خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11ستمبر2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا۔ اِنَّ مَعَ العُسۡرِ یُسۡرًا۔ ( الانشراح:6-7)

               پس یقینا ہر تنگی کے بعد آسائش ہے ۔یقینا ہر تنگی کے بعد بڑی آسائش ہے۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیںسورہ انشراح کی ہیں۔بہت سوں کو زبانی یاد ہوں گی۔مکہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اور مکہ میں آنحضرت  ا کے تیرہ سال جن سختیوں ، زیادتیوں اور ظلموں کو برداشت کرتے ہوئے گزرے اس سے ہم سب واقف ہیں۔غریب صحابہؓ پر جو ظلم ہوتے، انہیں دیکھ کر آنحضرت  ا ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ ایسے ہی ایک ظلم کا ذکر حضرت یاسر ؓ کے اور ان کے گھر والوں کے بارے میں ملتا ہے۔ان پر ظلم ہو رہا تھا تو آنحضرت  ا کا وہاں سے گزر ہوا۔آپؐ نے یہ ظلم دیکھ کر فرمایا  صَبۡرًا آلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوۡعِدَکُمُ الۡجَنَّۃ ۔ (مستدرک جلد 4 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر مناقب عمار بن یاسرؓ  صفحہ 99 حدیث 5732 )۔اے آل یاسر صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدا تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلے میں تمہارے لئے جنت تیار کررہا ہے یا تمہارے لئے جنت تیار کی ہوئی ہے۔ اور پھر اس ظلم کے دوران ہی ان دونوں میاں بیوی نے شہادت کا رتبہ پایا۔ اب دیکھیں ایک طرف تو ظلموں کا یہ حال ہے کہ سوائے موت کے اور کوئی چیز ان ظلموں سے نجات نہیں دلا سکتی۔ نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور صبر کی تلقین بھی کی جارہی ہے۔ اور دوسری طرف ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی جارہی ہے کہ ہر تنگی کے بعد ایک بہت بڑی کامیابی مقدر ہے۔ اور یقینا ہر تنگی کے بعد ایک اور کامیابی مقدر ہے۔ یہ تنگیاں تو ہیں، یہ جانوں کی قربانیاں تو ہیں ،یہ ظلموں کے خوفناک حالات تو ہیں لیکن اس ایک ایک ظلم کے پیچھے کامیابیوں کا ایک سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ وہی کمزور اور مظلوم نہ صرف تمام عرب پر چھا گئے بلکہ عرب سے باہر نکل کر بڑی بڑی حکومتوں کو آنحضرت ا کی غلامی میں لا ڈالا اور صدیوں مسلمان دنیا میں ایک طاقت بن کر رہے۔ آج مسلمانوں کو آنحضرت  ا کی غلامی پر فخر ہے اور یقینا یہ بجا فخر ہے۔ آج روئے زمین پر اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں کہ ہم نبی ٔآخر الزمان اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی  ا کے غلاموں میں سے ہیں۔ لیکن جس طرح یہ قرآنی آیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ تنگی کا زمانہ بھی آتا ہے، آنا ہے اور آیا اور آ  نحضرت ا نے بھی پیشگوئی فرمائی کہ میری امت پر بھی ایک اندھیرا زمانہ آئے گا جس میں وہ جاہ و حشمت اور ساکھ نہیں رہے گی جو ایک دفعہ قائم ہو چکی تھی تو آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس سچائی سے یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی۔ باوجود اس کے کہ اسلامی حکومتیں تو ہیں لیکن اپنا امتیاز اور اپنی ساکھ گنوا بیٹھے ہیں۔ آج ہر چیز ہم غیروں سے لینے کے محتاج ہیں۔ ہمارے اپنے وسائل غیروں کے تصرف میں ہیں۔ تیل نکالنا ہو یا کسی دولت سے فائدہ اٹھانا ہو جب تک ہم غیروں کی طرف نہ دیکھیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ تو ہے دنیوی حالت۔ اور دین کا کیا حال ہے ؟وہ دین کہ نام نہاد علماء نے اس دین کو بگاڑ کر اس میں بدعات پیدا کر دی ہیں۔ آج کا اسلام وہ اسلام نہیں رہا جو آنحضرت اکا اسلام تھا۔ وہ اسلام جو آنحضرت  الے کر آئے تھے اور وہ اسلام جو آج کل کے نام نہاد علماء پیش کررہے ہیں اس میں مشرقَین کی دوری ہے۔ جذبہ ایمان کے اظہار بیشک کئے جاتے ہیں لیکن عمل اس سے کوسوں دور ہیں۔ جہاد کے نام کی غلط تشریح کر کے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور پھر نام نہاد جہاد کے ہتھیاروں کے لئے مسلمان پھرغیر مسلموں کے محتاج ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہتھیاروں کے جہاد یا جنگوں کی اجازت دی ہوتی تو مسلمانوں کو ہتھیاروں کے معاملے میں غیروں کا محتاج نہ کرتا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 190 مطبوعہ ربوہ)

                پس دین کے لئے اب اگر کوئی ہتھیار اٹھائے گا کیونکہ آج کل کی دین کے نام پر جنگیں تو عموماً غیر مسلم بھی نہیں کرتے۔ اس لئے دین کے نام پر اگرہتھیار اٹھاؤ گے تو ہزیمت اٹھاؤ گے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ جہاد کے نام اور اسلام کے نام پر جہاد کا اس قدر غلط استعمال کیا جارہا ہے جس سے ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ اسلام وہ خوبصورت مذہب ہے جس کو دفاعی جنگ کی اجازت بھی اس لئے ملی تھی کہ اگر اب کفار کے ہاتھ کو نہ روکا تو نہ کوئی گرجا سلامت رہے گا، نہ یہودیوں کی عبادت گاہیں سلامت رہیں گی، نہ کوئی اور معبد سلامت رہے گا،نہ مساجد سلامت رہیں گی لیکن یہ جہادی ایسے جہادی ہیں جو خدا کے نام پر خدا کے گھروں میں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کررہے ہیں۔ کلمہ گوؤں کو بلا امتیاز قتل کرتے چلے جارہے ہیں۔آنحضرت انے تو فرمایا تھا کہ باقاعدہ جنگ کی صورت میں بھی کسی بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، کسی عورت کو قتل نہیں کرنا ، کسی بچے کو قتل نہیں کرنا، پادریوں ، راہبوں کو جو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت میںمصروف ہیں اور اس کی تلقین کرتے ہیں انہیں کچھ نہیں کہنا۔ قومی دولت ،درختوں وغیرہ کو برباد نہیں کرنا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی دعاء المشرکین حدیث 2613-2614)(مسند احمد بن حنبل جلد 1 مسند

عبد اللہ بن عباسؓ صفحہ 768 حدیث نمبر 2728 عالم الکتب بیروت 1998ء)(مؤطا امام مالک کتاب الجھاد باب النھی عن قتل النساء و الولدان فی الغزو حدیث 982)

               لیکن آج کے جہادی تو اپنے ہم قوموں اور کلمہ پڑھنے والوں کے ساتھ وہ بہیمانہ اور ظالمانہ سلوک کرتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر بھی اور سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر خدا اور رسول  ا کے نام پر۔ یقینا اس بات پر اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی مول لے کر اس کی پکڑ میں آئیں گے اور آرہے ہیں ۔ اور صرف دہشتگرد تنظیمیں ہی نہیں جن کی عموماً ہر جگہ مذمت کی جاتی ہے بلکہ احمدیوں پر توخاص طور پر اس قسم کے ظلموں کو روا رکھنے کی مخالف احمدیت علماء بھی اجازت دیتے ہیں۔ اور نہ صرف علماء بلکہ بعض حکومتیں اس ظلم میں ملوث ہیں اور ظالموں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ کیا یہ یُسر کا وہ دور ہے جس کی خدا تعالیٰ نے آنحضرت ا کو اطلاع دی تھی کہ آج اگر مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے تو کل مسلمان بھی یہی ظلم طاقت حاصل کرنے پر کریں گے؟ یقینا نہیں۔ یقینا نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ وہ مکّی دورعُسر کا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ  نے یسر کے حالات پیدا کئے اور پھر ایک زمانہ کے بعدعُسر کا دور دوبارہ آیا جس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے یُسر کی پیشگوئی فرمائی ہے۔ اور وہ یُسر کا دور دینی ترقی کے لحاظ سے مسیح موعود کی بعثت کے بعد شروع ہونا تھا اور ہو گیا ہے۔ لیکن جو مسیح موعود کو نہ ماننے والے ہیں وہ ابھی بھی اندھیروں میں بھٹکنے والے ہیں اور مسیح موعود کے ماننے والوں پر تنگی وارد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اسی کوشش میں دن رات مصروف ہیں کہ کس طرح اور کس طریقے سے ان پر تنگیاں وارد کی جائیں۔ اس سے بڑا امت کے لئے اور کیا المیہ ہو گا کہ جن اندھیروں سے نکالنے اور مسلمانوں کی ساکھ دوبارہ قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھیجا ہے، مسلمان اس مسیح موعود کی جماعت پر ہی ظلم کر کے اپنے عُسر کی حالت کو لمبا کرتے چلے جارہے ہیں۔ مخالفین احمدیت تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیوں پر یہ تنگیاں وارد کررہے ہیں۔ احمدیوں پر تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہر تنگی کے بعد کامیابیوں کے دروازے کھولتا چلا جارہا ہے۔ ہر مخالفت اور ظلم اور بربریت جو مخالفین اپنے زعم میں احمدیت ختم کرنے کے لئے کرتے ہیں ایسی ہر مخالفت کے بعد جماعت ترقی کی ایک اور سیڑھی پر قدم رکھتی ہے۔ اور مخالفین پر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اپنی ناراضگی کا ضرور اظہار فرماتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ پھر بھی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور نام نہاد مذہبی جبّہ پوشوں کے ہاتھوں کھلونا بنتے چلے جارہے ہیں۔ عامۃ المسلمین میں سے کوئی اپنی عقل سے کام لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’ خدا تعالیٰ ہمارے مخالف علماء کے حال پر رحم فرماوے کہ وہ جو کارروائی کررہے ہیں وہ دین کے لئے اچھا نہیں بلکہ نہایت خطرناک ہے۔ وہ زمانہ ان کو بھول گیا جب وہ منبروں پر چڑھ چڑھ کر تیرھویں صدی کی مذمت کرتے تھے کہ اس صدی میں اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے اور آیتفَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا اِنَّ مَعَ العُسۡرِ یُسۡرًاپڑھ کر اس سے استدلال کیا کرتے تھے کہ اس عُسر کے مقابلے پر چودھویں صدی یُسر کی آئے گی۔ لیکن جب انتظار کرتے کرتے چودھویں صدی آگئی اور عین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص بدعویٰ مسیح موعود پیدا ہو گیا اور نشان ظاہر ہوئے اور زمین و آسمان نے گواہی دی تو اوّل المنکرین یہی علماء ہو گئے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 327 حاشیہ)

               پس علماء کا طریق اور رویہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت سے شروع ہو کر اب تک یہی ہے۔ اب تو یہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ کسی مسیح موعود کے آنے کی ضرورت نہیں۔اور ہم جو رہنما ہیںہم ہی کافی ہیں یعنی یہ نام نہاد علماء۔ جن کو خدا تعالیٰ رہنما بنائے اصل رہنما وہی ہوتے ہیں نہ کہ خود ساختہ رہنما ورنہ دنیا داری کی عقل تو ایسے جاہلانہ بیان دلواتی ہے جس سے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں خدائی رہنمائی کے نور کا کوئی بھی حصہ نہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری۔ ایک بڑے سکالر کہلانے والے ،ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ہے ان کے پاس، بہرحال ڈاکٹر کہلاتے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر بھی ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں۔ ان کے بارہ میں اخبار میں ایک خبر آئی۔ انہوں نے ایک بیان دیا کہ اگر صدر اوباما گراؤنڈ زیرو پر دو رکعت عید کی نماز پڑھ لے کیونکہ آج کل گراؤنڈ زیرو کی جوcontroversy ہے جومسئلہ ہے بڑا چل رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر گراؤنڈ زیرو پر مسلمانوں کے ساتھ دو رکعت پڑھ لیں تو مسلم اُمّہ ان کو خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین تسلیم کر لے گی۔ جو بھی سوچ ہو اور جس سیاق و سباق کے ساتھ بھی انہوں نے یہ بیان دیا ہے ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے کہ ان مومنین کی فراست کا یہ حال ہے؟ایسے مومنین پر ایسا ہی خلیفۃ المسلمین ہو نا چاہئے ۔ امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کے لئے یہ کس قسم کے معیار انہوں نے بنا لئے ہیں اور کس قسم کے معیار رکھ کر یہ بنانا چاہتے ہیں۔ پس مسیح موعود کو نہ مان کر ان کی آنکھ بھی ہر معاملے کو دنیا کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندھیروں کی کیا کیفیت ہو چکی ہے۔ اور کہتے یہ ہیں کہ ہمیں اب کسی مسیح و مہدی کی ضرورت نہیںرہی ۔ اللہ تعالیٰ ان کی حالتوں پر رحم کرے۔

                پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ:

               ’’ اسلام نے بڑے بڑے مصائب کے دن گزارے ہیں۔ اب اس کا خزاں گزر چکا ہے اور اب اس کے واسطے موسم بہار ہے۔ اِنَّ مَعَ العُسۡرِ یُسۡرًا تنگی کے بعد فراخی آیا کرتی ہے مگر مُلّاں لوگ نہیں چاہتے کہ اسلام اب بھی سر سبزی اختیار کرے۔‘‘          (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 165 مطبوعہ ربوہ)

               پس مسیح موعود کے آنے سے اسلام پر تنگی کا دور گزر گیا ہے۔مسیح الزمان نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو روشن کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ تمام تر روکوں کے باوجود جو اپنوں اور غیروں کی طرف سے کھڑی کی جارہی ہیں احمدیت کا قافلہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والے آنحضرت ا کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔ اور مسلمانوں میں سے بھی سعید فطرت امام الزمان کے ہاتھ پر جمع ہو کر اس اسلام کی تعلیم کو اپنا رہے ہیں جو فرقوں کی تفریق سے آزاد قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اپنے اوپر لاگو کی تھی اور جو حقیقی اسلام کی تعلیم ہے۔ یہ احمدی مسلمان وہ نمونے دکھا رہے ہیں جن کے عملی نمونے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ہمارے سامنے رکھے تھے جنہوں نے قربانیاں دیں اور جانوں کی قربانیاں دیں اور اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھا۔جنہوں نے عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی کوشش کی اور جان اور مال کو بھی خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے بے دریغ خرچ کیا۔ جنہوں نے خدا اور اس کے رسول کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔

               پس آج احمدی ہیں جو اس عملی نمونے کی تصویر ہیں جو حضرت محمد مصطفی  ا کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے نہ صرف تیار ہیں بلکہ دے رہے ہیں۔ یہ نمونے ہمیں ہر اس مسلمان ملک میں نظر آتے ہیں جہاں احمدیت کے مخالفین احمدیت کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کے نام پر زہر بھر رہے ہیں۔ یا بعض حکومتیں ہیں جو اپنے غلط مفادات کے حصول کے لئے ان غلط حرکات کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔لیکن یہ سب تنگیاں احمدیوں کو ان قربانیوں کی یاد دلا دیتی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے دکھائی تھیں۔ آنحضرت ا کے زمانے میںعُسر بھی تھا اور یُسر کی پیشگوئی بھی تھی اور اس پیشگوئی کو دنیا نے دیکھا بھی ۔ مدینہ آکر بھی یہ تنگی کا دور ختم نہیں ہو گیا۔ مخالفتوں اور فتنوں کا دور ختم نہیں ہو گیا۔مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسیں گئیں۔ دھوکے سے شہید کئے گئے۔بیئر معونہ کا مشہور واقعہ ہے جب ستر صحابہ کو جو حفاظ تھے دھوکے سے ایک قبیلے نے شہید کیا ۔ایک واقعہ رجیع کے نام سے مشہور ہے اس میں بھی دس صحابہ کو دھوکے سے شہید کیا گیا اور روایات کے مطابق ان دونوں واقعات کی اطلاع ایک ہی وقت میں آنحضرت  ا کو ہوئی(شرح علامہ زرقانی علیٰ المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 476’’بعث الرجیع‘‘ ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) جس سے آپ کو شدید غم پہنچا(شرح علامہ زرقانی علیٰ المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 503’’بئر معونۃ‘‘ ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)  اور روایات کے مطابق آپ تیس دن تک ان ظالموں کے خلاف صبح کی نماز کے قیام میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے آقا! تُو ہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جو تیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔(بحوالہ سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم۔ اے صفحہ 521)۔ تو تنگی اور آسانی کا دور ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ اگر مسلمانوں کے خون بہتے رہے تو نئے شامل ہونے والے اسلام میں مضبوطی پیدا کرتے رہے اور ہر تنگی کے بعد ایک بڑی کامیابی مسلمانوں کی تقدیر بنتی رہی۔ اب آنحضرت  ا کے غلام صادق اور عاشق صادق کی صورت میں آپ کی بعثت ثانی میں بھی یہی وعدے پورے ہونے ہیں اور آپ کی بعثت ثانی یہی وعدے لے کر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر تنگی کے بعد کامیابی مقدر ہونے کا جووعدہ دو مرتبہ فرمایا ہے وہ اس لئے ہے کہ جو نظارے دور اول والوں نے دیکھے تھے وہ آپ کی نشأۃ ثانیہ میں بھی ظاہر ہوں گے۔ نام نہاد مولوی چاہیں یا نہ چاہیں اسلام کی سرسبزی کا دور مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اور آپ کی جماعت کے ساتھ مقدر ہے۔ اگر دشمن کی طرف سے تنگیاں وارد کی جاتی ہیں تو کامیابیاں بھی پہلے سے بڑھ کر اپنی شان کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہیں۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔1883ء میں ابھی آپ نے بیعت بھی نہیں لی تھی بلکہ دعویٰ بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا بَعۡدَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا یعنی تنگی تو ہے لیکن تھوڑی۔ اس کے بعد فراخی بھی ہے، کامیابیاں بھی مقدر ہیں۔ یہ تفسیری ترجمہ مَیں نے اس لئے کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ عربی دانوں کے نزدیک اَلۡعُسۡر کہہ کر تنگی کو محدود کیا گیا ہے اور یُسر کو اس پابندی سے آزاد کر کے وسعت دی گئی ہے۔ یعنی تنگیاں تو ہیں، مشکلات میں سے گزرنا تو پڑے گا لیکن ہر مشکل، ہر تنگی بے شمار کامیابیوں کا مقدر بن کر آئے گی اور یہی الہٰی جماعتوں کا خاصہ ہے اور جس دین کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے اور تمام نشانیاں بھی ہم پوری ہوتے دیکھتے ہیں اور ترقی کے قدم بھی آگے بڑھ رہے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ اس بات پر علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں کہ مخالفین اور علماء کی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔ افراد کی جانیں قربان کرنے سے قومیں تباہ نہیں ہوا کرتیں بلکہ جب جذبے اور جوش اور عزم کے ساتھ  قربانی کرنے کے عہد کئے جائیں اور جانیں قربان کی جائیں تو وہ قوموں اور جماعت کی زندگیوں کو لمبا کرتی ہیں، ان کی طاقت کو مضبوط کرتی ہیں اور جب خدا تعالیٰ کے وعدے ان قربانیوں اور ان عزموں کو روشن تر کر کے ایمانوں کو مضبوط کررہے ہوں تو پھر قربانیاں اور تنگیاں بالکل معمولی لگتی ہیں اور ترقیاں ایک نئی شان کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا اور مختلف انداز میں مختلف موقعوں پر فرمایا ہے۔ دعویٰ سے بہت پہلے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کو تسلیاں دی ہیں اور دیتا رہا کہ مَیں جس کام کے لئے تمہیں کھڑا کرنے والا ہوں وہ چاہے جیسا بھی مشکل کام ہو مَیں تمہارے ساتھ ہوں اور فتح اور غلبہ تم دیکھو گے۔ ایک موقعہ پر اس آیت کے الفاظ میںجیسا کہ آیت ہے الہاماً بھی آپ کو فرمایا کہ ’’اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُبِیۡناً لِیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَ مَا تَأَخَّرَ‘‘  اس کی وضاحت میں براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں: ’’ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے اور درمیان میں جو بعض مکروہات اور شدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرماوے۔ یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام مد نظرہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہو جاتی لیکن تکالیف اس جہت سے ہیں کہ وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطایا ہوں۔‘‘ فرمایا:’’ آج اس موقعہ کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا‘‘ (جب  براہین احمدیہ لکھ رہے تھے  تو)

’ ’بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دئیے گئے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے۔ پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اس عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے

سپہ سالار اور مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں‘‘ (یعنی کہ دائیں اور بائیں میں) ’’حجۃ اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔‘‘

(براہین احمدیہ چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 615 بقیہ حاشیہ نمبر 3)

               پس ہمیں تو ان خوشخبریوں کی روشنی میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ مخالفین احمدیت کی طرف سے جو تنگیاں ہم پر وارد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے جماعت احمدیہ کو کوئی نقصان پہنچ سکے گا۔دشمنوں کے مکروں کا ناکام ہونا یا جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کا حاصل نہ ہونا یہ فتح کی نشانی ہے اورفتح کی طرف لے جانے والی نشانیوں کی رہنمائی کررہی ہے۔ لیکن فتح کا نقارہ کیا ہے؟ وہ تو جیساکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے  ایک عظیم الشان فتح ہو گی اور وہ جو دنیا کو نظر آئے گا، وہ بجے گا اور وہ ضرور بجے گا۔ دشمن جو وقتاً فوقتاً احمدیوں کو تکالیف پہنچاتے ہیں چاہے وہ مصر میں ہیں یا انڈونیشیا میں ہیں، ملیشیا میں ہیں یا سری لنکا میں ہیں، ہندوستان میں ہیں یا بنگلہ دیش میں یا پاکستان میں، ابھی گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں ہماری ایک چھوٹی سی جماعت جو ایک دور دراز کے قصبے میں ہے جس کا نام چاند تارا  ہے وہاں کی مسجد کو وسیع کر رہے تھے تومسجد کی تعمیر کے دوران بلوائیوں نے جن میں مولوی شامل تھے نہ صرف یہ کہ حملہ کرکے لوگوں کو  زخمی کیا بلکہ مسجد بھی گرا دی۔احمدیوں کے گھروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ان غریبوںکے سامانوں کو جلا دیا۔ مردوں کو شدید زخمی کیا جیسا کہ مَیں نے کہا۔ جب ہمارا وفد ڈھاکہ مرکز سے وہاں گیا تو جب عورتوں سے حال احوال پوچھا جارہا تھا، عورتیں عموماً توکمزور ہوتی ہیں لیکن ایک عورت نے ہنس کر کہا یہ چاہے جتنا بھی نقصان پہنچا لیں ہمارا ایمان نہیں چھین سکتے۔اس عورت کو صدمہ تھا جس کی وجہ سے وہ روئی بھی کہ ہم ابھی مسجد کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ ہمارے کام کچھ رک گئے ہیں۔اور پاکستان کا جہاں تک سوال ہے وہاں تو ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ لگتا ہے ان لوگوں کا خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں پر معمولی سا بھی ایمان نہیں۔ اگر ایمان ہوتا تو خدا تعالیٰ کے نام پر یہ ظلم روا نہ رکھتے۔گزشتہ رمضان کی اگر شامل کریں تو رمضان سے اب تک ننانوے شہادتیں ہو چکی ہیں۔ اور چھیاسی شہادتیں تو ظالموں نے ایک دن میں کی ہیں۔ ان ظالموں کے خیال میں احمدی کا خون اتنا ارزاں ہے کہ جس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ اور ان کے خیال میں نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بھی اس خون کے بہنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن ان خون بہانے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے خون کے ہر ہر قطرے کا حساب لے گا اور ضرور لے گا۔ اور اس خون کے ہر قطرے کو قبول کر کے اس طرح نوازے گا اور نواز رہا ہے کہ جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدے فَتۡحًا مُّبِیۡنًا کے ہر دم قریب تر لے جاتے چلے جارہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا جو تعارف لاہور کے واقعہ کے بعد دنیا میں ہوا ہے۔ تعارف تو شاید پہلے بھی تھا لیکن توجہ نہیں تھی، تو جو توجہ جماعت کی طرف ہوئی ہے وہ توجہ اور تعارف کروانے میں اگر ہم پہلے اپنے وسائل کے ذریعہ سے کرتے رہتے تو شاید کئی دہائیاں لگ جاتیں۔ پس اللہ تعالیٰ  کے وعدے کے مطابق ان شہداء نے نہ صرف شہادت کا رتبہ پاکر اگلے جہان میں ہمیشہ کی زندگی پالی ہے بلکہ اس دنیا میں بھی اپنی جان کی قربانی دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ پیغام تو اللہ تعالیٰ نے پہنچانا ہے اور پہنچا رہا ہے اور پہنچائے گا لیکن ذرائع اللہ تعالیٰ بناتا ہے۔ تو ان شہداء کو بھی اس پیغام کو پہنچانے کاایک بڑا تیز ذریعہ بنا دیا ۔ پس خوش قسمت ہیں یہ قربانیاں کرنے والے ۔ پاکستان میں آج کل درجنوں غیر از جماعت دوسرے مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی دہشتگردوں کے ظلم کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںاور کئی معصوم جانیں ضائع ہو رہی ہیں، بچے یتیم ہورہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، بوڑھے ماں باپ اپنے جوان بچوں کے سہاروں سے محروم ہورہے ہیں لیکن نہ ان مرنے والوں کو پتہ ہے کہ ہمیں کیوں مارا گیا ہے نہ ان کے لواحقین کو پتہ ہے کہ ہمارے پیاروں کو کیوں مارا گیا ہے اور کیوں مارا جا رہا ہے۔ لیکن ہر احمدی پاکستان میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پھر رہا ہے اور جانتا ہے کہ اگر میری جان جائے گی تو ایک عظیم مقصد کے لئے جائے گی۔ اور شہداء کے لواحقین ، بچے، بیوائیں، ماں باپ جانتے ہیں کہ ہمارے پیاروں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ایک عظیم مقصد کے لئے دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ اور جہاں انہوں نے جان کے نذرانے دے کر اپنی زندگی ابدی کر لی وہاں پیچھے رہنے والوں کے بھی سر فخر سے اونچے کر دئیے ہیں ۔ مجھے اس مضمون کے کئی خط آئے ہیں، آتے ہیں اور اکثر آرہے ہیںکہ ہمیں تو علم ہی نہیں تھا کہ ہمارے پیارے ہم سے جدا ہونے والے ہمارے مقام کو بھی کتنا بڑھا گئے ہیں۔اور یہ تو ذاتی فائدے ہیں لیکن جو جماعتی فائدے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ، جن میں احمدیوں کے ایمان کی مضبوطی بھی شامل ہے اس مضمون کے بھی کئی خط مجھے آتے ہیں کہ ان قربانیوں سے ہمارے خوف دور ہو گئے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے۔ پہلے جو سستیاں تھیں ان کو دور کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا جماعتی تبلیغ کے میدان تو مزید کھلے ہی ہیں۔پس گو ہمارے شہداء نے بہت بڑی قربانی دی لیکن اس قربانی کے پیچھے جس عظیم انقلاب کی تاریں ہل رہی ہیں وہ آج کے دن ہمیں اس طرف متوجہ کررہی ہیں کہ حقیقی عید تو اس دن آئے گی جب ان قربانیوں کے صدقے لوگ اپنے اندر ،دنیا اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے گی۔ جب دنیا حضرت محمد مصطفی  ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو گی۔ یہ احمدیوں پر تنگ حالات بتا رہے ہیں کہ عُسر کی حالت ہے جس کے پیچھے مسیح محمدی سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جو یُسر کے حالات پیدا ہونے ہیں ان میں ان قربانیوں کے روشن باب رقم ہوں گے۔انشاء اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان فتح کا نقارہ بجے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے وعدہ فرمایا ہے۔ آئندہ جب احمدیت اور حقیقی اسلام کی فتح کی خوشی منائی جائے گی یا فتح کی خوشی میں عید منائی جائے گی تو شہدائے احمدیت کو تاریخ یاد رکھے گی، ہمیشہ یاد رکھے گی۔ دنیا کو بتایا جائے گا کہ آج جو تم فتح کی خوشیاں اور عید منا رہے ہو یہ ان قربانیوں کی مرہون منت ہیں جو شہداء نے اپنے خون بہا کر دیں۔پس دشمن سمجھتا ہے کہ احمدی کا خون ارزاں ہے۔ یہ خون تو ہر دن اپنی قیمت بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔قرونِ اولیٰ کے شہداء کی قربانیوں کو تاریخ نے آج تک نہیں بھلایا تو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والوں کی قربانیوں کو بھی تاریخ کبھی نہیں بھلائے گی۔ پس شہیدوں کے بیوی بچے ، ماں باپ، بھائی بہن بلکہ ہم سب کو اس بات پر اپنے پیارے شہداء کا شکر گزار ہوتے ہوئے عید منانی چاہئے کہ انہوں نے زمانے کے امام کی فکروں کو دور کرتے ہوئے جہاں اپنے خون سے جماعت کی تاریخ رقم کی ہے وہاں ہمیں عید منانے کے نئے اسلوب بھی سکھا گئے ہیں۔

                چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں نفس کی پاکیزگی کی خاطر ہم رمضان میں جائز چیزوں کی قربانی دیتے ہیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہم عید مناتے ہیں وہاں ہم میں سے ایسے بھی ہیں جورمضان میں اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر جنتوں کی بشارت پا کر حقیقی عید منانے والے بن گئے ہیں۔اور اس مقام کو پا گئے ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے۔ گو پیچھے رہنے والوں کے لئے یہ بڑی تکلیف دہ صورتحال ہے۔اپنوں کا غم تو بھلایا ہی نہیں جا سکتا اور جب کوئی ظاہری خوشی کا موقعہ آئے، جب عیدیں آئیں تو یہ جدائی کا غم زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور اس سال تو جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ پچھلے رمضان سے اب تک 97شہادتیں ہوئی ہیں۔ کئی بیوائیں ہیں جو اپنی عدت کا عرصہ پورا کررہی ہیں۔ اور عید کے باوجود ایک غم کی کیفیت میں ہیں۔ کئی بچے ہیں جو اس سال عید پر اپنے باپوں کی شفقت سے محروم ہیں ۔ کئی مائیں ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو سینے سے لگا کر عید مبارک دیا کرتی تھیں۔ لیکن اس سال ان کے مزاروں پر دعا کر کے اپنے دل کی ٹھنڈک کا سامان پیدا کریں گی۔ کئی باپ ہیں جو اپنے شہید بیٹوں کے سہارے عید پڑھنے جایا کرتے تھے اب کسی اور کے سہارے ان کی قبروں پر دعا کے لئے جارہے ہوں گے۔ یہ ایسی صورت ہے جو خونی رشتوں کو بلکہ قریبی دوستوں کو بھی آج بے چین کررہی ہے اور بے چین کررہی ہو گی۔ اور عید کی خوشی کی بجائے غم کی حالت پیدا کررہی ہو گی۔ لیکن اگر ہم سوچیں تو رمضان میں اور عید کے دن دنیا میں کتنی ہی موتیں واقعہ ہو جاتی ہیں اور صبر کرنا پڑتا ہے۔ان شہداء کی موت تو جماعت کو زندگی بخشنے کے لئے ہوئی ہے۔ ان شہداء نے تو اپنی جان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت  ا کے عاشق صادق تھے ان سے اپنی وفا کے عہد نبھاتے ہوئے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دی ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آج عید نہ منائیں۔ جب ہم عید منائیں گے اور اس عید کے دن دل کے غموں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے تو یہ دعائیں جہاں ان شہداء کے درجات مزید بلند کرنے کا باعث ہوں گی وہاں ہمارے لئے بھی تسکین کے سامان پیدا کریں گی۔عُسر کا عارضی دور یُسر کے وسیع دور میں تبدیل ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عید کے متعلق تمام الہامات ہمیں عید کی خوشیوں کی خبر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ تو سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ظاہری عیدوں کے سامان فرمائے ہیں وہ ہم نہ منائیں اور ان خوشیوں میں شامل نہ ہوں جو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے امام کے ساتھ وابستہ فرمائی ہیں۔ آپ کا ایک الہام ہے ’’آمدن عید مبارک بادت ۔عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 626ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ) پہلے فارسی حصے کا مطلب یہ ہے کہ عید کا آنا تیرے لئے مبارک ہو۔ پس عید کا آنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لئے مبارک ہے اور پھر آپ کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے لئے اور پھر امت مسلمہ کے لئے بھی مبارک ہو سکتا ہے اور ہے۔ امت مسلمہ کے لئے بھی حقیقی عید تبھی ہو گی جب وہ آپ؈ کو مان لیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے اور اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی ہے اور وہ بڑی دل کو لگتی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے عید کے سامان تو پیدا فرما دئیے، یُسر کے ساتھ جو کامیابیاں مقدر کی ہیں ان کے سامان تو ہو گئے۔ اب جو ماننے والے ہیں ان کے لئے تو یہ عید مبارک ہے جو نہیں مانتے وہ محروم ہیں۔اور پھر عید کے ساتھ فتح کی نوید سناتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلۡعِیۡدُ الۡآخرُ تَنَالُ مِنۡہُ فَتۡحًا عَظِیۡمًا (تذکرہ صفحہ 586ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ) یعنی ایک اور عید ہے جس میں تُو ایک بڑی فتح پائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوفتوحات کی خوشخبریاں دے رہا ہے اور خوشخبریاں بھی عید کے ساتھ اور عید کے حوالے سے دے رہا ہے تو پھر ہم کیوں نہ اپنے غموں کو بھول کر زمانے کے امام کے ساتھ عظیم تر خوشیوں میں شامل ہوں۔ ہمارے اس غم کی حالت میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر نکلے ہوئے آنسو ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضورتو بہتے ہیں لیکن دشمن پر اپنی کمزوری ظاہر نہیں کرتے۔ کوئی شکوہ اور شکایت نہیں کرتے۔یقینا یہ آنسو ہمیں فتوحات کے قریب تر کرنے کا باعث بنائیں گے۔

               جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پاکستان میں احمدیوں پر زندگی تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور جو ظلم ان پر ہو رہا ہے اور جس بہادری اور ثابت قدمی سے وہ اس کا مقابلہ کررہے ہیں یقینا تمام دنیا کے احمدیوں کو چاہئے اور یہ ان کا فرض ہے کہ ان کے لئے دعائیں کریں۔ تمام تر خوفوں کو سامنے دیکھنے کے باوجود جس جرأت سے وہ لوگ عید منا رہے ہیں اصل عید تو انہی کی ہے۔ شاید باہر کی دنیا کے ہر احمدی کو پتہ نہ ہو کہ دشمن کے جو خوفناک منصوبے ہیں اس کی ایک تازہ مثال مردان کی مسجد میں خود کش حملہ کر کے بڑی تباہی لانے کی کوشش تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور اس کو ہم نے یہاں دیکھ لیاکہ یہ لوگ کس طرح کی کوشش کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کا مسجدوں میں آنا یقینا ایک جرأت مندانہ کام ہے۔ اور جان کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنے کے عہد کی یہ ایک عملی شکل ہے۔ بہرحال مرد تو مسجد میں آتے ہیں لیکن عورتوں ، بچوں کو اس خطرے کے پیش نظر مسجد میں آنے اور ایک جگہ جمع ہونے سے آج کل روکا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے مجھے بعض عورتوں کے بے چینی  کے اظہار کے خط بھی آتے ہیں ۔ یہ شاید پہلا موقع ہے جب پاکستان میں عورتوں ، بچوں کو عید پڑھنے کے لئے ایک جگہ جمع ہونے سے کلیۃ ً  منع کردیا گیا ہے ۔ دشمن کے ظالمانہ منصوبوں کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا اور جس کی وجہ سے میں نے کہا کہ بچوں اور عورتوں میں شدید بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔ پس ان عورتوں اور بچوں کو میں کہتا ہوں کہ اگر دشمنوں کے ان منصوبوں کی وجہ سے تمہیں مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے اور عید گاہ میں جا کر عید پڑھنے سے روکا گیا ہے توتمہاری جانوں کی حفاظت کی خاطر منع کیا گیا ہے کیونکہ ظاہری اسباب اور احتیاطی تقاضے پورے کرنا بھی عقلاً اور شرعاً ضروری ہیں۔ اگر آپ لوگ مسجدوں اور عید گاہوں میں عید نہیں منا سکتے تو اپنے گھروں کو آہ و بکا اور گریہ و زاری سے تو بھر سکتے ہیں۔ پس اپنے گھروں کو آہ و بکا اورگریہ و زاری سے اس قدر بھر دیں کہ خدا تعالیٰ خود آپ کے دلوں کو تسلیاں دے کر کہے کہ میری بندیو! میرے بچو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا۔ اِنَّ مَعَ العُسۡرِ یُسۡرًا یقینا سچا ہے۔ پس یہ یُسر آئے گا اور یقینا آئے گا اور تمہاری تنگی اور گھٹاؤ کے دن یقینا فراخی اور کامیابی میں بدل کر مسیح موعود کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو سچا کر دکھائیں گے۔ پس تم اپنے خدا کے حضور جھکنے اور گڑگڑانے سے کبھی نہ تھکو۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک الہام یہ ہے کہ’’ لڑکے کہتے ہیں عید کل تو نہیں پر پرسوں ہے۔‘‘     (تذکرہ صفحہ161ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ)

               پس ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ حقیقی عید جس نے کل نہیں تو پرسوں تو آنا ہی آنا ہے وہ ہماری زندگیوں میں آجائے۔ ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے وہ وعدے آگے نہ ٹل جائیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو غلبہ عطا فرمانا ہے۔ جو فتح مبین ہو گی، کب ہو گی؟ یہ وہ بہتر جانتا ہے۔

                جرمنی جلسے پر ایک سیشن میں میرا جرمنوں سے بھی خطاب تھا۔جرمن غیر از جماعت، غیر مسلم جرمن آئے ہوئے تھے تو مَیں نے انہیں کہا کہ تم میری بات کو ایک دیوانے کی بڑ سمجھو گے لیکن ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ جو نظام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم فرمایا ہے، اسی نے اب دنیا میں رائج ہونا ہے اور کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے۔ لیکن پیار اور محبت سے،نہ حکومتوں پر قبضہ کر کے ،نہ دہشت گردی کر کے ،نہ معصوموں کو قتل کر کے، نہ کسی کی اقتصادیات پر قبضہ کر کے، نہ کسی کی زمین پر قبضہ کر کے ،نہ سیاسی جوڑ توڑ کر کے ۔ غرض کہ خالص ہو کر دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنی ہے۔ یہی ہمارا مقصود ہے اور یہ بڑ نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے گا اور جب دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم ہو گی تو وہی دن ہمارے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔ احمدی اگر شہید ہو رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں ، اپنے گھر بار چھوڑ کر گھر سے بے گھر ہورہے ہیںتو اس عید کے استقبال کے لئے جو جماعت احمدیہ کا مقدر ہے۔ جماعت احمدیہ پر یہ راتیں جو بظاہر نظر آرہی ہیں یہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قدر کی راتیں ہیں جو عید کی خوشیوں سے پہلے ہر رمضان میں بھی آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں اور فرستادوں کے زمانے میں بھی آتی ہیں۔ جس کی تفصیل میں اپنے خطبے میں بھی بیان کر چکا ہوں۔ یہی راتیں ہیں جو قبولیت کا درجہ پا کر انقلاب پیدا کر دیتی ہیں۔ اور ان کے بعد ایک عید نہیں بلکہ عیدوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہوا اگر آج پاکستان میں یا بعض اور جگہوں پر جماعت عُسر کے دور سے گزر رہی ہے۔جس دور سے یہ گزر رہی ہے یہ عُسر تو ہمیںیُسر اور فتوحات کے راستوں کی نشان دہی کررہا ہے۔ پس اس سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے صبر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد ،اس کی نصرت ، اس کا لقا مانگتے چلے جانا ہمارا کام ہے۔ ہمارے پیاروں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جن کی وجہ سے بظاہر گھروں میں ایک صدمے کی کیفیت ہے۔ اسی طرح عورتوں اور بچوں کو عید کی خوشیوں میں شامل نہ ہونے کا جو غم ہے اس صدمے اور غم کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا لیں۔ یہ دعا کریں کہ ہمارا صبر اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں قابل قدر بن جائے۔ پھر دنیا دیکھے گی کہ قربانیوں اور شہیدوں کے خون کے رنگ لانے کا کیا مطلب ہے۔ آئیں آج ہم یہ دعا کریں کہ ہمارے صبر اور ہمارے حوصلے اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے بن جائیں ۔ اس کے فضلوں کی بارش کے پہلے سے بڑھ کر برسنے کا باعث بن جائیں اور خدا تعالیٰ ہمیں حقیقی عید کی خوشیاں، جو خدا تعالیٰ کی نظر میں حقیقی عید ہے، عطا فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی میں آپ سب کو آج عید کی مناسبت سے عید مبارک بھی دیتا ہوں۔ آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ کو بھی اور دنیائے احمدیت میں جہاں جہاں بھی جو احمدی خطبہ سن رہے ہیں یا نہیں بھی سن رہے سب کو بہت بہت عید مبارک ہو۔ اب ہم دعا کریں گے اور دعا میں شہدائے احمدیت کے درجات کی بلندی، ان کے پسماندگان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیک تمنائیں پوری فرمائے۔ حفاظت میں رکھے۔ پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ ان کے غم کو خوشیوں میں بدل دے۔ اسیرانِ راہ مولیٰ ہیں ان کی رہائی کے اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔مالی قربانیاں کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہاء برکت ڈالے۔ پاکستان میں آج کل افراد جماعت جو جماعت کی حفاظت کے لئے، جو جماعتی عمارات کی حفاظت کے لئے قربانی کررہے ہیں ان کے جان و مال کی حفاظت کے لئے بھی دعا کریں۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور دنیا کے احمدیوں کے لئے عموماً بہت دعا کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور اپنے لئے سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا خالص عبد بنا لے۔

               (خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کرائی۔ اس کے بعد فرمایا)

               ایک اعلان مَیں معذرت کے ساتھ یہ بھی کرنا چاہتا ہوں بلکہ معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ عموماً اس عید پر میں ہر ایک سے مصافحہ کرتا ہوں ۔ لیکن گزشتہ چار پانچ دن سے میری بازو میں بڑی شدید درد شروع ہوئی ہے۔ اور ڈاکٹر کا مشورہ بھی یہی ہے کہ مصافحہ نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ بڑی  strong pain killer کھا کر ابھی تک میں گزارا کررہا ہوں ۔اللہ کے فضل سے کام میں تو کوئی حرج نہیں آیا لیکن بہر حال میرا خیال ہے چار پانچ ہزار آدمیوں سے جب مصافحہ ہو گا تو کچھ نہ کچھ تکلیف شاید بڑھ جائے۔ اس لئے احتیاطاً بلکہ جو مجھے احساس ہے اس کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں اور ڈاکٹر کا بھی یہ مشورہ ہے کہ نہ کیا جائے تو یہ معذرت ہے۔ تاہم بہرحال تمام ہالوں میں جا کر میں سب کو عید مبارک ضرور کہوں گا ۔آپ سب کو عید مبارک ہو۔ جو جہاں بیٹھے ہوئے ہیں بیٹھے رہیں اور آپ لوگوں نے میرا خیال ہے کہ بیٹھنے کی مرضی سے یا کسی انتظامی معاملے کی وجہ سے بیٹھنا ہو تو بیٹھیں ویسے ضرورت نہیں ہے۔ اللہ سب کا حافظ ہو۔

السلام علیکم و رحمۃاللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں