دنیوی مصائب

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ اپریل 2011ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے قلم سے ایک مضمون بعنوان ’’دنیوی مصائب‘‘ شامل اشاعت ہے۔
آریہ کہتے ہیں کہ دنیا کی تنگی تُرشی لوگوں کے گزشتہ اعمال کا نتیجہ ہے۔ اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ:
اگر اللہ بندوں کے لیے رزق کشادہ کردیتا تو ضرور وہ سرکشی اور فساد کرتے اس لیے وہ ایک اندازے کے ساتھ جتنا چاہتا ہے اُتارتا ہے کیونکہ وہ بندوں کے حالات اور اُن کی فطرت سے خوب واقف ہے۔ (الشوریٰ:28)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رزق کی تنگی بھی لوگوں کے فائدہ اور دنیا کے نظام کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح مصائب اور بیماریاں بھی انسان کی اصلاح کرتی ہیں۔ایک دن ایک بچہ سر سے پیر تک پھوڑوں سے گلا ہوا ہسپتال لایا گیا۔ ایک دہریہ ڈاکٹرکہنے لگا کہ اگر کوئی رحیم خدا ہوتا تو یہ حالت لوگوں کی نہ ہوتی۔ مَیں نے کہا خدا صرف رحیم نہیں بلکہ حکیم اور ذُوانتقام بھی ہے۔ رحیم ہونے کی وجہ سے وہ دنیا و آخرت میں اس بچہ پر دوسری قسم کے فضل نازل کرے گا۔ حکیم ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس کو کسی اَور مہلک مرض سے بچالے۔ کیونکہ بعض بیماریاں دوسری زیادہ خطرناک بیماریوں سے بچالیتی ہیں مثلاً گائے کی غیرمہلک چیچک انسانی مہلک چیچک سے یا ملیریا بعض قسم کے خطرناک جنون سے۔ ایک حکمت یہ ہے کہ بیماریوں کی وجہ سے طبیب کو مفت کا ثواب ملتا ہے اور علاج کے متعلق اس کا علم بڑھتا ہے۔ذوانتقام اس وجہ سے کہ قدرت اس کی اور اس کے والدین کی بدپرہیزیوں کا انتقام لے رہی ہے تاکہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ کہنے لگا کیا بچوں کو بھی سزا؟ مَیں نے کہا کہ اگر بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دے تو کیا اُس کا ہاتھ نہیں جلے گا؟
غور سے دیکھا جائے تو رنج و راحت اکثر لوگوں کو برابر ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ غریب کو جو طاقت اور لطف ایک سوکھے ٹکڑے میں ملتا ہے وہ امیر کو پلاؤ میں بھی نہیں آتا۔ غریب جس طرح میٹھی نیند سوتا ہے ویسی امیر کو نصیب نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو عمر کے اکثر حصہ میں راحت و آرام نصیب نہیں ہوا تو اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں مزید انعامات کا وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ اُمراء سے سینکڑوں سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ اور پھر یہ بات غلط ہے کہ کوئی شخص بِلا کسی راحت کے زندہ ہے۔ کیونکہ اگر غریبوں کو مرنے کے لیے کہا جائے تو وہ اس پر ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ اگر اُن کو کوئی راحت بھی نہ ہوتی تو وہ دنیا میں رہنے، اپنی بیماریوں کا علاج کروانے اور اولاد ہونے کی خواہش نہ رکھتے جو اُن کی طرح ہی مصیبت اٹھائے۔
میرے ایک غریب کمپاؤڈر کا اکلوتا لڑکا تھا۔ ایک دن آہ بھر کر کہنے لگا کہ فلاں نواب کس قدر آرام میں ہے اور مَیں غربت سے اتنا تنگ ہوں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ نواب نے تین شادیاں کی ہیں مگر اس کے ہاں اولاد نہیں۔ یہ غم اُس کے دل کو کھائے جاتا ہے۔ کیا تمہیں منظور ہے کہ اُس کی دولت تم کو مل جائے اور تمہارا بیٹا اُس کو۔ اُس نے چیخ ماری اور رو کر کہا کہ سائیں!خدا کے لیے میرے بیٹے کا بُرا نہ چاہو۔ لعنت ہے ایسی دولت پر جس میں میرا پیارا بیٹا میری آنکھ سے اوجھل بھی ہو۔
انسان جلدباز ہے اور چاہتا ہے کہ خواہ تھوڑا سا ہی آرام ہو مگر جلدی سے مل جائے۔ مگر مومن کی نظر وسیع ہوتی ہے۔ کیا کسی نے ریلوے ویٹنگ روم کو بھی اپنے فرنیچر اور سامان سے آراستہ کیا ہے؟ جو مصائب اس دنیا میں نازل ہوتی ہیں وہ یا تو بداعمالیوں کی سزا ہیں یا انعام کے لیے ابتلا ہیں۔ یا عام قانونِ قدرت کے اثرات ہیں جو انسان غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے بھگتتا ہے۔ یا لوگوں کی طرف سے مظالم ہیں جن کی سزا مجرم کو اور جزا مظلوم کو آئندہ ملے گی۔ چنانچہ فرمایا: اللہ یقیناً لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنی جانوں پر (آپ ہی) ظلم کرتے ہیں۔ (اور الزام خدا پر لگاتے ہیں)۔ (یونس:54)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں