خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍اکتوبر2008ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے عید کا دن ہے جسے عید الفطر کہتے ہیں۔ عید کا لفظی مطلب تو یہ ہے کہ بار بار لوٹ کر آنے والی چیز۔ ہماری اسلامی اصطلاح میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم الاضحی کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی رمضان کے بعد جس دن ہم کھانے پینے اور خوشی منانے کے لئے آزاد ہوتے ہیں اور عید الاضحی وہ ہے جس کا تعلق حج اور قربانی کے ساتھ ہے اور اس کی خوشی مناتے ہیں۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کا دن ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الضحایا باب فی حبس لحوم الأضاحی حدیث نمبر 2813) اس لئے عموماً ہر خوشی کے موقع پر بھی یہ عید کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اردو محاورے میں بھی بولا جاتا ہے۔ کسی سے بہت خوشی پہنچے تو کہتے ہیں کہ تم نے ہماری عید کرا دی یا آج تو میری عید ہو گئی۔ تو بہرحال ہر ایک کو پتہ ہے یعنی ہر عاقل بالغ مسلمان کو پتہ ہے کہ یہ عید جو ہم مناتے ہیں یہ ہر سال میں دو دفعہ آتی ہے   اور ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ جو قربانی تم نے نفس کی، مال کی یا کسی بھی قسم کی دی ہے اللہ تعالیٰ تمہیں کہتا ہے کہ ان قربانیوں پر خوشی کا اظہار کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے۔ پس یہ عید بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی منائی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہی یہ عیدیں منائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی جہاں عید کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ مسلمانوں کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ عیسائیوں کے حوالے سے ہوا ہے۔ جیسا کہ آتا ہے  قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا(المائدۃ:115)۔ یعنی عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے اللہ ہمارے پر آسمان سے دستر خوان اتار جو ہمارے اوّلین اور آخرین کے لئے عید بن جائے۔

               تو یہ عید یہاں جو معنی استعمال ہو رہے ہیں بالکل اس سے مختلف ہیں جو میں نے پہلے بیان کئے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے قربانی کے بعد عید کرو۔ اس آیت کے سیاق و سباق کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ عید کسی قربانی کی وجہ سے نہیں مانگی جا رہی، نہ ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی قربانی کے عوض عطا ہو رہی ہے۔ پہلوں اور آخرین کے لئے رزق تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لیکن ساتھ ہی تنبیہ بھی فرما دی کہ اگر اس کے بعد ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہو گا۔ بلکہ اگر سارے مضمون پر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ اس لئے فرمائی ہے کہ اس عالم الغیب والشہادۃ کو پتہ تھا اس کے علم میں تھا کہ ناشکری اس قوم سے ہو گی اور پھر اس کے نتیجہ میں سزا بھی پائے گی۔ اور یہ ناشکری ہوتی ہمیں نظر بھی آ رہی ہے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ اس رزق کا جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے کس طرح غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔ تو یہ گمراہی بھی ایسی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ عذاب کی خبر دے رہا ہے۔ پس یہ عید ایسی نہیں جس کی ایک مومن خواہش کر سکتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اس کے لئے تم خوشی مناؤ بلکہ ایسی عید سے تو بچنے کی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میںغَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْن کہہ کر دعا سکھائی ہے۔ جسے ہم ہر نماز میں ہر رکعت میںپڑھتے ہیں۔

                ایک مومن کی عید تو وہ ہے جو بار بار آتی ہے لوٹ کر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشیوں کا پیغام لے کر آتی ہے۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ  کی دعا کی قبولیت کے نشان لے کر آتی ہے۔ دنیاوی رزق تو ختم ہونے والی چیز ہیں۔ ہمارے رزق تو نہ ختم ہونے والے اور دائمی رزق ہیں۔ یہ رزق حاصل کر کے تو ایک مومن ان نعمتوں کا وارث بنتا ہے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ یعنی اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان میں شامل ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا یعنی نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔

               پس حقیقی عید تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ ہو اور اللہ تعالیٰ کے انعامات ملتے ہیں اس کی اطاعت میں اور اس کے رسول کی اطاعت میں اور اس اطاعت کی وجہ سے ان انعامات کی انتہا اس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ملی جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر بھیجا۔ جن کا درجہ نبی کا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور غلامی کی وجہ سے۔ اور پھر آگے درجے ہیں جو مومن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اس معیار کی وجہ سے پا سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا معیار ہے۔

               پس یہ انعامات ہیں جو ایک احمدی کو دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہاں صرف عیسائیوں کی بات نہیں کہ ان کی عیدوں کاانجام جو ہے انذار کی صورت میں نظر آ رہا ہے بلکہ دوسریمسلمان فرقے بھی جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا اس بات کا انکار کر کے کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بھی کوئی نبی نہیں آ سکتا اپنے پر ان انعامات کے دروازوں کو بند کر رہے ہیں جو نبی کے بعد صدیق، شہید اور صالح کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ پس جن کو ان عبادتوں اور قربانیوں کے بعد بھی کچھ نہیں ملنا ان کی بھلا کیا عید ہو سکتی ہے؟

                آج حقیقی عید اگر ہے تو احمدیوں کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ان انعاموں کی امید رکھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنے سے مل سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

               ’’ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔ اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں‘‘۔ ہم اپنی ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار انعام چاہتے ہیں۔ یعنی ’’ نبیوں کا کمال۔ صدیقوں کا کمال۔ شہیدوں کا کمال۔ صلحاء کا کمال۔‘‘۔ یعنی یہ انعامات جو ہیں وہ اس لئے ہیں کہ ہمارے ایمانوں میں ترقی ہو اور انسانیت کی بھلائی ہو اور اس کی خدمت کا موقع ہمیں مل سکے۔ فرماتے ہیں کہ ’’سو نبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو‘‘۔ یعنی ایک تسلسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہو، غیب کی خبریں دیتا ہو۔ فرمایا ’’اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں‘‘۔(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ515-516)  اللہ تعالیٰ کی کتاب کا علم اس کو ہو اس کی سچائیاں اس پر ظاہر ہوں۔ اس کی ہر پیشگوئی پر ایمان ہو۔ فرمایا ’’صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو‘‘۔ یعنی صرف علم حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ ان باتوں پر عمل کرنا اس علم سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہے جو قرآن کریم پڑھ کے حاصل کیا۔’’ مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شئے ہے اور اس کی اطاعت کیا شئے ہے اور محبت باری عَزَّ اِسْمُہٗ کیا شئے ہے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہو سکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور توبہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتّقا وغیرہ اخلاقِ فاضلہ کی کیاکیا حقیقتیں ہیں۔ پھر ماسوا اس کے ان تمام صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو‘‘۔ (تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ420)(یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ سارے اخلاق جو اختیار کرنے ہیں ان تمام تعلیموں پر عمل کرنا، ان کو جو پڑھنا ہے سمجھنا ہے صرف اتنا کافی نہیں کہ پڑھ لیا اور سمجھ لیا بلکہ فرمایا ان پر قائم بھی ہو ا۔ن پر عمل بھی کرنے والا ہو۔)

                پھر آپ نے فرمایا :

               صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کی رِجس اور پلیدگی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔ نہ جھوٹی گواہی دوں گا اور جذبہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا۔ نہ لغو طور پر۔ نہ کسب خیر کے لئے۔ نہ دفع شر کے لئے۔ یعنی کسی رنگ اور حالت میں جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا۔ جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا اِیَّاکَ نَعْبُدُ پر خاص عمل کرتا ہے اور وہ عمل اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ یہ ہے خوبصورت تعریف صدیق کی۔ جو عمل کیا تو یہ عمل عبادت ہے۔(مأخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 365-366۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پھر فرمایا :

               ’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہوجائے۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ516)

                جب تک ایمان قوی ہوتا ہے اس قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے یہاں تک کہ اگر یہ قوت ایمانی پورے طور پر نشوونما پاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں تأمّل اور دریغ نہ کرے گا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 339,340۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (جب قوت ایمانی اس حد تک چلی جائے گی پھر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے یہاں تک کہ جان بھی دینے کو تیار ہوتا ہے)

               پھر آپ فرماتے ہیں :

               ’’صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا ر ہتا ہے۔۔ جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزہ بھی درست ہو تاہے۔… اسی طرح پر صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا۔اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے۔‘‘

( ملفوظات جلد 2صفحہ 57۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                 پس صالح بننے کے لئے خود اپنے اندر اصلاح کا احساس اٹھنا چاہئے۔ اپنے نفس سے خود اصلاح ہونی چاہئے۔ ہر غلط کام کی خود نفی ہونی چاہئے۔ یہ ہے صالح کا کمال۔ آپ فرماتے ہیں ’’مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسّم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے‘‘۔(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ516)

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان اقتباسات سے جہاں ہمیں اس بات پر شکر گزاری کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس منعم علیہ گروہ میں ہمیں شامل کر دیا جنہوں نے زمانے کے امام کو مان کر قرآن کریم کا صحیح فہم حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے جو ایک احمدی کو ان مرتبوں تک پہنچنے کے لئے ادا کرنے کی کوشش کے لئے ضروری ہیں۔ ایک اندھیرے کمرے میں بیٹھا ہوا انسان تو کہہ سکتا ہے کہ مَیں اس کمرے میں موجود اچھی چیزوں سے اس لئے فائدہ نہیں اٹھا سکا کہ مجھے اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن ایک شخص جس کو کمرے میں روشنی بھی میسر ہو، تمام فائدہ کی چیزیں بھی سامنے پڑی ہوں اور پھر وہ اپنی لاپرواہی یا سُستی کی وجہ سے ان سے فائدہ نہ اٹھائے جو اس کی زندگی سنوارنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں تو پھر وہی قصوروار ہو گا جو فائدہ نہیں اٹھاتا۔

                پس رمضان میں جس دَور سے ہم گزرے ہیں جن میں عبادات بھی ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت، درس اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق غور و فکر کی توفیق بھی ہے۔ نفس کی قربانیوں کی ٹریننگ بھی ہے۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کی طرف توجہ بھی ہے۔ اس کو اب اپنی زندگیوں میں باقاعدگی سے اور تسلسل سے جاری رکھنا ہی ہمیں     اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور قرب کا ذریعہ بنائے گا۔ اور یہی حقیقی عید ہے جو قربانیوں اور اصلاح کی طرف توجہ اور تبدیلی کے بعد ایک مومن کو حاصل ہوتی ہے جس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو دنیا کی طرف سے ملنے والی تکلیفوں اور مشکلات کی وجہ سے خوشیوں کو ہم سے دُور نہیں کر سکتا۔ جب حقیقی عید ملتی ہے تو پھر دنیاوی مشکلات ان خوشیوں کو دُور نہیں کر سکتیں کیونکہ ان سب چیزوں کے پیچھے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ملنے والی خوشخبریاں نظر آ رہی ہوتی ہیں۔

               جب روزوں سے ہم اپنی حالتوں کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گزرے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ان کو معمولی نیکیوں کے بھی اجر دیتا ہے اور کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے اس لئے کہ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ نیکی کے اجر کئی گنا بڑھا کر دینے کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(الانعام:161) جنہوں نے نیکی کی ہے اس نیکی سے دس گنا ان کو ملے گا اور جنہوں نے بدی کی انہیں صرف اتنی ہی سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ ہے ہمارا خدا جو اپنے بندوں کو ہر وقت اپنے فضلوں سے نوازنے والا ہے اور ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا اجر دیتا ہے۔ پس جب رمضان میںسے اس نے ہمیں گزارا تو ایک حدیث کے مطابق تیس روزوں کے بدلے تین سو روزوں کا اجر دیا۔ اور اگر شوال کے بھی چھ روزے کوئی رکھ لے تو 360دن پورے کر کے پورے سال کے روزوں کا ہی ثواب دے دیا۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستہ أیام من شوال اتباعا لرمضان حدیث نمبر 1164)

                پس یہ خدا ہے جو ہمارا خدا ہے جو اگر بندے سے قربانی مانگتا ہے تو اس کے بے حساب اجر دیتا ہے۔ تیس دن کے روزوں کی ہم سے قربانی مانگی تو جہاں ان کو قبول فرماتے ہوئے کئی گنا اجر سے نوازا وہاں ظاہری طور پر اس نوازنے کے اظہار کے لئے عید کا دن بھی رکھ دیا کہ اس میں کھاؤ پیو اور خوشیاں مناؤ اور خدا کا شکر ادا کرو اور سب سے پہلے کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر ہی ہے اس لئے عید کی نماز سے اس شکرانے کا آغاز فرمایا تا کہ یاد رہے کہ اس خدا کی عبادت سے شکر کرو جو اگر کسی ظاہری تکلیف یا قربانی میں سے مومن کو گزارتا ہے تو وہی آسانی بھی پیدا کرتا ہے۔ وہی انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ وہی کئی گنا بڑھا کر اجر بھی دیتا ہے۔ پس عید ہمیں رمضان میں خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرتے ہوئے ہر جائز بات سے بھی کامیابی کے ساتھ رکتے ہوئے گزرنے کی کوشش پر خدا تعالیٰ کے انعام کا ایک ظاہری اظہار ہے۔ جس سے ہماری توجہ اس طرف پھرنی چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ اپنی خاطر کیا گیا ہر فعل بے انتہا اجروں سے نوازتے ہوئے ہمیں واپس لوٹاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کوئی قربانی بغیر خدا تعالیٰ سے اجر پائے خالی نہیں جائے گی۔ جب ہم نے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو مان لیا تو خدا تعالیٰ اس نیکی کے کام کو بغیر اجر کے نہیں چھوڑے گا جبکہ اس وجہ سے ہمیں جان مال عزت کی قربانی بھی دینی پڑ رہی ہے۔

                ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی خاطر کیا گیا کوئی عمل بغیر اجر کے نہیں، یہ قربانیاں بھی جو احمدی کرتے ہیں رائیگاں جانے والی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(الم نشرح:6۔7)۔ ہمیں تسلی دلا رہا ہے کہ اگر آج ہم پر تنگی اور قربانی کا دور ہے تو آسانی بھی آنے والی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے انعامات کی لامحدود بارش ہو گی۔ مفسرین اس آیت کی یہی وضاحت کرتے ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہی نکتہ لیا ہے کہ الْعُسْر  کہہ کر عُسر کو محدود کیا گیا ہے۔ تنگی کو محدود کیا گیا ہے۔ لیکن یُسر دونوں جگہ غیر محدود کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (مأخوذ از تفسیر کبیر جلد 9صفحہ 147) پس یہ اعلان ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرنے والا ہے۔اور ہمیں تسلی دلا رہا ہے کہ جس طرح ہر تنگی، قربانی اور اپنی خاطر کئے گئے ہر عمل پر خدا تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے اور اس کا انجام عید کی صورت میں ہوتا ہے نہ کہ عیدیں پہلے ہوں اور انجام انذار و وعید کی صورت میں نظر آ رہا ہو۔ جو زمانے کے امام کا انکار کرنے والے ہیں وہ بھی حقیقی عید سے اپنے آپ کو باہر نکال رہے ہیں کیونکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا وہ اس بات کے تو قائل ہی نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں نبی، صدیق، شہید اور صالح پیدا کر سکتا ہے۔ پس جب انعاموں کے انکاری ہیں تو حقیقی عیدوں کے بھی انکاری۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو انعام یافتہ ہیں اور کس طرح بن سکتے ہیں۔صدیق تو وہ ہے جسے کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے کلام پر یقین ہو نہ کہ مشکوک حالت میں رہیں۔ کبھی ناسخ و منسوخ کے چکّر میں ہیں۔ کبھی حضرت عیسیٰ کی وفات کے بارے میں شبہ میں ہیں۔ کبھی آخرین کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں۔ مرزا صاحب نے کس طرح اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو مسیح اور نبی کہہ دیا۔ جو پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر نذریں مانتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں انہیں کیا پتا کہ صِدق کیا ہے۔ جب حیا، امانت، دیانت غائب ہو جائیں تو وہاں صدق کا کیا کام رہ جاتا ہے۔ جہاں جھوٹ، تعدّی اور ظلم نے ڈیرے ڈالے ہوں وہاں صدّیقیت کس طرح ٹھہر سکتی ہے۔ جو مصلحتاً جھوٹ بولنے کو جائز قرار دیتے ہوں اور اپنی تفسیروں میں بھی لکھتے ہوں ان کا صدیقیت سے کیا تعلق۔ جو ظلموں پر اُکسانے والے ہوں وہ اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ جو مظلوموں کی جان لینا ثواب سمجھتے ہوں ان کا ایمان کس طرح مضبوط کہلا سکتا ہے۔ کس منہ سے وہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننے والا کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ لوگوں کی جانوں اور ان کے مالوں اور ان کی آبروؤں کی بے حرمتی جائز نہیں اور یہ اس خدا اور اس رسول کے نام پر یہ حرکتیں کر کے پھر خادمِ ختم نبوت ہونے کے نعرے لگاتے ہیں۔ دوسروں کو تو جانیں دینے کے لئے اکساتے ہیں اور خود جان دینے کا نام سن کر ہی ان کی جان نکل رہی ہوتی ہے۔ ہر طرح کے روحانی امراض میں یہ مبتلا ہیں۔ فساد کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ تو یہ لوگ تو نہ صدیق ہیں، نہ شہید بنے، نہ صالح بن سکتے ہیں اور نبوت کے وہ پہلے ہی انکاری ہیں۔ گویا ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے انعاموں کے دروازے تو اپنے اوپر بند کر دئیے۔ پس اب ہم مسیح محمدی کے غلام ہی ہیں جو اپنے ایمان کو ترقی دیتے ہوئے ان انعامات کے وارث ہو سکتے ہیں۔ حقیقی عیدیں منانے والے بن سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے ایک احمدی کو ہر وقت کوشش کرنی چاہئے۔ آج ہمیں اس بات پر تکلیف دی جاتی ہے، ہماری جانیں لی جاتی ہیں، ہمیں شہید کیا جاتا ہے، ہمارے پیاروں کو شہید کیا جاتا ہے کہ ہم کیوں اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات کے دروازے بند نہیں ہو سکتے۔ کیوں ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض اس حد تک جاری ہے کہ آپؐ کی پیروی میں نبوت کا مقام بھی مل سکتا ہے۔

               پس دشمن کو اپنی حرکتوں میں مصروف رہنے دیں اور ہم وہ کچھ کئے جائیں جس کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا تھا کہ نیکی کے بعد آسائش ہے۔ کامیابیاں آنے والی ہیں۔ انکار کرنے والے ذلیل و رُسوا ہوں گے۔ ان کی کوئی تدبیر جَرِیُ اللہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔  اللہ تعالیٰ نے عربی میں آپ کو الہاماً فرمایا کہ بَعْدَ الْعُسْرِ یُسْرٌ( تذکرہ صفحہ72 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)   یعنی تنگی کے بعد فراخی ہے۔ پس یہ یُسر تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت کے مقدر میں ہے اور آنا ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ملنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہ یُسر کوئی معمولی یُسر نہیں ہے بلکہ فتحِ مبین کی خبر ہے۔ پس ہم احمدیوں کے لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان تنگیوں اور قربانیوں سے پریشان ہوں۔ احمدیوں کی جانوں کی قربانی کا یہ سلسلہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے شروع ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ شہید اور حضرت مولوی عبدالرحمن صاحبؓ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اس وقت بھی دشمن کا خیال تھا کہ اس ظالمانہ فعل سے احمدیت کو ختم کر دیں گے۔ یا احمدیت سے لوگوں کو برگشتہ کر دیں گے لیکن ان شہیدوں نے پیچھے آنے والوں کے لئے جو عظیم الشان مثالیں قائم کیں اور جس طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اسے جماعت نے بھلایا نہیں بلکہ یہ شہادتوں کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔ علاوہ اس کے جو وقتاً فوقتاً شہادتیں ہوتی رہتی ہیں دو سال پہلے بھی رمضان کے مہینے میں منڈی بہاؤالدین میں کئی نمازیوں کو نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا تھا۔ اس سال پھر ہمارے دو نوجوانوں کو اور ایک بزرگ کو اس رمضان میں شہادت کا رتبہ ملا ۔ مخالفین کا خیال ہے کہ اس طرح ہمارے حوصلے پست کر دیں گے یا ہمیں ختم کر سکتے ہیں۔ بھلا جو خدا کی خاطر جان قربان کرنے کے لئے پہلے ہی ہر وقت تیار بیٹھے ہوں ان پر یہ وار کارگر کیسے ہو سکتے ہیں۔ کبھی نہیں اور کبھی نہیں۔ دشمن نے رمضان میں جو ہمارے خلاف محاذ کھڑا کیا تھا وہ کھڑا کر کے سمجھتا ہے کہ اس نے ہمارے رمضان اور ہماری عید کو خراب کیا ہے، ہمیں غمزدہ کر دیا، محزون کر دیا۔ اس کی ان حرکتوں سے تو ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان سے فیض پانے کی توفیق ملی ہے۔ اور صرف ان شہداء پر ہی بس نہیں ان کا حال تو یہ ہے، تنگ کرنے کا کہ حکومتی ادارے بجائے اس کے کہ ان شہداء کے مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کرتے، مولویوں کے دباؤ میں آ کر ہمارے احمدیوں کو آنے بہانے پکڑ رہے ہیں۔ ہم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نام کی بے حرمتی کا الزام لگاتے ہیں جس کا ایک احمدی کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ ہم تو اس مسیح و مہدی کو ماننے والے ہیں جس نے ’’خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 645)کہہ کر ہمیں آلِ محمدؐ پر بھی نثار ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ ظالمانہ الزام تو ہمیں کسی بھی قسم کی اذیّت سے زیادہ تکلیف دِہ ہے۔

                پس اے دشمنِ بدفطرت اور بدنوا! کچھ ہوش کر کہ ہم پر ان ظلموں کا بدلہ لینے والا خدا تمہاری یہ سب حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ جب اس کی چکّی چلتی ہے تو ہر چیز کو پِیس کر رکھ دیتی ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ہر دم اور ہر آن یہ نوید دی ہے اور دے رہا ہے کہ جس طرح روزوں میں خدا تعالیٰ کی خاطر کی گئی قربانیاں تمہیں عید دکھاتی ہیں یہ قربانیاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ رنگ لائیں گی۔ ہم جس طرح روزوں سے گزرے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہم نے اپنے نفسوں پر کنٹرول رکھا تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، جماعتی مخالفتوں اور سختیوں سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ احمدی ثبات قدم دکھاتے ہوئے گزر جائے گا۔

                لیکن مَیں احمدیوں سے بھی کہتا ہوں ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ رمضان کی وقتی قربانی کے ساتھ ہم نے نمازوں اور نوافل کے جو معیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان جماعتی قربانیوں سے بھی کامیابی سے گزرنے کے لئے انہی معیاروں کے حصول کی کوشش کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دائمی بنانے کے لئے ان کو جاری رکھنا ہو گا۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں تک اسلام اور احمدیت کی ترقی کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق یہ ہونی ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس میں مستقل اور کتنا حصہ ڈال رہے ہیں تا کہ اس حقیقی عید کو منا سکیں جو اسلام اور احمدیت کی ترقی سے وابستہ ہے۔ پس اگر ہم یہ عید جلد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قربانیوں کے ساتھ اپنی عبادتوں کے معیار بھی مستقل بلند کئے رکھنے کی ضرورت ہے۔ صدیق، شہید، صالح بننے کے لئے ان تمام باتوں کو کرنے کی ضرورت ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہیں۔

               پس جب ہم اپنے میں ان تمام اخلاق کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صدیق، شہید اور صالح کی تعریف میں فرمایا ہے اور پھرساتھ اس کے خدا تعالیٰ سے تعلق اور عبادت کے معیار بھی بلند کرتے چلے جائیں گے تو دشمن کی یہ کوششیں جو وہ اپنے زُعم میں ہمیں ختم کرنے کے لئے کر رہا ہے اس کا اپنا نام و نشان مٹا دیں گی۔ دشمن اس بات پر خوش ہے کہ ہم نے جماعت کے دو مفید وجود شہید کر دئیے جو planing بعد میں ان کی نظر آ رہی ہے اس سے یہی تأثرات ملتے ہیں۔ شہید تو مَیں کہہ رہا ہوں وہ تو کہتے ہیں ہم نے مار دئیے۔ تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جتنی بڑی قربانیاں ہیں اتنی بڑی خوشخبریاں ہم کو ملنے والی ہیں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان خوشخبریوں کو جن کے نشان خدا تعالیٰ ظاہر فرما رہا ہے ہمارے نیک اعمال اور عبادتوں میں کمیاں کہیں پیچھے نہ لے جائیں۔ ہماری حقیقی عیدیں انشاء اللہ آنے والی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے جھنڈے تلے الٰہی وعدوں کے مطابق تمام نیک فطرتوں نے آنا ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو۔ سو خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نورانی ملائکہ اور روح القدس کو زمین پر نازل کرتا ہے۔ اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے تب روح القدس اس مجدد اور مصلح سے تعلق پکڑتا ہے جو اِجتباء اور اصطفاء کی خلعت سے مشرف ہو کر دعوت حق کے لئے مامورہوتا ہے‘‘۔ اجتباء یعنی جو پسندیدہ اور برگزیدہ اور چنے ہوئے کو خلعت دیتا ہے اور فرماتے ہیں’’ اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جو سعید اور رشید اور مستعد ہیں‘‘۔ نیک لوگ جو ہیں فرشتوں کا ان سے تعلق ہوتا ہے اور فرمایا ’’اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اور نیک توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ تب دنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں۔ اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جبتک دین اپنے اس کمال کو پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر ایک کا کام نہیں۔ ایک دنیادار کی دُودآمیز نظر‘‘ یعنی دھندلائی ہوئی نظریں جنہیں صاف نظر نہیں آتا۔ ’’ اس نور کو دریافت نہیں کر سکتی۔ دینی صداقتیں اس کی نظر میں ایک ہنسی کی بات ہے اور معارف الٰہی اس کے خیال میں بیوقوفیاں ہیں‘‘۔

(شہادۃالقرآن،روحانی خزائن جلد 6صفحہ 313-314)

               پس اگر آج ان نام نہاد علماء اور مولویوں کو نظر نہیں آ رہا تو ان کی قسمت میں ہی نہیں ہے نظر آنا۔ جو سعید فطرت ہیں وہ آہستہ آہستہ آتے جائیں گے۔ پس اگر آج سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلنی ہیں تو ان لوگوں کے ہاتھوں سے جنہوں نے مسیح محمدی اور زمانے کے امام کو مانا ہے۔ آج اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچنا ہے تو مسیح محمدی کے غلاموں کے ذریعہ۔ مخالفین چاہے جتنا بھی اس کام کو روکنے کے لئے زور لگا لیں یہ الٰہی تقدیر ہے اس نے غالب آنا ہے۔ ابھی ان کی نظریں جو ہیں یہ صداقت کو دیکھ نہیں رہیں لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ فجر طلوع ہو گی تو ان دھندلی آنکھوں کو بھی نظر آ جائے گا کہ جو امام الزمان نے کہا تھا وہ سچ کہا تھا۔ اُس وقت جماعت احمدیہ کی خاطر قربانی کرنے والے اور اپنا خون بہانے والے ہر شہید کے جسم کا ہر ذرہ یہ اعلان کر رہا ہو گا کہ دیکھ او بدبخت اور بدقسمت! کیا میرا خون رائیگاں گیا؟ اُس وقت ہر شہید کی اولادیں اور پیارے خوشی سے یہ اعلان کر رہے ہوں گے کہ دیکھو !ہمارے باپ ،ہمارے خاوند، ہمارے دادا، ہمارے نانا، ہماری بہنیں اور بھائی جو قربانی کر گئے تھے وہ آج اس فجر کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر روشن اور چمکدار نظر آ رہے ہیں۔ آج ہمیں وہ حقیقی عید نظر آ رہی ہے جس کی خاطر قومیں قربانیاں کیا کرتی ہیں۔ اس فجر کے طلوع ہونے کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کیا گیایہ وعدہ پوری شان سے پورا ہوتا نظر آئے گا کہ اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْمًا(تذکرہ صفحہ 586 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)۔ یعنی ایک اور عید ہے جس میں تُو بڑی فتح پائے گا۔ وہ وقت ہو گا جب ہر احمدی، مسیح محمدی کی جماعت کا ہر فرد ،بچہ، بوڑھا ،مرد، عورت مبارک سو مبارک کی صدائیں بلند کر رہا ہو گا۔ حقیقت میں یہی عید ہے جو ہر احمدی کی زندگی کا آخری مقصد ہے اور یہی عید ہے جس کے حصول کے لئے ہم نے ہر وقت اپنے قادر اور توانا اور مستجاب الدعوات خدا کے آگے جھکے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس کی توفیق دیتا چلا جائے تا احمدیت اور حقیقی اسلام کو تمام دنیا پر غالب آتا ہم پورا ہوتا ہوا دیکھیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

                اس کے ساتھ مَیں آپ سب کو بھی جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ایم ٹی اے کی وساطت سے تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی اس عید کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ عید مبارک کرے۔ اس صدی کی خلافت کی صدی کی جو پہلی عید ہے ہمارے لئے یہ ہزاروں لاکھوں برکتیں لے کر آئے اور اُس حقیقی عید کے نظارے دکھائے جو ہمارا آخری مقصد ہے۔

               اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ دعاؤں میں سب سے پہلے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اسلام کے غلبہ کے دن اللہ تعالیٰ نزدیک لائے اور ہمیں اس کی ترقیات دکھائے۔ جماعت کو ہر شر سے بچنے کے لئے دعائیں کریں کہ آج دشمن ہر جگہ جہاں موقع ملتا ہے احمدیت کی مخالفت میں احمدیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور عرب ملکوں میںسے بعض اسلامی حکومتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ آج احمدیت کی مخالفت صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر اس خطے میں ہے جہاں احمدیت کی ترقی نظر آ رہی ہے۔ اس بات نے دشمن کو حواس باختہ کر دیا ہے اور یہی چیز ہمارے ایمانوں کو بھی مضبوط کر رہی ہے۔ یہ آخری غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا ہے۔ لیکن دعاؤں کے بغیر نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دعاؤں کا ہی ہتھیار دیا گیا ہے۔ شہدائے احمدیت کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر شہید کو اپنے قرب سے نوازے، درجات بلند کرتا چلا جائے۔ ان کے بیوی بچوں، ماؤں عزیزوں اور پیاروں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ہمیشہ یہ شہادت ان کے لئے باعث فخر رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں صبر اور حوصلے اور ہمت دکھانے کی توفیق دیتا رہے۔اس رمضان میں جو حالیہ شہید ہوئے ہیں ان کے لواحقین کے لئے یہ جدائی بالکل تازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر بھی تسکین کا ایسا پھایا رکھے جو ان کے صبر اور حوصلے کو بڑھاتا رہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے ہوں۔ اسیران کی رہائی کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اسیری کے دن ختم کرے۔ وہ بھی آزادی سے عیدیں منانے والے ہوں۔ واقفینِ زندگی اور واقفینِ نَو کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تقویٰ کے ساتھ اپنے وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجاہدین تحریک جدید اور وقف جدید جنہوں نے رمضان میں اپنے وعدے پورے کر دئیے ان کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکتیں ڈالے۔ تمام خدمتگاروں کے لئے دعا کریں جو کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں جن میں آجکل نمایاں تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ایم ٹی اے کے کارکنان بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہیں۔ تمام داعیان الی اللہ کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ان کی جھولیاں پھلوں سے بھر دے۔ تمام وہ لوگ جو کسی بیماری یا مشکل میں گرفتار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس سے رہائی دلوائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا رحم اور فضل فرمائے۔ اہالیانِ قادیان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مسیح کی بستی میں رہنے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اہالیانِ ربوہ کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی رونقیںجلد لوٹائے ۔ان کی تمام مشکلات دُور فرمائے۔وہ لوگ ہمیشہ اس بستی کی آبادی کے مقصد کو پورا کرنے والے رہیں۔ اسی طرح پاکستان کے احمدیوں کے لئے مجموعی طور پر بھی دعا کریں کہ سب سے زیادہ احمدیت کی مخالفت جو ہے وہ پاکستان میں ہے۔ پاکستان کی جماعتیں جو ہیں اس دور سے گزر رہی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کے احمدی بڑے صبر، ہمت اور حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں کو مضبوط سے مضبوط کرتا چلا جائے اور کبھی کسی کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے۔

(خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروائی)

اپنا تبصرہ بھیجیں