دو عظیم المرتبت وجود
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 10؍فروری2025ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے 2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالنصیر نُور صاحبہ نےحضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور حضرت بی بی امۃالباسط بیگم صاحبہ کے بارے میں اپنی والدہ محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ (بیگم مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب شہید سکھر) کی بیان کردہ چند خوبصورت یادیں تحریر کی ہیں۔
مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ہمدرد، دعاگو، مہربان اور مہمان نواز تھیں۔ مَیں جب بھی آپ سے ملنے جاتی توآپ ہمیشہ میرے حالات کے بارے میں پوچھتیں اور تسلی دیتیں کہ غم نہ کیا کرو، تم شہید کی بیو ی ہو، شہید کا مقام بہت بڑ اہوتا ہے اور یہ کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ ہر موسم کا پھل مجھے بھجوایا کرتی تھیں خاص کر سندھ کے آم۔ جب میرے بیٹے عزیزم محمودالرحمٰن انور کی شادی تھی تو مَیں آپ کو شادی کا کارڈ دینے گئی اور ساتھ میں درخواست کی کہ بارات کے لیے بس مَیں نے بُک کروالی ہے لیکن کار کا انتظام نہیں ہوسکا۔ اسی دوران حضرت مرزا منصور احمد صاحب برآمدہ میں آگئے تو آپا جان نے کہا کہ یہ انعام الرحمٰن شہید کی بیگم ہیں، ان کے بیٹے کی شادی ہے ان کو کار چاہیے۔ حضرت میاں صاحب نے کہا کہ ان کی درخواست پہلے ہی دفتر میں آئی ہوئی ہے۔ پھر تھوڑی دیر کچھ سوچ کر کہنے لگے کہ دو کاریں ورکشاپ میں اور ایک اسلام آباد جماعتی کام کے لیے گئی ہوئی ہے، چلو مَیں کچھ کرتا ہوں ۔ مَیں نے پریشانی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں آپ کو بارات لے جانے کے لیے کارمل جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر حضرت آپاجان شادی پر بھی تشریف لائیں اور تحفہ بھی دیا۔
مَیں آپ سے بلا جھجک ہر بات کرلیتی تھی۔ ایک بار تبرک مانگا تو پوچھا:کیا لینا ہے؟ مَیں نے کہا کہ آپ جو بھی دے دیں۔ اس پر سبز رنگ کا چوڑی دار پاجامہ، قمیض اور دوپٹہ مجھے لا کر دیا۔ بنارسی پٹی والا خوبصورت سوٹ تھا۔
آپاجان امۃالباسط صاحبہ بھی ہمیشہ بےحد پیار سے ملتیں اور میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے ساتھ بھی میرا پیار کا تعلق بن گیا۔ ایک عید پر آپ عید کی نماز کے لیے تشریف لے جا رہی تھیں۔ راستے میں میرا گھر تھا۔ آپ خود گاڑی سے باہر آئیں اور دروازے کی گھنٹی بجائی۔ جب مَیں نے دروازہ کھولا تو پوچھا کہ کیا تم عید کی نماز کے لیے تیار ہو اورجانا کیسے ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو تانگے پر جانا ہے۔ کہنے لگیں: میرے سا تھ ہی چلو۔ اس طرح مَیں ان کے ساتھ نماز پڑھنے چلی گئی، واپسی پر مجھ سے پوچھا کہ میرے ساتھ بہشتی مقبرہ چلوگی؟ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھرمَیں آپ کے ساتھ بہشتی مقبرہ گئی، وہاں دعا کے بعد آپ مجھے گھر چھوڑ گئیں۔
سوئٹزرلینڈ آنے سے پہلے مَیں مصروفیت کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہ کر سکی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد لندن کے جلسہ سالانہ پر آپ کی ملاقات جب میری بیٹی (مضمون نگار) سے ہوئی تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ آپ کی امی کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ تو سوئٹزرلینڈ آگئی ہیں۔ اس پر فرمایا کہ اپنی امی سے کہنا کہ ’’مَیں ان سے ناراض ہوں۔ مجھے ملے بغیرسوئٹزرلینڈ چلی گئیں۔‘‘ بےشک یہ ان کی محبت کا سلوک اور پیار کا اظہارتھا۔
جب لوگ پرانی یادیں شیئر کرتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے میرے پاس بھی ایک چیز ہے کبھی ٹائم ملا تو میں شیئر کروں گی جو ہمارے موجودہ حضور ہیں ان کی والدہ جب بیمار تھیں تو میں نے کافی دفعہ ان کا وزٹ کیا تھا اور ان سے کافی باتیں ہوئی تھی