے کی بھی بعض لوگوںمیں دوڑ لگی ہوتی ہے۔ اور پھر بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اتنی قیمت کا بکرا خریدا ، یا اتنی مہنگی گائے خریدی۔ ہمسایوں میں،رشتہ داروں میں دوسروں نے بڑی کوشش کی کہ ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مگرہمارا جانور سب سے زیادہ قیمتی اور بڑا تھا۔ تو قربانی کی جو چیزیں لی جاتی ہیں اس طرح کی باتیں کرکے اس میں دکھاوے کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
پھر ایک طبقہ دوسری انتہا کو پہنچا ہوا ہے جو توفیق ہوتے ہوئے بھی مریل سے جانور خرید لیتے ہیں یا ایسے جانوروں کی قربانی دے دیتے ہیں جو قربانی کے معیار پر پورے اترنے والے نہیں ہوتے۔ صرف خانہ پُری ہو رہی ہوتی ہے۔ اپنے پر تو بے انتہا خرچ کر دیتے ہیں۔ اور لغویات میںبھی فضول خرچیاں کر دیتے ہیں۔ لیکن قربانی کے وقت مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ حدیث میں آتا ہے۔یحییٰ ابن سعید کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ بن سہل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مدینہ میں قربانی کے جانوروں کو خوب کھلا پلا کر موٹا کرتے تھے اور دوسرے مسلمان بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانوروںکی قربانی کے لئے خاص اہتمام فرماتے تھے اور اکثر اوقات خود ہی ذبح بھی فرمایا کرتے تھے اور اچھے جانور تلاش کرتے تھے۔
تو بہرحال ہرطبقہ یا دکھاوے کی طرف یا قربانی کی روح سے بالکل ناآشنا، ہر دو کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری توفیقوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے بہانوں کی حقیقت کو بھی جانتا ہے۔ اس کو کبھی دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہر طرح کا یہ طبقہ ہے، افراط کرنے والا ہو یا تفریط کرنے والا، ان کو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے جومَیں نے ابھی آیت تلاوت کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہرگز اللہ تک نہ اس کے گوشت پہنچیں گے اور نہ اس کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اسی طرح اُس نے تمہارے لئے انہیں مسخر کر دیا ہے۔ تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیںہدایت عطا کی اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔
یعنی اگر تم اس لئے بڑھ بڑھ کر قیمتی جانور خرید رہے ہو کہ دنیا کو دکھائو کہ تم نے کتنی قیمتی قربانی کی ہے۔ تمہارے امیر ہونے کا لوگوںپر اثر پڑے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہاری اس قربانی کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرتا۔ تمہارے اس قیمتی اور پلے ہوئے یا موٹے تازے صحتمند جانور کی جو بظاہر قربانی کے تمام تقاضے بھی بڑے اعلیٰ طریقے پر پورے کرتا ہے۔ اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو ئی بھی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ قربانی کی روح کے تقاضے پورے نہیں کرتاکیونکہ اس میں تقویٰ شامل نہیں ہے۔ اس میں دنیاداری کی، نفس کی ملونی شامل ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کھانے پینے سے آزاد ہے اُس کو اِس سے کیا غرض کہ تمہارے جانور کا گوشت کتنا ہے۔ اُس کو اس سے کیا کہ تم نے ایک صحت مند جانور کا خون بہایا ہے۔ اُس کو اِس سے کیا غرض کہ تم نے کتنے ہزار کی رقم خرچ کرکے جانور خریدا ہے۔
پھر جو قربانی کے تقاضے نہ پورے کرنے والے جانور بہانے بنا کر ذبح کرتے ہیں۔ وہ دنیا کو تو دکھا سکتے ہیںکہ ہم نے قربانی کی۔ بعض ایسے بھی ہیں جو چھوٹے جانور ذبح کرتے ہیں جو اس قابل نہیں ہوتے جو چھپ کے ذبح ہو رہے ہوتے ہیںصرف گوشت نظر آتا ہے جانور نہیں دکھاتے۔ وہ دنیا کو تو دکھا سکتے ہیں ۔ کہ ہم نے قربانی کی ہے اور ہم نے ہمسایوں میںگوشت بھی تقسیم کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو انسان کی پاتال تک سے واقف ہے، جو اس کا اندرونہ جانتا ہے، جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ کہے گا کہ تم نے قربانی، قربانی کے جذبے سے نہیں کی بلکہ تم نے دنیا سے ڈر کر ایک جانور ذبح کیا ہے۔ بکرا یا بھیڑ ذبح کی ہے کہ دنیا کیا کہے گی کہ ایک چھوٹا سا جانور ذبح نہیں کر سکا۔ تو یہ قربانی شاید تمہیں لوگوں کی باتوں یا ان کے اشاروں سے تو بچا لے لیکن خداتعالیٰ جو تمہارے اندر تقویٰ قائم کرنے کے لئے تم سے قربانی مانگتا ہے وہ مقصد تم حاصل نہیں کر سکو گے۔ تو یہ گوشت اور خون جو تم نے جانور کو ذبح کرکے حاصل کیا ہے اور بہایا ہے اگر یہ تقویٰ سے خالی ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے مقصد سے خالی ہے تو اللہ تعالیٰ کو تو ان مادی چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ تو یہ ظاہری قربانی کرکے قربانی کی روح تم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جب تم جانوروں کو ذبح کرو تو تمہیںیہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حکم پورا کروانے کے لئے اس جانور کو میرے قبضہ میں کیا ہے۔ اور مَیںنے اس کی گردن پر چھری پھیری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی، اس جانور کو ذبح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مَیں اس کے حکم پر عمل کرنے والا ہوا ،اس قابل ہوا کہ اس پر عمل کر سکوں۔ اس نے مجھے توفیق دی کہ مَیں اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شامل ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نیت سے قربانی کر رہے ہو گے، تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے قربانی کرو گے تو یہ قربانی مجھ تک پہنچے گی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا یہ روح ہے جس کے ساتھ اللہ کے حضور قربانیاں پیش ہونی چاہئیں۔
اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ خداتعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں۔ لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ} یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے۔ مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 99حاشیہ)
تو یہ تقویٰ کا وہ معیار ہے جس کے ساتھ جانوروں کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہ مقام ہے جس کے ساتھ تمہیں اپنی قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ جس طرح یہ اپنا جانور تمہاری چھری کے نیچے آ کر تمہاری خاطر اپنی قربانی پیش کر رہا ہے۔ اس طرح تمہیں بھی اپنے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ اگر کبھی زندگی میں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہونے کی ضرورت پڑی تو مَیں اس بات کے لئے تیار ہوں۔ یہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ قربانی اس قربانی کی یاد میں ہے جب باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے اور بیٹے نے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے پیش کیا تھا۔ جب باپ بیٹا چھری پھیرنے اور گردن پر چھری پھروانے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ جب اس جذبے سے قربانی کر رہے ہو گے تو یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جس کے مطابق کی گئی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتاہے۔اصل تقویٰ کیا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا اور یہی چیز اس بات کی بھی یاد دلاتی ہے، اس طرف بھی توجہ پیدا کرتی ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی احکام ہیں ان پر عمل کرنے کے لئے بھی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
اس عظیم قربانی کی مثال نے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کو یہ نمونہ بھی دے دیا ہے کہ موت تو ایک دن آنی ہے۔ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ اُس زندگی کا کوئی فائدہ نہیںجو ایمان کھونے سے حاصل ہو اور یہ اعلیٰ قربانی کا نمونہ دکھانے کے لئے تیار ہونے والے باپ بیٹا کی یہ مثال ہمیں دکھاتی ہے کہ کس طرح پیار کی نظر سے اللہ تعالیٰ نے دیکھا۔ یہ بھی مذہبی تاریخ کی ایک عظیم مثال ہے۔ اس اطاعت اور صبر اور نیکی اور قربانی کے لئے تیار ہونے کی وجہ سے جبکہ گردن پر چھری پھرنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رک جائو چھری نہیں پھیرنی۔ مَیں نے تو تمہاری اطاعت اور قربانی کے لئے پیش کرنے اور تقویٰ کے معیار دیکھنے تھے۔ میں تویہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کس حد تک اطاعت ہے۔ تم اس امتحان میں پورے اترے ہو۔ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارے سے اب میں نے بڑی قربانی لینی ہے۔ جس کا ذکر رہتی دنیا تک رہے گا۔ جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا {فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ۔سَتَجِدُنِیْ اِنْشَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔ وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرَاھِیْمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَا۔ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَالْبَلٰٓؤُ الْمُبِیْنُ۔وَفَدَیْنٰہ ُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ} (الصّفّٰت:109-103)۔ ا س کا ترجمہ یہ ہے کہ پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا۔ اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقینا میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں، خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس غور کر تیری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو حکم دیا جاتا ہے۔ یقینا اگر اللہ چاہے گا توُ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس جب وہ دونوں رضا مند ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا تب ہم نے اسے پکارا اے ابراہیم! یقینا تو اپنی رویا پوری کر چکا ہے۔ یقینا اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقینا یہ ایک بہت کھلی کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک ذبح عظیم کے بدلے اسے بچا لیا۔ اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا۔
وہ بڑے کام، وہ بڑی قربانی کیا تھی، جس کی خاطر یہ بچایا گیا تھا۔ وہ ایک تو بے آب و گیاہ جنگل میں بیابان جنگل میں ماں باپ بیٹا کے مستقل رہنے کی قربانی تھی۔ جب حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو چھوڑ کر گئے یا جا رہے تھے تو حضرت ہاجرہؑ نے پوچھا کہ چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں۔ بیوی کا بھی ایمان کمال کا تھا،کہا کہ اگر خدا کے حکم سے چھوڑ کر جارہے ہیں تو خدا کی قسم خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ وہ اپنی خاطر کی گئی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ پھر دیکھیں خداتعالیٰ نے کتنا پھل لگایا۔ نہ صرف وہی جنگل ایک شہربن گیا بلکہ ان کی نسل میں سے بھی ایسا نبی مبعوث فرمایا جو خاتم الانبیاء کہلایا۔ جس کو خدا نے خود آخری نبی کہا۔ آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے شریعت کو کامل کیا اور اعلان کیا کہ یہی آخری شرعی نبی ہے اور اس کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آئے گا، نہ آ سکتا ہے ۔یہ میرا پیارا نبی ہے، اتنا پیارا نبی ہے کہ فرمایا اگر اس کو پیدا نہ کرتا تو زمین و آسمان پیدا نہ کرتا۔
اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کے وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کی مثال نہیں۔ جو مثال ذبح ہونے کے لئے تیار ہونے کی ،اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہونے کی، حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قائم کی تھی ویسی کئی مثالیں ہر روز ہر دن چڑھنے کے ساتھ قائم ہونے لگیں۔ اور پھر صرف خود ہی یہ مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم نہیں کیں بلکہ صحابہ کو بھی قوت قدسی کے زیر اثر ایسے اعلیٰ قربانی کے معیار قائم کرنے والا بنایا کہ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کیا چیز تھے وہ لوگ!
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے اللہ تعالیٰ نے اس لئے بچایا تھا کہ آئندہ ذبح ہونے کی، قربان ہونے کی اور بیشمار مثالیں ان کی نسل میں سے ان کے ماننے والوں میں قائم ہوں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قائم ہوئیں ۔ شیطان اور اس کے چیلوں کو پتہ چلے کہ خدا پر ایمان رکھنے والے اس کی خاطر قربانی کرتے ہوئے کس طرح گردنیںکٹواتے ہیں اور کس طرح اپنا خون بہاتے ہیں۔ اور پھر ان قربانیوں کے کچھ نمونے آخرین کے زمانے میں بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے پہلوں سے ملنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانے نے بھی پہلے زمانے کے مشابہ ہونا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس حوالے سے اس زمانے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ملنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ ہمارا زمانہ ہمارے اس مہینے سے مناسبت تام رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ آخری زمانہ ہے اور یہ مہینہ بھی اسلام کے مہینے میں سے آخری ہے‘‘ یعنی یہ مہینہ جو ذوالحجہ کا چل رہا ہے’’ اوردونوں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ اس آخری مہینے میں بھی قربانیاں ہیں اور اس آخری زمانے میں بھی قربا نیاں ہیں۔ اور فرق صرف اصل اور عکس کا ہے جو آئینہ میں پڑتا ہے۔ اور اس کا نمونہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں گزر چکا ہے۔ اور اصل روح کی قربانی ہے اے دانشمندو!۔ اور بکروں کی قربانیاں روح کی قربانی کے لئے مثل سایوں اور آثار کے ہیں‘‘۔ یعنی بکروں کی جو قربانیاںہیں یہ اس روح کی قربانی کو دکھانے کے لئے ہیں۔’’ پس اس حقیقت کو سمجھ لو اور تم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد یہ حق رکھتے ہو اور اس بات کے اہل ہو کہ اس حقیقت کو سمجھو اور تم ان میں سے ایک آخری گروہ ہو جو خدا کے فضل اور رحمت سے اس کے ساتھ شامل کئے گئے ہو۔ اور زمانوں کا سلسلہ جناب الٰہی سے ہمارے زمانے پر ختم ہو گیا ہے۔ جیسا کہ اسلام کے مہینے قربانی کے مہینے پر ختم ہو گئے ہیں اور اس میں اہل رائے کے لئے ایک پوشیدہ اشارہ ہے‘‘۔ جو سمجھنے والے ہیں ان کے لئے ایک اشارہ ہے۔ یہ زمانہ اب جو ختم ہو رہا ہے اس کو سمجھیں اور مانیں۔ فرمایا
’’ اور میں ولایت کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے تھے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور مَیں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہو گا اور میرے عہد پر ہو گااور مَیں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ اور یہ میرا قدم ایک ایسے منارہ پر ہے جس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے۔ پس خدا سے ڈرو اے جوانمردو! اور مجھے پہچانو اور نافرمانی مت کرو۔ اور نافرمانی پر مت مرو‘‘۔(ترجمہ خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 68تا 70)
الحمدللہ کہ ہم نے اس زمانے کو پہچانا اور خاتم الانبیاء ؐ کی پیشگوئی اور حکم کے مطابق
خاتم الاولیاء ؑ پر بھی ایمان لائے۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس پاک جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہمیں بھی ان قربانیوںکے عکس نظر آتے ہیں۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئیں۔ اس زمانے میں بھی و ہ مثالیںملتی ہیں جب بچوں کے ہاتھوں سے روٹی چھینی گئی۔ جب عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کیا گیا۔ اذیتیں دے کر باپ بیٹے کو ایک دوسرے کے سامنے قتل کیا گیا ۔اپنے مقصد حاصل کرنے کے لئے اغوا کرکے جماعت کے مفاد کے خلاف کام لینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان قربانیوں کے پتلوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن اپنی وفا پر، اپنی قربانیوں کے معیار پر آنچ نہ آنے دی۔ اور سب سے بڑی قربانی جو ہوئی، جو اس دور کی مثال ہے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں نظر آتی ہے۔ اس وقت قائم کی گئی جب ایک بزرگ شہزادے کو بڑی بھاری زنجیروں میں جکڑ کر اندھیری کوٹھڑی میں بند کرکے مستقل یہ زور دیا جاتا رہا کہ مسیح موعود کا انکار کر۔ لیکن اس ایمان اور تقویٰ سے بھرے ہوئے دل کا یہی جواب ہوتا تھا کہ زندگی وہی ہے جو خدا کی خاطر گزرے۔ زندگی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے گزرے۔ آج اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے آخرین کی جماعت کو اختیار کیا ہے۔ مسیح موعود کو مانا ہے جس کے ماننے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی حکم دیا تھا۔ اس مسیح موعود کو مانا ہے جس نے بعد میں آنے والوں کو پہلوں سے ملانا تھا ۔کیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھر جائوں؟ ایک کیا ہزار جانیں بھی جائیں تو پروا نہیںہے۔ پھر آدھا زمین میں گاڑ کربھی یہی رٹ لگائی کہ اب بھی انکار کر دو، اب بھی انکار کردو، مان جائو تو جان بچ جائے گی۔ لیکن ہر دفعہ دشمن نے یہی جواب سنا کہ اس قربانی سے ہی تو مَیںنے اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے۔ اور یہی میری زندگی کا مقصد ہے۔ تو یہ ہے قربانی کی عید منانے کا طریق کہ ان قربانیوں کو یاد کیا جائے جنہوںنے آج دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کو پھیلا دیا ہے۔ پس شہدائے احمدیت اور ان کے بچوں کوبھی دعائوں میں یاد رکھیں۔ اسیران راہ مولیٰ کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ دوسرے قربانی کرنے والوں کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ آج ہر احمدی کی دعائیں اور قربانیاں، جماعت کے لئے قربانیاں دینے والوں کے لئے دعائوں میں بدل جائیں۔ ان قربانیوں کی یاد دلانے والی بن جائیں جو ان لوگوں نے جماعت کی خاطر دیں۔ قوم کے لئے قربانیاں کرنے والوں کی یادیں اگر قائم رہیں تو یہی ہیں جو قوم میں قربانیوں کے جذبے کو زندہ رکھتی ہیں اور اس کو ترقی کی منازل کی طرف لے جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو بے شمار ترقیات سے جلد سے جلد نوازے۔
آج جمعہ بھی ہے۔ جمعے کے لئے اعلان ہے آج جمعہ نہیں ہو گا۔ صرف نماز ظہر ادا کی جائے گی انشاء اللہ۔ جو لوگ اپنی اپنی جگہوں پر پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے بعداب مَیں سب کو عید مبارک کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ زندگیوں کی تمام خوشیوں سے نوازے اور اپنی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے دوران بیت الفتوح میں موجود حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا۔ میں نے آپ کو جو عید مبارک دی ہے اس سے دوسرے ممالک یہ نہ سمجھیں کہ صرف آپ کو ہی دی ہے۔ تمام دنیا کے احمدیوں کو عید مبارک۔