خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍اکتوبر2006ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم عید الفطر منا رہے ہیں۔ یہ عید روزوں کے بعد اس لئے منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو انتیس یا تیس روزے رکھے جاتے ہیں( اس دفعہ رمضان تیس روزوں کا تھا) ان روزوں کی برکتوں سے فیض اٹھانے کی کوشش کی یا فیض اٹھایا۔ روزوں کی جن برکتوں کو سمیٹنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ان روزوں کے افطار کا آج اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ایک افطار ہم رمضان کے مہینے میں اس وقت کرتے تھے جب سورج ڈوبنے پر اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کو حکم دیا کہ اب کھاؤ۔ تمام دن اللہ تعالیٰ کی خاطر کھانے پینے سے پرہیز رکھا اور حتی الوسع ذکر الٰہی اور قرآن کریم پڑھنے میں وقت گزارا ۔ ٹھیک ہے دنیاوی کام بھی ساتھ چلتے رہے لیکن ایک مومن کی کوشش یہی رہی کہ زیادہ سے زیادہ اس طرف توجہ دے کہ دینی اور روحانی حالت کو سنوارنے کی توفیق ملے۔ اسی طرح راتوں کو بھی حتی المقدور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی کوشش کی تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اپنے لئے، اپنے قریبیوں کے لئے، جماعت کے لئے، ملک کے لئے، اُمّت مسلمہ کے لئے حسب توفیق جس جس نے اپنی دعاؤں کاجتنا دائرہ وسیع کیا اور دعا کرنے کی کوشش کی اور صبح سے لے کر شام تک کھانے پینے سے پرہیز کرنے کے بعد سورج ڈوبنے پر افطار کیا۔ اس وقت ایک پانی کا گھونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت لگتا ہے۔ جب آدمی کو شدید پیاس لگی ہوخاص طور پر گرم ملکوں میں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور کھانے اور پینے کی چیزیں جو ہیں جو خدا تعالیٰ نے مہیا کی ہوئی ہیں ان کی قدر بھی آتی ہے۔ روزوں میں ان لوگوں کا بھی کسی حد تک احساس ہوتا ہے جن کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں کہ بعض کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسّر آتی ہے۔ ہر روزہ رکھنے والے سچے احمدی کو کسی نہ کسی وقت ان دنوں میں یہ احساس ہؤا ہو گا کہ غریب بھائیوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ تو روزوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی طرف توجہ دے جن میں حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی تا کہ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ رہے۔

                جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک مہینہ ہم نے اپنے آپ کو بعض چیزوں سے روکے رکھا۔ اسی خدا کے حکم سے آج ہم اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت جو میسر ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی استطاعت ہے اس کے لحاظ سے وسائل ہیں، اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر کھانے سے رکے تھے تو آج اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہم کھا رہے ہیں اور آج روزہ نہ رکھنا ہی ہمارے لئے ثواب کا باعث بن رہا ہے۔

                تو رمضان اور آج کی عید ہمیں یہ ذہن نشین کروا رہے ہیں، یہ سبق دے رہے ہیں کہ انسان کے لئے   اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا اور اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھانا ہی اصل میں اللہ تعالیٰ کی برکتوں، اس کے فضلوں اور اس کی رضا کو سمیٹنے اور حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جس کے لئے ایک مومن کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔   اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آج عید منا کر پھر واپس اسی حالت میں چلے جانا ایک مومن کی شان نہیں ہے۔ حقیقی مومن وہی ہے جو ایک دفعہ نیکیوں پر قدم مارنے کے بعد اس میں بڑھتا چلا جائے۔ اگر آج عید کے بعد ہم یہیں سب کچھ چھوڑ کر اسی حالت میں گھر واپس چلے جائیں گے جس حالت میں رمضان سے پہلے تھے اور ان باتوں میں اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کریں گے جن میں رمضان کے مہینے میں قدم آگے بڑھتے ہوئے ہمیں نظر آئے تو پھر یہ رمضان بھی بے فائدہ ضائع ہو گیا اور اس عید کی خوشیاں بھی سطحی اور عارضی خوشیاں ہیں کیونکہ اس حالت میں یہ عید اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں منائی جا رہی بلکہ جس معاشرے اور ماحول میں رہ رہے ہیں اس میں چونکہ یہ سب خوشیوں کے سامان ہو رہے ہیں اس لئے ہم بھی اسی ماحول کے زیر اثر یہ سب کچھ منا رہے ہیں۔

                ایک احمدی جس نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کیا ہے اس کے ہر عمل کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہئے ورنہ ایک احمدی اور ایک غیر احمدی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک غیر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا اس نے خدا سے کوئی عہد نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد نہیں باندھا ہوا وہ کم از کم عہد توڑنے کے گناہ سے تو بچا ہوا ہے لیکن ایک احمدی جو صحیح طرح احکامات پر عمل نہیں کرتادوہرے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ ایک تو عہد توڑنے کا گناہ اور ایک عملاً اپنی حالت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کر کے ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے کا گناہ جن پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک سچے مومن کو، مسلمان کو حکم دیا ہے۔ پس ہمارے لئے یہ بڑے فکر کا مقام ہے۔ اپنی عیدوں پر اپنے جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ورنہ یہ عیدیں شور شرابا، کھیل کود کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو ں گی۔

                حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مثال دے کر بیان کرتے ہیں کہ اصولاً تو یہ ہونا چاہئے کہ عید الفطر ہمیں یہ دکھائے کہ ایک ماہ کے روزوں سے ہمیں خدا مل گیا اور جب خدا مل جائے تو نیکیوں میں ترقی ہونی چاہئے ورنہ اگر حقیقت میں خدا نہیں ملا اور یونہی عید کی خوشیاں منا رہے ہو تو اس کی مثال اس پاگل کی سی ہے جس کو ہیرے جواہرات اور روپے پیسے کی قدر نہیں۔ اس کا پتا ہی نہیں کہ وہ کیا ہوتے ہیں۔ اور چند چمکتے ہوئے شیشے کے ٹکڑے یا چند صاف کنکر پتھر لے کر سمجھتا ہے کہ یہ حقیقت میں ہیرے جواہرات ہیں اور اس پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا مال ہے اور ہم دنیا کے اتنے امیر آدمی بن گئے۔ اور واقعی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف دنیا میں غرق ہوتے ہیں اور دنیا کمانا ہی ان کا مقصود ہوتا ہے، مطلوب ہوتا ہے اور روپیہ پیسہ ان کا معبود ہوتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے جب دماغ پھرتے ہیں جب کاروبار میں کسی چکّر میں آ جاتے ہیں، دیوالیہ ہو جاتے ہیں تو بہت سے ایسے ہیں جو یا تو دل کے حملے سے مر جاتے ہیں یا دماغ پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ پاگل ہو جاتے ہیں اور پیسے کا کیونکہ ذہن پہ اثر ہوتا ہے تو پھر وہ ہر چیز کو اپنے خیال میں یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میری دولت آگئی اور اپنی ایک دنیا علیحدہ بسا لیتے ہیں۔

                مجھے یاد ہے کہ جب ہم گھانا میں تھے تو ایک ایسا ہی بیچارہ جس کے دماغ پر اثر تھا اور لگتا تھا کہ کسی مالی صدمے کی وجہ سے یہ اثر ہے، اکثر جب ہم بازار جاتے تھے تو اس کو پیسے دیا کرتے تھے اور وہ نوٹ لیتا تھا، سکّے نہیں لیتا تھا تو ایک دن جب اسے بلایا کہ یہ پیسے لے جاؤ تو کہتا ہے نہیں۔ مجھے اب ضرورت نہیں رہی۔ اشارہ سے بتایا کہ آج میرے پاس بہت رقم ہے اور بیچارے نے وہ رقم کس طرح بنائی ہوئی تھی۔ سگریٹ کی ڈبیوں کو کاٹ کے سیڈی کا یا دو سیڈی کا جو نوٹ تھا اس کے برابر گتے کے ٹکڑے کاٹے ہوئے تھے اور ان کی گھٹیاں، تھدّیاں بنائی ہوئی تھیںاور لہرا کر دکھا رہا تھا کہ یہ دیکھو کتنی بڑی رقم میرے پاس ہے۔ ان گتے کے ٹکڑوں سے ہی وہ اپنے آپ کو بڑا امیر سمجھ رہا تھا اور خوشی منا رہا تھا۔ تو ایسے لوگوں کی مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ باوجود اس کے کہ ایسے پاگل جو ہیں اپنے حال میں خوش ہوتے ہیں کہ بہت امیر ہو گئے۔ ہم نے بہت کچھ پا لیا لیکن ایک عقل مند انسان یہ نہیں کہہ سکتا۔ ہم کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جو خوشی ہے وہ اصلی اور حقیقی خوشی ہے کیونکہ ہر ایک کو پتا ہے کہ وہ گتے کے ٹکڑے ہیں یا ٹوٹی ہوئی چیزوں کے ٹکڑے ہیں یا کنکر پتھر ہیں، ہیرے جواہرات نہیں اور وہ شخص بیچارہ غلط بات پر خوش ہو رہا ہوتا ہے جس کو اس بات کی عقل ہی نہیں رہتی۔

               پس صرف خوش ہونا ایک عقلمند انسان کی زندگی کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ وہ حقیقی خوشی کی تلاش میں رہتا ہے اور حقیقی خوشی اس وقت ملتی ہے جب واقعی حقیقی دولت کو پاتا ہے نہ کہ گتے کے ٹکڑوں کو یا کنکروں کو۔ پس ایک مومن کو جو روزوں سے گزر کر آیا ہے غور کرنا چاہئے کہ آج جو عید وہ منا رہا ہے وہ واقعی حقیقت میں میرے لئے عید ہے۔ آج جو خوشی مجھے پہنچ رہی ہے کیا واقعی اپنے پیارے خدا کے پیار کے نظارے مَیں نے دیکھے ہیں۔ اور اگر واقعی اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی وجہ سے اپنے پیار کرنے والے خدا سے ایک تعلق قائم ہوا ہے، ایک ایسی حالت میں قدم رکھا ہے جس میں میں پہلے نہیں تھا تو پھر یہ عید حقیقی عید ہے اور یہ عید اُس منزل کی طرف لے جانے میں ایک سنگِ میل ثابت ہو گی اور اگلے رمضان کی طرف جو سفر ہے وہ ایک نئی منزل کی طرف سفر بن جائے گا۔ جس میں ہر دن نیکیوں پر قدم مارنے والا اور خدا کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے گا۔ مزید خزانوں کی تلاش کی طرف وہ سفر جاری ہو جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر قدم پر بھی خالی نہیں چھوڑتا۔ یہاں بھی ہر قدم جو بڑھنے والا ہے اس پر  اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش پڑتی رہے گی۔ پس آج ہماری عید اگر اس سوچ کے ساتھ ہے تو دنیا جہان کی نعمتیں ہمیں مل گئیں۔ ہمیں اپنے خدا کی طرف قدم بڑھانے کا عرفان حاصل ہو گیا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کی معرفت حاصل ہو گئی جو ایک مومن کی زندگی کا مطلوب ومقصود ہے۔

                اس رمضان میں اگر ہم میں سے بعض نے جو نیکیوں پر پہلے بھی چلنے کی کوشش کر رہے تھے مزید نیکیوں کے راستے تلاش کر کے ان کو اپنایا ہے تو آج وہ حقیقی خوشی منانے کے حقدار ہیں۔ اس رمضان میں اگر بعض نے اپنی برائیاں چھوڑ کر نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا ہے تو وہ حقیقی خوشی منانے کے حقدار ہیں۔ آج ہمارا خدا ہم سے بہت خوش ہے کہ میرے بندے میری طرف آنے کی وجہ سے، میری خاطر اپنی بعض برائیاں ترک کر کے نیکیاں اختیار کرنے کی وجہ سے میرے حکم کے مطابق اپنے عزیزوں، اپنے بچوں، اپنے رشتے داروں، اپنے محلّے داروں، اپنے شہر والوں کے ساتھ مل کر اس بات پر خوشی منا رہے ہیں کہ میری رضا حاصل کریں یا میری رضا کی طرف ان کے قدم بڑھیں۔ تو اللہ تعالیٰ بھی ہماری اس خوشی میں شامل ہو جاتا ہے۔

                آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص جس کا سامان سے لدا ہوا اونٹ جنگل بیابان میں گم ہو جائے اور اس شخص کے پاس اور کوئی ذریعہ اور وسیلہ بھی اس جنگل سے باہر نکلنے کا نہ ہو۔ سارا مال و متاع بھی اس پر ہو تو اونٹ گمنے کی وجہ سے وہ شدید پریشان ہو گا۔ ادھر اُدھر دوڑتا پھرے گا۔ اُس کو تلاش کرے گا اور اس تلاش کے بعد بھی جب اس کو اونٹ نہیں ملتا تو تھک جاتا ہے۔ایک جگہ کسی درخت کے سائے کے نیچے لیٹتا ہے۔ وہاں اس کو نیند آ جاتی ہے۔ جب وہ بیدار ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اونٹ اس کے سامنے کھڑا ہے تو اس شخص کو اس اونٹ کے پانے کی جتنی خوشی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے اپنی طرف آنے کی اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

 (مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا حدیث 6955)

               پس حقیقی خوشی ہمیں اس دن پہنچ سکتی ہے جس دن ہمارا خدا بھی ہمارے ساتھ خوشی منائے۔ اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی عید کا دن وہی دن ہے جس دن انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ سب صاحب یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں بعض ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑے خوشی کے دن سمجھے جاتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔ منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے۔ یہ دن بھی بڑا ہی مبارک ہے۔ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جمعہ ہی کو پیدا کیا اور اسی دن ان کی توبہ منظور ہوئی تھی۔ اور بھی بہت سی برکات اور خوبیاں اس دن کی ماثور ہیں۔ ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں۔ ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ یہ دن بیشک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں۔ لیکن ایک دن ان سب سے بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے۔ مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش۔ ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں وہ دن ان کے لئے بڑا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اسے غنیمت سمجھتے۔ وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو اُن سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن وہ بداعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضب ِالٰہی کے نیچے اسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہو گا جو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضب الٰہی سے نجات دے دے۔ توبہ کرنے والا گناہگار جو پہلے خدا تعالیٰ سے دُور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دُور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ(البقرۃ:223)۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ نِری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔ پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بدکرتوتوں سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہد صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لئے اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہے کہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا بچایا جاوے گا۔ اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔ ‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 147 تا 149۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس اس سوچ کے ساتھ ہمیں عید منانی چاہئے کہ اس رمضان میں بہت سی برائیوں سے بچتے ہوئے اور نیکیاں اختیار کرتے ہوئے میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکا ہوں تو اصلی عید کا دن میرے لئے وہی تھا کیونکہ اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کی۔ آج کے دن تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس خوشی کو سب کے ساتھ مل کر منا رہا ہوں۔ پس توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی محبت کی چنگاری بھی کسی دل میں پیدا ہوئی ہے، اگر ہلکی سی چنگاری بھی پیدا ہوئی ہے تو یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ بڑی روشنی کی شکل اختیار کر لے گی۔ پھر ایسے شخص کا ہر فعل آہستہ آہستہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے گا جس سے اس کے بیوی بچے بھی اثر لیں گے۔ اس کے دوست احباب بھی اثر لیں گے۔ اس کے ماحول کے لوگ بھی اثر لیں گے۔ اس طرح وہ اپنے دائرے میں خداتعالیٰ کا خالص بندہ ہونے کا نمونہ بن جائے گا اور اس روشنی سے پھر آگے روشنی پھیلتی چلی جائے گی۔ یہاں کے ماحول میں بھی اور اب تو مغرب و مشرق ایک ہی ہو چکے ہیں اتنا زیادہ میڈیا نے ملا دیا ہے، سفروں کی سہولتوں نے ملا دیا ہے۔ ہمارے جو مشرقی اور غریب ممالک ہیں ان کے ماحول میں بھی یہاں کی بہت ساری برائیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ تو ہمیں اپنی نسلوں کی بہتری کے لئے ان کو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کرتے اور بچاتے ہوئے اور برائیوں سے بچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر ڈالنے والے بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کریں۔ یہاں والدین کو جو اپنے بچوں کی بڑی فکر رہتی ہے اس سے پھر آزاد ہو جائیں گے۔

                ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی جو چنگاری پیدا کی ہے اگر حقیقت میں اس توبہ کی طرف توجہ کی گئی جس طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے تو یہ چنگاری جو ہے یہ پھر شعلوں کی شکل اختیار کر لے گی جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی حرارت ہو گی اور اس کا نور ہو گا اور اس طرح یہ روشنی اور گرمی کا سلسلہ پھر پھیلتا چلا جائے گا۔ تو حقیقی عید بھی ہماری وہی ہو گی جب ہم اپنے ساتھ اپنی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والا دیکھتے چلے جائیں گے۔ پس یہ حقیقی عید ہے جس کی ہر احمدی کو منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے ہوئے کوشش بھی کرنی چاہئے۔

                اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے جس کے راستے بھی خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھائے ہیں جیسا کہ عبادت ہے۔ فرمایا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ(البقرۃ:44)۔ نمازقائم کرو۔ پھر حکم ہے کہ جب نمازوں کی طرف اچھی طرح توجہ پیدا ہو جائے اور رغبت ہو جائے جس طرح رمضان میں کوشش کی تھی اور مسجدوں میں نمازوں کے لئے آتے تھے تو پھر نوافل کی ادائیگی ہے اس طرف بھی رمضان میں کچھ حد تک توجہ تھی۔ اکثر اٹھ کے تہجد بھی پڑھ لیتے تھے۔ تراویح کی طرف بڑی توجہ تھی۔ نوافل پڑھتے تھے تو پھر اس کام کو جاری رکھو۔

                پھر فرمایا کہ مالی قربانیاں ہیں۔ جس مال سے تم محبت کرتے ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ چندے دو۔ زکوۃ دو۔جن کو طاقت ہے اور اجازت بھی ہے، اگر روکیں نہیں تو حج کی طرف توجہ دلائی۔ یہ ساری عبادات ہیں۔ رمضان میں ان عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی طرف جو توجہ پیدا ہوئی ہے اس کو اب جاری رکھو تا کہ یہ عید کی خوشیاں جو ہیں یہ دائمی اور آگے نسلاً بعد نسلٍ چلنے والی خوشیاں بن جائیں۔

                پھر حقوق العباد کی طرف توجہ کرو۔ ہر الجھنے والے اور برا بھلا کہنے والے کو رمضان میں جب تم یہ جواب دیتے ہو کہ اِنِّیْ صَائِمٌ   کہ میں روزہ دارے ہوں۔ (بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم حدیث 1894) تمہاری ان لغویات کا جواب نہیں دے سکتا ۔اپنا روزہ میں ضائع نہیں کروانا چاہتا تو رمضان کے بعد بھی اس نیکی پر قائم رہو۔ جن رشتے داروں سے رنجشیں ہیں۔ جن عزیزوں سے رنجشیں ہیں، جن تعلق والوں سے رنجشیں ہیں، ان کے ساتھ اس عید منانے کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے شکرانے کے طور پر بہتر تعلقات پیدا کرو۔ غریبوں، بیواؤں، یتیموں کا خیال رکھو۔ پیار، محبت اور انصاف اور عدل کی فضا قائم کرو۔ آپس کی خاوند بیوی، ساس بہو کی جو گھریلو رشتہ داریاں ہیں ان تعلقات میں بہتری پیدا کرو۔ دنیا کی مختلف جگہوں سے بہت ساری شکایتیں آجکل آ رہی ہوتی ہیںکہ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ ساس بہو کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ تو ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ حقیقی عیدیں تبھی منائی جائیں گی جب گھروں میں خوشیاں پیدا ہوں گی۔ یہاں پنجابی کا محاورہ یاد آ گیا۔ ساسیں جو ہیں، ہماری احمدی ساسیں اس محاورے پر عمل نہ کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’نوں نئیںہوندی چنگی تے دھی نئیں ہوندی مندی‘‘ یعنی بہو کبھی اچھی نہیں ہوتی۔ اور بیٹی جو ہے کبھی بری نہیں ہوتی تو بہوؤں کو بھی اگر بیٹیوں کی طرح دیکھیں تو بہت سارے جھگڑے ختم ہو جائیں۔ آجکل جو رشتے ٹوٹتے ہیں یا ان میں جو دراڑیں پڑتی ہیں اس میں بھی جب میں قضا سے جائزے لیتا ہوں تو بہت سارے ماں باپ کا بھی کافی حد تک دخل ہوتا ہے۔ پس اپنے گھروں کو حقیقی خوشیاں دینی ہیں، اپنے گھروں کو حقیقی خوشیوں سے بھرنا ہے، عیدیں منانی ہیں تو ان تمام احکامات پر عمل کریں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے دئیے ہیں۔ تبھی یہ توبہ جو ہے یہ دائمی توبہ ہو گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی چنگاری پھیلتے ہوئے روشن شعلے کی شکل اختیار کرے گی۔ رشتہ دار بھی جو ہیں آپ سے فیض پا رہے ہوں گے۔ ہمسائے بھی آپ کے گن گا رہے ہوں گے۔ لوگوں سے حسن سلوک اور بشاشت آپ کو معاشرے میں ایک مثال بنا کر پیش کر رہا ہو گا۔ آپ کی سچائی کا حسن لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنائے گا۔ خدا کرے کہ یہ عید ہم سب کے لئے اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے حقیقی عید ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت دلوں میں پیدا کرنے والے اور حاصل کرنے والے ہوں۔

               ایک غلط فہمی کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے عورتوں کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لئے جمعہ ضروری نہیں ہے۔ میں نے الفاظ دوبارہ دیکھے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جمعہ پر ضرور آئے لیکن عید پر آنا ضروری ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ عید ضروری ہے۔ یہ نہیں کہا تھا کہ عید فرض ہے۔ کسی نے کہا کہ جی عید تو سنّت ہے۔ عید سنّت تو ہے لیکن سنّت مؤکدہ ہے۔عید پڑھنے کے بارے میںا ور عورتوں کے لئے خاص طور پر اس بارہ میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔ تو ایسے صاحب جنہوں نے یہ ایک دو جگہ باتیں کیں ان کا اعتراض دور کرنے کے لئے میں حدیث آپ کو سنا دیتا ہوں۔ حضرت اُمّ عطیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کی عورتوں کوایک گھر میں جمع کیا اور حضرت عمر بن خطاب کو ہمارے پاس بھیجا۔ آپ دروازے پر پہنچے اور سلام کیا۔ ہم نے سلام کا جواب دیا۔ پھر آپ( یعنی حضرت عمر) نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کے طور پر تمہارے پاس آیا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکامات پہنچائے کہ ہمارے لئے یہ حکم ہے کہ ہم عیدین کے موقع پر ضرور جائیں۔ حائضہ عورتوں اور رَوَاتِق یعنی نئی بلوغت تک پہنچنے والی عورتوں کو بھی نماز عید کے لئے گھروں سے نکالا کریں لیکن جمعہ ہم پر فرض نہیں اور جنازے کے ساتھ قبرستان جانے سے ہمیں منع کیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 820 حدیث 27852 مسند ام عطیۃ ؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت)

تو عید پر عورتوں کو آنا ضروری ہے جیسا کہ میں نے کہا تھا۔ اس لئے جس چیز کا علم نہ ہو یونہی باتیں آگے نہیں پھیلانی چاہئیں۔

               تو اس کے بعد آپ سب کو عید مبارک ہو۔ یہ عید آپ لوگوں کے لئے حقیقی عید ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ  سب گھروں کو خوشیوں سے بھر دے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا جو اصل مقصد ہے وہ حاصل کرنے والے ہوں۔ تمام دنیا کے احمدیوں کو ہر جگہ جہاں جہاں موجود ہیں سب کو عید مبارک۔ مختلف جگہوں سے فیکسیں آئی ہیں، عید مبارک کے پیغام آئے ہیں ان سب کو مَیں آج اس خطبے کے ذریعہ سے عید مبارک کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اپنی اپنی جگہوں پہ محفوظ رکھے اور ہر لحاظ سے ان کی جو عید ہے خوشیوں بھری عید ہو۔ خاص طور پر میں نے جس طرح کہا تھا کہ سری لنکا میں حالات خراب ہیں اور جمعہ اور عید پہ ان کا کافی پروگرام ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بعض جگہ سے رپورٹیں ہیں کہ مسجدوں پر حملہ کرنے کے پروگرام ہیں یا بعض جگہ حالات بڑے ٹینس(Tense) ہیں تو ان سب جگہوں کے لئے جہاں جہاں مخالفین کا زور ہے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور ان کی عید کی خوشیاں جو ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں