دیوبند سے قادیان تک

مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 4؍اگست 2011ء میں مکرم مولوی واحد احمد صدیقی صاحب (استاد جامعہ احمدیہ قادیان) دیوبند سے قادیان تک کی اپنی ہجرت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
آپ رقمطراز ہیں کہ خاکسار 14؍جون 1967ء کو صوبہ بہار کے گاؤں الپورہ میں پیدا ہوا۔ گاؤں کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لیکن اسی دوران اساتذہ کی بے جا سختی کی وجہ سے مَیں نے پڑھائی چھوڑ دی اور دو سال تک اپنی والدہ کی مارپیٹ برداشت کرتا رہا لیکن سکول کا رُخ نہ کیا۔ آخر مَیں نے جب ایک روز کہا کہ مَیں پڑھنا چاہتا ہوں لیکن گاؤں میں نہیں بلکہ کسی اَور جگہ جاکر پڑھوں گا تو سب نے مخالفت کی۔ اس پر مَیں گھر سے بھاگ کر اعظم گڑھ چلا آیا اور مدرسہ دارالسلام میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پہلے دو سالہ فارسی کا کورس مکمل کیا پھر دو سال میں عربی کا چار سالہ کورس مکمل کرلیا۔ اسی دوران مَیں نے ایک خواب میں ایک جم غفیر دیکھا۔ ان میں سے بعض نے مجھے بتایا کہ ہمارے راہنما حضور ہیں، ان کی بیعت کرلو۔
بعدازاں مَیں دارالعلوم دیوبند آگیا اور چار سالہ کورس مکمل کیا۔ یہیں مجھے احمدیت کے بارہ میں علم اس طرح ہوا کہ ہمارے ہاں ’’ردّ قادیانیت‘‘ کے موضوع پر ہرماہ جلسہ ہوا کرتا تھا جہاں عدم اجرائے نبوّت کی دلیلیں رٹائی جاتی تھیں۔ ایک دن ایک قادیانی لڑکا ابوالوفا بھی وہاں آگیا اور اُس نے جب اجرائے نبوّت پر دلائل دیے تو دوسرا گروہ ہکّابکّا رہ گیا۔ کرسیٔ صدارت پر میرے استاد مولوی عبدالرحیم بستوی بیٹھے تھے۔ وہ جلسہ کے اختتام پر کہنے لگے کہ اگرچہ ابوالوفا نے دلائل کے اعتبار سے تمہیں چُپ کرادیا ہے پھر بھی یہ مقامِ حیرت نہیں کیونکہ انجام کار حق کے مقابل باطل رُسوا ہوکر رہے گا جیسے ابلیس نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ وہ آتشی ہے اور آدم خاکی۔ لیکن اس کا انجام بھی تمہارے سامنے ہے۔
جب مَیں نے یہ باتیں سنیں تو میری دلی خواہش تھی کہ کسی احمدی سے ملاقات ہو تو اُس سے معلومات حاصل کروں۔ جب مَیں نے آٹھ سالہ کورس چھ سال میں مکمل کرلیاتو چار سال تک سہارنپور میں درس و تدریس کا کام کیا پھر چھ سال سے مظفرپور میں مدرس تھا کہ کسی کام سے دیوبند آیا۔ یہاں ایک کتابچہ پڑھا تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی فرشتے نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ قادیان کیلئے رختِ سفر باندھو۔ چنانچہ اگلی صبح مَیں قادیان کیلئے روانہ ہوگیا جبکہ مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ قادیان پنجاب کے کس علاقہ میں ہے۔ جالندھر پہنچ کر مَیں نے لوگوں سے قادیان کا ایڈریس معلوم کرنا چاہتا تو لاعلم لوگوں کے بتائے ہوئے مفروضوں پر تین دن مختلف سفر کرکے خوار ہوتا رہا اور آخر چوتھے دن ایک آدمی نے مجھے کسی سے پتہ کرکے صحیح راستہ بتایا تو مَیں بٹالہ سے ہوتے ہوئے ظہر کے بعد قادیان پہنچ گیا۔ لنگرخانہ میں کچھ کتب مجھے دی گئیں۔ وفات مسیحؑ پر حضرت مسیح موعودؑ کی تحریر کردہ دلیل میرے دل و دماغ پر اثرانداز ہوئی کہ جب فعل توفی کا فاعل خود اللہ تعالیٰ ہو تو موت کے سوا کوئی دوسرا معنی تصور نہیں ہوسکتا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی ذات بابرکات کے متعلق یہ الہام کتنا پیارا ہے جو کہ ایک ایرانی صاحبِ دل مُلہم من اللہ کو حضور کی صحبت سے فیضیابی کے لیے ہوا تھا کہ
’’مقصود تو از قادیان حاصل می شود‘‘
یعنی تیرا مقصود تجھے قادیان میں حاصل ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں