خلافت کا احترام و اطاعت

لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے رسالہ ’’النصرت‘‘ کے صد سالہ خلافت نمبرمیں مکرمہ امۃالحئی خان صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے خلافت کے احترام اور اطاعت کے واقعات بیان کرتی ہیں۔
آپ کہتی ہیں کہ مَیں نے اپنے نانا حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ بیعت کے بعد سب کچھ چھوڑ کر قادیان آبسے تھے۔ جب ہماری خالہ بُوا زینب بیگم کے نکاح کی تجویز حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ کے ساتھ ہوئی تو سارا ملیرکوٹلے کا خاندان اس رشتہ کے خلاف تھا لیکن حضرت نواب صاحبؓ میں غیرتِ ایمانی کا وہ جوش تھا کہ فرمایا: اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک بھی مانگ رہا ہوتا تو بھی مَیں اس کو بیٹی دے دیتا۔
میری بڑی امی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ مَیں نے بہت وقت گزارا ، کئی ماہ اُن کے پاس رہی۔ اُنہیں اللہ تعالیٰ، رسول کرمﷺ، حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بہت محبت تھی اور خلافت و جماعت کے لئے انتہائی عقیدت۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر ہوتا تو کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ صرف اپنے والد کا ذکر ہے بلکہ ایسی عقیدت و احترام کہ گویا سب کچھ ایک روحانی تعلق ہے۔ … خلافت کے ساتھ بھی ایک خاص عقیدت کا تعلق تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ سے اتنی محبت تھی کہ مَیں رشک کرتی کہ آپؓ کی ہر بات بڑے بھائی صاحب سے شروع ہوتی اور اُن پر ہی ختم ہوتی۔ لیکن جب شعور ملا تو احساس ہوا کہ یہ صرف بہن بھائی کی محبت نہیں بلکہ کچھ اَور ہے اور وہ ہے خلافت کے لئے احترام اور غیرت۔ جب حضرت مصلح موعودؓ کی وفات ہوئی تو انتخاب خلافت کے وقت سب دعا میں مصروف تھے۔ مجھے باہر کسی پہرہ دار نے بتایا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفہ منتخب ہوئے ہیں۔ میری عمر چھوٹی تھی، مَیں اندر گئی اور پہریدار کی بات دہرادی۔ ابھی میری بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ بڑی امّی جو غم سے نڈھا ل پڑی تھیں، جوش میں اٹھیں اور کہا: خبردار! ایسی بات منہ سے نہیں نکالنی جب تک اعلان نہ ہوجائے۔ مَیں نے آپؓ سے کبھی ڈانٹ نہیں کھائی تھی لیکن سمجھ گئی کہ یہ آپ کی غیرت کا تقاضا تھا۔
پھر خلیفہ ثالثؒ آپؓ کے داماد تھے اور بھتیجے بھی۔ لیکن حضورؒ سے ہر بات میں مشورہ لینا اور اس پر عمل کرنا ہی آپ کا دستور رہا۔ آپؓ کا عمل ایسا تھا کہ گویا آپؓ کا کچھ مقام ہی نہیں سب کچھ نظام خلافت اور نظام جماعت سے ہی وابستہ ہے۔
میرے والدین بھی اُسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفہ ثالثؒ اور میرے والد (حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب) بھائی بھی تھے اور ہم زلف بھی۔ حضورؒ کی خلافت سے قبل کئی بار ہم خاندان اکٹھے ہوتے۔ بڑے ایک جگہ بیٹھتے تو شکار اور سیروں کی باتیں ہوتیں۔ حضورؒ بڑے ہونے کی وجہ سے ابّا کو چھیڑتے تو ابّا ناراض بھی ہوجاتے۔ لیکن جونہی حضورؒ خلیفہ بنے، ابّا کا مزاج ہی بدل گیا۔ ہر بات ماننا اپنا فرضِ اوّلیں سمجھتے۔ ایک بار کسی کی شکایت پر حضورؒ نے اجتماع کے موقع پر حضرت چھوٹی آپا کو خط لکھا کہ جماعتی تقریبات میں غیر مناسب لباس پہن کر آنے پر پابندی لگائیں۔ اُس زمانہ میں اونچی قمیضوں کے ساتھ بیل باٹم پاجامے چلے ہوئے تھے۔ مَیں اونچی قمیض تو نہیں پہنتی تھی لیکن بیل باٹم پہنتی تھی۔ اجتماع کے وقت مَیں لاہور میں تھی اس لئے حضورؒ کی ہدایت کا علم نہیں تھا۔ جب لاہور سے واپس آئی اور ابّا کو سلام کیا تو آپ کی نظر میرے پاجامہ پر تھی اور جواب میں ایک جھڑکی ملی کہ تمہیں پتہ نہیں کہ حضرت صاحب نے کیا فرمایا ہے، اگر تم مجھے پھر اس لباس میں نظر آئیں تو میرا تمہارا تعلق ختم۔ بعد میں چھوٹی آپا نے وضاحت کی تو ابّا کی ناراضگی دُور ہوئی۔
اس واقعہ کے تناظر میں دیکھیں کہ حضور انور ایدہ اللہ نے بھی لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے گزشتہ اجتماع کے موقع پر پردہ کے بارے میں نصائح فرمائی ہیں۔ کتنے والدین ایسے ہیں جن کا ردّعمل میرے ابّا جیسا ہے!!!
میرے ابّا نے میرے بارہ میں سوچا ہوا تھا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور اسے مَیں نے بیاہ کر دُور نہیں بھیجنا اور اگر بیرون ملک کوئی رشتہ ہو تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب لندن سے میرا رشتہ آیا تو ابّا کا ردّعمل تو فوری تھا۔ اس پر میری امّی کو چونکہ ابّا کی طبیعت کا علم تھا اس لئے وہ چپکے سے حضورؒ کے پاس گئیں اور معاملہ پیش کیا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا: امۃالحئی کے رشتہ کا فیصلہ مَیں کروں گا۔ چنانچہ اس کے بعد ابّا کے بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اپنے سب جذبات ایک طرف رکھ کر خلیفۂ وقت کے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے مجھے پردیس رخصت کردیا اور خود دعاؤں میں لگ گئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات ہوئی تو ابّا علاج کے لئے انگلینڈ میں تھے۔ خبر ملتے ہی ہم سب پاکستان روانہ ہوئے۔ خلیفہ رابعؒ کا انتخاب ہوگیا اور حضورؒ پہلی بار اندر تشریف لائے تو ابّا نے سب سے آگے بڑھ کر گلے سے لگایا اور اُسی وقت حضور کہہ کر مخاطب کیا۔ اگرچہ حضرت خلیفہ رابعؒ سے عمروں کے فرق کی وجہ سے کبھی بھی بے تکلّفی کا تعلق نہیں رہا تھا۔ لیکن بعد کی زندگی میں ابّا کا حضورؒ سے ادب اور احترام کا تعلق ہمیشہ نمایاں رہا۔
بعض خلفاء کی بیویوں کو بھی مَیں نے دیکھا جو آج ہم میں نہیں ہیں۔ حضرت چھوٹی آپا، حضرت مہر آپا، خالہ امّی (حرم حضرت خلیفہ ثالثؒ) اور چچی آصفہ (حرم حضرت خلیفہ رابعؒ)۔ کبھی کسی کو خلفاء سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ احترام اور اخلاص اور اعتقاد ہوتا تھا۔ بلکہ اگر کسی کی کوئی بات احترام کے خلاف بھی نظر آئی تو نہایت احسن طریق پر سمجھایا۔ اسی طرح پھوپھی باچھی جو حضرت خلیفہ ثانیؓ کی بہت لاڈلی بیٹی اور حضرت خلیفہ ثالثؒ کی خاص بہن تھیں۔ اُن کی حضرت خلیفہ رابعؒ کے ساتھ پہلے بے تکلّفی بھی تھی لیکن حضورؒ کے خلیفہ بننے کے بعد انداز ہی بدل گیا، ہمیشہ نیچی نظر اور نیچی آواز کے ساتھ بات کرتیں جس میں احترام اور اطاعت کا پہلو نمایاں ہوتا۔
میرے سُسر محترم عبدالسلام صاحب کو بھی مَیں نے خلافت پر قربان ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار پایا۔ آپ ہمیشہ کہتے کہ دین العجائز اختیار کرو۔ جب آپ کے خاندان میں کسی عزیز نے حضرت خلیفہ ثالثؒ کے ساتھ ذاتی اختلاف کیا تو آپ نے اس معاملہ پر حضورؒ کا ساتھ دیا اور کسی کی قطعاً پرواہ نہیں کی بلکہ اپنے سارے خاندان کو چھوڑنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ اگر کبھی کوئی آکر کہتا کہ حضورؒ تک ہمارا مؤقف بھی پہنچائیں تو کہتے کہ مَیں نے بیعت کی ہے، اس لئے اگر کوئی ذاتی خیال بھی ہوگا تو اُس کا بھی اظہار نہیں کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں