خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍اگست 2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم اپنی زندگی کی ایک اور عید الفطر دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کو عید کی حقیقی خوشی نصیب کرے۔ یہ عید جو رمضان کے بعد آتی ہے اس میں بہت سے لوگ رمضان میں مجھے لکھتے ہیں کہ رمضان آ رہا ہے، رمضان کے شروع میں بلکہ شروع ہونے سے پہلے لکھناشروع کر دیتے ہیں کہ رمضان آ رہا ہے دعا کریں کہ ہم حقیقی طور پر اس کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔ پھر رمضان میں بے شمار خطوط آ تے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں کی برکات سے فیضیاب فرمائے۔ اور صرف یہ خط لکھنے والے ہی نہیں بلکہ بے شمار ایسے احمدی ہیں جو رمضان کی برکات و فیوض سے متمتع ہونے اور فیضیاب ہونے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ جو اس کی حقیقی برکات سے فیض پانے کی کوشش کرنے والوں کی حالتوں کو بدل کر اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنا دیتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ھُوَ شَھْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَ اَوْسَطُہُ مَغْفِرَۃٌ وَ اٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ(صحیح ابن خزیمۃ جزء 3 صفحہ 191-192 کتاب الصیام… باب فضائل شہر رمضان ان صح الخبر حدیث نمبر 1887 المکتب الاسلامی بیروت الطبعۃ الاولیٰ 1975ء)کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ آگ سے نجات دلانے والا ہے۔ پس وہ مہینہ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا مہینہ، مغفرت کا مہینہ اور عِتْقٌ مِنَ النَّارِکا مہینہ قرار دیا ہو، اُس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا مہینہ اور کونسا ہو سکتا ہے؟ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دئیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا بندہ اُن سامانوں سے فائدہ اُٹھائے، اُن وسیلوں کو استعمال کرے جو اُس کے رب نے ایک مومن کے لئے مہیا کئے ہیں تو یقینا اس کے نتیجہ میںوہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کا وارث بن جاتا ہے۔ یہ تین الفاظ جو استعمال کئے گئے ہیں یا تین فقرات جو استعمال کئے گئے ہیں، اگر ان پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے ایسے پیار کے نظارے نظر آتے ہیں، ایسے پیار کا اظہار ہوتا ہے جو انسان کی دنیا و عاقبت سنوار دیتا ہے۔ فرمایا اس میں رحمت ہے۔ رحمت کے معنی ہیں کہ کسی کے لئے انتہائی رحم اور ہمدردی کے جذبات رکھنا۔ انتہائی نرمی اور ملاطفت ہونا۔ بہت زیادہ مدد اور فائدہ پہنچانا۔ غلطیوں سے صرفِ نظر کرنا۔ معاف کرنا۔ پھر مغفرت ہے اگر اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانپ دیا، بخش دیا۔ انسان کو تحفظ دے کر گناہوں کی سزا سے محفوظ کر لیا۔ پھر عِتْقٌ مِنَ النَّارِ ہے، تو اس کا مطلب آگ سے آزادی ہے، آگ سے بچایا جانا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیطان سے گردن آزاد ہو جاتی ہے، کیونکہ جہنم کی آگ شیطان کے پیچھے چلنے سے ہی ہے یا شیطان ہی جہنم ہے۔ جب شیطان نے کہا کہ میں صراطِ مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا تا کہ اُن کو ورغلاؤں یعنی انسانوں کو ورغلاؤں، اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور کروں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے سے دنیا کی لالچیں دے کر ورغلاتا رہوں، اُن کو نیک کاموں سے دور ہٹاتا رہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ۔(الاعراف:19)کہ اُن میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا، میں تم سب کو جہنم سے بھر دوں گا۔ پس شیطان کی پیروی اور اتّباع ہی جہنم ہے۔ پس شیطان سے گردن آزاد کروا کر اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر رحمت، ہمدردی، مغفرت سے توجہ کرتے ہوئے اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ دیکھیں، رمضان میں اللہ تعالیٰ نے کتنے وسیع احسانات کے دروازے ہم پر کھولے۔ نہ صرف جہنم سے نجات دلائی بلکہ جنت کے دروازے بھی کھولے۔ لیکن کیا یہ فیض ہر اُس شخص نے اُٹھایا جس نے رمضان پایا، روزے رکھے یا پھر اس کی کچھ شرائط ہیں۔ اور پھر کیا صرف رمضان میں ہی ان شرائط کو پورا کر کے سارا سال کے لئے یا ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو بھی حاصل کر لیا؟ مغفرت کو بھی حاصل کر لیا؟ اللہ تعالیٰ کے پیار سے بھی حصہ لے لیا اور شیطان سے بھی آزاد ہو گئے؟ یا رمضان میں بجا لائی جانے والی نیکیوں کو مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ قرآنِ کریم ان ہدایات سے بھرا پڑا ہے کہ نیکیوں کا تسلسل اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب بندے اور خدا کا دو طرفہ تعلق قائم ہو۔ روزوں کے بارے میں جو آیات ہیں اُن میں ہی اس بات کی طرف بھی خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کے بارے میں جو فرمایا ہے تو اس شرط کے ساتھ کہفَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ(البقرۃ:187) پس میرا فضل اور قرب چاہنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں۔

                اللہ تعالیٰ کے حکم تو عارضی ایک مہینے کے لئے نہیں ہیں۔ وہ تو ایسے احکامات ہیں جن پر ہمیشہ عمل کرنے کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جب یہ حالت ہو، یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل ہو تو اس کے نتیجہ میں کیا ہو گا؟ فرمایا ایسے لوگ ’’یَرْشُدُوْنَ‘‘ میں ہوں گے، ہدایت پانے والوں میں ہوں گے۔ رُشد اور ہدایت پانے کی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا بھی سکھائی ہے کہ یہ رشد، یہ ہدایت عارضی طور پر حاصل کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ فائدہ تبھی ہے جب رُشد پر مستقل مزاجی سے قائم رہو۔ آیت میں جو الفاظ ہیں، وہ ہیں لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔کہ وہ ہدایت پا جائیں گے، کامیابی حاصل کر لیں گے۔ اس محنت کی وجہ سے جو انہوں نے حقیقت میں شیطان سے اپنے آپ کو آزاد کروانے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے کی ہے، اللہ تعالیٰ اُنہیں ایسے راستے پر ڈال دے گا جو کامیابی کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب تک پہنچانے والا راستہ ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنی طرف لانے والے عارضی راستوں کی نشاندہی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے راستے تو مستقل جنت کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ اگر انسان شیطان سے بچتے ہوئے اُن پر چلتا چلا جائے تو یقینا اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتا ہے۔ اُس کا ہر عمل اور عبادت اُسے یہ توجہ دلا رہی ہو کہ مجھے خدا دیکھ رہا ہے۔ اور جب اس میں استقلال پیدا ہو جائے تو پھر بندہ بھی خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے۔ اُس کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی تسلیوں کو محسوس کرتا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھتا ہے۔پس یہ وہ مقام ہے جس کا حصول ایک مومن کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔

                کل تک ہم قرآنِ کریم کے بعض احکامات پر غور کر رہے تھے۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ہم ان احکامات پر غور کر کے، ان کو سمجھ کر،پھر ان پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ کس طرح ہم ترقی کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کے اتنے قریب پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں ہمیں یہ محسوس ہو کہ نہ صرف خدا ہمیں دیکھ رہا ہے بلکہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے مکمل طور پر شیطان سے گردن آزاد کروانے کی ہم کوشش کر رہے تھے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم پر عمل کر کے شیطان کو دھتکارنے کی ہم کوشش کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت حاصل کرنے اور آگ سے بچنے کے لئے اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش میں مصروف تھے تا کہ حقیقی عید منا سکیں۔ کیونکہ شیطان سے گردن آزاد کروا کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی گردن رکھ دینا ہی حقیقی عید ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ حقیقی عید ہم میں سے بہتوں کو نصیب ہوئی ہو۔وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ کی شرائط پوری کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے ہم بنے ہوں۔ کیونکہ ان شرائط کو پورا کئے بغیر ہم شیطان سے کلیۃً اپنی گردن آزاد نہیں کروا سکتے۔ ان شرائط کو پورا کئے بغیر خدا تعالیٰ سے وہ تعلق جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے، پیدا نہیں کر سکتے۔

               پس رمضان کے خطبات میں جو مَیںنے اللہ تعالیٰ کے چند ایک احکامات بیان کئے تو وہ شیطان سے گردن آزاد کروانے اور ایمان کے راستوں کی تلاش کا ایک حصہ تھے ۔ یہ تو اُن تدبیروں میں سے چند تدبیریں تھیں جن کے کرنے سے انسان شیطان کے قبضے سے گردن چھڑوا کر حقیقی عید منا سکتا ہے۔ پس حقیقی عید کے لئے تو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کی ضرورت ہے، اُن صفات کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو کامل الایمان بناتی ہیں، حقیقی عید کا وارث بناتی ہیں۔ اُس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کل بھی کہا تھا سارا سال قرآنِ کریم کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ منہ سے ایمان کے دعوے کو عمل سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے؟ فرماتا ہے یہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے، بعض دفعہ تمہیں آزمایا بھی جائے گا اور یہ آزمائش کا دور ہی ہے جب شیطان کہتا ہے کہ بندہ ذرا بھی کمزوری دکھائے تو میں فوراً اُس کی گردن دبوچ لوں۔ رمضان کے دنوں میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل بندے پر فرماتے ہوئے شیطان کو جکڑا ہوا تھا اور انسان بعض نیک کام کر کے روزے رکھ کر انتیس تیس دن خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع کر کے اپنی گردن شیطان سے آزاد کروا چکا تھا یا کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور ایک حد تک کامیابی ہو گئی تھی، رمضان کے بعد اگر امتحانی دور انسان پر آئے، اگر اُس میں بندہ ایمان کی مضبوطی پر قائم نہ رہے، دنیا کی طرف نظر دوبارہ پڑنے لگ جائے، ذرا کمزوری دکھائے تو شیطان پھر حملہ آور ہو گا اور بعید نہیں کہ پھر قابو کر لے۔ اور اگر بندہ عسر ہو یا یسر ہو، تنگی ہو یا آسائش ہو، اس میں خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے، اپنے ایمان کو بچا کر رکھے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نظر، پیار کی نظر پہلے سے بڑھ کر بندے پر پڑتی ہے۔

               پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مجھ پر ایمان لاؤ تو ایمان کا یہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ کسی حالت میں بھی اس کا دامن نہیں چھوڑنا اور کسی حالت میں بھی اُس کو نہیں بھولنا کیونکہ اس کے بغیر پھر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور فضل انسان پر نہیں ہوتے۔ یہ ہو گا تبھی اللہ تعالیٰ کے انعامات اور فضل ایک مومن کے لئے حقیقی عید کا باعث بنتے ہیں۔

                پھر یہ بھی واضح ہو کہ ایمان صرف اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا اور اُس کی عبادت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو بھی ضروری قرار دیاہے۔ ہر قسم کے اعمالِ صالحہ کو بجا لانا بھی ضروری قرار دیا ہے۔ بلکہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی شرط ہر جگہ رکھی گئی ہے۔ مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآئَ نِ الْحُسْنٰی وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا (الکہف:89)اور جو بھی ایمان لایا اور نیک عمل کئے تو اُس کے لئے جزا کے طور پر بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ضرور اُس کے لئے آسانی کا فیصلہ کریں گے۔ حُسْنیٰ کا مطلب ہے بہترین چیز، بہترین انجام، جنت، کامیابی۔پس کتنے خوبصورت انعامات ہیں۔ جس کو یہ مل جائیں اُس کی اس سے بڑھ کر کیا عید ہو سکتی ہے۔ اور یہی عید ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسانیوں کا فیصلہ کر دے، اُس کے لئے اور کیا عید ہے۔

                پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ       (حم السجدۃ:9)یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ اجر وہ چیز ہے جو کسی کام کرنے کے بدلے میں دی جاتی ہے۔ جو مستقل مزاجی سے اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک کام کرتے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ بدلہ دیتا ہے اور ایسا بدلہ دیتا ہے، ایسا انعام دیتا ہے جو نہ ختم ہونے والا ہو۔ اگر ایمان پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان نیکی کرتا ہے، کوئی عمل بھی کرتا ہے تو پھر ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور نہ ختم ہونے والا انعامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس کو یہ مل جائے اُس کی اس سے بڑھ کر اور کیا عید ہو سکتی ہے۔

                پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے انعام کے مزید دروازے کھولتا ہے جیسا کہ ذکر ہوا کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملتی ہے۔ گویا نیکیاں بچے دیتی ہیں۔ کئی احمدی مجھے لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہم نے فلاں کام کیا یا فلاں چندہ دیا، مالی قربانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اب دل چاہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر قربانی کریں۔ یا ایک نیک کام کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا نیک کام کرنے کی بھی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (العنکبوت:8) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے، ہم یقینا اُن کی بدیاں دور کر دیں گے اور اُن کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ پس جب ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ بدیاں دُور کرنے اور بہترین جزا کی خوشخبری دے رہا ہو تو پھر اس سے بڑھ کر اور کیا عید ہو گی۔ یہ جزا کیا ہے؟ انعامات کیا ہیں؟ آسانیاں کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ(البقرۃ:26)اور اُن لوگوں کو خوشخبری دے دے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے کہ اُن کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ جنت کی خوشخبری، جنت کے باغات کی خوشخبری، اُس کی نہروں کی ملکیت کی خوشخبری دے  اِس سے بڑھ کر اُس کی کیا خوشی ہو سکتی ہے۔نیچے نہریں بہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو باغات ملیں گے جو جنتیں ملیں گی، اُن میں جو نہریں ہیں وہ اُس کے مالک ہوں گے۔ اَور بھی اس کی بڑی تفصیل ہے۔ تو بہر حال جو ایمان لائے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرے اس کے لئے یہ خوشخبری سب عیدوں سے بڑھ کر عید ہے یا سب عیدوں سے بڑی عید ہے جس میں اللہ تعالیٰ جنت کی خوشخبری دے رہا ہے اور اس عید کی تلاش کی ہمیں ضرورت ہے اور کرنی چاہئے۔ یہ خوشخبری ملے گی تو شیطان سے گردن آزاد ہو گی۔

                ایمان اور اعمالِ صالحہ اور جنت کی خوشخبری کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں کچھ اس کی وضاحت پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

                ’’قرآنِ شریف نے جہاں بہشت کا تذکرہ فرمایا ہے ،وہاں پہلے ایمان کا تذکرہ کیا ہے۔ اور پھر    اعمالِ صالحہ کا اوراعمالِ صالحہ کی جزا  جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ(البقرۃ:26) کہا ہے ۔ یعنی ایمان کی جزاء جنّت اور اس جنّت کو ہمیشہ سرسبز رکھنے کے لئے چونکہ نہروں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ نہریں اعمالِ صالحہ کا نتیجہ ہیں۔ اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ اعمالِ صالحہ اس دوسرے جہان میں انہارِ جاریہ کے رنگ میں متمثّل ہو جائیں گے۔‘‘ یعنی یہ اعمال جو اس دنیا میں انسان کرتا ہے، وہ جاری نہروں کی صورت میں، پانی دینے والی نہروں کی صورت میں وہاںوہی شکل اختیار کر جائیں گی ۔ یہ اعمال ہی ہیںجو نہروں کی شکل اختیار کر جائیں گے۔

                فرمایا: ’’دنیا میںبھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان اعمالِ صالحہ میں ترقی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتا ہے اور سرکشی اور حدود اللہ سے اِعتداء کرنے کو چھوڑتا ہے…‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی جو حدود ہیں اُن سے بچتا ہے، اُن پر زیادتی نہیں کرتا، ظلم نہیں کرتا، اُن کو چھوڑتا ہے ’’… اُسی قدر ایمان اُس کا بڑھتا ہے اور ہر جدید عملِ صالح پر اُس کے اطمینان میں ایک رسوخ اور دل میں ایک قوت آ جاتی ہے۔ ‘‘ اور ہر نیا عمل جو صالح عمل وہ کرتا ہے اُس کے ایمان کو بڑھاتا ہے، اس کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور دل میں ایک قوت آتی ہے۔ ’’خدا کی معرفت میں اُسے لذّت آنے لگتی ہے اور پھر یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ مومن کے دل میں ایک ایسی کیفیت محبتِ الٰہی، عشقِ خداوندی کی اللہ تعالیٰ ہی کی موہبت اور فیض سے پیدا ہو جاتی ہے…‘‘ یہ جو سب کچھ ہے، یہ بندے کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی دَین ہے اور عطا ہے، اُسی سے یہ فیض ملتا ہے اور یہ کیفیت دل میںپیدا ہوتی ہے’’…کہ اُس کا سارا وجود اس محبت اور سرور سے جو اس کا نتیجہ ہوتا ہے، لبالب پیالہ کی طرح بھر جاتا ہے اور انوارِ الٰہی اُس کے دل پر بکلّی احاطہ کر لیتے ہیں اور ہر قسم کی ظلمت اور تنگی اور قبض دُور کر دیتے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ اس حالت میں تمام مصائب اور مشکلات بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اُن کے لئے آتی ہیں۔ وہ اُنہیں ایک لحظہ کے لئے پراگندہ دل اور منقبض خاطر نہیں کر سکتے،…‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی مشکلات آتی ہیں، مسائل آتے ہیں تو مایوس نہیں ہو جاتے، بے چین نہیں ہو جاتے، بلکہ فرمایا: ’’… پراگندہ دل اور منقبض خاطر نہیں کر سکتے بلکہ وہ بجائے خود محسوس اللذّات ہوتے ہیں۔ یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘‘ یعنی اس کے بعد ایسے مقام پر انسان پہنچ جاتا ہے کہ بجائے دُکھ کے اسے لذت محسوس ہوتی ہے۔ فرمایا: ’’ ایمان کے انواع ِاوّلیہ بھی سات ہیں اور ایک اور آخری درجہ ہے جو موہبتِ الٰہی سے عطا کیا جاتا ہے…‘‘۔ ایمان کے مختلف جو درجے ہیں، وہ سات ہیں اور جو آخری درجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور دَین ہے۔ ’’…موہبتِ الٰہی سے عطا کیا جاتا ہے۔ اس لئے بہشت کے بھی سات ہی دروازے ہیں اور آٹھواں دروازہ فضل کے ساتھ کھلتا ہے۔…‘‘ سات دروازے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے ہیں، ایمان کی مضبوطی کے اور آٹھواں دروازہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو کھلتا ہے۔’’… غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بہشت اور دوزخ جو اُس جہان میں موجود ہوں گی، وہ کوئی نئی بہشت و دوزخ نہ ہوگی بلکہ انسان کے ایمان اور اعمال ہی کا وہ ایک ظلّ ہیں اور یہی اُس کی سچی فلاسفی ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو باہر سے آ کر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کے اندر ہی سے وہ نکلتی ہیں۔ مومن کے لئے ہر حال میں اسی دنیا میں بہشت موجود ہوتا ہے…‘‘ اور اسی دنیا کا جو بہشت ہے اگر یہ مل جائے، جو ایمان مضبوط ہو ، اعمالِ صالحہ بجا لانے کی توفیق ہو تو یہی عید ہے۔ فرمایا:’’… اسی عالم کا بہشتِ موجود دوسرے عالم میں اُس کے لئے بہشتِ موعود کا حکم رکھتا ہے۔…‘‘ یعنی اس دنیا کا جو بہشت ہے، جو ملا ہے، جو نیکیوں کی توفیق مل رہی ہے، جو عبادتوں کی توفیق مل رہی ہے، مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی توفیق مل رہی ہے، یہی بہشتِ موعود ہے، یہی وہ جنت ہے جس کا آئندہ وعدہ کیا گیا ہے۔ اگلے جہان میں، اگلی زندگی میں، یہی بہشتِ موعود کا حکم رکھتا ہے۔’’…پس یہ کیسی سچی اور صاف بات ہے کہ ہر ایک کا بہشت اُس کا ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں جن کی اس دنیا میں لذّت شروع ہو جاتی ہے اور یہی ایمان اور اعمال دوسرے رنگ میں باغ اور نہریں دکھائی دیتی ہیں۔ مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ اسی دنیا میں باغ اور نہریں نظر آتی ہیں اور دوسرے عالم میں بھی باغ اور نہریں کھلے طور پر محسوس ہوں گی۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 572-573 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ ایمان کو اعمالِ صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے۔… یعنی ایمان کا نتیجہ تو جنت ہے اور اعمالِ صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں۔ پس جس طرح باغ بغیر نہر اور پانی کے جلدی برباد ہو جانے والی چیز ہے اور دیرپا نہیں اسی طرح ایمان بے عملِ صالح بھی کسی کام کا نہیں۔پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار (درختوں) سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اشجار ہیں…‘‘ وہ درخت ہیں ’’…اور اعمالِ صالحہ اُن اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں۔ غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبّر کیا جاوے اُسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے جس طرح سے ایک کسان کاشتکار کے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخم ریزی کرے۔ اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخم ریزی ہے ضروری اور لازمی ہے اور پھر جس طرح کاشتکار کھیت یا باغ وغیرہ کی آبپاشی کرتا ہے‘‘ پانی لگاتا ہے،’’… اُسی طرح سے روحانی باغِ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے۔ یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمالِ صالحہ کے ایسا ہی بیکار ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکمّا ہے۔‘‘

               پھر فرمایا کہ:’’ درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لاپروائی کرے گا تو اُس کا جو نتیجہ ہو گا وہ سب جانتے ہیں۔ یہی حال روحانی زندگی میں    شجرِ ایمان کا ہے…‘‘ ایمان کے درخت کا ہے کہ’’… ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے   اعمالِ صالحہ روحانی رنگ میں اُس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اُسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض و برکات کے ثمراتِ حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 648-649 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                پس یہ جو مجاہدات ہیں، یہ مستقل مزاجی سے کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہی چیزیں ہیں جو حقیقی عید کا وارث بناتی ہیں۔

               پھر عملِ صالح کیا چیز ہے؟ اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ :

               ’’قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں ۔وہ کیا ہیں۔ …‘‘کون سے چور ہیں جو اُس کے عمل پر پڑتے ہیں؟’’…ریا کاری …‘‘ دکھاوا’’… کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے۔ عُجب…‘‘ کیا ہے؟ ’’… کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے…‘‘ پہلا تو یہ کہ دکھاوے کے لئے کوئی اہم کام کیا، پھر کوئی نیکی کی تو اپنے نفس میں خوش ہوا، اپنے دل میں خوش ہوا کہ میں نے بڑی نیکی کر لی ہے، میں کوئی چیز بن گیا ہوں۔ پھر خود پسندی کی عادت بھی پڑتی ہے۔ پھر یہ بھی امید ہوتی ہے کہ میری تعریف بھی لوگ کریں۔ پھر فرمایا:’’… اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ۔ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم، عُجب، ریا، تکبراور حقوقِ انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو…‘‘ یہ خیال تک نہ ہو یہ عملِ صالح ہے۔’’… جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے۔ ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو۔ صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 576-577 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               صرف ایمان فائدہ نہیں کرتا، صرف یہ کہہ دینا کہ ہم احمدی ہو گئے اس کا فائدہ نہیں جب تک اعمال بھی ساتھ نہ ہوں۔ پس اپنے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی حفاظت ہی وہ عید ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور جس کی ہمیں تلاش ہونی چاہئے۔ یہی وہ اصل عید ہے جو شیطان کو دھتکار کر ہم نے منانی ہے۔ یہی وہ اصل عید ہے جو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے منانے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ پس آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے، انشاء اللہ۔ اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی گردنوں کو آگ سے آزاد کروانے والوں میں شامل ہوں، تا کہ شیطان کے چنگل سے آزاد ہوں، تا کہ حقیقی عید جو خدا تعالیٰ کے وصال کی عید ہے وہ منانے والے ہوں، تا کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لاتے ہوئے ہمیشہ ہدایت کے راستوں پر چلتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ ہم بار بار اُن میں داخل ہو کر اُس کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرنے والے ہوں۔ ایمان کی مضبوطی اور عملِ صالح سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتے ہوئے شیطان سے اپنی گردن آزاد کروانے والے ہوں تا کہ ہمارا ہر دن روزِ عید بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               دعا سے پہلے میں سب احباب کو عید مبارک پیش کرتا ہوں۔ شروع میں بھی پہلے مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ عید برکتوں والی ثابت فرمائے، ہر شخص کے لئے بھی اور جماعت احمدیہ کے لئے بھی۔ دنیا میں رہنے والے احمدیوں کو بھی عید مبارک۔میرا خیال ہے ہمارے علاوہ دنیا میں اکثر جگہ تو کل ہی عید ہو چکی ہے۔   بہر حال کہیں صحیح عید ہوئی ہے، کہیں غلط طریقے سے ہوئی۔ لیکن جہاں بھی ہوئی، عید ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کے لئے عید مبارک کرے۔ کیونکہ بعض جگہ علماء نے چاند نظر نہیں بھی آسکتا تھا تو زبردستی ثابت کر دیا کہ چاند نظر آ گیا ہے اور مسلمان ملکوں میںجہاں احمدی ہیں وہاں بہر حال اُن کو رؤیتِ ہلال کمیٹی کے مطابق عیدمنانی پڑی ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے عید ہر ایک کے لئے مبارک کرے۔

               اب دعا ہو گی ، دعا میں پاکستان کے احمدیوں کو جو مسلسل امتحان اور ابتلا کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمانوں کو بچائے ہوئے ہیں، قربانیوں میں پیش پیش ہیں، اُن کو یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کے لئے آسانیوں کے سامان پیدا فرمائے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں احمدیت کی وجہ سے مشکلات میں گھرے ہوئے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ ان میں خاص طور پر انڈونیشیا، ملائیشیا، قرغزستان، قازقستان وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مڈل ایسٹ کے ملک بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔

               شہدائے احمدیت کے خاندانوں کے لئے، اللہ تعالیٰ اُن کے لئے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرمائے۔ اسیران کے لئے، پاکستان میں بھی اسیر ہیں، سعودی عرب میں بھی بعض نو احمدی اسیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ احمدیت کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے جھوٹے مقدمات میں ملوث احمدیوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ بریت کے سامان پیدا فرمائے۔ ہر اُس شخص کے لئے جو جھوٹے مقدمات میں ملوث ہے، بریت کے سامان پیدا فرمائے۔ کسی بھی رنگ میں مشکلات میں گرفتار احمدیوں کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات دور فرمائے۔ رمضان میں مالی قربانیاں پیش کرنے والے احمدیوں کے لئے اور اُن سب کے لئے بھی جو دین کی خاطر مال جان اور وقت کی قربانی کر رہے ہیں، دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ امتِ مسلمہ کے لئے بھی دعا کریں اُن کے افتراق اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے نام پر ظلم کرنے کی وجہ سے جو اُن پر مشکلات ہیں بلکہ پھٹکار پڑی ہے، اللہ تعالیٰ اُنہیں عقل دے اور وہ خدا اور رسول کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں۔ انصاف پسند اور عدل قائم کرنے والے رہنما ان اسلامی ملکوں کو ملیں۔ رعایا کے حقوق ادا کرنے والے لیڈر ان کو ملیں۔ عوام بھی نیک نیتی سے اپنے ملک کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہوں۔ مفاد پرست علماء کے چنگل سے اللہ تعالیٰ جلد مسلم اُمّہ کو رہائی دے۔ انہیںزمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭خطبہ ثانیہ، دعا٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں