خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍اکتوبر2007ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے حکم کے مطابق عید منا رہے ہیں۔ اس عید کو عید الفطر کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس خوشی میں منائی جا رہی ہے کہ ہم نے اللہ کے حکم سے رمضان کے مہینے کے جو روزے رکھے تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں، اپنے تقویٰ کو بڑھانے والے بن سکیں۔ اس مہینے کے پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ آج اس قربانی اور روزوں کے دنوں کے پورا ہونے پر خوشی مناؤ۔ ہر جائز کام جس سے تمہیں ایک معین وقت کے لئے روکا گیا تھا اسے کرو۔ تیار ہو، نئے کپڑے پہنو، خوشبو لگاؤ، کھاؤ لیکن اللہ کی یاد سے غافل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ شکرانے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ مسجد میں جمع ہو کر عید کی نماز پڑھو۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جو اس نے تم پر رمضان کی عبادت کی صورت میں اور قربانیوں کی صورت میں کئے ہیں، شکر ادا کرو۔

               پس یہ عید صرف اچھا پہننے اور اچھے کھانے کے لئے یا دوستوں کے ساتھ سیروں کے پروگرام اور پکنک منانے کے لئے نہیں بلکہ اس شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خوشی کا موقع فراہم کیا گیا ہے ۔ پس ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عید صرف کھیل کود، اچھا پہننا، اچھا کھانا اور دوستوں کی محفلوں سے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر ایک مہینہ کامل اطاعت سے ہر جائز بات کو بھی ایک مخصوص وقت کے لئے چھوڑنے اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہی اس کی اطاعت کرتے ہوئے تمام جائز کاموں کو دوبارہ شروع کرنے کا نام ہے۔ ہماری عیدیں ہمیں یہ توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ جن قربانیوں اور عبادتوں کے مزے ہم نے چکھے ہیں اور جس کی خوشی میں اللہ تعالیٰ نے آج ہمیں بیوی بچوں، عزیز رشتہ داروں، دوستوں اور افراد جماعت کے ساتھ مل کر خوشیاں منانے کا حکم اور موقع دیا ہے ان قربانیوں اور ان عبادتوں کو اب ہم دائمی کر لیں تا کہ اللہ کی طرف سے ہمارا ہر روز روز ِعید بن کر طلوع ہو نہ کہ سال کے بعد ایک دن کے لئے۔

                اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو احکامات دئیے ہیں ان کو باقاعدگی سے کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ جن میں غریبوں کا خیال رکھنا بھی ہے۔ ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی ہے۔ رشتے داروں سے حسن سلوک بھی ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا بھی ہے۔ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنا بھی ہے۔ یہ رمضان جس نے ہمیں بھوکا رہنے کی ٹریننگ دی ہے۔ یہ رمضان، یہ جو رمضان کے روزے تھے جن میں دوسروں کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ۔یہ روزے جن میں فدیہ، فطرانہ اور دوسرے مالی قربانیوں کے امور کی طرف توجہ دلائی۔ یہ روزے جن میں نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی، جن میں وقت پر فرض نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی، جن میں قرآن کریم کے دَور مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس کے بعد مہینہ گزرنے پر ایک خوشی کا دن منانے کا حکم دیا۔ یہ اس لئے ہے کہ تا کہ ہمیں سمجھ آئے کہ حقیقی خوشی اس وقت پہنچتی ہے جب ایک انسان ایسے عمل میں سے گزرتا ہے۔ غریبوں کی بھوک کا احساس تبھی ہوتا ہے جب خود بھوک برداشت کرے۔ فاقہ زدہ جو ہیں ان کی کمزوری کا احساس تبھی ہوتا ہے جب شام کو بھوک اور پیاس سے جسم میں کمزوری محسوس ہو۔ مَیں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو روزہ روزے کی نیّت سے رکھتے ہیں۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے رکھتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے جماعت کی اکثریت اس نیّت اور اس ارادے سے روزے رکھتی ہے۔ ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو صبح سحری کے وقت کھاتے ہیں تو شام تک ان کو کھانے کے ڈکار آتے رہتے ہیں اور افطاری اتنی کھا لیتے ہیں کہ صبح سحری کے وقت گھر والے مشکل سے ان کو اٹھاتے ہیں کہ اٹھو سحری کھا لو۔ نہ نفلوں کی ہوش،        نہ نمازوں کی ہوش، نہ قرآن پڑھنے کی ہوش۔

                حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ بیان کیا۔ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ بازار میں ایک دن چند ہندو دکاندار بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ تم میں سے کوئی ایک پاؤ تِل کھا لے تو میں اتنا انعام دوں گا۔ پانچ روپے یا کچھ انعام مقرر کیا تو وہاں سے ایک جاٹ زمیندار گزر رہا تھا۔ اس نے باتیں سنیں تو اس نے کہا ایک پاؤ تِل تو معمولی سی چیز ہیں۔ اس نے کہا پھلیوں سمیت کھانے ہیں یا صرف تِل ہی کھانے ہیں۔ پاؤ تِل تو کوئی چیز نہیں ہیں۔ اس نے سوچا اتنی بڑی شرط لگ رہی ہے، انعام مقرر ہو رہا ہے تو ضرور یہ پھلیوں سمیت کھانے ہوں گے۔ تو دکانداروں نے اسے جواب دیا۔ چوہدری صاحب! آپ جائیں۔ ہم آدمیوں کی بات کر رہے ہیں، آپ کی نہیں کر رہے۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 9 صفحہ 85-86)

تو میں بھی ان روزہ داروں کی بات کر رہا ہوں جو مومن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب پانے کے لئے روزے رکھتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ شکر ہے رمضان آیا، صبح شام اچھے کھانے کھانے کو ملیں گے۔ گھر والوں سے خاطریں کرواؤں گا۔ پس جو اللہ کی رضا کے حصول کے لئے روزے رکھتے ہیں انہیں پھر دوسروں کا بھی احساس ہوتا ہے اور رمضان ان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور یہ تبدیلیاں ان کو عید کی حقیقی خوشیاں مہیاکرنے والی ہوتی ہیں۔

               پس یہ عیدیں جو ہم مناتے ہیں یہ اس نیت سے منائی جانے والی عیدیں ہونی چاہئیں جن میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف توجہ رہے۔ خدا کی عبادت کی طرف توجہ رہے اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رہے۔ ہمیشہ یہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ کو قائم رکھنا ہمارا اصل مقصود ہے اور اس کا سبق ہمیں رمضان کے روزے بھی دیتے ہیں اور عیدیں بھی دیتی ہیں۔ دونوں ہمیں اطاعت کا سبق دیتے ہیں۔ ہم نے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے اور اطاعت کرتے ہوئے رکھے۔ آج ہم خوشی منا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے منا رہے ہیں۔ پس یہ اطاعت کا سبق اب ہماری زندگیوں کا حصہ بن جانا چاہئے۔ یہ اطاعت ہی ہے جس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام حاصل ہونا ہے۔ یہ اطاعت ہی ہے جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہے اور کر رہی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں حکم فرمایا ہے کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ(النور:53) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پس ہماری کامیابی، مقصد کے حصول کی ہماری کوشش اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اس کا تقویٰ اختیار کرنے میں ہے۔ پس جب تک ہم اس اصل کو سمجھتے ہوئے پکڑے رکھیں گے ہم اپنی زندگی کے مقصد پورے کرنے والے بنتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور اس کے احسانوں سے فیضیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ پس اس سبق کو کبھی کسی احمدی کو نہیں بھولنا چاہئے۔ لیکن صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم تقویٰ اختیار کرتے ہیں، ہم اطاعت کرتے ہیں، کافی نہیں ہے۔ اس کے حصول کے لئے جو ذرائع اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں وہ اختیار کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ کرے۔

               آج کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد ادا کرنے کے بارے میں جو حکم ہمیں فرمایا ہے وہ اس وقت بیان کروں گا کیونکہ آج ہم میں سے جو اس حق کی طرف توجہ نہیں کرے گا وہ حقیقی عید منانے والا نہیں ہے۔

                حقوق العباد کی ادائیگی کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’پس یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے۔ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی(المائدۃ:3)۔ کمزور بھائیوںکا بار اٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے‘‘۔(ملفوظات جلد 3 صفحہ 347۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پھر آپ فرماتے ہیں ’’پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبرگیری کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے۔ بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اُسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں‘‘۔(ملفوظات جلد 7صفحہ 279-280۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس بحیثیت جماعت ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنے میں سے کمزوروں کا خیال رکھیں اور یہ خیال اس وقت رکھا جا سکتا ہے جب افراد جماعت اس حقیقت کو سمجھیں اور یہ احساس اپنے اندر پیدا کریں کہ ہماری عیدیں اس وقت حقیقی عیدیں کہلانے والی ہوں گی جب ہم ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرنے والے ہوں گے۔ اب ہر احمدی دو سو میل جا کر تو کسی کی خبر نہیں لا سکتا۔ اس کو جانتا نہ ہو یا کسی دوسرے ملک کے بارے میں تو علم نہیں رکھ سکتا کہ کون کس حال میں ہے؟ یہ نظام جماعت ہی ہے جو بتا سکتا ہے کہ کہاں،کون، کس حال میں ہے؟ کتنی مدد کی ضرورت ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح عیدین اور مختلف مواقع پر مدد کی کوشش کی بھی جاتی ہے لیکن بہت جگہوں پر کمزوریاں ہو بھی جاتی ہیں۔ بہرحال جماعت کوشش کرتی ہے کہ مختلف جگہوں پر غریبوں کی مدد کی جائے۔ اس کے لئے جماعت میں مختلف قسم کی مدّیں ہیں۔ خلفاء مختلف وقت میں تحریکات بھی کرتے رہے اور وہ تحریکات آج بھی قائم ہیں۔

                آج ہم یہاں عید منا رہے ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کو علم نہیں کہ دنیا کس حال میں ہے۔ ہم اپنی تکلیفوں پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ اپنی کاروباری مشکلات پر پریشان ہو جاتے ہیں جو کہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں جن میں سے دنیا کی ایک بڑی آبادی گزر رہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر فضل ہے کہ اِلَّا مَاشآء اللّٰہ  احمدی اس بُرے حال میں نہیں جس میں دنیا ہے۔ بعض افراد ایسے حالات میں ہیں۔ ایسے حالات میں بعض خاندان بھی گزر رہے ہیں۔ لیکن جو بھی نظام جماعت کے علم میں آتا ہے یا جس کے بارے میں بھی کسی بھی ذریعہ سے میرے علم میں آتا ہے کہ فلاں شخص کے حالات خراب ہیں تو اس کی مدد کی جاتی ہے۔ یہ کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی سب کام ہوتے ہیں۔

                دنیا کی بدحالی کی میں نے بات کی ہے تو ذکر کر دوں گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک اندازے کے مطابق قریبًا آٹھ سو ملین یعنی اسّی کروڑ لوگ ہیں جو روزانہ بھوکے رہتے ہیں۔ پس احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس حالت سے بچے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت میں خلفاء کی مختلف تحریکات مختلف قسم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہیں۔ عید کی خوشیوں کو حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ان تحریکات میں حصہ لینا چاہئے تا کہ غریبوں کی ضرورتیں پوری ہوں۔ ایک تو فوری ضرورت کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر لوگ اپنے غریب بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ غریب ہمسایوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مٹھائیاں اور جو دوسری ضروریات ہیں لے کر جاتے ہیں ان کے گھروں میں۔ لیکن یہ عید کی فوری خوشیاں ہیں جن میں احمدی شامل ہوتے ہیں اور ہونا چاہئے۔ اگر کسی جگہ اس میں کمزوری ہے تو افراد جماعت کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔

               لیکن غریبوں کی بہت سی ضروریات ایسی ہیں جو عید کے علاوہ دنوں پر بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کا خیال رکھنے کے لئے صاحبِ حیثیت لوگوں کو میں خاص طور پر تحریک کرتا ہوں کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر باقی احمدی بھی جو بہتر حالت میں ہیں اور حسب توفیق مختلف مدّات میں تحریکات میں حصہ لے سکتے ہیں ان کو حصہ لینا چاہئے۔ مستقل نوعیت کی مدد اور غریبوں کا خیال رکھنے کی طرف جب ہم توجہ کریں گے تو یہ حقیقت میں ہماری حقیقی عیدوں کے منانے کی طرف توجہ ہو گی۔ پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک عارضی خوشی کا سامان کسی غریب کے لئے کر دیا ہے بلکہ مستقل خوشیوں کے سامان کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

                اپنے بچوں کو بھی احساس عید کے موقعوں پر یہ دلانا چاہئے کہ جو عیدی بڑوں کی طرف سے تمہیں ملتی ہے، بچوں کو بڑے عیدی دیتے ہیں اس میں سے غریبوں کے لئے بھی کچھ حصہ نکالو۔ صرف اپنا اور اپنے دوستوں کا ہی خیال نہ رکھو بلکہ ان ضرورتمندوں کا بھی خیال رکھو جو بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ صرف خود ہی سویّاں اور چاکلیٹ اور برگر یا نینڈوز(Nando’s) وغیرہ کھانے کی طرف توجہ نہ دو اور اکیلے ہی خوشیاں نہ مناتے رہوکہ آج کا دن عید کا دن ہے اس لئے خوشی منا لیں۔بلکہ عید میں ان بچوں کو بھی شامل کرو جو بھوکے ننگے اور پیاسے ہیں۔ دنیا میں بہت سے امیر لوگ بھی ہیں، امیر حکومتیں بھی ہیں جن کے پاس خزانوں کے انبار ہیں لیکن غریب ملکوں میں غریبوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے۔ اور اس وقت تک نہیں کھلا سکتے جب تک ان کی شرطیں نہ مانی جائیں۔ جب تک غلامی کی زنجیروں میں ان کو نہ جکڑ لیں۔ لیکن ہم نے خود اپنے اندر بھی اور اپنے بچوں کے اندر بھی یہ احساس اُجاگر کرنا ہے کہ خدا کی رضا کے حصول کے لئے غریبوں کی مدد کرنی ہے، نہ کہ کسی ذاتی مفاد کے لئے۔ تمام دنیا میں قطع نظر اس کے کہ کسی کا کیا مذہب ہے ہم نے خدمت کرنی ہے۔ یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ اللہ کی مخلوق سے ہمدردی ہی اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ کام ہو رہا ہے۔

                جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا۔ ہماری ایک چیریٹی آرگنائزیشن ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First)  بھی ہے۔وہ انسانیت کی عمومی خدمت میں بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ باوجود کم وسائل کے تمام والنٹیئرز ایک جذبے کے تحت خدمت کر رہے ہیں۔ آجکل افریقہ کے مختلف ملکوں میں سیلاب آئے ہوئے ہیں۔ وہاں ایسے علاقوں میں جماعت کے جو کارکن ہیں یورپ سے گئے ہوئے ہیں۔ مثلاً جرمنی سے ایک ٹیم بینن گئی ہوئی ہے۔ لوگوں کو میڈیکل ایڈ(Medical Aid) اور دوسری اشیاء مہیا کر رہی ہے۔ جبکہ دوسری آرگنائزیشنز جن کے وسائل زیادہ ہیں اور بہت پرانی ہیں وہاں جانے سے انکار کر بیٹھی ہیں کہ ہم ان علاقوں میں نہیں جا سکتے۔ بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پہنچنا بھی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ لیکن غریبوں کی ہمدردی کے لئے ہمارے جوان اس کی بھی پرواہ نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اجر دے۔ یہ لوگ جب خط لکھتے ہیں، وہاں سے رپورٹ بھیجتے ہیں تو صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ ان کو اس خدمت میں جتنی خوشی پہنچ رہی ہے یہی وہ حقیقی خوشی ہے اور یہی وہ حقیقی عید ہے جس کے لئے ایک مومن مجاہدہ کرتا ہے اور اسے یہ مجاہدہ کرنا چاہئے۔ پس ہماری حقیقی خوشیاں اسی میں ہیں کہ خدمت انسانیت کریں۔

                ہیومینٹی فرسٹ جو ہے ایک رجسٹرڈ آرگنائزیشن ہے۔ اس میں احمدی بھی چندہ دیتے ہیں اور غیروں سے بھی وصول کر لیا جاتا ہے۔ اب دنیا کے تمام بڑے ممالک میں یہ رجسٹرڈ ہے بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا، جلسہ میں بتایا تھا کہ اقوام متحدہ نے بھی اس کے کام کو سراہتے ہوئے، تعریف کرتے ہوئے ان کا جو این۔جی۔اوز (NGO’s) کا متعلقہ شعبہ ہے اس میں بھی اس کو رجسٹر کر لیا ہے اور ہماری رپورٹ جب وہاں پڑھی گئی تھی تو پتا چلا کہ بعض بڑی بڑی آرگنائزیشن سے زیادہ ہیومینٹی فرسٹ نے کام کیا ہوا ہے۔ یہ اس لئے کہ احمدی ایک جذبے اور ایک سوچ سے کام کرتا ہے کہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنی ہے۔ اللہ کا قرب دلانے کا یہ ذریعہ ہے اور اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ احمدی اللہ تعالیٰ کے حکموں کی اطاعت اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے یہ سب خدمت کرتا ہے۔ احمدی یہ خدمت اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کرتے ہیں کہ  وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(الدھر:9) یعنی وہ کھانے کی چاہت ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو اس لئے کھلاتے ہیں کہ اللہ کا پیار حاصل کریں۔ اس کے حکم کی اطاعت کر کے اس کا قرب پانے والے بنیں۔ پس جو اس سوچ سے کام کرنے والے ہیں ان کا مقابلہ دوسرے کس طرح کر سکتے ہیں۔ ہم تو ایک ایک پائی جو خدمت خلق کے لئے ملتی ہے اسی کام کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ بعض والنٹیئرز تو دُوردراز جانے کے لئے اپنے کرائے بھی اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہوتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ رقم دوسروں کی مدد کے لئے خرچ ہو۔

                مجھے یاد ہے جب میں گھانا میں تھا اور ایک مغربی حکومت کا وہاں ان کی مدد کے لئے، غربت ختم کرنے کے لئے بہت بڑا پراجیکٹ تھا تو بے تحاشا انہوں نے عملہ رکھا ہوا تھا۔ یہاں کے لوگ یورپ سے وہاں گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں جنگل میں ان کے بڑے اچھے اچھے ایئر کنڈیشنڈ عارضی گھر بنائے ہوئے تھے۔ کاروں کی بڑی تعداد تھی۔ ساتھ ان کے بہت ساری گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک میرا واقف ہو گیا۔ تو اسے میں نے پوچھا کہ تمہارا انتظام بڑا وسیع ہے۔ اب تک تو تمہیں بڑے وسیع علاقے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دینا چاہئے تھا لیکن اس علاقے میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس نے جو مجھے حساب بتایا اور اس کا جو بجٹ تھا جو اس پراجیکٹ کے لئے منظور ہوا تھا وہ تقریباً اسّی پچاسی فیصد تو ان کا تنخواہوں اور سہولیات کی صورت میں ہی ان کے پاس واپس چلا جاتا تھا۔ تو میں نے یہ کہا کہ پھر اس سے فائدہ کیا ہوا؟ ان لوگوں کا، مقامی لوگوں کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تو تمہاری جیبیں بھر رہی ہیں۔ اس کا جواب یہی تھا کہ بس ہم اسی انتظار میں ہیں کہ مزید بجٹ ملے تو ہم کام کریں اور مزید بجٹ جب ملے گا تو پھر اسّی پچاسی فیصد دوبارہ ان کی جیبوں میں چلا جائے گا۔ اس وقت مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان کیا ہوا ایک واقعہ یاد آیا۔ انہوں نے لکھا کہ ایک عزیز نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک دوست تھا جو بڑا افسردہ بیٹھا تھا۔ اس دوست نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ امتحان قریب ہیں اور میں نے آجکل آجکل کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع کر دیا ہے اور پڑھائی نہیں کی یا تیاری نہیں کی اور آج میں نے اس وجہ سے اپنے آپ کو جرمانہ کر دیا ہے تا کہ میں پڑھائی کروں تو مجھے جرمانے کا افسوس ہے۔ اس نے کہا کہ جرمانہ کیا کیا ہے؟ کہنے لگا کہ دو آنے۔ اس زمانے میں دو آنے کی بڑی قیمت تھی۔ تو بہرحال اس عزیز نے پوچھا کہ کس کو دیا ہے؟ کسی غریب کو دیا ہو گا کہ چلو اس کی دعا تمہارے کام آ جائے گی۔ تو کہنے لگا کہ جرمانہ میں نے اپنے آپ کو اس طرح کیا ہے کہ دو آنے کی مٹھائی لے کرکھا لی ہے۔ تو افسوس اس بات پر ہے کہ دو آنے بھی ضائع ہو گئے اور دوسرے کا بھلا بھی نہ ہوا۔ کم از کم اپنے آپ کو جرمانہ کر کے اسے یہ افسوس تو ہوا تھا لیکن یہاں تو بڑے بڑے امدادی ادارے ایسے ہیں جو برفی بھی کھا جاتے ہیںا ور افسوس بھی نہیں ہوتا۔ حکومتوں کے لیول پر اگر دیکھیں تو دوسروں میں تو اکثریت کا یہی حال ہے۔ دوسری آرگنائزیشن میں بھی سوائے چند ایک لوگوں کے جن کی اپنی انفرادی کوششیں ہوتی ہیں اور واقعی وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔

                تو ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آنے کا ایک مقصد حقوق العباد کی ادائیگی بھی قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم عہد بیعت کو پورا کرتے ہوئے اس مقصد کی طرف توجہ کریں۔ آپؑ شرائط بیعت کی نویں شرط میں لکھتے ہیں کہ

               ’’عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

               ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 8 صفحہ 102۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس دوسروں سے ہمدردی، ان کے کام آنا، ان کی ضروریات پوری کرنا ہی ہے جو ہمیں خدا کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گی۔ اس لئے کبھی اسے معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے اور مدد بھی بغیر کسی فخر کے، کسی دکھاوے کے، کسی تصنّع کے، کسی تکبّر کے بغیر کرنی چاہئے۔ یہ سوچ ہو کہ اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ ہمیں اس نے غریبوں، ضرورتمندوں، بیماروں، لاچاروں کی مدد کا موقع دیا ہے۔ ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ ہم کسی کو دینے والے بنیں۔ اس سے شکر کے جذبات بڑھنے چاہئیں۔

                جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ خدمت خلق کے کاموں کے لئے بھی خلفاء کی مختلف تحریکات ہوتی رہی ہیں۔  اِس وقت مَیں ان کی طرف بھی کچھ توجہ دلانی چاہتا ہوں۔

                ان میں سے ایک یتامیٰ فنڈ ہے۔ اس سے جماعت سینکڑوں یتیموں کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال پرورش کرتی ہے جس میں ان کے لباس خوراک تعلیم شادیوں وغیرہ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہزاروں یتیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے استفادہ کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اور دنیا کے دوسرے غریب ممالک میں بھی۔ یتیموں کی پرورش کا اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ پس اس طرف بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

                پھر امداد مریضان کی ایک مدّ ہے۔ اس میں پاکستان میں تو باقاعدہ ایک طریق اور نظام رائج ہے جس کے تحت مریضوں کو جو ہسپتال میں آنے والے ہیں علاج سے مدد کی جاتی ہے۔ قادیان میں بھی اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی یہ رائج ہے۔ لیکن باقاعدہ قادیان اور ربوہ میں زیادہ ہے۔ دوائیاں اور علاج اب اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ غریب آدمی کی پہنچ سے یہ معاملہ بہت دُور ہو چکا ہے۔ بعض علاج اس لئے نہیں کرواتے کہ پیسے نہیں ہوتے۔ تو باوجود خواہش کے بعض دفعہ محدود وسائل کی وجہ سے ایسے مریضوں کی پوری طرح مدد نہیں کی جا سکتی۔ ایسے احباب جو مالی حالت میں بہتر ہیں، جن کو خود یا جن کے مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا دی ہے وہ مریضوں کی شفا یابی پر اپنی حیثیت کے مطابق اگر مریضوں کے لئے مدد کیا کریں تو ضرورتمند مریضوں کی جو بہت بڑی تعداد ہے ان کی مدد ہو سکتی ہے۔ بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے عورتیں گزرتی ہیں بڑا تکلیف دِہ مرحلہ ہوتا ہے اس شکرانے کے طور پر مریضوں کی مدد کا خیال آنا چاہئے۔ صرف مٹھائیاں کھانا کھلانا ہی کام نہ ہو۔

                پھر طلباء کی مدد ہے۔ یہ بھی ایک پرانی مدّ چل رہی ہے۔ یہ بھی بہت پرانی سکیم ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ بڑے عرصے سے جماعت میں رائج ہے۔ اب غریب ملکوں میں بھی تعلیم اتنی زیادہ مہنگی ہو چکی ہے کہ بعض دفعہ ایک اوسط درجے کے آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے جس کے بچے زیادہ ہوں۔ اگر طلباء اور ان کے والدین بچوں کے امتحان میں پاس ہونے پر کچھ شکرانے کے طور پر اس مدّ میں دیں تو کئی غریب ضرورتمندوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہاں اگر پاس ہونے والا ہر طالبعلم اپنے غریب بھائی طالبعلموں کے لئے دس پندرہ پونڈ سال میں دیں تو اتنی رقم کی شاید وہ یہاں مہینہ میں بازار سے کچھ چیزیں کھا لیتے ہوں گے لیکن غریب ملکوں میں ایک طالبعلم کا سال بھر کا کتابوں کا اور بعض دوسرے خرچے اس رقم سے پورے ہو جاتے ہیں۔ اور یہی حقیقی خوشی اور حقیقی عید ہے اور یہی ہمارے لئے حقیقی خوشی کا باعث بننی چاہئے۔ یہ احساس بچوں کے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ غریبوں کی ضرورتیں پوری کریں۔

               حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک مریم شادی فنڈ کی تھی۔ اس میں اگر باہر کے ممالک میں رہنے والے چندہ دیں تو کئی غریب بچیوں کی شادی میں مدد ہو جاتی ہے۔ شروع میں مختلف ممالک سے وعدے ہوئے جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی خدمت میں پیش کئے لیکن وہ ایک دفعہ پیش کر کے ختم ہو گئے۔ گو کہ جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے مدد کرتی رہتی ہے چاہے اس مدّ میں رقم ہو یا نہ ہو۔ لیکن پوری طرح پھر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اگر صاحبِ حیثیت اپنے بچوں کی شادیوں پر غریبوں کا خیال رکھیں تو جہاں اللہ تعالیٰ ان کو اللہ کی خاطر خرچ کرنے پر ثواب دے رہا ہو گا وہاں ان غریبوں کی دعاؤں سے ان کے اپنے بچوں کے گھروں میں بھی برکت پڑ رہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی احمدی ایسے ہیں جن کو اس بات کا احساس ہے اور جو اپنے ایک بچے کی شادی پر دس غریب بچیوں کی شادی کا خرچ اٹھاتے ہیں۔لیکن بعض فضول خرچ ہیں دو دو لاکھ روپے کا جوڑا بنا لیتے ہیں جبکہ اس رقم سے پانچ غریب بچیوں کا جہیز بن جاتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر اتنے قیمتی جوڑے بنانے کی اللہ تعالیٰ نے انہیں وسعت دی ہوئی ہے تو پھر غریبوں کو کم از کم ایک مہنگے جوڑے کے برابر تو دے دیں تا کہ وہ بھی غریبوں کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں اور غریبوں کی دعائیں لے سکیں۔ یہ اتنے مہنگے جوڑے جو ہیں یہ تو ایک دفعہ پہن کے یا دو دفعہ پہن کے ضائع ہو جاتے ہیں۔ کام نہیں آتے۔ لیکن غریب کی دعائیں اور اللہ کی رضا تو ہمیشہ ساتھ رہنے والی چیز ہے۔

               پھر بیوت الحمد سکیم ہے یہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے شروع فرمائی تھی جس سے شروع میں ربوہ میں سو گھر بنا کر غریب ضرورتمندوں کو دینے تھے۔ تو اللہ کے فضل سے یہ مکمل ہو گئی۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر لوگوں کے گھروں میں ان کو بڑھانے میں یا گنجائش کے مطابق کمرے بنانے کے لئے مدد دی گئی۔ قادیان میں بھی بیوت الحمد کے تحت گھر بنائے گئے ہیں۔ پھر پاکستان میں اور مختلف ملکوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا مکان بھی بنا کر دئیے گئے ہیں۔ مختلف جگہوں پر بھی مدد دی گئی ہے۔ تو یہ بھی ایک ایسی جائز اور انتہائی ضرورت ہے جس کی طرف احمدیوں کو اپنے غریب بھائیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے توجہ دینی چاہئے۔ کئی احمدی اللہ کے فضل سے جب اپنے گھر بناتے ہیں تو اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں۔ بعض نے اپنا بڑا قیمتی گھر بنایا تو بیوت الحمد کے ایک مکمل گھر کا خرچہ بھی ادا کیا۔ اگر تمام دنیاکے احمدیوںکو گھر خریدنے یا بنانے پر کچھ نہ کچھ اس مدّ میں دینے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو کئی ضرورتمند غریب بھائیوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔

                پس یہ چند مختلف سکیمیں ہیں جو غریبوں کی مدد کے لئے جماعت میں رائج ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ہماری حقیقی اور مستقل عید اس وقت ہو گی جب ہم سب مل کر ایک جماعت بن کر رہتے ہوئے، ایک دوسرے کا درد محسوس کرتے ہوئے، ایک دوسرے کی مدد پر کمربستہ رہیں گے۔ تبھی ہم حدیث کے مطابق وہ حقیقی مسلمان کہلا سکیں گے جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو ساتھ ہی دوسرے عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ پس یہ تکلیف کا احساس پیدا کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقی عید کی خوشیاں یقینا اُس وقت ہوں گی جب ہم مستقلاً ایک دوسرے کی خوشی کے سامان بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               اب دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ دعاؤں میں اپنے غریب، ضرورتمند، بیمار، لاچار بھائیوں کو یاد رکھیں۔ مریضوں کو یاد رکھیں۔ خدمت انسانیت اور خدمت دین کے جذبے سے خدمت کرنے والوں کو یاد رکھیں۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کو یاد رکھیں۔ تمام واقفین زندگی کو یاد رکھیں۔ شہداء کے خاندانوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو اور ان کو ہمیشہ صبر کی توفیق دیتا رہے اور ثبات قدم عطا فرمائے۔ کبھی کسی وجہ سے ان کو اپنی بیچارگی اور یتیمی کا احساس نہ ہو۔ اسیران کے لئے دعا کریں۔ اس وقت بھی بہت سارے احمدی ہیں جوکئی سالوں سے جیلوں میں صرف اس بات پر پڑے ہیں کہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ آنے والے  موعود مسیح کو ہم نے مان لیا۔ ان کی آزادی کے لئے اسیری سے باہر آنے کے لئے دعا کریں تا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ عیدیں منا سکیں۔ امّت مسلمہ کے لئے دعا کریں۔ اس وقت یہ لوگ بہت بری طرح دجل کے جال میں جکڑے گئے ہیں اور ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس طرف جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے تا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچان سکیں اور حقیقی عید کی خوشیاں منانے والے بن سکیں۔

                تمام دنیا کے احمدیوں کو اور آپ کو بھی مَیں عید مبارک دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ عید ہمارے لئے بے انتہا خوشیاں لے کر آئے اور ہمیں ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیار اور بھائی چارے کے تعلق کو قائم رکھنے والی بنائے رکھے۔

(خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: دعا کر لیں۔ اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروائی۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں