خلافت کے ساتھ فدائیت و محبت اور اطاعت
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اپنے انتخاب خلافت کے فوراً بعد وہاں موجود احباب سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بِک جانے کا نام ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودـ نے مجھے اشارۃً فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا۔ سو اُس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہوگیا اور مَیں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کرسکتے۔ پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا، کھڑا ہونا چلنا اور تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو‘‘۔
جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت، فدائیت اور وابستگی کی چند مثالیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍اگست 1999ء میں مکرم امین احمد تنویر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے عہد سعادت میں جب مَیں لاہور میں مقیم تھا تو حضورؓ کی طرف سے مجھے ارشاد پہنچا کہ آپ فوراً زیرہ پہنچ جائیں ۔ جب یہ حکم پہنچا تو مَیں اسہال کی وجہ سے سخت بیمار اور بہت کمزور تھا۔ گھر والوں نے بھی کہا کہ اس حالت میں سفر خطرناک ہے لیکن مَیں نے تعمیل ارشاد میں توقف کرنا مناسب نہ سمجھا اور فوراً سفر پر روانہ ہوگیا۔
حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ سے ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنے عہد خلافت کے آغاز سے کچھ عرصہ بعد پوچھا کہ آپ دین کی خدمت کیلئے کب وقف کریں گے؟۔ آپؓ نے عرض کیا کہ مَیں تو حاضر ہوں۔ چنانچہ آپؓ نے اپریل 1917ء میں وکالت کی پریکٹس ختم کردی اور چند ماہ بعد قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔
تحریک شدھی کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب اور حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ وہاں تشریف لے گئے۔ حضرت عرفانیؓ بیان کرتے ہیں ہمیں اکرنؔ جانے کا حکم ملا۔ چودھری صاحب باوجود یکہ نحیف الجثہ تھے اور عمر کا آخری حصہ تھا لیکن یوپی کی خوفناک گرمی کے ایام میں وہ مجھ سے زیادہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ میرے شریک کار ہوئے۔ پانی کی تکلیف، گرمی کی شدت، رہائش کی جگہ نہیں، چاروں طرف دشمن اور ریاست کے حکام اُن کے مددگار۔ مگر ہم اکرن میں اس طرح ڈٹے ہوئے تھے کہ حکام کو بھی حیرت ہوتی تھی۔
تحریک شدھی کے دوران حضورؓ نے ڈیڑھ سو سرفروشوں کو خدمت کے لئے طلب کیا اور فرمایا کہ ہر ایک کو تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہوگی اور ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے۔ جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں حضورؓ کی تحریک پر لبیک کہا اور ڈیڑھ ہزار افراد نے اپنی خدمات پیش کردیں جن میں مستورات اور بچے بھی شامل تھے۔ جن لوگوں کو میدان جہاد میں بھیجا گیا انہیں شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی دن تک چنوں پر گزارا کیا، نمک لگاکر روٹی کھالی، جہاں جگہ ملے وہاں سو گئے لیکن اُن علاقوں میں ڈٹے رہے جہاں اُن کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔
حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ جب لاہور کے امیر تھے تو آپؓ کو حضرت مصلح موعودؓ کا حکم ملا کہ احمدیہ ہوسٹل کے طلبہ کے ساتھ فوراً قادیان پہنچیں۔ چنانچہ آپ اُسی وقت روانہ ہوئے اور رات کو بٹالہ پہنچ گئے۔ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ رات بٹالہ میں گزارکر سحری کے وقت روانہ ہوں لیکن آپؓ نے کہا کہ حکم یہ ہے کہ ’’فوراً قادیان پہنچیں‘‘- اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کہہ کر آپؓ روانہ ہوگئے اور دوسرے دوستوں نے بھی آپؓ کی پیروی کی اور اُن کو یہ تنبیہ بھی ہوگئی کہ خلیفۂ وقت کے حکم کی تعمیل میں ذرا سی تاخیر بھی روا نہیں رکھنی چاہئے۔
قیام پاکستان کے وقت قادیان کی حفاظت کی خاطر جب احمدیوں کو حکم ملا کہ اپنے اپنے گھر میں ہی قیام رکھیں تو بہت سے احمدیوں نے حملہ کی یقینی خبر پانے کے باوجود امام کی اطاعت میں اپنی جانوں کو قربان کردیا لیکن گھر نہیں چھوڑے۔ 1953ء میں جب احمدیت کے خلاف فساد برپا ہوا تو احمدیوں کو مرکز سے یہی حکم دوبارہ ملا چنانچہ راولپنڈی کے احمدیوں کو جب یہ پیشکش کی گئی کہ اُن کیلئے ایک محفوظ کیمپ قائم کردیتے ہیں جس میں وہ منتقل ہو جائیں تو اُنہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں اپنے اپنے گھروں میں مر جانا منظور کر سکتے ہیں مگر کیمپ میں جانا منظور نہیں کرسکتے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعت رسول بھی ہوگی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نماز پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو۔ یہ تو خدا کے احکام کی اطاعت ہے۔ اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ، تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے (چھوڑنے) کیلئے کھڑے ہو جائیں‘‘۔ (تفسیر کبیر۔ سورۃ نور)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار ایک مزدور کے بچے کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا جس نے کئی سالوں سے پیسہ پیسہ جمع کرکے ساڑھے تیرہ روپے جمع کئے تھے اور حضورؓ کی مساجد فنڈ کی تحریک سن کر یہ رقم حضورؓ کی خدمت میں پیش کردی۔
31۔1930ء کا سال جماعت احمدیہ کے لئے بڑی تنگی کا سال تھا جس میں قریباً اڑتالیس ہزار روپے کا قرض تھا جو اکتوبر 1931ء تک بہتّر ہزار کے قریب جا پہنچا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ قرضے تھے۔ چنانچہ حضورؓ نے جماعت کو قرضہ بے باق کرنے کی خصوصی تحریک فرمائی تو جماعت نے تین ماہ کے اندر اندر چندہ خاص سمیت قریباً پونے دو لاکھ روپے اپنے آقا کے حضور پیش کردیئے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں، خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کے لئے تیار ہیں… اگر خودکشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اسی وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا‘‘۔
حضورؓ نے ایک اور جگہ فرمایا: ’’خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا لیکن اگر تم اس حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھوگے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کرسکے گی‘‘۔