خلفاء سلسلہ کی شفقت بھری پیاری یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جنوری 2010ء میں مکرم ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب کے قلم سے خلفاء سلسلہ کی شفقت بھری یادوں پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مکرم ڈاکٹر عبدالرؤف خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش قادیان دارالامان کی ہے۔ میرے والد عبدالواحد خان صاحب جب پٹیالہ سے ہجرت کرکے اپنے چچا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ کے پاس قادیان آئے تو ان دنوں حضرت مصلح موعودؓ نے پہلے ایک کمپنی (Eastern Trading Co.Qadian) کے نام سے شروع کی اور والد صاحب کو اس کام پر لگایا۔ جب یہ کام بعض وجوہات کی بنا پر کماحقہٗ نہ چلا تو حضور نے ایک دوسری کمپنی’’دلکشاء پرفیومری کمپنی قادیان‘‘ کے نام سے بنائی۔ یہ کمپنی حضور کے تجویز کردہ نسخوں کے مطابق عطر، خوشبو دار تیل اور دیگر اشیاء تیار کرتی تھی۔ قادیان چونکہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور اس کی آبادی بھی غرباء پر مشتمل تھی اس لئے یہ کمپنی اپنی مصنوعات ہندوستان کی بڑی بڑی نمائشوں اور میلوں میں سٹال وغیرہ لگا کر فروخت کرتی تھی۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان نمائشوں میں سامان کی تیاری میں خود حضرت مصلح مو عودؓ بنفس نفیس شامل ہوتے۔ حضورؓ کی خدمت میں تقریباً دس سال انہیں کام کرنے کی سعادت ملی۔ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضور ہر روز رات کو عشاء کی نماز کے بعد بلوا لیا کرتے تھے اور پھر رات کے دس گیارہ بجے تک روزانہ کام کرتے تھے۔ اکثر تو حضور اور مَیں ہی ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھی سیدمحموداللہ شاہ صاحبؓ بھی ہوتے تھے۔
والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دس سالوں کے لمبے عرصہ میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور مصلح موعودؓ نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ کام کے دوران حضور خود بھی شامل ہوتے اور حضور کی بے حد بشاش طبیعت کسی قسم کی تھکن کا احساس تک نہیں ہونے دیتی تھی۔ والد صاحب کے ساتھ حضور کی اس شفقت کا سلسلہ دس سال سے زائد عرصہ رہا۔ اسی شفقت کا ہی نتیجہ تھا کہ والد صاحب بعض اوقات مجھے خط دے کر حضورؓ کی خدمت میں بھجوا دیا کرتے تھے۔ ایک بار والد صاحب نے مجھے ایک خط دے کر کہا کہ جاؤ حضور کی خدمت میں یہ خط دے آؤ۔ میری عمر اس وقت قریباً سات آٹھ سال کی ہو گی۔ مَیں خط لے کر مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے مسجد کی چھت پر گیا۔ وہاں سے جو دروازہ حضرت امّ وسیم صاحبہ (جن کو ہم آپا عزیزہ کہا کرتے تھے) کا تھا کھٹکھٹایا ۔ اجازت ملنے پر مَیں صحن میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ صحن میں تشریف فرما ہیں۔ غالباً سردیوں کا موسم تھا اور حضور دھوپ میں تشریف رکھتے تھے۔ مَیں نے والد صاحب کا خط حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضور نے اسی وقت خط کھول کر پڑھ لیا جس میں والد صاحب نے میرے بارے میں لکھا تھا کہ حضور مجھ سے تلاوت قرآن کریم سنیں۔ حضورنے فرمایا اچھا تو پھرتلاوت قرآن کریم سناؤ۔ مَیں نے وہیں کھڑے کھڑے حضور کے سامنے سورۃ بنی اسرائیل کی آیات79 تا82 خوش الحانی سے تلاوت کیں۔ حضور نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور کچھ نقدی بطور انعام عطا فرمائی جو کہ مَیں نے واپس آ کر والد صاحب کو دی۔
پاکستان میں ہجرت کے بعد ہم لوگ سیمنٹ بلڈنگ لاہور جو کہ رتن باغ کے بالکل سامنے واقع تھی مقیم ہوئے۔دیال سنگھ کالج لاہور سے F.Sc. کرکے مَیں نے پنجاب یونیورسٹی کی بی۔ فارمیسی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ جب پارٹ ون کا امتحان ہوا تو ایک Viva میں ایک سوال کا جواب ٹھیک نہ دینے پر Internal examiner سخت برہم ہوئے جس سے مَیں بہت ڈر گیا کیونکہ اگر وہ مجھے فیل کر دیتے تو یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق مَیں پارٹ ون میں فیل ہو جاتا۔ سخت گھبراہٹ میں گھر آکر حضورؓ کی خدمت میں دعا کا خط لکھا۔ حضور ان دنوں رتن باغ میں تھے اور ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر واپس اندرون خانہ تشریف لے جانے کے لئے میرے پاس سے گزرے تو مَیں نے وہ خط حضور کے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کو قبول فرمایااو ر مَیں پاس ہو گیا۔
جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر بھی حضورؓ کی تقاریر خاصی لمبی ہوتی تھیں اور بعض اوقات چھ سے آٹھ گھنٹے تک جاری رہتی تھیں۔ تقاریر کے دوران حضور کے لئے چائے تیار کرنے کی ذمہ داری حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کے سپرد تھی۔ ڈاکٹرصاحب نے اس کام کے لئے اپنے بیٹے کریم احمد نعیم مرحوم (جن کو مَیں بھائی نعیم کہتا تھاگورشتہ میں وہ میرے چچا لگتے تھے) اورمیری ڈیوٹی لگا دی تھی۔ یہ سعادت ہم دونوں کے حصہ کئی سال رہی۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی ہدایت کے مطابق ہم جلسہ سالانہ کے سٹیج کے ایک کونے میں حضور کی آمد سے قبل اپنا سٹال لگا لیتے تھے۔ چائے کوئلوں کی انگیٹھی پر تیار کی جاتی تھی کیونکہ حضور مٹی کے تیل کے چولہے پر تیار کی ہوئی چائے پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان دنوں ربوہ میں خور ونوش کی چیزیں مشکل سے ملتی تھیں لہٰذا ہم چنیوٹ سے یہ سب چیزیں لے کر آتے تھے۔ دودھ وغیرہ کو چکھنے کے بعد حضور کی چائے میں استعمال کرتے تھے۔ یہ سب باتیں حضرت ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح تفصیل سے سمجھا دی ہوئیں تھیں۔ چائے میں چینی ڈال کر پیش کی جاتی تھی۔ چائے کی پیالی ایک پرچ میں رکھ کر ایک دوسری پرچ سے ڈھانپ دی جاتی تھی۔ مَیں یہ پیالی حضرت ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیتا جو تقریر کے دوران حضورؓ کے قدموں میں میز کے کونے کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب یہ ڈھکی ہوئی پیالی بڑی احتیاط سے حضور کے سامنے میز پر رکھ دیتے تھے۔ حضور تقریر کے دوران تیز گرم چائے نوش فرماتے تھے۔ حضور اگر ایک دو گھونٹ نوش فرما لیتے تومَیں یہ پیالی ڈاکٹر صاحب سے لے کر اس کی جگہ گرم چائے کی پیالی حضور کے لئے دے آتا اور یہ سلسلہ تقریر کے اختتام تک جاری رہتا۔ حضور کی پس خوردہ چائے کا تبرک ہم ایک بڑے برتن میں جمع کرتے جاتے پھر اس میں مزید چائے ڈال کر اس تبرک کو بڑھا لیتے۔ تقریر کے اختتام پر حضور کے تشریف لے جانے کے بعد ہم اس تبرک کے تمنائیوں کو اس میں سے حصہ دیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ بھی تشریف لائے اور فرمایا ’’میاں ہمارے لئے کچھ ہے؟‘‘ اور مَیں نے یہ تبرک ایک پیالی میں حضرت چوہدری صاحبؓ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر دوسرے دن کی تقریر کے دوران ہمیں چائے کی پیالی میں چینی ڈالنی بھول گئی یا پھر چینی ہلانی بھول گئی۔ یہ چائے اسی طرح حضور کی خدمت میں پہنچ گئی۔ تیسرے دن کے اختتامی خطاب میں حضورؓ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال لاؤڈ سپیکر کا انتظام بہت اچھا رہا۔ کل ایک معمولی سی بات بےاختیار میرے منہ سے نکلی جو کہ مستورات کے جلسہ میں بیٹھی میری بیوی نے بھی سن لی۔ مَیں جب رات کو گھر پہنچا تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ یہ کیا بات آپ نے تقریر کے دوران کہی’’جے کھنڈ نہیں سی ہیگی تے ساڈے گھروں منگا لینی سی‘‘ یعنی اگر چینی نہیں تھی تو ہمارے گھر سے منگوا لینی تھی اور فرمایا کہ اتنی آہستہ میرے منہ سے بے اختیار نکلی ہوئی بات لاؤڈ سپیکر کے اچھے انتظام کی وجہ سے دور بیٹھی مستورات نے بھی سن لی۔ اس طرح حضور نے لاؤڈ سپیکر کے منتظمین کی حوصلہ افزائی بھی فرما دی۔
……………
خلافت ثالثہ کے قیام کے وقت مَیں ڈنمارک میں مقیم تھا اور بیعت بذریعہ خط کی تھی۔ مئی 1966ء میں مسجد نصرت جہاں کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے رکھا۔ سنگ بنیاد کے لئے مسجد مبارک قادیان سے منگوائی ہوئی ایک اینٹ دعا کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی زندگی میں ہی بھجوا دی تھی جو مشن ہاؤس میں موجود تھی۔ اس اینٹ کو میرے پاس موجود ایک احرام کی چادر میں، جسے مَیں نے 1963ء اور 1964ء کے حج بیت اللہ کے موقع پر باندھا تھا اور اسے آب زمزم سے دھو کر لایا تھا، رکھا گیا۔
1967ء میں ہم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں مسجد کے افتتاح کے لئے درخواست کی جسے حضور نے ازراہ شفقت منظور فرمایا۔ اور حضورؒ بمع قافلہ 20 جولائی 1967ء کو بذریعہ ٹرین کوپن ہیگن تشریف لائے۔ ریلوے سٹیشن پر استقبال کے لئے مکرم کمال یوسف صاحب، عبدالسلام میڈسن صاحب، مسز مبارکہ میڈسن صاحبہ بمع اپنے بیٹے بشیر احمد اور کمال احمد کرو صاحب، صاحبزادہ مرزاحنیف احمد صاحب، مریم مولر صاحبہ اور خاکسار عبدالرؤوف خان موجودتھے۔ 21جولائی 1967ء بروز جمعۃ المبارک مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کا دن تھا۔ اس موقع پر پریس اور ٹی وی کے نمائندگان اور Hvidovre کمیون کے معزز مہمان مدعو تھے۔ افتتاح کے بعد ایک پریس کانفرنس کا بھی اہتمام تھا۔ ان دنوں مہمان نوازی کے لئے افراد کی بہت کمی تھی۔ اس دوران کئی بار حضور کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
دوسری بار یہ سعادت 1973ء میں نصیب ہوئی جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جرمنی کے دورہ کے سلسلہ میں فرینکفرٹ تشریف لائے۔ ان دنوں قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے فرائض میرے سپرد تھے۔ حضور کا قیام مسجد نور میں تھا۔ ان دنوں ہم نے حضور کے اعزاز میں ایک ریسیپشن کا انتظام بھی کیا تھا جس میں جرمن معززین کے علاوہ پاکستان کے سفیر مقیم کولون بھی حضور کی ملاقات کے لئے آئے تھے۔ اس موقع پر مجھے حضور کے قیام و طعام کے سلسلہ میں خدمات کا موقع ملا جو حضور کی خوشنودی کا باعث ہوا۔
…………………
مَیں اور برادرم عبدالسلام میڈسن صاحب 1981ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے اکٹھے ڈنمارک سے گئے۔ وہاں سے ہم دونوں ربوہ کے جلسہ سالانہ کے لئے گئے۔ ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحبؒ وقف جدید کے انچارج تھے۔ ہم ان کی ملاقات کے لئے ان کے دفتر میں چلے گئے۔ حضرت میاں صاحب بڑی محبت اور پیار سے ملے اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ کوئی نظم سناؤ۔ مَیں نے عرض کیا کہ اس وقت کوئی نظم پوری یاد نہیں ۔ حضرت صاحب نے کارکن کو بھیج کر بازار سے درّثمین منگوائی اور ایک نظم نکال کر اس پر اپنی قلم سے نشان لگائے اور مَیں نے وہ نظم سنائی۔ پھر حضورؒ نے درثمین پر دعائیہ کلمات لکھ کر اور دستخط کرکے وہ مجھے عنایت فرمادی جو میرے پاس محفوظ ہے۔