خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍اگست 2012ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ۔ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ (حم سجدہ:31 تا 33)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔ ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو۔ یہ بہت بخشنے والے اور بار بار رحم کرنے والے کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت ایسی بنائی ہے کہ خوشی کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس کوشش میں ہوتی ہے کہ غم مٹ جائیں۔ اس کے لئے مختلف کوششیں ہوتی ہیں۔ دنیا کمانے اور اس کی سہولت کے لئے ایک انسان جو کوشش کرتا ہے وہ اس لئے ہے کہ اس سے اس کی زندگی میں جو آسانیاں پیدا ہوں گی وہ اُس کے لئے ،اُس کے گھر والوں کے لئے، بیوی بچوں کے لئے خوشی کا باعث ہوں گی۔ اُس کی مشکلات اور غموں کو دور کرنے کا باعث بنیں گی۔ پس اس کے حصول کے لئے انسان محنت بھی کرتا ہے، کوشش بھی کرتا ہے۔ جن کو محنت کی عادت نہیں اور چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہی دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھا لیں وہ دوسروں کی ترقی اور خوشی دیکھ کر صرف کڑھتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعض کو بعض دفعہ مواقع میسر نہیں آتے۔ اُن کا معاملہ اور ہے۔ لیکن بہر حال یہ دنیا تو ایسی ہے جس میں عمومی طور پر یہ اصول ہے کہ محنت کو پھل لگتا ہے اوریہ انسان کے لئے خوشی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی دنیاوی خوشیوں کی ایک صورت ہے ۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی محنت کو اتنا پھل لگے جتنا وہ چاہتا ہے تب اُسے خوشی حاصل ہو گی۔ اگر دنیا دار کو خواہش کے مطابق اپنے منصوبے پورے ہوتے نظر نہ آئیں تو اُسے مایوسی ہو جاتی ہے۔ جبکہ مومن کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت میں شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض لوگوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ جو بھی حالات ہوں، اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہو رہا ہو تو شکر گزار نہیں ہونا، خوش نہیں ہونا۔ ہر وقت مایوسی اور بے چینی طاری رہتی ہے۔ کسی نے مجھے بتایا کہ میرا ایک واقفکار زمیندار تھا جو ہر سال ہی اپنی آمد پر مایوسی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ کبھی خوش نہیں ہونا، کبھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں بننا اور ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ نقصان ہو گیا۔ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی اُس سے کہتا کہ حساب کرو تو پتہ چلتا تھا کہ منافع ہوا ہے اور جب اُسے کہو کہ اتنا منافع ہوا ہے، نقصان کس طرح ہو گیا تو اُس کا جواب یہ ہوتاتھا کہ میں نے اس فصل میں سے مثلاً پندرہ لاکھ روپیہ منافع کی امید رکھی ہوئی تھی، مجھے صرف دس لاکھ بچا ہے۔پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا۔ توایسے بھی لوگ ہوتے ہیں۔
پھر دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی خوشیاں منانے کے معیار اور ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود قناعت نہیں ہوتی اور اس کی وجہ سے خوشی نہیں منا سکتے ۔ جیسے اس کی مثال میں نے دی ہے۔ گھریلو خوشیاں نہیں ہوتیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود گھروں میں بے سکونی ہوتی ہے۔بیویوں سے اچھے تعلقات نہیں ہوتے۔ بچوں کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے یا ان مغربی ملکوں میں اکثریت کو اور بہت ساری الجھنیں ہیں جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ بعض قسم کی عیاشیوں کو ہی خوشی کا معیار بنا لیاہے۔ گھروں میں بے سکونی والے بھی اور عیاشیوں والے بھی جو عیاشیوں میں مبتلا ہیں، وہ اپنے کام غلط کرنے کے لئے یا خوشیاں منانے کے لئے ان ملکوں میں جہاں شراب عام ہے، شراب کا سہارا لیتے ہیں کہ اُس سے سکونِ قلب حاصل ہو۔ پھر میوزک ہیں، ڈانس ہیں، ہاؤ ہُو کی محفلیں ہیں، یہ غم مٹانے اور خوشی کے اظہار کے لئے منعقد کی جاتی ہیں۔ تمام قسم کی خوشیاں منانے کے یہ طریق یا خوشیوں کا حصول اور غم مٹانا، جو چاہے ظاہری مادّی مقاصد کے حصول سے ہو یا شور شرابے سے، ناچ گانے کی محفلوں اور شرابوں کے پینے اور خم لنڈھانے سے ہو، یہ سب چیزیں سطحی ہیں اور عارضی ہیں۔ شراب کے تو یہ لوگ اتنے رسیا ہیں کہ ہر کونے پر شراب خانے نظر آتے ہیں باوجود یہ جاننے کے کہ شراب کا نقصان ہے، شراب خانوں کے علاوہ اکثر دکانوں اور ریسٹورنٹس پر بھی شراب ملتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ جانتے ہیں کہ شراب کانقصان ہے ۔ مضامین بھی اس کے بارے میں آتے رہتے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے ایک خاص عمر سولہ سترہ سال کی عمر تک کے لڑکوں کو، لڑکیوں کو، بچوں کو شراب پینا ممنوع قرار دیا ہوا ہے۔ اگریہ اتنی ہی بے ضرر اور دماغی سکون پہنچانے والی چیز ہے تو ایک خاص عمر تک ممنوع کیوں ہے؟ پھر یہاںشراب صرف غم مٹانے کے لئے استعمال نہیںہوتی بلکہ یہ خوشی کے اظہار کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ کہیں خوشی کا اظہار کرنا ہو، میچ میں کوئی ٹیم جیت جائے یا اور کوئی فکشن ہو ،ان کا خاص موقع ہوتو شراب کی بوتلیں اس صورت میں ہلا کر ایک دوسرے پر پھینکی جاتی ہیں۔ اُنہیں جب زور سے ہلائیں تو گیس کی وجہ سے فوّارے کی صورت میں بوتل سے شراب باہر نکلتی ہے تو اس میں یہ لوگ نہا رہے ہوتے ہیں، یہ بھی ایک خوشی کا اظہار ہے۔ پتہ نہیں اس کی بُوسے ان کے ناک نہیں پھٹتے؟ مجھے تو یاد ہے کہ ایک دفعہ مَیںایک سٹور میں گیا، وہاں شراب کی بوتل کا کریٹ گر گیا اور بوتلیں ٹوٹ گئیں اور شراب پھیلی ہوئی تھی اور بُوایسی خطرناک تھی کہ کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ بہر حال یہ خوشی کے اظہار کے طور پر ایک دوسرے پر شراب بھی پھینکتے ہیں اور اس عمل سے خوشی یوں پھوٹی پڑ رہی ہوتی ہے جیسے دو جہان کی نعمتیں ان کو مل گئی ہیں۔
اسی طرح خوشی کے اظہار کے لئے دنیا داروں کے کھیل تماشے بھی ہیں اور اس خوشی کے اظہار میں عورتوں اور مَردوں کا اس طرح اختلاط ہے اور ایسے ننگے لباسوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا ہے ، پبلک جگہوں پر جب یہ کر رہے ہوتے ہیںاور ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے کہ کوئی شریف انسان یہ دیکھ نہیں سکتا۔ابھی گزشتہ دنوں یہاں اولمپک ہوئی، شہر میں بھی، ملک میں بھی اور دنیا میں بھی اس کا بڑا چرچا تھا۔ ہزاروں لوگ دیکھنے گئے ہوں گے بلکہ شاید لاکھوں لوگ دیکھنے گئے ہوں گے اور ٹی وی وغیرہ پر بھی لاکھوں کروڑوں نے دیکھا ہو گا۔ بعض ٹی وی چینل ہمہ وقت اس کے لئے وقف ہو گئے تھے اور دنیا کے ہر ٹی وی نے کم از کم خبروں کے دوران تو ضرورکچھ نہ کچھ یہ پروگرام دکھائے ہوں گے ۔ افتتاح پر اور اختتام پر بھی ایسے شو دکھائے گئے جن میں خوشی کے اظہار کے لئے بے حیائی بھی تھی۔ خوشی کا اظہار کم تھا ،بے حیائی زیادہ تھی۔ آخری دن تو ناچ گانے اور عورتوں اور مردوں کے گانوں اور شو میں ایسی حرکات تھیں جو سوائے دلوں کی بے چینیوں کے غلط اظہار کے اور کچھ نہیں تھا۔ ایک منٹ سے زیادہ کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ کوئی نہ کوئی بیہودہ نظارہ پھر آ جاتا تھا ۔لیکن یہ اِن کی خوشی کے اظہار ہیں۔ اصل میں خوشی کے اظہار نہیں ہیں بلکہ دل کی بے چینیوں کے اظہار ہیں۔ خوشی کے اظہار اور Fun کے نام پر ٹی وی پر بھی دنیا میں کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا ہو گا۔ بعض نوجوان متاثر ہو جاتے ہیں کہ بڑا Fun ہو رہا ہے۔ حالانکہ یہ Fun نہیں یہ دلوں کی بے چینیاں ہیں ۔ ایک ایک گانے کے شو (Show)پر شایدلاکھوں پاؤنڈ خرچ کئے گئے ہوں گے اور سنا ہے کئی شو(Show) ہوئے۔ بہر حال اس خوشی کے اظہار کے ساتھ یہ اولمپک اپنے اختتام کو پہنچا۔ یوکے کی ٹیموں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ انہوں نے بھی بعض اِیونٹس (Events)میں میڈل جیتے اور خوشی کے اظہار کے لئے اب انہوں نے شہر میں ایک تقریب منعقد کرنی ہے اور لندن کی سڑکوں پر پھر شور شرابے کی محفلیں ہوں گی۔ یہ ان کی خوشی کے اظہار ہیں ۔
لیکن بعض تبصرہ کرنے والوں نے اب یہ تبصرہ بھی کرنا شروع کر دیا ہے، اخباروں میں بھی آیا ہے کہ اولمپک اب کھیلوں کے لئے منعقد نہیں کیا جاتا بلکہ اب اولمپک کے نام پر اس کے جو آرگنائزر ہیں، انہوں نے اس کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور کروڑوں پاؤنڈ کماتے ہیں۔ بہر حال دنیا میں خوشی کے اظہار کے لئے یا اس کے حصول کے لئے مختلف طریقے ہیں جس پر دنیا عمل کرتی ہے۔ لیکن یہ سب خوشیاں جو دنیاوی خوشیوں کے حصول کے لئے کی جائیں یا منائی جائیں، عارضی خوشیاں ہیں۔ آخر کار کچھ وقت کے بعد یہ خوشیاںاکثر بلکہ یقینا ختم ہو جاتی ہیں اور پھر وہی بے چینیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض غم مٹانے کے طریقے ہیں، شراب، جؤا وغیرہ وہ صحت بھی برباد کر دیتے ہیںاور دیوالیہ بھی کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی اس فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اُسے خوشی کے حصول اور غم غلط کرنے، اُس سے نجات حاصل کرنے کی چاہت ہے، خدا تعالیٰ نے بھی خوشی کے سامان مومنین کے لئے مہیا فرمائے اور جو سامان مہیا فرمائے ہیں اُن کے متعلق یہ دعویٰ ہے کہ یہ دائمی ہیں اور دنیا و عاقبت سنوارنے والے ہیں۔ فرمایا یہ خوشیوں کے سامان کرو گے، ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو گے تو نہ صرف اس دنیا کی خوشیاں ملیں گی بلکہ آخرت کی خوشیوں سے بھی حصہ پاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے خوشی مہیا کرنے کے جو ذرائع پیدا فرمائے ہیں ان میں ایک ذریعہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک خاص وقت تک روزوں کے ساتھ جائز خوراک کو بھی ترک کرکے عبادتوں کی طرف توجہ اور دوسری نیکیاں بجا لاناہے۔ اب دیکھیں دنیا دار کھانے پینے اور شراب لنڈھانے میں، جس سے صحت بھی برباد ہو رہی ہو، اخلاق بھی برباد ہوں، خوشیاں تلاش کر رہا ہے اور مومن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جائز چیزوں کے کھانے سے بھی ایک وقت تک کے لئے اپنے آپ کو روکے ہوئے ہے اور اس میں خوشی محسوس کر رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر عمل کی جزا دینے والا ہے اپنے بندے کو کہتا ہے کہ تم نے جو میری خاطر قربانی دی اور ایک مہینہ میری رضا کے حصول کے لئے صَرف کیا۔ میری خوشی حاصل کرنے کے لئے تم نے اپنی خوشی کو جو کھانے پینے سے تمہیں پہنچ سکتی تھی قربان کیا۔ اس روزے کی ہر روز تو مَیں جزا بن ہی رہا ہوں۔آج عید کے دن جمع ہو کر تم اجتماعی طور پر بھی اور اپنے گھروں میں بھی ، اپنے خاندانوں میں بھی اس کا اظہار کرو۔
آجکل تو گرمی کے روزے ہیں، یہاں اتنی گرمی ہے اور انتیس تیس تک گزشتہ دنوں میں ٹمپریچر چلا گیا تھا اور اس پر ہی لوگ گرمی گرمی کر رہے تھے۔ پاکستان اور گرم ممالک میں جہاں ٹمپریچر پینتالیس، پچاس ڈگری تک چلا جاتا ہے جبکہ سہولتیں بھی مہیّانہیں تو وہاں روزہ دار کا کیا حال ہوتا ہے ۔ پاکستان میں تو خاص طور پر جہاں بجلی بھی سترہ اٹھارہ گھنٹے بند رہتی ہے۔ ٹھنڈے پانی اور پنکھے کی ہوا کو بھی لوگ ترستے ہیں، اُن کا روزوں میں کیا حال ہوتا ہوگا؟ اس کا تصور کریں۔ پھر پاکستان کی بجلی دینے والا ادارہ جو WAPDA کہلاتا ہے اُس کی ربوہ والوں پر یہ بھی مہربانی ہے کہ سنا ہے سحری اور افطاری کے وقت دو دو گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے۔ اب ایسے حالات میں پتہ نہیں بیچارے غریب سحری اور افطاری کس طرح تیار کرتے ہوں گے، کیا کرتے ہوں گے؟ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرروزے رکھتے رہے تا کہ دائمی خوشی ملے، یہ سب کچھ کیا۔
جیسا کہ مَیں نے بتایااللہ تعالیٰ بھی جب اپنی خاطر قربانی کرنے والوں کے عمل کو دیکھتاہے تو خوشی منانے کے لئے اس نے روزوں کے بعد عید کا دن مقرر کیا ہے۔ اب خاص طور پر پاکستان کے جیسے حالات میں یہ روزے رکھتے رہے جو میں نے بیان کئے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے تو ایسے ہی عید کے دن بھی ہوں گے کہ بجلی پانی نہیں اور گرمی بھی ہے تو عید کی خوشیاں انہوں نے کیا منائی ہوں گی یا کیا منا سکے ہوں گے ۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے عید کی خوشیاں منائیںاور منا رہے ہیں۔آج وہاں بھی عید ہے، لوگ خوش ہیں ۔ تو یہ حالات تو پاکستان کے لئے مخصوص ہیں لیکن اس میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بغیر کسی شکوہ کے منہ پر لائے یہ لوگ عید منا رہے ہیں۔اس کے مقابلے میںدنیا کے دوسرے ممالک جو ہیں ، آپ جو ہیں، یہاں تو بہر حال وہ حالت نہیں ہے۔ آپ بھی آج یہاں عید منا رہے ہیں اور خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو ایک ماہ قربانی دی اُس کا اللہ تعالیٰ آج پھل عطا فرما رہا ہے اور یہ بھی جو عید ہے اُس کی رضا کی خاطر ہی ہے۔
پس یہ عید بھی ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کی۔جنہوں نے رمضان بھی عبادات کی طرف توجہ دئیے بغیراور بغیر کوئی نیکیاں کئے دنیا داروں کی طرح گزار دیا، اُن کی عید تو وہ عید نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے چاہتا ہے یا جس کا موقع اللہ تعالیٰ نے مومن کو عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے عید کا یہ موقع عطا فرما کر بیشک وہ تمام پابندیاں تو اٹھا لیں جو کھانے پینے سے متعلق تھیں،لیکن دنیا داروں کی طرح ہائوہُوکی اجازت نہیں دی، شور شرابے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا کہ اس خوشی کو حقیقی خوشی بنانے کے لئے وہ تمام حقوق ادا کرنے کا عہد کرو جو تمہاری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کا جو تجربہ رمضان میں تمہیں ہوا، اُسے بھی اس عید کی خوشی کے ساتھ ملا کر جاری رکھنے کا عزم اور عہد کرو۔ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو تمہاری توجہ ہوئی، اُسے بھی اس عید کی خوشی کے ساتھ ملا کر جاری رکھنے کا عزم اور عہد کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ اصل زندگی اخروی زندگی ہے۔اس دنیا کی خوشیاں توان خوشیوں کی ایک جھلک ہیں، جو آخرت میں ایک مومن کو پہنچتی ہیں۔
پس اس دائمی خوشی کی تلاش ایک مومن کو کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ معیار اُس وقت قائم ہوں گے جب ہر وقت، ہر لمحہ تمہارے سامنے یہ الفاظ رہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش رہے کہ رَبُّنَا اللّٰہ کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان اور اُس پر انحصار اور اس کی طرف رجوع اُس وقت ممکن ہے جب یہ الفاظ ہر وقت حرز جان رہیں گے۔ جب ان الفاظ کا حقیقی ادراک ہو گا تو خدا کی معرفت بھی حاصل ہو گی۔ اور جب یہ ہوگا تو پھر ایک انسان کا مقصد دنیاوی خوشیوں کا حصول نہیں رہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود بن جاتی ہے۔ یہ دنیاوی ہاؤہو، شور شرابا، اچھل کود مقصد نہیں ہوتا۔ خوشی کے نام پر بیہودگیاں اور لغویات مقصد نہیں ہوتا۔ رنگ برنگی روشنیاں ڈال کر ناچ گانا مقصد نہیں ہوتا بلکہ پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کے لئے کوشش مقصد بن جاتا ہے ۔ وہ چیز مقصد بن جاتی ہے جس کے لئے ایک مومن رمضان کے مہینے میں کوشش کرتا رہا ہے، جس کے حصول کے لئے انتیس یا تیس دن روزے رکھے۔ ہر جائز کام کرنے سے ایک معین وقت کے لئے رُکے رہے۔ تہجد اور دوسرے نوافل اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ رہی۔ انفاق فی سبیل اللہ کی طرف توجہ رہی۔ صدقہ و خیرات کی طرف توجہ ہوئی۔ عبادتوں میں طاق ہونے کی کوشش کی۔ مسجدوں میں آ کر باجماعت نمازیں پڑھنے کی طرف ایسی توجہ رہی کہ مسجدیں چھوٹی پڑ گئیں۔ اللہ تعالیٰ جو تمام صفات کا جامع ہے، اُس کی صفات کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش رہی۔ اس اجتماعی توجہ سے یہ کوشش ہوتی رہی کہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کس طرح ہوا جا سکتا ہے۔ ہر کوئی جب اس کوشش میں ہے تو کمزور سے کمزور کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی۔ یہ کوشش رہی یا خواہش شدت اختیار کر گئی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانے کے حکم پر کس طرح عمل کیا جا سکتا ہے۔ پھر اس بات کی طرف توجہ ہوئی اور اس کے لئے کوشش ہوئی اور اس طرف نظر پھری کہ ان صفات کو اپنانے کا فائدہ کیا ہے اگر اس کا فیض دوسروں تک نہ پہنچے۔ پس اس سے حقوق العباد کی ادائیگی کے نئے راستوں کی طرف بھی رہنمائی ہوئی۔ رمضان میں بہت سوں کی یہ سوچ بنی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ربوبیت کی بھی ہے، ہم اس کا پرتَو کس طرح بن سکتے ہیں تو خیال آیا کہ اپنے بچوں کی خبر گیری اور پالنے پوسنے سے باہر نکل کر یتیموں کی خبر گیری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کاقرآنِ کریم کے اہم حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے طالب اگر ہوئے اور پھر اُس کو حاصل کیا اور اُس کے جلوے دیکھے تو یہ کوشش ہوئی کہ رمضان کے مہینے میں بے غرض ہو کر دوسرے کے فائدے کے لئے بھی کچھ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے رحم کا سلوک کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے احسان پر نظر پڑی تو روزوں اور روحانی ماحول کی وجہ سے خیال آیا کہ مجھے دوسروں پر احسان کرنا چاہئے اور عدل سے بڑھ کر احسان کی طرف قدم بڑھانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے کشائش دی ہے تو رمضان کے روزوں کی وجہ سے اس طرف توجہ پیدا ہوئی کہ بہت سے ایسے ہیں جن کو شاید اچھی افطاری کا سامان میسر نہ ہو کچھ تحفہ بھیج دوں جو اُن کے کھانے کے کام آئے۔ ایک تو افطاری کرانے کا ثواب دوسرے غریب کی ضرورت پوری ہو گئی۔ خاص طور پر غریب ملکوں میں مہنگائی کا دور ہے تو ان کی کھانے کی بھی مدد ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ حکم ہے کہ غریب کی خبر گیری کرو۔
پاکستان میں تو آجکل مہنگائی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ کسی نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں مَیں نے رمضان میں کسی کو چودھویں، پندرھویں روزے میں کچھ کھجوریں بھیجیں۔ جب اُس کو کھجوریں بھیجیں تو اس لئے کہ کسی کی افطاری کھلوا دوںافطاری کا ثواب ہو جائے گا۔ لیکن جس کو کھجوریں بھیجی گئی تھیں اُس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ آج پندرہ روزے گزر چکے ہیں اور ہم گھر والے اور بچے باقاعدہ روزے رکھ رہے ہیں لیکن آج آپ کی طرف سے کھجوریںآئیں تو ہم نے اس رمضان کی پہلی کھجور کھائی، تو یہ بھی حال ہے۔ بچوں نے آج خوش ہو کر افطاری کی تو اس طرح کے لوگ بھی ہیں۔ پس جب رمضان نے نیکی کے ماحول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کی طرف توجہ پھیری ہے تو غریبوں کا بھی خیال آیا۔
پس ہماری عید اُس وقت حقیقی عید ہو گی، ہمارے رمضان اور روزوں کے مستقل فضل اُس وقت جاری رہیں گے جب ہم میں سے وہ اپنے غریب بھائیوں کا بھی خیال رکھیں گے جن کو کشائش ہے یا وہ جو اُن ملکوں میں رہ کر آسودہ حال ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھانے پینے کی فراوانی ہے۔ ان نیکیوں کو رمضان تک ہی محدود نہیں سمجھیں گے بلکہ مستقل مزاجی سے ان کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے غریب بھائیوں کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔ یہ سوچ ہو گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے آئندہ ان کو بھی یاد رکھیں گے اوراپنی دولت، اپنی کشائش کا صحیح استعمال کرتے ہوئے غریبوں کی طرف بھی توجہ رکھیں گے نہ کہ دنیاداروں کی طرح صرف اپنی خوشیوں کے حصول کے لئے شور شرابے اور نشے میں زندگی گزار دیں۔ اگر ہم نے رمضان کے فیض کو اپنے پر جاری رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا بننا ہے تو اپنے پیسے کو اُس طرح نہیں لٹانا جس طرح دنیادار لٹاتا ہے۔ جس کے کچھ نظارے اودھم اور ظاہری چمک دمک کی صورت میں ہم نے دیکھے ہیں۔ بلکہ ایک حقیقی مومن بنتے ہوئے روزوں میں جس پیاس اور بھوک کے تجربے سے ہم گزرے ہیں، ویسے تو ہم بھوک اور پیاس کہتے ہیںلیکن پیاس کو مَیں نے اس لئے پہلے رکھا کہ گرمیوں میں بھوک کی نسبت پیاس زیادہ لگتی ہے، اس احساس کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے، اپنی عبادتوں کی نیکیوں کو بھی جاری رکھنا ہے اور اپنی دوسری نیکیوں کو بھی جاری رکھنا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے رہیں۔ ایک مومن جب رَبُّنَا اللّٰہ کا نعرہ لگاتا اور یہ اعلان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہی اُس کے لئے سب کچھ ہو جاتے ہیں اور ہونے چاہئیں کہ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے رَبُّنَا اللّٰہ کا اعلان کرنے کی ہدایت دے کراگلا حکم یہ دیا ہے کہ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ پھرمومن کی یہ شان ہے کہ یہ عارضی نعرہ نہیں ہوتا بلکہ اس پر استقامت کرتا ہے، ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
پس روزوں کے حوالے سے جب بات کرتے ہیںتو روزوں کی نیکیوں کا تبھی حقیقی اظہار ہو گا جب ثباتِ قدم سے ہم ان کو جاری رکھیں گے، صرف منہ سے دعویٰ نہیں کریں گے بلکہ ان کو جاری رکھنے کے لئے عمل بھی ظاہر ہو رہے ہوں گے۔ پس عید کے دن کو اگر حقیقی عید بنانا ہے تو یہ عہد کریں کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں کو استقلال کے ساتھ بجا لانا ہے انشاء اللہ ۔ اَطِیْعُوا اللّٰہ کانمونہ تبھی کامل ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے حکموں کی اطاعت کی بھر پور کوشش ہو گی اور یہی ایک مومن کی حقیقی عید ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی توفیق مل جائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں عبادتوں کی طرف اب توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مستقل حکم ہے۔یہ رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، یتیم کی پرورش کی طرف توجہ کرنے کا حکم مستقل ہے ۔رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم مستقل ہے صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے۔صرف رمضان کی کھجور اور افطاری تک یہ محدود نہیں ہے۔
پس اس کے لئے ہر صاحبِ حیثیت احمدی کو انفرادی طور پر بھی اپنے قریبیوں کا خیال رکھنا چاہئے اور جماعتی طور پر بھی مدد کی جو مختلف مدّات ہیں اُن میں حصہ لیتے رہنا چاہئے تا کہ حقیقی خوشی حاصل ہو، تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ وہ دعائیں جو غریب سے ملتی ہیں، وہی دعائیں ہیں جو حقیقی خوشی کا باعث بنتی ہیں۔پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب انسان بار بار اللہ تعالیٰ سے اُس کی صفات کا اظہار چاہتا ہے، بار بار اُس کے رحم اور فضل کو چاہتا ہے تو پھر مستقل طور پر خود بھی اُس کے حکموں پر چلنے اور اُس کی اطاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ ہو گا تو پھر فرشتے بھی ایسے لوگوں کی ہر قدم پر مدد کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وہ معجزات ظاہر ہوتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ پھر جنتوں کی خوشخبریاں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس لئے کہ تم خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول چاہتے ہوتو تمہیں وہ کچھ ملے گا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ ۔جس کی تمہارے دل میں خواہش ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔ اور یہی ایک حقیقی مومن کی عید ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے بعد خدا تعالیٰ کے انعاموں کو حاصل کرنے والا بنے اور سب سے بڑا انعام خدا تعالیٰ کا رحم اور اُس کی مغفرت کا سلوک ہے۔ فرمایا نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۔ یہ بہت بخشنے والے خدا اور بار بار رحم کرنے والے خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کو اپنا رب بناتے ہوئے، اس کی رضا کو مستقل مزاجی سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے، اُس کے حکموں پر عمل کرتے رہے، نیکیوں کو جاری رکھا تو نہ صرف تمہارے سارے غم دور ہوں گے بلکہ دنیا و آخرت کی جنت تمہیں ملے گی جو یقینا ہر عید سے بڑھ کر عید ہے۔ تمہاری خواہشات پوری ہوں گی۔ اور یہ مہمانی ہے، یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری عید کی دعوت ہے۔ نُزُل کے معنی خوراک کے بھی ہیں، دعوت کے بھی ہیں، مہمان نوازی کے بھی ہیں۔
پس ہم میں سے وہ خوش قسمت ہوں گے جو دنیا و آخرت کی جنت بھی حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید کی دعوت سے بھی لطف اندوز ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی عید میسر فرمائے۔
یہاں مَیں پاکستانی احمدیوں یا جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں ہیں اُن کے حوالے سے اُن کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہوں گا۔ان سختیوں کی وجہ سے خاص طور پر پاکستان میں اور بعض دوسرے مڈل ایسٹ کے ممالک میں بھی وہ ایک جگہ جمع ہو کر عید نہیں پڑھ سکتے یا آسانی سے نہیں پڑھ سکتے۔ پاکستان میں تو بالکل ہی نہیں، بہت ہی زیادہ مشکلات ہیں، خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو بالکل گھروں میں بند ہو کر رہنا پڑتا ہے اور ایسے خطوط بڑے آتے ہیںکہ جن سے بڑی بے چینی اور لاچارگی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے، محرومیت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ ہم اس ثواب سے محروم رہ رہے ہیں۔ مرد تو مختلف چھوٹے چھوٹے مرکز بنا کے عید پڑھ آتے ہیں۔ عورتیں بچے عید گاہ یا مسجد تک بھی نہیں جا سکتے۔ ایک تو آزادی سے زندگی گزارنے والے اُن کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ سختی کے دن جلد آسانی میں بدل دے اور وہ خود بھی صبر و استقامت دکھاتے رہیں۔ ان سختیاں جھیلنے والوں کے لئے بھی جنتوں کی بشارت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اُن کا ولی ہے ۔یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہونا ہی ہے جس نے باوجود سختیوں کے جو حکومتی ادارے ہیں یا لوگ ہیں اور نام نہاد مولوی ہیں جن کا ہر کام بدنیتی پر اور ظلم پر مبنی ہے، اُن کے بہت سے نقصانات سے بچا کے رکھا ہوا ہے، ورنہ دشمن کے منصوبے تو پتہ نہیں کیا کچھ ہوتے اگر اللہ تعالیٰ ہمارا ولی نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سنبھالا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ سنبھالے رکھے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہماری عید دنیاداروں کی عید نہیں ہے۔ہماری عید تو اللہ تعالیٰ کے رضا کے حصول کی عید ہے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس اس کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے میںہی اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی جنت کی بشارتیں مل رہی ہیں، عیدوں کی خوش خبریاں مل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام مشکل میں گرفتار استقامت دکھاتے ہوئے ان سختیوں کے دور سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی مہمان نوازی سے اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی لطف اندوز ہوں ۔ یہ دعا بھی کریں کہ اے اللہ! ہم تجھ سے یہ بھی بھیک مانگتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی ہمیں عید کے وہ جلوے دکھا جو ہمارے لئے حقیقی عید کا رنگ رکھتے ہوں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا اظہار اس طرح بھی کرنے کی توفیق دے کہ ہم اپنے تمام دشمن جن کی اصلاح مقدر نہیں ہے، کو خائب و خاسر ہوتا ہوا دیکھ لیں۔ اُن کو ایسا عبرت کا نشان بنا جو عامّۃ النّاس کے لئے اصلاح کا باعث بن جائے تا کہ اس دنیا کی عید کو بھی ہم اسلام اور احمدیت کے تمام دنیا پر غلبہ کی صورت میں دیکھ سکیں اور منا سکیں۔ اللہ کرے کہ یہ نظّارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ لیں۔
اب ہم دعا کریں گے لیکن اس سے پہلے مَیں آپ لوگوں کو بھی، تمام جماعت عالمگیر کو اور اُن مظلوموں کو بھی جو صحیح طرح عیدیں نہیں مناسکے، عید مبارک کا پیغام بھیجتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ عید بیشمار برکتیں لے کر آئے ۔ دعا میں ان دعاؤں کو بھی یاد رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر سب سے بڑھ کر احسان ہے، اُن کی آل کے لئے دعا کریں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہم پر احسان ہے اُن کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھیں کہ صحیح اور نیک رستے پر چلتے رہیں۔عالمِ اسلام جو ہے اس وقت بڑی مشکلات میں گرفتار ہے اس کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیڈروں کو بھی عقل دے اور دشمنوں سے بھی ان کو محفوظ رکھے۔ خاص طور پرجماعت کی ترقی کے لئے دعا کریں ۔ واقفینِ زندگی کے لئے دعا کریں۔واقفینِ نو کے لئے دعا کریںکہ یہ وقف بھی نبھانے والے بنیں اور پھر یہ جو ہزاروں کی تعداد ہے، پچاس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے، یہ سنبھالے بھی جائیں، کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔بیماروں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بیماریوں سے شفا عطا فرمائے۔ اسیروں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی اسیری کے دن جلد ختم کرے۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔جو لوگ کسی بھی طرح دعاؤں کے محتاج ہیں ہر ایک کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنا فضل نازل فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا :’’ اب دعا کر لیں‘‘۔ اور پھر حضور نے ہاتھ اٹھا کراجتماعی دعا کروائی۔