خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ جنوری 2006ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ۔سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔ وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرَاھِیْمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَا۔ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَالْبَلٰٓؤُ الْمُبِیْنُ۔وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ (الصّفّٰت:109-103)

                خطبہ بھی عید کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ جو بعض لوگ اٹھ کر جا رہے ہیں انہیں خاموشی سے بیٹھ کر سننا چاہئے۔

               آج قربانی کی عید ہے جسے بڑی عید بھی کہتے ہیں۔ عیدالضحیٰ بھی کہتے ہیں اور وہ مسلمان جن کو توفیق ہے، جن کے راستے میں کوئی شر اور روکیں حائل نہیں ہوتیں وہ مکّہ مکرمہ میں حج کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بعض اور اسلامی ملکوں سے احمدی باوجود مالی توفیق اور خواہش کے شر اور فتنہ کی وجہ سے یہ فریضہ ادا نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ عید جس یادمیں منائی جاتی ہے اور یہ حج کا فریضہ جو ادا کیا جاتا ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت ہاجرہ کی قربانی کے اس اعلیٰ معیار کی یاد میں اور اتباع میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں ا س خاندان کی قربانی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’پس جب وہ اس کے ساتھ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقینا میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ مَیں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس غور کر تیری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا اے میرے باپ وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے۔ یقینا اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں پائے گا۔ پس جب وہ دونوں رضا مند ہو گئے۔ اور اس نے اسے پیشانی کے بل لٹا لیا۔ تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم یقینا تو اپنی رئویا پوری کر چکا ہے۔ یقینا اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقینا یہ بہت کھلی کھلی ایک آزمائش تھی اور ہم نے ایک ذبح عظیم کے بدلے اسے بچا لیا۔ اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا۔‘‘

               اس رئویا کی بنا پر دیکھیں کہ کس طرح باپ نے اپنے بیٹے کو، اس بیٹے کو جو لاڈلا بیٹا تھا، پہلا بیٹا تھا، بڑی عمر میں پیدا ہؤا تھا، اکیلا تھا، قربان کرنے کے لئے کیسا عظیم الشان نمونہ قائم کیا۔ اور پھر اس لئے کہ بیٹا بھی خود اس قربانی میں شامل ہو، وہ بھی اس ثواب کا حقدار ٹھہرے جو خدا تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے سے ہونا ہے، بیٹے کوبھی کہا یہ خواب تو میں نے دیکھی ہے اور یہ پیغام یقینا خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ تم بتائوتم اس بارہ میں کیا کہتے ہو۔ تو بیٹے نے بھی قربانی کے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے کیا خوبصورت جواب دیا کہ اے میرے باپ تو وہی کر جس کا حکم ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے مَیں بھی تو تیری ذریّت طیبہ ہوں، تیری نسل ہوں۔ پاک اولاد ہوں۔ مَیں بھی تو تیری اس تربیت کی وجہ سے جو تُو نے میری کی ہے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہوں۔ پس میری طرف سے کوئی انکار نہیں۔ چُھری پکڑ اور میری گردن پر پھیر دے۔ تُو دیکھے گا کہ میںصبر کا کیسا اعلیٰ نمونہ قائم کرتا ہوں۔ وہ مثال قائم کروں گا جو رہتی دنیا تک سنہری حروف میں لکھی جانے والی ہو گی۔ لیکن خداتعالیٰ جو اپنے بندوں کو آزماتا تو ہے، ان کو امتحان میں تو ڈالتا ہے، ان سے قربانیاں بھی لیتا ہے تاکہ دنیا والوں کے سامنے بھی مثال قائم ہو۔ کسی کی انگلی یہ کہہ کر نہ اٹھے کہ تمہیں کیا پتہ کہ قربانیاں کیا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ قربانیاں، یہ امتحان، یہ ابتلا ان کو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب کر دیتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پہلے سے زیادہ بڑھ کر پڑتی ہے۔ پس یہاں بھی جب خداتعالیٰ نے دیکھا کہ میرے دونوں بندے اس امتحان میں پڑنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں تو فوراً اپنے پیارے بندے سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’بس تُو اپنی رئویا پوری کر چکا۔‘‘ بیٹا بھی رئویا پوری کر چکا۔ نہ صرف پوری کر دی بلکہ اس کے اعلیٰ معیار قائم کر دئیے۔ اب تم اس قابل ہو کہ بڑی سے بڑی قربانی پیش کر سکو۔ یہ چھری پھیرنے کی قربانی تو ایک وقت کی قربانی ہے، جس کے بدلے میں ظاہر اً پورا کرنے کے لئے بھی ایک دنبے کو ذبح کر دو۔ لیکن اس(قربانی) سے جو تم کر رہے ہو بہت بڑی قربانی ہے جو تم نے مستقل کرنی ہے اور ایک عرصے پر محیط ہے۔ اور وہ قربانی تھی ایک بے آب و گیاہ جنگل میں، بیابان میں رہ کر ہر وقت کی قربانی دینا۔ جنگل میں رہ کر ہر لمحے موت کا سامنا کرنا۔ پس یہ قربانی ہے جو تمہیں مقرب ترین بنا دے گی۔ جوش میں آکر موت کے منہ میں تو کئی لوگ کُود جاتے ہیں لیکن ہروقت، ہر لمحہ موت کا سامنا کرنا اور ہر وقت کے جذبات کی قربانی ایک اعلیٰ معیار کو چاہتی ہے جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل نے کی تھی۔ اور یوں قربانی کے وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جس کی یاد میں حج بھی کیا جاتا ہے اور دنیا میں جس جگہ مسلمان بستے ہیں اور جن کو کوئی توفیق ہے وہ عیدالاضحی منا کر جانوروں کی ظاہری قربانی بھی کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ظاہری قربانی کر دینا یا اس قربانی کا ذکر کر لینا یا سن لینا اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں بناتا۔

               قرآن کریم نے تفصیل سے ہمیں اس عظیم قربانی کی یہ خبردی جوایک اندازے کے مطابق آنحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً کوئی 27 ،28 سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ گو کہ بائبل میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن قرآن کریم نے صحیح حقائق کے ساتھ اس عظیم قربانی کی خبر ہمیں دی۔ پس یہ یاد رکھنے والی قربانی ہے۔ بہرحال میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ یہ عظیم قربانی جو اس خاندان نے دی اس کی یادکا حق ہم صرف سال کے سال عید مناکر یا جن کو توفیق ہے وہ حج پر جا کر، یا جانوروںکی قربانیاں کرکے ہی ادا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے اللہ کے ان پیاروں کے دل میں جو تقویٰ تھا وہ ہمیں بھی پیدا کرنا ہو گا۔ بلکہ حضرت ہاجرہ  ؑ کا دل بھی جو تقویٰ اور توکّل سے پُر تھا جنہوںنے توکّل کی عظیم الشان مثال قائم کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ کے یہ کہنے پر کہ ہاں اللہ کے حکم سے میں تمہیں اس بیابان میں چھوڑے جا رہا ہوں، جواب دیا تھا کہ ’’پھر ہمیں خدا ضائع نہیں کرے گا‘‘۔ یہ توکّل اور یہ تقویٰ بھی ہمیںپیدا کرنا ہو گا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ضائع نہیں کیا بلکہ اسی نسل میں سے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا جو خاتم الانبیاء کہلایا۔ اور اب کوئی نہیں جو اس کا دامن پکڑے بغیر خدا تک پہنچ سکے۔ اور پھر اس نبی نے بھی قربانی کے وہ اعلیٰ معیار قائم فرمائے اور پہلوں سے بڑھ کر قربانیوںکے اعلیٰ معیارقائم فرمائے اور ایک تسلسل سے زندگی کے آخری لمحے تک قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم فرماتے چلے گئے۔ تو یہ ذبح ِعظیم تھی جس کے نمونے دکھانے کے لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بھی بخشی گئی تھی اور جن کی نسل میںسے وہ عظیم قربانی کرنے والا پیدا ہؤا اور یہی نہیںبلکہ آپ کی قوت قدسیہ سے آپ کے صحابہ میں بھی تسلسل سے قربانیاںکرتے چلے جانے کے معیار قائم ہوتے چلے گئے۔

                آج ہم نبیوںکے اس سردار اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے ہمیں قربانی کی اس عید پر یہ جائز ے لینے ہوں گے کہ صرف عید منانے کے لئے تو ہم عید نہیں منا رہے؟ صرف قربانیوں کا گوشت کھانے کے لئے تو ہم قربانیاں نہیں کر رہے ، جانور ذبح کر رہے؟ کہیں اپنے بڑے اور امیر ہونے کے اظہار کے طور پر تو ہم قیمتی جانور نہیں خرید رہے؟ اگر یہ باتیں ہیں تو یہ عید وہ عید نہیں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں کے حوالے سے حکم فرمایا ہے۔ ہم نے وہ عید کرنی ہے، ہم نے وہ قربانی دینی ہے جو اس عظیم قربانی کی یاد دلاتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بنانے والی ہو۔ اگر یہ عیدیں اور یہ قربانیاں تقویٰ سے دُور لے جانے والی ہیں تو ایسی قربانیوں کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں۔ اس کو اس سے غرض نہیں ہے کہ کس کا جانور بیس سیر گوشت والا ہے یا ایک من گوشت والا ہے یا کس کے جانور کی قیمت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ دیکھنا ہے کہ اس قربانی کے پیچھے وہ جذبہ کتنا ہے، وہ خواہش کتنی ہے اور اس کے لئے دوسرے نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کتنی ہے جس سے پتہ چلے کہ اللہ کے اس بندے نے تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

                پس ہر احمدی کو اس نظر سے اپنی عیدوں کا جائزہ لینا چاہئے ورنہ خداتعالیٰ نے ان قربانیوں کا ذکرکرتے ہوئے صاف فرما دیا ہے کہ مجھ تک یہ مادّی چیزیں نہیں پہنچتیں۔ مجھ تک تمہارا تقویٰ پہنچے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَادِمَائُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ(الحج: 22)کہ ہرگز نہ اللہ تک ان کے گوشت پہنچیں گے، نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ ان تک پہنچے گا۔ پس یہ تقویٰ ہے جو ہراحمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کر آیا ہوں یہ تقویٰ ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم، حضرت اسمعٰیل، حضرت ہاجرہ کو مسلسل قربانی کی طرف مائل رکھا جس کی وجہ سے وہ مسلسل قربانی دیتے چلے گئے۔

                پس یہ سبق ہم میںسے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ظاہر عمل اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کرتے بلکہ ہر عمل کے پیچھے جو روح ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قُرب دلاتی ہے۔ اس لئے ہر عمل کے ساتھ اپنی نیتوں کو بھی صاف رکھنا ہو گا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے‘‘۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ…حدیث نمبر 1)

                پس یہ عید بھی اور اس کی قربانیاں بھی ہمیں تقویٰ پر قدم مارنے کی طرف توجہ دلانے والی اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہونی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خالصتاً اپنے آگے جھکنے والا بنانا چاہتا ہے اور ہمارے سے ہر قسم کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمارے سے اپنی عزیز ترین اشیاء کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنی جان، مال اور وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ مختلف جگہوں پر ہم یہ عہد بھی کرتے ہیں۔ یہ عہد اسی لئے احمدیت کے عہد میںشامل کیا گیا ہے۔ تبھی ہم اس قربانی کی یاد کو زندہ بھی رکھ سکتے ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ لمبے عرصے تک کی جاتی رہی۔ تبھی ہم ان قربانیوںکی یاد تازہ رکھ سکتے ہیں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں۔ اور پھر آپ کی قوت قدسیہ کی وجہ سے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کیں۔ جیسا کہ مَیںنے بتایا ہے کہ وہ قربانیاں کوئی چھوٹی موٹی قربانیاں نہیں تھیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح تسلسل سے وہ قربانیاں کرتے چلے گئے لیکن اپنے ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ تبھی ہم ان قربانیوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں جن کا  حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے مطالبہ کرتے ہیں۔ یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی۔

               اگر نمازوں اور عبادتوں میںسست ہیں تو ہماری یہ عید کی خوشیاں محض دنیاوی خوشیاں ہیں۔ اگر ہم مالی قربانیاں نہیں کر رہے تو ہم اُس مغز کو حاصل کرنے والے نہیں ہیں، اس کی طرف توجہ نہیںکر رہے جس کے حصول کی خداتعالیٰ ہمیں توجہ دلا رہا ہے۔ اگر ہم حقوق العباد ادا نہیں کررہے اور معاشرے کے جو مختلف حقوق ہیں ان کی طرف توجہ نہیں دے رہے تو ہماری عید بے فائدہ ہے۔ بچے ماں باپ کے حقوق ادا نہیںکر رہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے زیادتی کر رہے ہیں۔ بھائی بھائی سے بول چال بند کئے بیٹھے ہیں۔ تو یہ سب تقویٰ سے دُور لے جانے والی باتیں ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی (نماز) پڑھتا ہے تو نہ نمازیں خدا کے لئے ہیں، نہ دوسرے اعمال خدا کے لئے ہیں بلکہ سب دکھاوے ہیں۔ کیونکہ تقویٰ یہی ہے کہ خداتعالیٰ کے تمام حکموں پر چلنے کی کوشش کی جائے۔

               پس ہر احمدی جو اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتا ہے۔ وہ ان عیدوں کی برکات سے تبھی فائدہ اٹھا سکے گا جب وہ تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ہر عمل کو بجا لائے گا۔ اور جو اس طرح اللہ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے عید قربانی منائے گا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری دی ہے جس کا ایک روایت میںذکر آتا ہے کہ جب ایک سوال کرنے والے نے ایک سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ !یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم  ؑ کی سنت ہیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!  ہمیں اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اُون کا کیا ہوگا؟ فرمایا: اُون کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ حدیث نمبر3127)

               ایک اور روایت میں یوں بھی ہے کہ ’’قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خداتعالیٰ کے حضور ایک درجہ پاتا ہے۔ پس ان قربانیوں کے ذریعہ اپنے نفسوں کو خوشی پہنچائو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ حدیث نمبر3126)

                اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ قربانیاں اگر تقویٰ کی روح کے ساتھ کی جائیں، اس سنت پر چلتے ہوئے کی جائیں جو حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے اور حضرت ابراہیم نے کسی نام و نمود کے لئے قربانیاں نہیںدی تھیںبلکہ تقویٰ سے پُر دل کے ساتھ کی تھیں۔ اس حدیث سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ بس قربانی کر دی اور بخشے گئے۔ جیسا کہ آجکل اکثر غیروں میں قربانیاں کرنے والے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں اور قربانیوں پر ہزاروں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف تو بات نہیںکر سکتے تھے۔ آپ پر تو یہ کتاب اتری تھی، آپ تو شارع تھے۔ اس لئے اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اور دل میں سنت ابراہیمی کا احساس پیدا کرتے ہوئے جب تم یہ قربانیاں کر رہے ہو گے تو پھر اللہ تعالیٰ جو مختلف طریقوں سے اپنے بندے کو بخشنا چاہتا ہے وہ اُس کی اِس قربانی کے خون اور بال اور دوسرے اعضاء کے بدلے میں نیکیاں لکھ لیتا ہے۔ پس یہ جہاں ہمارے لئے خوشخبری ہے وہاں یہ ایک مومن پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ڈالتی ہے کہ وہ اعمال بھی بجا لائو جس کی وجہ سے یہ نیکیاںتمہارے نام لکھی جائیں ۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔

                ’’خداتعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اپنے تمام وجود کے ساتھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاںاسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئیں ہیں۔ لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَادِمَائُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ(الحج: 22) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا، نہ خون پہنچتا ہے۔ مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاںذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ کی میں ذبح ہو جائو۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 99 حاشیہ)

               پس اگر ہم اس طرح اپنے جائزے لینے لگ جائیں اگر ہم دیکھیں کہ کیا واقعی ہم خدا کی راہ میں ذبح ہونے کے لئے تیار ہیں۔ تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ اللہ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

               اسی تعلق میں ایک بات واقفینِ نَو کے بارے میں بھی کہنی چاہتا ہوں۔اس کا تعلق والدین سے بھی ہے۔ اور ہوش کی عمر کو پہنچنے والے بچّے سے بھی ہے۔ والدین پیدائش سے پہلے اپنے بچوںکو وقف کے لئے پیش کرتے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں اور جب تک یہ سکیم ہے کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ۔ پس سب سے پہلے تو والدین اپنے رب کاشکر ادا کریں کہ اس نے ان کے بچوں کے بہترین مستقبل کا ایک ذریعہ مہیا فرما دیا ہے۔ کیونکہ اُس سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں ہو سکتا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لئے سامان مہیا فرما دیا، چُن لیا۔ یہ پیشکش کرنے کے بعد والدین کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا بھی مستقل کرتے رہنا چاہئے کہ  رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْن(الصافات:101)۔ اے میرے رب مجھے نیکو کار اولاد بخش۔ جن کی تو اولاد پیدا ہو کر وقفِ نو  کی فوج میں شامل ہو چکی ہے مَیں امید کرتا ہوں کہ ان کی اکثریت نے یہ دعا اپنی اولاد کے لئے کی ہو گی۔ لیکن بہرحال جنہوں نے اب اپنے بچوں کو پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں پیش کر رہے ہیں، وہ بھی اپنی ہونے والی اولاد کے لئے دعائیں کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک، صالح اولاد دے جو حقیقت میں وقف کے تقاضوں کو نبھانے والی ہو۔ پھر جن والدین کے بچے پیدا ہو چکے ہیں، بڑے ہو چکے ہیں، وہ بھی اپنی اولادکے لئے مستقل یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس اولاد کو قرۃ العین بنائے۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ نیکیوں پر قدم مارنے والا بنائے۔ وقف کی روح کو نبھانے والا بنائے۔ ان کا شمار حقیقت میں ذریّت طیبہ میں ہو۔ وقت آنے پر جب ہوش کی عمر کو پہنچیں تو ان کا جواب بھی وہ ہو جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دیا تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر اس وقت بارہ تیرہ سال تھی جب انہوں نے اپنے والد کو جواب دیا تھا کہ سَتَجِدُنِیْ اِنْشَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ(الصّافات: 103)  تو واقفینِ نَو بچے بھی اس عمر کو پہنچ کر پورا فہم اور ادراک رکھنے والے ہوں کہ وقفِ نَو کیا چیز ہے؟ بعض والدین اس طرف پوری توجہ نہیں کرتے کیونکہ یہ فہم پیدا کرنا بھی والدین کا کام ہے۔ اور والدین یہ یاد رکھیں کہ ان کے اپنے تقویٰ کے معیار اچھے ہوں گے، ان کی اپنی حالت سنّت ابراہیمی کے مطابق ہو گی تو ان کو اسماعیل والا جواب ملے گا۔ اس لئے  ذمہ داری صرف نظام جماعت کی نہیں ہے بلکہ بہت بڑی ذمہ داری والدین کی بھی ہے کہ وہ بچوں کی اُٹھان ایسی کریں کہ وہ بڑے ہو کر آسانی سے جماعتی مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔ اس قابل ہو سکیںکہ خدمت دین کرنے والے ہوں اور ان والدین کو اپنے تقویٰ کے معیار بہتر کرنے سے یہ چیزحاصل ہو گی۔ ان کے اپنے تقویٰ کے معیار بہتر ہوں گے تو وقفِ نَو اولاد بھی بہتر ہو گی بلکہ دوسری اولاد بھی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہو گی۔ پس والدین بھی اس قربانی کی روح کو سمجھیں۔ قربانی دینے کے لئے صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ حضرت ہاجرہ نے بھی قربانی دی تھی اور حضرت ابراہیم نے بھی قربانی دی تھی۔ اس لحاظ سے والدین کا بہت بڑا کام ہے۔

                اگر ہر وہ گھر جہاں وقف نو کا بچہ ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو میرے نزدیک تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع   رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ جو آسمانی تحریک تھی یہ پورے معاشرے کو صاف کرنے والی تحریک ہے۔ یہ نہ سمجھ لیں کہ بچے کو پیش کر دیا اور اس بات پر فخر ہے کہ بس کافی ہو گیا۔ یہ جیسا کہ میں نے کہا ایک جاری عمل ہے۔ اس پر لگاتار اُس وقت تک ایک تسلسل کے ساتھ قربانیاں کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے جب تک کہ بچہ جماعت کا ایک مفید وجود نہیں بن جاتا۔ ان بچوںکے ذہنوں میں بچپن سے یہ بات بٹھائیں کہ تم وقف ہو۔ اور سب سے پہلا کام تمہارا دین کی خدمت کرنا ہے۔ اس کے لئے تم دین کا علم حاصل کرو۔ تم نے مبلغ بننا ہے۔ اور اس لحاظ سے پھر وہ اپنے ذہنوں کو تیار بھی کریں گے اور پڑھائی بھی کریں گے۔ جو پڑھائی کے اس معیار تک نہیں پہنچتے وہ پھر معلّم بن جاتے ہیں۔ جس طرح بھی ان کی سلیکشن ہوتی ہے۔ بہرحال جماعت کو تربیت و تبلیغ کے میدان میں واقفینِ نَو بچوں کی بہت بڑی تعداد چاہئے تبھی ہم اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ پھر ڈاکٹرز ہیں۔ ٹیچرز ہیں۔ پھر دوسرے پیشے ہیں۔ لیکن زیادہ تعداد بہرحال ایسے واقفینِ نَو کی چاہئے جو دین کا علم سیکھنے والے ہوں۔ جامعہ میں جانے والے ہوں۔ باپ اور مائیں اگر بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں یہ ڈالیں گی تو پھر اکثر بچوںکے ذہن اس طرف مائل ہوں گے۔ اور پھر اس کے ساتھ جیسا کہ مَیںنے کہا تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ ان کے لئے دعائیں کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا، مدد فرمائے گا انشاء اللہ۔ پھر واقفینِ نَو بچے بھی جو ہوش کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جواپنے والدین کے عہد کی تجدید خود ہوش کی عمر کو پہنچ کر رہے ہیںاپنے ذہن میں رکھیں کہ وقفِ نَو میں ہونا اُس وقت اُن کے لئے، اُن کے والدین کے لئے قابل فخر ہو گا جب وہ اس قربانی کے معیار کو سمجھیں گے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قائم فرمایا تھا۔ اور اس آزمائش (کے معیار) پر پورے اتریںگے جو انہوںنے قائم فرمایا تھا۔ وہ وقتی آزمائش نہیں تھی۔ وہ ایک مسلسل قربانی کی آزمائش تھی۔ پس ہوش کی عمر کو پہنچ کر آپ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لئے پیش کریں۔ اور اگر جامعہ کے اس معیار پر کسی وجہ سے پورے نہ اترتے ہوں تو پھر جماعتی نظام سے مشورہ کرنے کے بعد اپنی لائن اختیار کریںجس کی جماعت کو ضرورت ہو جس سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ پس کسی کے جامعہ میں جانے کے لئے یہ تصور نہ ہو کہ تھوڑے نمبر آئے تو جامعہ میں جائوں گا۔ اگر بہت اچھے نمبر آگئے، ڈِسٹنکشن(Distinction) آ گئی تو پھر ڈاکٹر بنوں گا یا فلاں بنوں گا۔ آپ ان خوش قسمت بچوں میں سے ہیں جن کو ابتدا سے ہی مستقبل کی لائن اختیار کرنے کا پتہ لگ گیا ہے۔ ہمارے ان ملکوں میں بلکہ اور دنیا میں بھی بہت سارے بچے ہیں بڑے ہوشیار ہوتے ہیں لیکن آخر تک ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا لائن اختیار کریں گے۔ تو یہ تو بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ کو ایک لائن میسر آ گئی ہے۔ اس کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بجائے اِدھر اُدھر جانے کے۔ پھر یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے لئے والدین کی دعائیں جماعت کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کاخاص فضل شامل حال ہے کیونکہ آپ نے اللہ کی خاطر زندگیاں قربان کرنے کا عہد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام واقفینِ نَو، ان کے والدین اور اسی طرح تمام واقفین زندگی اور جو خدمت کرنے والے ہیں، جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں انہیں سب کو اپنی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو خداتعالیٰ ان سے چاہتا ہے۔

               اب مَیں ان اسیران کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں جو مختلف جگہوں پر خاص طور پر پاکستان میں بہت زیادہ اسیران صرف ا س لئے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں۔ شہداء جو ہیں، شہدائے احمدیت ان کے خاندانوں کے لئے، ان کے بچوں کے لئے دعاکریں اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو بھی قبول فرمائے اور ان کی آئندہ نسلوں کو بھی بہترین اجر عطا فرمائے۔ واقفین زندگی جو ہیں ان کے لئے دعا کریں۔ جو سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہیں ان کے لئے دعا کریں ۔

               یہاں قادیان کے رہنے والے جو یہاں نئے آنے والے ہیں یا درویشوں کی اولاد ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ ان درویشوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کے لئے اس بستی میں رہتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیار اونچے کریں۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور اپنے اعمال کی نگرانی کریں۔ تمام دنیا کے رہنے والے جو یہ خطبہ سن رہے ہیں اس بستی کے ابتدائی درویشوں کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ وہ درویش جو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے اور قربانی کی مثالیں قائم کرتے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ اور جو موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے۔ ان کی نسلوںکو بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس مسلسل ابتلا اور امتحان اور آزمائش سے نکالے۔ راستے صاف فرمائے۔ان کے تقویٰ کے معیار کو بھی بڑھائے اور ان کی نیک تمنائوں اور دعائوں کوقبول فرمائے۔ کئی لکھتے ہیں کہ آپ اتنے قریب آ گئے ہیں لیکن پھر بھی حالات کی وجہ سے ہم مل نہیں سکتے۔

               پاکستان کے احمدیوں سے مَیں کہتا ہوں کہ آج آپ کے دل جذبات اور دردسے بھرے ہوئے ہیں۔ ان جذبات کو، اس درد کو آنسوئوں میں ڈھال کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ جلد یہ آزمائش اور جدائی کے دن ختم کر دے۔ بنگلہ دیش ،انڈونیشیا اور اسی طرح ہندوستان کے بعض علاقوں میں احمدیوں پر کافی سختیاں ہورہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات بھی ختم کرے اور دشمن کے ہر شر اور شرارت سے محفوظ رکھے۔ اور ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے۔ اور جلد وہ دن ہمیں دکھائے کہ ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا جھنڈا تمام دنیا پر گاڑنے والے ہوں (آمین)

               خطبہ ثانیہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اب دعا کرلیں۔

                دعا کے بعد فرمایا: تمام دنیا کے احمدیوں کو، آپ کو، سب کو عید مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے عید بابرکت فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں