خطبہ عیدالفطر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍جون 2017ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج عید کا دن ہے جو خوشی کا دن ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہم اس لئے خوشی مناتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے عید کی خوشیاں منانے کا دن مقرر کیا ہے۔ انسانی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں ،دوستوں کے ساتھ مل کر خوشی منائے اور ایسے حالات پیدا کرے جب اس طرح مل کر خوشی منانے کا موقع مل سکے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ باقی قوموں اور مذہبوں نے بھی اس انسانی فطرت کے مطابق اپنی خوشیاں منانے کے دن مقرر کئے ہوئے ہیں لیکن ان قوموں کے خوشی کے دنوں میں وہ اجتماع کا رنگ نہیں ہے جو رنگ اسلام نے اجتماع کا رکھا ہے۔

                نیز اسلامی عید اور خوشی کے دن میں یہ بھی فرق ہے کہ اس دن عید کا خطبہ اور عید کی نماز کی بھی زیادتی ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید کا خطبہ پڑھ کر بتایا کہ جہاں لوگ عید کی خوشی منائیں وہاں خدا کی باتیں سننے اور اس کی عبادت کرنے کے لئے بھی جمع ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ذمہ جو دو ذمہ داریاں ڈالی ہیں اس کا اظہار ہو۔ وہ دو ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ایک حقوق اللہ کی ادائیگی اور ایک حقوق العباد کی ادائیگی۔   اب اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے ہم عام دنوں میں عبادت کی طرف توجہ دیتے ہیں اور پانچ فرض نمازیں پڑھتے ہیں تو عید کے دن اس خوشی منانے کے دن کے ساتھ ہم پر چھ نمازیں فرض ہو جاتی ہیں۔ ایک دنیا دار تو کہے گا کہ یہ اچھی عید ہے جس میں خوشیاں اور کھیل کود کے بجائے پھر نمازوں کا پابند کر دیا گیا ہے ،پھر عبادتوں کی طرف توجہ دلا دی گئی۔ لیکن ایک مومن سمجھتا ہے کہ حقیقی خوشی اسی میں ہے جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اس نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا جب ہم اس کی عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اس کی مخلوق کا بھی حق ادا کریں اور اپنی خوشیاں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر منائیں۔

                اس دن جب ہم پر چھ نمازیں فرض ہو جاتی ہیں تو اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم سورۃ فاتحہ بھی زیادہ پڑھتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ ہر نماز میں پڑھنی ضروری ہے ۔ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے۔ اور سورۃ فاتحہ میں ہم جب اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہتے ہیں، ربّ العالمین کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے ،تسبیح ہے، تحمید ہے۔ عام دنوں میں فرائض نماز اور سنتوں میں ہم بتیس مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں ۔اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنکہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور عید کے دن 34 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنکہہ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں ۔جو نوافل پڑھنے والے ہوں تو اس سے بھی زیادہ پڑھتے ہیں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ اَلْحَمْدُ لِلہ کے الفاظ میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اُن سے سوال کیا جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ اُن کا معبود کون ہے تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یہ جواب دے کہ میرا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے اور کسی قسم کا کوئی کمال اور قدرت ایسی نہیں مگر وہ اس کے لئے ثابت ہے۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اوّل صفحہ 82 حاشیہ) یعنی ہر قسم کے کمال اور قدرت اللہ تعالیٰ سے ہی ثابت ہیں۔ اس کے لئے ہی ہیں۔

               پھرالحمد للہ کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ’’اَلْحَمْدُ لِلہ… جس کے یہ معنی ہیںکہ ہر ایک حمد اور تعریف اس ذات کے لئے مُسلَّم ہے جس کا نام اللہ ہے اور اس فقرہ اَلْحَمْدُ لِلہ سے اس لئے شروع کیا گیا کہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت روح کے جوش اور طبیعت کی کشش سے ہو۔ ‘‘عبادت صرف ظاہری، سر سے اتارنے کے لئے عبادت نہ ہو بلکہ روح کے جوش سے ہو اور طبیعت میں عبادت کرنے کی طرف ایک کشش پیدا ہو۔ فرمایا’’ اور ایسی کشش جو عشق اور محبت سے بھری ہوئی ہو ہرگز کسی کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ شخص ایسی کامل خوبیوں کا جامع ہے جس کے ملاحظہ سے بے اختیار دل تعریف کرنے لگتا ہے۔ ‘‘اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس کے لئے حقیقی تعریف نکل سکتی ہے کیونکہ وہی تمام خوبیوں کا جامع ہے۔ فرمایا ’’اور یہ تو ظاہر ہے کہ کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے۔ ایک کمالِ حُسن اور ایک کمالِ احسان۔‘‘ دو باتیں ہوں کسی میں تو تبھی اس کی تعریف ہو سکتی ہے۔ ایک اس کا حسن اور خوبصورتی اور دوسرے اس کا احسان۔ تبھی انسان تعریف کرتا ہے اور شکر ادا کرتا ہے۔ فرمایا ’’اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے۔ اور قرآن شریف کا بڑا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی یہ خوبیاں جو حسن اور احسان کی ہیں قرآن شریف یہی چاہتا ہے کہ یہ لوگوں پر ظاہر ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوگ ایک خاص کشش اور جوش اور محبت سے آئیں۔ فرمایا’’ اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی بندگی کریں۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 247)

               آپ نے فرمایا’’ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کاملہ کا جامع ہے اس لئے ہر قسم کی خوبی اس میں پائی جاتی ہے اس سے اس کا حسن ظاہر ہو گیا‘‘ کیونکہ تمام صفات اس میں جمع ہیں۔ وہ چاہے انہیں پتا ہے یا نہیں پتا۔ اس لئے ان صفات کے جمع ہونے سے اس کا حسن ظاہر ہو گیا’’ اور جہاں تک احسان کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ کے احسان کا سب سے زیادہ فائدہ انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے ۔‘‘ (ماخوذ از ایّام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 247۔248)اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسان ہیں کہ جو بھی مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے وہ انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی ہے اور جہاں جب چاہے انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پس ہمیں اللہ کا کتنا شکر کرنا چاہئے کہ اس کی صفات سے بھی جو حسن کی صورت میں ظاہر ہیں اور اس کے احسان سے بھی جو دنیا کی ہر چیز کے فائدے کی صورت میں ظاہر ہیں ان سے  سب سے زیادہ انسان فائدہ اٹھا رہا ہے اور ان کا فائدہ سب سے زیادہ انسان کو ہو رہا ہے۔

               پس یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم دلی خوشی سے اس کی بندگی کا حق ادا کریں اور یہ باتیں یہ بھی تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اس کے صحیح عابد بنیں اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والے بنیں اور بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ کی تعریف اور شکرگزاری  ایک عام انسان کی نسبت ہم پر بہت زیادہ فرض ہے۔

                اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے ساتھ بحیثیت مسلمان ہم پر یہ بھی فرض کرتا ہے کہ ہم بندوں کے حق ادا کرنے والے بھی بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس حسن و احسان پر جس کا اظہار وہ اپنے بندوں سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی اپنی حیثیت کے مطابق حسن و احسان کا سلوک کریں۔ اگر ہم یہ کریں تو تبھی ہم اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کا صحیح ادراک حاصل کر کے پھر اسے اپنی حالتوں سے ظاہر کرنے والے ہوں گے ۔جہاں عبادت کے حق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا بھی حق ادا کر رہے ہوں گے۔ اپنے بھائیوں سے نیک سلوک کرنا امن پیار اور محبت کے پیغام کو ہر طرف پھیلانا اور معاشرے میں پیار اور محبت سے رہنا ایک دوسرے کا حق ادا کرتے ہوئے رہنا اصل اور حقیقی عید کی خوشیوں کا حامل بناتا ہے۔

               پس اس طرف ہمیں اپنی خوشیوں کے حوالے سے بھی کوشش کرنی چاہئے۔ صرف ذاتی خوشیاں نہ ہوں بلکہ ماحول کو بھی ہم ہر سطح پر خوشیاں دینے والے ہوں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بارے میںبہت سے ارشادات ہیں ان میں سے بعض پیش کرتا ہوں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ حسن و احسان کی معراج ہم اپنی استعدادوں کے مطابق کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔  جتنی جتنی کسی کی صلاحیت ہے، استعدادیں ہیں اس کو اس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ حقیقی عید کی خوشیاں ہم تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

               حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اُس کی محبتِ ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے ۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّ اللہَ یَاْ مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِ حْسَانِ وَاِیْتَآ ئِ ذِی الْقُرْبٰی(النحل91:)‘‘فرمایا کہ’’ خدا تعالیٰ کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یادکرکے اس کی فرماںبرداری کرو‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں ہیں ان کو یاد کرو اور پھر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو۔ اس کے حکموں پر چلو۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل ہے) ’’اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اسے پہچانو‘‘ (اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان کرو۔اللہ تعالیٰ کے مقام کی پہچان کرو) ’’اور اس پر ترقی کرنا چاہو ‘‘(اس سے اگلا قدم یہ ہے) ’’تو درجہ احسان کا ہے‘‘ (اب اللہ تعالیٰ پے انسان کیا احسان کرے) فرمایا’’ اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پرایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے‘‘ (اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایسا یقین ہو جائے کہ انسان ہر وقت سمجھے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں) ’’اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا۔ اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو۔ نہ بہشت کی طمع ،نہ دوزخ کا خوف ہو۔‘‘(لوگوں سے تو انسان یہ کرتا ہے کہ جن سے سلوک نہیں بھی کیا ان سے انسان بڑھ کے سلوک کرتا ہے لیکن یہ قرابت داری کا رشتہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے اس درجہ پر پہنچنے کے لئے کیا کرنا ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اس لئے کہ اس سے ہمیں محبت ہونی چاہئے کیونکہ بیشمار اس کی صفات ہیں اور اس کے احسان ہیں ۔نہ اس لئے کہ ہمیں اس کے بدلہ میں جنت ملے گی یا نہ کرنے سے دوزخ کا خوف ہو گا) ’’نہ بہشت کی طمع ہو نہ دوزخ کا خوف۔ ‘‘اس کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے محبت کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایتاء ذی القربیٰ کا مقام ہے۔فرمایا کہ ’’بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ ایسی محبت جب خدا تعالیٰ سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔ ‘‘

               اور پھر آگے فرمایا کہ ’’ اورمخلوقِ خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے ۔کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ مَیں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے۔لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی ۔‘‘(نہ انسان دکھاوے کے لئے کرتا ہے نہ کسی غرض کے لئے کرتا ہے) ’’بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تُو اس بچے کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پُرس نہ ہوگی تو وہ کبھی یہ بات سننا گوارا نہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہو نے تک میں نے مر جانا ہے مگر پھر بھی محبتِ ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہیں کرے گی۔ ‘‘فرمایا کہ’’ اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے۔ جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اس کا اشارہ ایتاءِ ذی القربٰیمیں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے۔ نہ مراتب کی خواہش۔ نہ ذلّت کا ڈر۔‘‘(ملفوظات جلد 6 صفحہ 181-182۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت لطیف پیرائے میں ہمیں ہمارے دونوں قسم کے حقوق کی معراج حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اللہ تعالیٰ کا حق اور اس سے محبت کا اظہار بھی اور اَلْحَمْدُ لِلہ کا حقیقی ادراک اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا طریق بھی بتا دیا۔ نیز اللہ تعالیٰ کے بندوں سے حسن سلوک اور تعلقات کی معراج بھی بتا دی اور یہی وہ اصول ہے جو دنیا کی حقیقی خوشیوں اور امن کا ضامن بن سکتا ہے۔

               پھر مخلوق کے حقوق اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مزید کھول کر ایک اور زاویہ سے بھی بیان فرمایا۔ باتیں تو وہی ہیں لیکن بعض الفاظ میں نئے پہلو آجاتے ہیں۔

               آپؑ فرماتے ہیں:’’ خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟ بس یہی کہ تم نوعِ انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اُن سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوقِ خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم اُن کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ ‘‘

               اب نیکیوں کی معراج کیا بتائی کہ نیکی نہ کرنے والے سے بھی نیکی کرو۔ یہ حقیقی مومن کی خوبی ہے۔ جو کوئی نیکی کرتا ہے، کوئی احسان کا سلوک کرتا ہے تو اس سے تم نیکی کر ہی دیتے ہو ۔لیکن جو نیکی نہیں کر رہا اس سے نیکی کرنا اصل نیکی ہے۔

                اور پھر فرمایا کہ: ’’تم مخلوقِ خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں۔‘‘ اب نیکی نہ کرنے والوں سے صرف عدل نہیں کرنا بلکہ ان پر احسان بھی کرنا ہے اور پھر احسان سے آگے بڑھ کر آپ نے فرمایا کہ ان سے اس طرح پیش آؤ جس طرح مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں۔ ’’کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے ۔لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو۔ اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔ خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا۔‘‘ (دوبارہ وہی چیز دہرائی)۔ ’’اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور خدا سے ایتاءِذی القُربیٰ یہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے ۔بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 30-31)

                ذرا ذرا سی بات پر لوگ کہہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دعا نہیں سنی۔ یہ مسئلہ ہو گیا فلاں ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کے خلاف شکوے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے احسانوں کو یاد نہیں کرتے۔ پس فرمایا اس کے احسانوں کو یاد کرو اس کے انعاموں کو یاد کرو اور ایک طبعی جوش سے اس سے محبت کرو۔ پس یہ معیار ہیں جو ہم نے حاصل کرنے ہیں اور حقیقی خوشی اسی وقت ہے جب ہم یہ حاصل کریں۔

                ہم پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات ہیں روزانہ ہم ان بیشمار نعمتوں سے حصہ بھی لے رہے ہوتے ہیں۔ ان کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا تو ایک طرف رہا بہت سے ایسے بھی ہیں جو  اَلْحَمْدُ لِلہ کہہ کر اس کی شکرگزاری بھی نہیں کرتے۔ یعنی کہ اَلْحَمْدُ لِلہ  تک نہیں کہتے یا کسی بھی طرح کسی لفظ میں اس کے شکرگزار نہیں ہوتے اور خوشیوں کے موقعوں پر تو بالکل بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔

               پھر اللہ تعالیٰ سے احسان تو انسان نے کیا کرنا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو ہر موقع پر ہماری رہنمائی اور تربیت فرماتے ہیں، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے احسان کا تعلق یہ ہے کہ اس کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعلق میں اتنا بڑھو کہ گویا خدا کو دیکھ رہے ہو۔ ایک حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ حالت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس کی اس طرح عبادت کرنے والے ہوں جو بے غرض ہو اور خالص اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہو۔ اس کے حسن و احسان کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اس کی شکرگزاری کے لئے نہ ہو۔

                پھر اس بارے میں مزید بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ باتوں کو کھولنے کے لئے مزید اقتباس پڑھوں گا۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’ خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اُس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ ۔اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو۔ یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اُس کو دیکھتے ہو‘‘۔ عبادتوں کے فرائض تو اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں۔ پانچ وقت نمازیں ہیں، عید فرض کی ہے، جمعہ فرض کیا اور احسان یعنی اس کی عبادت کا حق بجا لانا یہ ہے کہ نوافل کی طرف بھی توجہ ہو ۔انسان کی ذکر اَذکار کی طرف بھی توجہ ہو’’ اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت و سلوک کرو‘‘۔ جتنا کسی کا حق ہے اس سے زیادہ ان سے پیار اور شفقت اور محبت کا سلوک کرو۔ ’’اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علّت و بے غرض خدا کی عبادت اور خَلقُ اللہ کی خدمت بجا لاؤ کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے‘‘۔(شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ361-362)

               پھر بنی نوع سے ہمدردی اور حسن سلوک کی قرآنی تعلیم کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو۔ ‘‘کسی قسم کی زیادتی ان سے نہ کرو۔ جو اپنا حق ہے لو ۔جہاں تک حق ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ان پر زیادتی کر کے اپنے حق لینے کے لئے ان کے حقوق نہ مارنے لگ جاؤ کیونکہ یہ انصاف کے تقاضے پورا نہیں کرتا ۔اس لئے انصاف یہی ہے کہ انصاف پر قائم رہو اور اپنے حق سے زیادہ کسی چیز کی خواہش نہ کرو۔ بعض لوگ مقدموں میں اپنے حقوں سے بھی باہر نکل جاتے ہیں فرمایا کہ’’ اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے۔‘‘اب پہلے جس نے نیکی نہیں کی تھی اس سے بھی نیکی کرو اور فرمایا کہ جو بدی تمہارے سے کر رہا ہے، برائی کر رہا ہے، تمہیں نقصان پہنچا رہا ہے اس سے بھی نیکی کرو ۔یہ احسان ہے’’ اور اس کے آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے۔‘‘ وہ تمہیں دکھ دیتا ہے تم اسے خوشی پہنچاؤ ۔تم اس کو آرام پہنچاؤ ’’اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔ پھر فرمایا کہ ’’پھر بعد اس کے ایتا ءِ ذی القُربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو جیسی شدّتِ قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔‘‘ ایک قریبی رشتہ دار دوسرے قریبی رشتہ دار سے، ایک بھائی ایک بھائی سے، ایک ماں اپنے بچے سے جس طرح کرتی ہے اس طرح نیکی کرو۔’’ سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے۔‘‘ اخلاقی ترقی کے جو کمال کا آخری انتہا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح نیکی کرو۔ اسی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے’’ کہ ہمدردیٔ خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یا غرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوّت و قرابتِ انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکرگزاری یا دعا یا اَور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 551-552)اس طرح ہو کہ کوئی تکلّف نہ ہو اس میں اور کوئی خواہش نہ ہو کہ یہ انسان میرا شکرگزار بنے گا۔ کوئی خواہش نہ ہو کہ میں اس سے نیکی کروں گا تو یہ مجھے دعائیں دے گا۔ کسی بھی قسم کی خواہش نہ ہو اور پھر نیکی کرو تو یہ اصل نیکی ہے جو فطرتی جوش سے نکلنے والی ہے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمدردیٔ خلق کے بارے میں بار بار اور بے شمار جگہ ہمیں تلقین فرمائی ہے بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ بعض لوگ حقوق اللہ تو ادا کر دیتے ہیں۔ نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں۔ روزے رکھنے والے بھی ہیں۔ بظاہر بڑے عابد اور نیک نظر آتے ہیں لیکن جہاں مخلوق کے حق کی ادائیگی کا معاملہ آیا وہاں ان کی نظریں بدل جاتی ہیں ۔ان کی نیکیوں کے معیار بدل جاتے ہیں ۔اور یہ حقیقت ہے۔ مجھے بھی بعض دفعہ لوگ لکھتے ہیں۔ لوگوں کے اصل سلوک سے یہی ظاہر ہوتا ہے بلکہ اور تو اَور بعض عورتیںاپنے خاوندوں کے متعلق لکھ رہی ہوتی ہیں اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض بچے اپنے باپوں کے متعلق لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے خاوند یا باپ مسجد میں بھی جاتے ہیں ،جماعت کے کام بھی کرتے ہیں لیکن گھروں میں ان کا سلوک انتہائی نامناسب ہوتا ہے ۔بلکہ یہ دیکھ کر بعض بچوں پر اس قدر منفی اثر ہو رہا ہے کہ وہ دین سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ جماعت کی ایکٹویٹی activity))سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ اگر بیوی بچوں سے کسی مرد کو کوئی شکایت ہوبھی تو انہیں آرام اور پیار سے سمجھایا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ سختی کی جائے۔ بندوں کے حقوق صرف اتنے ہی نہیںہیں کہ باہر لوگوں کے سامنے جا کر کسی کی مدد کر دی جائے اور خدمت کر دی جائے بلکہ اپنے گھروں کے حقوق ادا کرنا بھی سب سے پہلے اور لازم ہے۔ باہر جا کر کوئی غیروں سے قریبیوں کا سلوک کرے اور جو قریبی ہیں ان سے غیروں کا سلوک کرے تو یہ کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حسن سلوک کی جو ترتیب بیان فرمائی ہے اس کو سب سے قریبیوں سے شروع کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔اِنَّ ا للّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (سورۃالنساء37:)  کہ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ پہلی چیز اللہ کا حق ادا کرو۔ پھر والدین کے ساتھ احسان کرو ۔پھر قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہو۔

               پس یہ وہ ترتیب ہے جس کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔ ماں باپ کے بعد قریبی بیوی بچے ہیں۔ بہن بھائی ہیں۔ پھر مخلوق سے ہمدردی ہے اس کی بھی قسمیں ہیں ۔ہمسائے ہیں، رشتہ دار ہمسائے ہیں ،غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں بلکہ ہمسایوں کی فہرست تو آپؐ نے ایک جگہ اتنی لمبی بیان فرمائی کہ تمہارے چالیس گھروں تک، سو سو گھروں تک تمہارے ہمسائے ہی ہمسائے ہیں (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 280۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)پھر مجالس میں ساتھ بیٹھنے والے۔ مسجدوں میں آتے ہیں، جمعہ میں بیٹھتے ہیں یہ سب ہمسائے بن جاتے ہیں ۔مسافروں میں جب سفر کرتے ہیں تو وہ ہمسائے بن گئے ۔ان کے ساتھ بھی حسن سلوک۔ پھر جن کے مالک ہوئے ان کے ساتھ حسن سلوک۔ ان سب سے ہمدردی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس ترتیب سے ہر ایک کے حق بھی قائم کر دئیے۔ یہ نہیں کہ ایک کا حق ادا کیا دوسرے کا نہیں کرنا بلکہ ہر ایک کا حق قائم کیا۔ اس لئےکسی کے حق کی بھی حق شکنی نہیں ہونی چاہئے۔

               پھر آپ فرماتے ہیں ’’تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ۔ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں۔ ‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا(’’ اس فقرے میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دُور کے تمام رشتہ دار آ گئے۔‘‘) گھر والے بھی آ گئے، اولاد بھی آ گئی ،بھائی بھی آ گئے ۔ قرابتی میںقریب اور دور کے تمام رشتہ دار آ گئے۔ فرمایا ’’اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی( وہ ساتھی بھی) جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضے میں ہیں (تمام جاندار کو بیان کر دیا۔) سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبّر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو ،جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 208-209)

               پھر ایک جگہ اس کی مزید وضاحت اور بھی فرما دی کہ ’’تم ماں باپ سے نیکی کرو۔ اورقریبیوں سے، اور یتیموں سے اور مسکینوںسے۔ اور ہمسایہ سے جو تمہارا قریبی ہے اور ہمسایہ سے جو بیگانہ ہے اور مسافر سے اور نوکر سے اور غلام( اور پھر آگے جانوروں کی تفصیل۔ پہلے تو جانور بتایا تھا پھر تفصیل بھی بتا دی) اور گھوڑے اور بکری اور بیل اور گائے سے اور حیوانات سے جو تمہارے قبضے میں ہوں کیونکہ خدا کو جو تمہارا خدا ہے یہی عادتیں پسند ہیں۔ وہ لاپرواہوںاور خود غرضوں سے محبت نہیں کرتا۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 358)ہمدردی کے اس جذبے اور نیکی کرنے کو آپ نے جانوروں تک پھیلا دیا۔ جیسا کہ نام لے کر بھی واضح کیا۔ پس جب جانوروں سے بھی ہمدردی کرنی ہے تو پھر ہمیں  اپنے گھر اور بیوی بچوں کو کس قدر اہمیت دینی چاہئے اور پھر اسی طرح درجہ بدرجہ باقیوں کے ساتھ۔

               پھر یہ حق نہ ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان میں تکبر ہے، فخر کرنے والے ہیں۔پھر یہ ناشکرگزار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی بچے دئیے۔ اگر انسان ان سے حسن سلوک نہیں کرتا تو یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکرگزاری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حقوق کے بارے میں، بندوں کے حقوق کے بارے میںایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’ شریعت کے دو ہی قسم کے حقوق ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد‘‘۔ فرمایا’’مگر میں جانتا ہوں اگر کوئی بدقسمت نہ ہو‘‘( بہت ہی بدقسمت اگر کوئی انسان ہے تو اور بات ہے اگر نہیں)’’ تو حقوق اللہ پر قائم ہونا سہل ہے۔‘‘( یہ تو آسان کام ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر دے)۔’’ اس لئے کہ وہ تم سے کھانے کو نہیں مانگتا اور کسی قسم کی ضرورت اسے نہیں‘‘۔ (اس کو ضرورت نہیں اس لئے تمہاری ضرورتوں کے لئے تمہیں نہیں کہتا)۔ ’’وہ تو صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اسے وحدہٗ لاشریک خدا سمجھو۔اس کی صفاتِ کاملہ پر ایمان لاؤ اور اس کے مُرسَلوں پر ایمان لا کر ان کی اِتّباع کرو۔ لیکن حقوق العباد میں آ کر مشکلات پیدا ہوتی ہیں جہاں نفس دھوکہ دیتا ہے‘‘(ملفوظات جلد 8 صفحہ 19۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اس لئے جہاں تک ہو سکے اس کی یعنی حقوق العباد کی بڑی رعایت اور حفاظت کرنی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان دوسرے کے حقوق تلف کرنے والا ٹھہرے۔ پس ایک مومن کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق کی ادائیگی کو بھی مکمل طور پر ادا کرے اور خاص طور پر ان کے حقوق کی ادائیگی تو سب سے اول ہے جن کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر ڈالی ہے۔ صرف مالی حق ہی ادا کرنا ضروری نہیں بلکہ جذباتی حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھر والوں کی مالی ضروریات پوری کر رہے ہیں پھر بھی یہ ناشکری کرتے ہیں۔ اگر وہ مالی اور مادی ضروریات پوری کر رہے ہیں تو بیوی بچوں کو بھی خاص طور پر اس لحاظ سے اپنے خاوندوں اور باپوں کا شکر گزار ہونا چاہئے لیکن مردوںکو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان کو جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ یہ بھی حق کی ادائیگی ہے۔ حسن سلوک اور اچھا رویہ یہ بھی ضروری ہے۔ انسان جانور نہیں ہے کہ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ لیا تو فرض ادا ہو گیا۔ انسان کے لئے جذباتی حسن سلوک بھی ضروری ہے۔ پس اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ایمان کے کامل کرنے کے لئے بھی دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

               ’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا۔‘‘ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 464)

               پس یہاں پھر قربت کے درجوں کے لحاظ سے بنی نوع کی محبت کے اظہار میں وہی ترتیب آ جائے گی اور پھر عمومی طور پر ہر ایک سے محبت ہے۔ اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا ۔اور اصل میں جو نعرہ ہم لگاتے ہیں کہ’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘۔ تو اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور محبت میں اس طرح بڑھنا کہ ان کی مشکل کو اپنی مشکل سمجھ لینا۔ اپنے قریبیوں کے اگر تعلقات میں مَیل ہو تو باقیوں سے کیا محبت کا اظہار ہو سکتا ہے۔

               پس اس لحاظ سے بھی اس عید میں حقوق کی ادائیگی کی طرف جو توجہ ہونی چاہئے وہ ہر ایک کو کرنی چاہئے اپنے گھروں ،اپنے عزیزوں، اپنے ماحول میں ،دوسرے لوگوں کو جہاں بھی کہیں کسی کے بھی تعلقات میں سختی ہے اسے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور سختی اور دوری کو نرمی اور قربت میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات تو بہت کامل ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری صفات کے پرتَو بنو۔ ان پہ عمل کرنے کی کوشش کرو ۔اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے کہ اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان صفات کو اپنایا جائے اور ہر طرح سے جو انسان کی انتہائی صلاحیتیں ہیں اس کے مطابق حسن و احسان کا نمونہ دکھایا جائے تا کہ عید کی خوشیاں اپنی ذات اور اپنے محدود ماحول تک ہی نہ رہیں بلکہ اس سے باہر نکل کر معاشرے میں بھی پھیل جائیں اور ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بن جائے۔ پھر جماعت کی اکائی قائم رکھنے کے لئے بھی حقوق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ۔جہاںیہ بات حقیقی خوشیاں دیتی ہے۔ وہاں جماعت کی ترقی کا اظہار بھی اس بات پر ہے۔ اس بارے میں ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں 

               ’’یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کایہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اُس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُواعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ۔ کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت، ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے۔‘‘( ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔)’’اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہئے۔ بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آ جاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔… کیوںنہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔‘‘ اپنے اخلاق کو بہت وسیع کرو ۔بہت پھیلاؤ اور یہ اخلاق کس طرح پھیلیں گے ’’ اور یہ تب ہوتا ہےکہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے‘‘۔ اپنی ہمدردی کو ہر ایک کے لئے عام کرو۔ اپنی محبت کو ہر ایک کے لئے عام کرو۔ اپنے معافی اور درگذر کو ہر ایک کے لئے عام کرو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کو عام کرو۔’’ اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔‘‘ دوسروں پر رحم کرو۔ ان سے ہمدردی کرو۔ ان کی پردہ پوشی کرو جس حد تک ہو سکے۔ ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ دوسروں کی برائی دیکھ کر اس کو اچھالاجائے۔ ہاں اگر برائی جماعتی رنگ اختیار کر رہی ہے۔ جماعتی برائی بننے کی کوشش کر رہی ہے تو پھر جو اس کے متعلقہ ذمہ دار ہیںان کو بتا دو نہ یہ کہ اس برائی کو ہر جگہ پھیلایا جائے۔ فرمایا کہ’’ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔… جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرکے پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔… خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق نعمتِ اخوّت یاد دلائی ہے ۔اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوّت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اِسی قسم کی اخوّت وہ یہاں قائم کرے گا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 347 تا 349۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس ہمیں ہر سطح پر محبت ،پیار، بھائی چارے اور حقوق کی ادائیگی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقت میں یہی چیز ہے جو عید کی حقیقی خوشیوں کا حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی شکرگزار بنیں۔ اس کی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور اس کے بندوں کے بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔

               خطبہ ثانیہ کے بعد ہم دعا کریں گے ۔دعا میں جہاں ہم یہ دعا کریں کہ حقیقی عابد بھی بنیں اور حقیقی مومن ایسے مومن بنیں جو بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔وہاں یہ بھی دعا کریں کہ اس وقت بعض جگہوں پر افراد جماعت کے اوپر جو مسائل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دُور فرمائے۔ جو جماعتی رنگ میں پریشانیوں میں مبتلا ہیں  ان کی پریشانیاں دور فرمائے۔جومقدمات میں گرفتار ہیں وہاں سے ان کی پریشانیوں کو دور فرمائے اور ان کو ان مقدمات سے بری فرمائے۔ پاکستان میں خاص طور پر بعض اسیران ہیں۔ الجزائرمیں اسیران ہیں۔ ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے اور جو کسی بھی لحاظ سے کسی دکھ میں مبتلا ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دکھ دور فرمائے۔

               خطبہ ثانیہ اور اجتماعی دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا

               السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور سب کو عید مبارک اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ساری دنیا کو عید مبارک۔  اللہ تعالیٰ آپ سب کو عید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں