خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جولائی 2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج ہم سب چھوٹے بڑے عورتیں مرد یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ آج کا دن ایک خصوصیت کا حامل دن ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے ہم مسلمانوں کے لئے انسانی فطرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ انسان اپنے ہم جنسوں اور اپنے قریبیوں کے ساتھ مل کر کوئی خوشی کا دن منائے عید کا دن مقرر کیا ہے۔ اور جو دین پر قائم لوگ ہیں، اسلام کو ماننے والے لوگ ہیں، جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ان کے لئے یہ دن اور بھی زیادہ خوشی کا باعث بن جاتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک مہینہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز باتوں سے بھی رکے رہتے ہیں، اپنے اوپر سختی وارد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی عید بھی منا رہے ہیں۔ پس اس حالت میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بڑھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف پابندیوں میں سے ہی نہیں گزارا بلکہ فطرت کے تقاضے کا لحاظ رکھتے ہوئے ہمارے لئے آپس میں مل جل کر خوشی منانے کا دن بھی مقرر فرمادیا لیکن اس خوشی کے دن میں یہ بات بھی ہمیں سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جہاں مسلمانوں کو انسانی فطرت کے مطابق خوشیاں منانے کے سامان مہیا فرماتا ہے وہاں ان خوشیوں کی کچھ حدود بھی مقرر فرماتا ہے۔ ایک طرف فطرت کے تقاضے کی وجہ سے مل جل کر خوشیاں منانے کے سامان کرتا ہے تو دوسری طرف بندگی کے تقاضے کے تحت حدود اور زندگی کے مقصد کی نشاندہی بھی فرماتا ہے۔

                باقی دوسری قومیں ہیں، مذاہب ہیں انہوں نے بھی اپنی خوشی منانے کے کوئی دن مقرر کئے ہوئے ہیں لیکن ان کے دن اس طرح شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہیں جس طرح مسلمانوں کے ہیں اور نہ ہی ان میں ایسے اجتماع کا رنگ ہے جیسا کہ اسلام نے عید کے دن اجتماع کا رنگ رکھا ہے۔

                پھر صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی عید شریعت کے حکم کے مطابق ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا بعض پابندیوں کی حامل ہے اور انسان کی زندگی کے حقیقی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ خوشی منانے کے لئے کہا گیا ہے۔ چنانچہ ہماری عید کی ایک خصوصیت ہے کہ اس میں عید کی نماز اور خطبے میں شامل ہونے کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے اور نماز اور عید کے خطبے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں لوگ عید کے دن خوشی منانے کے لئے جمع ہوں، مل جل کر اپنی رونق کے پروگرام بنائیں وہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی باتیں سننے کے لئے بھی جمع ہوں۔

                پس دوسری قوموں کی عیدیں تو صرف کھانے پینے اور لہو و لعب کی عیدیں ہوتی ہیں لیکن ہماری عیدوں میں دوسرے دنوں سے بھی زیادہ ذکر الٰہی کا حصہ ہے۔ عید والے دن پانچ نمازیں بھی پڑھنی فرض ہیں اور عید کی نماز پڑھنا اور خطبہ سننا بھی ضروری ہے۔

               پس ایک حقیقی مسلمان جب عید مناتا ہے تو اسے یہ سوچ سامنے رکھنی چاہئے کہ میری عید صرف کھانے پینے اور کھیل کود کی عید نہیں ہے بلکہ میری عید جہاں مجھے مل جل کر اپنے پروگرام کرنے اور خوشیاں منانے کی اجازت دیتی ہے وہاں مجھے اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کو پہلے سے زیادہ احسن رنگ میں ادا کرے کی کوشش کرنی ہے۔ ذکر الٰہی کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینی ہے۔ یہ نہیں کہ عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی عید کی دوسری مصروفیات اور ملنے جلنے میں ظہر عصر کی نمازیں بھی یاد نہ رہیں،اور اپنے مقصد پیدائش کو ہی انسان بھول جائے۔ ہم احمدیوں کو تو عام مسلمانوں سے بڑھ کر اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے عید کی خوشیوں میں نہ ہی خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کو بھولنا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق کی ادائیگی کو بھولنا ہے۔

               پس ہماری عید صرف لہو و لعب کی عید نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی عید ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ملانے والی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہماری اصلاح کے لئے زمانے کے امام کو بھیجا ہے۔ اس شخص کو بھیجا جس کے آنے اور اسے دیکھنے اور اسے قبول کرنے کی حسرت لئے ہوئے کئی نیک فطرت دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بہت بڑا فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کے زمانے میں پیدا کیا بلکہ اسے ماننے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ پس اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ توفیق دینا کہ ہم زمانے کے امام کو مانیں ہم سے کچھ تقاضا کرتا ہے جس کو ہمیں اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہمارے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کی طرف سے آئے ہوئے فرستادہ کو مان لیا بلکہ ہمیں اپنے ایمانوں کو سنوارنے کے لئے اور حقیقی عید منانے کے لئے ان توقعات کو پورا کرنا بھی ضروری ہے جو زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود نے ہم سے رکھی ہیں۔ تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں بن سکیں گی۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو سکیں گے۔ تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو ماننے والے ہو سکیں گے کہ میرے مہدی کو مان لینا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث4084 ) صرف منہ سے ماننے کا اقرار تو ماننے کا حق نہیں ادا کروا دیتا جبتک ہم عملی طور پر بھی اطاعت کا نمونہ نہ بنیں۔ اور اطاعت کا نمونہ دکھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عہد بیعت میں ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم تا زندگی اطاعت کرتے رہیں گے۔ اطاعت در معروف کی مکمل کوشش کریں گے۔

 (مأخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

               اس وقت مَیں چند باتیں پیش کرتا ہوں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے توقع رکھی ہے۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

               ’’ ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے‘‘۔ فرمایا: ’’بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد6 صفحہ177۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پس نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچنے سے ہی اللہ تعالیٰ بھی مقدم ہوتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے اس کے نفس کا بھی حق رکھا ہے۔ اس کے بیوی بچوں کا بھی حق رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ اپنے نفس کے حق ادا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اتاری ہیں ان کی شکرگزاری یہ ہے کہ ان کا استعمال کرو۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب فرماتے ہیں کہ نفسانی اغراض سے بچو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفس کے فائدہ کے لئے اس حد تک نہ چلے جاؤ کہ ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے سچائی کو چھوڑ دو اور حرام کو حلال کرنے لگ جاؤ بلکہ فرمایا کہ ان حدود کا تمہیں خیال رکھنا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ثروت کے لئے اگر ایک چیز حاصل کرنا آسان ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مالی کشائش دی ہے اس کے لئے آسان ہے اور وہ حلال بھی ہے تو وہ تو بیشک آسانی سے وہ حاصل کرے۔ لیکن اگر ایک ایسا شخص جس کو توفیق نہیں یا اس کی آمد اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس چیز کو حاصل کر سکے لیکن اس کا لالچ غلط ذریعہ سے آمد پیدا کر کے بھی اسے حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنی غلط خواہشات کی تکمیل کے لئے ان کی تسکین کے لئے کوئی قرض لے کر، اپنے اوپر بوجھ ڈال کے اور ساری عمر اس قرضے میں دبا رہ کر اس کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ باتیں پھر نفس کی اغراض کا حاوی ہونا ہے۔ اسی طرح اور برائیاں ہیں۔ معمولی برائیاں بھی اور بڑی برائیاں بھی۔ یہ سب جب انسان اللہ تعالیٰ کو بھول کر کرتا ہے تو یہ نفس کی اغراض کا حاوی ہونا کہلاتا ہے اور ان باتوں کا اظہار خدا تعالیٰ کو نفس پر مقدم نہ کرنا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ’’ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے ایک موت اختیار کرے‘‘ ہر فردِ جماعت کے لئے توجہ طلب ہے۔ جماعت افراد سے بنتی ہے اور جب تک افرادِ جماعت کی اصلاح نہ ہو جماعت بھی بحیثیت مجموعی مکمل طور پر اصلاح یافتہ نہیں کہلا سکتی۔ جماعت میں بھی خامیاں نظر آ جاتی ہیں۔

               پس ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ ہم میں سے اکثر خدا تعالیٰ کو اپنی اغراض پر مقدم کرنے والے ہیں۔ ایک محاورہ ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ چند کی برائیاں بھی بعض دفعہ جماعت کی مجموعی حیثیت اور نام کو بدنام کر دیتی ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا ہے کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کرو یا ہماری بدنامی کا باعث نہ بنو۔(مأخوذ از ملفوظات جلد7 صفحہ188۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اگر کسی کی ذاتی برائی ہے تو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا بدنامی ہونی ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو ہماری ذاتی برائیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے مخالفین ہماری طرف انگلی اٹھائیں گے کہ دعویٰ تو تم کرتے ہو کہ تم نے زمانے کے امام کو مان کر اپنے ایمان کا اظہار کر دیا ہے لیکن یہ بنیادی برائیاں تم میں موجود ہیں۔ جھوٹ ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے۔ مہدی نے آ کر تو انقلاب لانا تھا، نفسوں کو پاک کرنا تھا، ہمیں بتاؤ کہ اس بیعت نے تم میں کونسا انقلاب پیدا کر دیا۔ پس ایک فردِ جماعت کا غلط فعل نہ صرف جماعت کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر بھی حرف آتا ہے۔

                پہلے بھی مَیں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ بعض لوگ کھل کر بعض احمدیوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی فلاں فلاں برائی ہمیں جماعت میں شامل ہونے سے روک رہی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو جماعت بنانا چاہتے ہیں وہ تو خدا پرستوں کی جماعت ہے۔ وہ خدا کو مقدم کرنے والی جماعت ہے۔ دنیا کو دین پر مقدم کرنے والی جماعت نہیں۔

                حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر ایک مجلس میں فرمایا:

               ’’نرا زبان سے بیعت کا اقرار کر لینا کچھ چیز نہیں ہے۔ بلکہ کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگو کہ وہ تمہیں صادق بنا دے۔ اس میں کاہلی اور سستی سے کام نہ لو بلکہ مستعد ہو جاؤ‘‘۔ آپ علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ’’ عبداللطیف کے نمونہ کو ہمیشہ مدّنظر رکھو کہ اس سے کس طرح پر صادقوں اور وفاداروں کی علامتیں ظاہر ہوئی ہیں‘‘۔ پس سچائی اور وفا داری کا تقاضا ہے کہ جان چلی جائے تو چلی جائے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا ہمیشہ مقدم رہے۔ صرف ایمان کا اظہار کر دینا اور بعض دشمنوں کے آگے کھڑے ہو جانا، گولی بھی کھا لینا، ٹھیک ہے قربانی ہے، جان بھی جاتی ہے لیکن اصل قربانی یہ ہے کہ مستقل اپنے نفس کی قربانی دیتے چلے جانا اور جو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے اس کو وفا کے ساتھ پورا کرنا۔ جو لوگ دوسروں کے سامنے غلط نمونے پیش کرتے ہیں وہ کبھی وفا دار اور سچے نہیں ہو سکتے بلکہ فرمایا کہ ’’دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں‘‘۔ پس بہت زیادہ خوف کا مقام ہے۔ آپ نے غلط نمونے پیش کرنے والوں کی مثال دے کر فرمایا کہ ’’ ایسے نمونوں سے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ہماری جماعت کو ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تم ایسے نہ بنو۔ چاہئے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو ۔ ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے مُنہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندیٔ احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں۔ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھوکر کھاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد6 صفحہ263تا 265۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس آپ کا عمدہ معیار ہمیں دیکھنا ہے اور عمدہ نمونہ قائم کرنے کے لئے ہے جبکہ آپ کا یہ معیار جیسا کہ گزشتہ خطبات میں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کو تب مقدم رکھ سکتے ہیں جب ہمیں ہر وقت یہ احساس رہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں اپنی جماعت کے اس معیار کو جس پر آپ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں، بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

               ’’خدا تعالیٰ نے اِس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے‘‘۔(ملفوظات جلد8 صفحہ60۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پس اللہ تعالیٰ سے محبت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے مسلسل کوشش اور دعا اور اپنے اعمال کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق بجا لانا اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ارشاد کو لے لیں وہ اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مقدم ہو۔ اس سے سچی محبت ہو۔ اس کے احکامات پر عمل ہو۔ اور پھر آپ فرماتے ہیں۔یہی میرے آنے کا مقصد ہے۔ اور جو میرے اس مقصد کو سمجھتے اور پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی مجھ میں سے ہیں۔

                پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’یاد رکھو کہ یہ جماعت اس واسطے نہیں کہ دولت اور دنیاداری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزارہے۔ چاہئے کہ صحابہؓ  کی زندگی کو دیکھو‘‘۔(ملفوظات جلد8 صفحہ185۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               صحابہ کی زندگی کیا تھی؟ انہوں نے اپنی عبادتوں کے بھی وہ معیار قائم فرمائے جو ہمارے لئے نمونہ ہیں۔وہ نہ صرف فرض عبادتیں ادا کرنے والے تھے بلکہ نوافل کا بھی بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی حالت تھی تو ایسی اعلیٰ معیار کی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔

               حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ آپ نے کاروبار شروع کیا تو اس میں ایسی برکت پڑی کہ خود فرماتے تھے کہ میں جس چیز میں ہاتھ ڈالتا ہوں اس میں خدا تعالیٰ ایسی برکت ڈالتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ مٹی بھی سونا بن جاتی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4صفحہ690 مسند انس بن مالک حدیث13899،عالم الکتب بیروت1998ء)

                بے انتہا دولت آپ کو اللہ تعالیٰ نے دی لیکن اس دولت نے آپ سے جو اظہار کروائے کیا وہ دنیاداروں کے اظہار تھے؟ ایک دن آپ روزے سے تھے۔ جب افطاری کے وقت آپ کے لئے دستر خوان لگایا گیا تو بیشمار نعمتیں دیکھ کر رونے لگ گئے اور اسلام کے ابتدائی زمانے کو یاد کرنے لگے کہ جب مسلمانوں پر کئی کئی دن فاقے گزرتے تھے اور خود ان کی اپنی حالت بھی یہی تھی۔ لیکن آج بیشمار نعمتیں ان کے دستر خوان پر پڑی تھیں۔ اس نے ان کو رلا دیا۔ ان صحابہ کی قربانی یاد آنے لگی جو جب جنگوں میں شہید ہوتے تھے تو ان کے لئے کفن بھی مہیا نہیں ہو سکتا تھا۔ جو چادر میسر تھی وہ اتنی چھوٹی کہ سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے۔ پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگے ہو جاتے تھے ۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی ، باب غزوۃ احد، حدیث 4045)

               پس یہ وہ نمونے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کشائش پیدا ہونے پر اپنے پہلے وقت کو اس طرح یاد رکھتے ہیں؟ کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتے ہوئے کشائش پیدا ہونے پر اس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ اگر ہماری زندگی کے معیار کا بہترین ہونا، ہماری مالی حالت کا بہتر ہونا ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور اس کا سچا عابد نہیں بناتا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم نے میری بیعت میں آ کر اس مقصد کو پورا نہیں کیا جس کی تم سے توقع تھی۔

                حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی میں نے مثال دی ہے۔ دولت نے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے انہیں صرف اظہار کے طور پر شکرگزار نہیں بنایا بلکہ اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی ان کا کتنا حوصلہ تھا اور آپ نے کس طرح اپنے عمل سے ثابت کیا یہ اس کی ایک مثال ہے۔ اَور بہت ساری مثالیں ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سات سو اونٹوں پر غلّہ اور دوسرے سامان سے لدا ہوا قافلہ مدینہ میں آیا تو آپ نے اونٹوں سمیت وہ تمام سامان خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔(اسد الغابۃ جلد3صفحہ378 عبد الرحمن بن عوف، دارالفکر بیروت 2003ء) لیکن کیا اس قربانی نے ان کے مال میں کچھ کمی کی یا انہوں نے سمجھا کہ اب میں نے بہت کچھ قربان کر دیا اور یہ سب کافی ہے؟ نہیں۔ بلکہ پھر بھی وہ قربانیاں کرتے رہے اور مال کی بڑھوتری کا، اللہ تعالیٰ کی دین کا یہ حال تھا کہ کہا جاتا ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی کروڑوں کی جائیداد تھی اور مال تھا۔(اسد الغابۃ جلد3صفحہ380 عبد الرحمن بن عوف، دارالفکر بیروت 2003ء) پس یہ لوگ دنیا میں رہتے تھے، دنیا کے کاروبار کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ ان کو ہر معاملے میں مقدم تھا۔ آپ کی نمازوں اور نوافل میں ایک خاص خشوع ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ظہر سے قبل بھی نفل کی نماز پڑھتے تھے اور پھر اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ ایک کاروباری آدمی کے لئے یہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ دن کے اس حصے میں اکثر کاروبار ہوتے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنے رات کے نفلوں اور دن کے نفلوں کو اپنی دنیاوی خواہشات اور کاروبار پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

               آج اس معیار کے امیر اگر جماعت میں ہیں بھی بلکہ بہت کم معیار کے امیر بھی جو ہیں وہ بھی نفل تو دُور کی بات ہے ظہر کی نماز کے لئے بھی مشکل سے وقت نکالتے ہیں۔ اور جو نماز پڑھ لیں وہ بھی اس طرح ہوتی ہے کہ جس طرح کوئی بوجھ اتارا ہو۔

                پس ہم میں سے صاحب ثروت اور مخیر لوگوں کو، امیر لوگوں کو، کاروباری لوگوں کو، دنیاوی مصروفیات میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر کام پر مقدم ہو اور ہمارے سامنے صحابہ کا نمونہ ہو۔

                اور اسی بات پر زور دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ: ’’ ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہئے ‘‘۔باتوں تک ہی نہ رہیں۔ ’’یہ اصل مقصد نہیں ہے۔ تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد8 صفحہ70۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                آپ نے فرمایا کہ اسلام ایک درخت ہے تم اس درخت کی شاخ ہو۔ تم استقامت اور اپنے نمونے سے اس درخت کی حفاظت کرو۔(مأخوذ از ملفوظات جلد8 صفحہ323۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پھر آپ نے ایک جگہ نصیحت فرمائی کہ ’’ اسلام کی حفاظت اور سچائی کو ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد8 صفحہ323۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                پس یہ بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو آپ علیہ السلام نے ہم پر ڈالی ہیں۔ پہلے اپنے نفس کو پاک کرنا ایک مجاہدہ چاہتا ہے، ایک کوشش چاہتا ہے۔ اس دنیا کی آجکل اتنی غلط قسم کی ترجیحات ہیں کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ان سے بچا نہیں جا سکتا۔ پس اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے کوشش اور خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے نفس کے گند سے پاک ہو جائیں گے، جب ہم اوّل اپنے لئے role model،نمونہ کسی دنیادار کو نہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کو بنائیں گے تو پھر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں گے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا اور فرمایا کہ اسلام ایک درخت ہے۔ لیکن درخت کا حسن اس وقت نکھرتا ہے جب اس کی شاخیں بھی سرسبز اور خوبصورت ہوں۔

               پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ اس نے اسلام کے درخت کی سرسبز شاخ بننا ہے اور سرسبز شاخ اس وقت بنا جا سکتا ہے جب وہ خصوصیات پیدا ہوں جو کسی درخت کی سرسبز شاخ کے لئے ضروری ہیں۔ اور اسلام کے درخت کی خصوصیات وہ تعلیم ہے جو خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے۔ پس اس تعلیم کو اپنا کر اور پھر اس کے ایسے معیار قائم کر کے جو نمونہ پیش کرنے والے ہوں اس درخت کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے۔ اور جب یہ نمونہ قائم ہو جائے گا، جب اس درخت کی سرسبزی اور خوبصورتی اپنا حسن دکھانے لگے گی تو پھر اس پاک تعلیم سے دنیا کو بھی فیضیاب کرو۔ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ کہ دنیا آج اس کے لئے بے چین ہے۔

                جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے بغیر نمونے کے ہم دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ آج مسلمان دنیا کو بھی اس نمونے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے آپس کے ظلم نے نہ صرف اسلام کو بدنام کر دیا ہے بلکہ انسانیت کی بنیادی قدروں کو بھی پامال کر دیا ہے۔مسلمان دنیا میں وہ انسانیت سوز مظالم ہو رہے ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حتّی کہ یہ عید کا دن جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے جمع ہو کر خوشی منانے کا دن رکھا ہے اس دن میں مسلمان، مسلمان کا خون کر کے، معصوموں اور بچوں کی جانیں لے کر اس دن کو بھی انہوں نے ماتم کا دن بنا دیا ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ کوئی احساس بھی نہیں ہے۔ صرف اس لئے یہ جانیں لی جا رہی ہیں کہ تم میرے فرقے سے نہیں ہو اور تم میرے مسلک سے نہیں ہو۔ یا حکومتیں اس لئے ظلم کر رہی ہیں کہ ہماری کرسی مضبوط رہے۔ اور حکومت کے مخالف اس لئے ظلم کر رہے ہیں کہ ہم نے حکومتوں کو الٹانا ہے اس لئے معصوموں کی جانیں بھی لو تو کوئی حرج نہیں۔ اور پھر اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام پر اور اس کے رسول کے نام پر اور اسلام کی تعلیم کے نام پر یہ سب ظلم ہو رہا ہے۔ انسان سوائے اِنَّا لِلّٰہ کے اور کیا کہہ سکتا ہے۔ ہم احمدی اگر اپنے محدود ماحول میں نمونے دکھاتے بھی ہیں تو ان مفاد پرستوں کی طرف سے ظلموں کی بھرمار اسلام کے خوبصورت چہرے کو گدلا کر دیتی ہے۔

               پس بیشک ہمارے نمونے اور ہماری تبلیغ ضروری ہے لیکن آجکل کے حالات میں خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ صحیح نمونے بھی، مستقل رہنے والے نمونے بھی اسی وقت رہتے ہیں، اس میں کامیابیاں بھی اسی وقت ملتی ہیں جب ان کے ساتھ دعائیں بھی ہوں۔(مأخوذ از ملفوظات جلد9 صفحہ58۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ فرمایا کہ کمالات کو پھیلاؤ تو دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام کی ترقی اور اسلام کی فتح کے لئے دعائیں بھی بہت ضروری ہیں۔ پس دعاؤں کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

                آج ہم احمدی اگر حقیقی عید منانا چاہتے ہیں تو جہاں اپنے جائزے لیتے ہوئے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرکے حقیقی عید کا فیض پائیں وہاں دنیا کو ظلموں سے نکالنے کے لئے اپنی کوششوں کو جتنی وسعت دے سکتے ہیں دے کر اور دعاؤں کے ذریعہ سے دکھوں اور غموں اور ظلموں میں گھری ہوئی اُمّت مسلمہ کے لئے مدد کر کے ان کے لئے ان ظلموں سے نکلنے کے لئے تڑپ کر دعا کر کے حقیقی عید منائیں۔

               پھر عمومی طور پر دنیا جو بے حیائیوں اور گناہوں میں آزادی کے نام پر ڈوبتی چلی جا رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے عذاب کو آواز دے رہی ہے ان کے لئے ہمدردی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بہت دعا کریں۔ آج ہم ہی انسانیت کو حقیقی خوشیوں کا ادراک دے سکتے ہیں۔ پس ہمیں بڑی تڑپ کے ساتھ مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے دعا کی ضرورت ہے۔ اس عید کے دن اگر ہم اپنی دعاؤں سے ان لوگوں کو جو ظلموں اور غموں میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان سے نکالنے کی کوشش کریں گے تو یہی ہماری حقیقی عید ہو گی۔

               اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی یہ ذمہ داری آج بھی نبھائیں، کل بھی نبھائیں اور نبھاتے چلے جائیں۔ پاکستان کے مظلوم احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ اسیران کی جلد رہائی کے لئے بھی دعا کریں۔ آفت زدہ اور جنگوں میں گھرے ہوئے علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ کسی بھی لحاظ سے جو احمدی  مشکلات میں گرفتار ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ان پریشانیوں سے نکالے اور وہ بھی عید کی حقیقی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔

               سب دنیا کے احمدیوں کو میں عید مبارک بھی کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں حقیقی خوشیاں دکھاتا چلا جائے۔

خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروائی جس میں نہ صرف     بیت الفتوح میں حاضر احباب و خواتین بلکہ ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد شامل ہوئے۔]

اپنا تبصرہ بھیجیں