ذکرِ حبیبؑ کم نہیں وصل حبیبؑ سے

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل2024ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

حضرت میرزا غلام احمد
آسماں پر ہے جن کا نام احمد
مظہرِ کامل اور رسولِ خدا
جن سے بڑھ کر نہ اُمّتی ہوگا
تھے خدا کے مسیح اور مہدی
اُمّتی ہو کے پایا نام نبی

حضرات کرام! آج سے 103سال قبل مسیح موعودؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروائی۔ ابھی صحن کے فرش کی کچھ اینٹیں لگنی باقی تھیں کہ بانیٔ مسجد کا 2جون 1876ءکو انتقال ہو گیااور وہ اپنی وصیت کے مطابق اسی مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں دفن ہوئے۔

مسجد اقصیٰ قادیان

لالہ ملاوامل صاحب، جو قادیان کے ایک ہندو تھے، اس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے۔ وہ بتلاتے ہیں کہ مَیں اپنی دکان سے دیکھ لیا کرتا تھا کہ مرزا صاحب مسجد میں تشریف لے آئے ہیں۔ تب میں دکان چھوڑ کر حاضر ہو جاتا تو آپ مجھے نہایت سبق آموز اخلاقی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔مسجد میں آپ اکثر وقت تلاوت قرآن مجید کرتے یا مسجد میں ٹہلتے ہوئے ذکر الٰہی میں مصروف رہا کرتے تھے۔
اس مسجد کا پہلا نام مسجد مغلیہ تھا۔ بعد میں جب حضرت اقدسؑ نے مامور ہونے کا اعلان فرمایا اور 1900ءمیں ’’خطبہ الہامیہ‘‘ دیا تو اس میں حضورؑ نے فرمایا کہ یہ (مسجد)، مسجد اقصیٰ ہے۔ ایک وقت تھا کہ حضورؑ وہاں پر اکیلے ہی نمازی ہوتے تھے۔ شہر کے عام مسلمان اکثر جاہل، بےدین، علم سے بالکل بے بہرہ تھے ۔ ان کا لباس بھی اکثرو بیشترایک لنگوٹی ہوتا تھا۔ ایک شخص مُلّاں حسینا ہوتا تھا جو لوگوں کو حضورؑ کے قریب جانے سے روکتا رہتا تھا۔ دوسرے حضورؑ کا ایک چچازاد بھائی مرزا امام الدین تھا جو پرلے درجے کا بے ایمان اور دہریہ طبع آدمی تھا۔ حضور سرورکائنات ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیا کرتا تھا۔ یہی شخص شاتم رسولِ مقبول ؐ لیکھرام کو لاہور سے بلا کر لایااور قادیان میں آریہ سماج کی شاخ قائم کی۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ یہ کس قسم کا آدمی تھا۔


(1) مشکل یہ تھی کہ حضور کے خاندان کے سب لوگ بھی حضور کے خلاف تھے۔ وہ حضورؑ کی نیکی اور پارسائی کو ریاکاری سمجھتے تھے۔ خود تعویذ، جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے حتیٰ کہ حضور ؑکی زوجہ اوّل یعنی والدۂ مرزا سلطان احمد صاحب بھی اسی مخالف گروہ میں شامل تھی۔
ایسے حالات تھے کہ ایک دفعہ حضورؑ نے اپنے ایک خادم کو قادیان سے قریبی گاؤں بھینی میں بھجوایا کہ جاکر ان لوگوں سے کہے کے وہ جمعہ کے روز نماز ادا کرنے قادیان آئیں۔ چنانچہ چودھری فتح محمد صاحب، جو اس زمانہ میں نوجوان تھے، بیان کرتے ہیں کہ ہم دو آدمی جمعہ کے لیے آئے۔ نماز میں امام میاں جان محمد کشمیری تھا۔ نماز کے بعد جب ہم گاؤں کو جانے لگے تو حضورؑ نے ہم کو خوشی سے آٹھ آٹھ آنے نقد اور ایک ایک چادر عنایت فرمائی۔

قادیان دارالامان

واضح ہوکہ حضورؑکے خاندان میں ان دنوں چار خواتین ایسی تھیں جن کا نام حُرمت بی بی تھا۔ اوّل حضورؑکے برادرِ اکبر مرزا غلام قادر صاحب کی اہلیہ یعنی حضورؑ کی بھابھی، دوسرے حضورؑ کی زوجہ اوّل، تیسرے حضورؑ کے فرزندِ اکبر مرزا سلطان احمد صاحب کی اہلیہ اوّل (اس خاتون نے بعد میں زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی)۔ اور چوتھے حضورؑکے سالے مرزا علی شیر کی اہلیہ تھی جو حضورؑکی سخت مخالف تھی۔ چودھری فتح محمد صاحب یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ اپنی امّاں کے ہمراہ مرزا سلطان احمد صاحب کے گھر گئے ہوئے تھے تو بھابھی صاحبہ نے مرزا سلطان احمد کو کہا تم بھی مسجد میں جاکر نماز پڑھ آیا کروتاکہ تم باپ بیٹا کبھی تو ایک چھت کے نیچے جمع ہوسکو۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ خاندان کس قدر حضورؑکے خلاف تھا۔ یہ تمام فساد بھابھی صاحبہ نے ڈلوایا ہوا تھا مگر آخرکار یہ خاتون اپنے بھتیجے حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر 1917ءمیں بیعت کر کے داخلِ سلسلہ ہوئی اور 93سال کی عمر پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہے۔
(2) چودھری غلام محمد صاحب گوندل ساکن چک 99شمالی بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں دو موتوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اوّل وفات عیسیٰ علیہ السلام کے لیے اور دوسرے شیطان کی موت کے لیے۔
(3) چودھری غلام سرور صاحب نمبر دار چک نمبر 55پاک پتن فرماتے ہیں کہ حضورؑ نے ایک دفعہ خدا تعالیٰ کو اپنے والد حکیم مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی شکل میں دیکھا کہ حضورؑ کے گلے میں پیارسے ہاتھ ڈال کر فرمایا:

جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو

(4) حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے تھے اس لیے حضور کوخدا تعالیٰ کی ذات پر محکم یقین تھا۔ چنانچہ جب حضورؑ 1905ء میں دہلی تشریف لے گئے تو وہاں کے مولویوں نے از خود ہی مباحثہ کا اشتہار دے دیا کہ جامع مسجد دہلی میں فلاں تاریخ کو فلاں وقت مرزا صاحب قادیانی سے مباحثہ ہوگا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوگئے اور بعض تو نہایت بدارادہ لے کرگئے تھے۔ حضور کے ساتھ صرف 12دوست تھے۔ جامع مسجد کے بڑے دَر میںحضورؑ کو بٹھایا گیا۔
جب مجمع میں زیادہ اشتعال پیدا ہو گیا تو منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ نے حضورؑ سے عرض کیا کہ حضور لوگوں میں جوش بہت پھیل گیا ہے۔ حضورؑ نے نہایت اطمینان سے فرمایا ’’منشی جی! بھلا مردے بھی زندوں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں!‘‘ جبھی تو حضورؑ نے درثمین فارسی میں فرمایا ہے ؎

بشنوید اے مُردگاں من زندہ ام
اے شبان تیرہ من تابندہ ام

(اے مُردہ لوگو! مَیں زندہ ہوں۔اے تاریکی کے فرزندو! مَیں تو روشن ہوں۔)
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے کئی دفعہ حضور کو الہاماً بتایا تھا کہ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس کہ اللہ تجھے لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔ پھر خوف کس بات کا کرتے ہو۔ حضورؑ خود فرماتے ہیں ؎

اے آنکہ سُوئے من بہ دویدی بہ صد تبر
از باغباں بَترس کہ من شاخ مُثمرم

(اے وہ جو میری طرف سو کلہاڑیاں لے کر دوڑا آ رہاہے باغباں سے ڈر کیونکہ
مَیں پھل دار شاخ ہوں۔ باغ کا مالک پھل دار شاخ کو کاٹنے نہیں دیتا۔)
(5) ایک دفعہ منشی ظفر احمد صاحب اور منشی عبد اللہ سنوری صاحب دونوں حضور کے پاس قادیان میں مقیم تھے کہ حضورؑ کی کوئی اہم پیشگوئی پوری ہوئی تو منشی ظفر احمد صاحب کہنے لگے:’’ حضور مبارک ہو۔ بڑی بھاری پیشگوئی پوری ہوئی ہے ۔ آج ہمیں کچھ کھلائیں۔ حضورؑ نے پوچھا: آپ کیا کھانا چاہتے ہیں؟ منشی صاحب غالباً دال سبزی کھا کھا کر اُکتا گئے تھے، کہنے لگے حضورؑ گوشت کھلائیں ۔ فرمایا: بہت اچھا۔
مگر قادیان میں گوشت کہاں سے ملنا تھا؟ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ تھوڑی دیر بعد بٹالہ سے ایک قصاب گوشت لے کر آگیا۔ اس سے حضورؑ نے گوشت خریدا۔

حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحبؓ

جب قدیم مسجد مبارک قادیان میں حضورؑ اور دونوں مہمان کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تو چند لقموں کے بعد منشی ظفر احمد صاحب نے آہستہ سے منشی عبداللہ سنوری صاحب سے کہا کہ یہ تو صرف شوربا ہے گوشت کا تو نام بھی نہیں؟ سنوری صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ حضور یہ تو صرف شوربا ہے، گوشت تو نظر نہیں آتا۔ حضور فرمانے لگے: ہاں بات تو ٹھیک ہے۔ میں اندر جاکر گھر والوں سے دریافت کرکے آتا ہوں۔ حضور اندر گئے اور حضرت امّ المومنین ؓ صاحبہ سے کہا کہ ’’منشی صاحب کہتے ہیں کہ یہ تو شوربا ہے گوشت تو ہے ہی نہیں۔‘‘ حضرت اماں جانؓ نے ازراہِ مذاق کہہ دیا ’وہ گوشت بہت نرم تھا گھل مل گیا ہے۔‘ حضور ؑ نے واپس آکر وہی جواب منشی صاحبان کو سنا دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد منشی ظفر احمد صاحبؓ نے پھر منشی عبداللہ سنوری سے کہا کہ اگر گوشت گل گیا تھا تو پھر ہڈیاں کہاں گئیں؟ منشی عبداللہ سنوری صاحب نے پھرحضرت علیہ السلام سے کہا کہ حضورپھر ہڈیاں کہاں گئیں؟ حضور ؑ نے چونک کر فرمایا واقعی یہ بات قابل غور ہے۔ مَیں اندر جا کر دریافت کر کے آتا ہوں۔ حضورؑ کے دریافت کرنے پر حضرت اماں جان صاحبہ نے پھر کہہ دیا کہ ہڈیاں بھی بیچ میں ہی گل گئی تھیں اور حضور ؑنے یہی جواب آکر سنا دیا۔ تب وہ لاجواب ہو کر کھانا کھانے لگ گئے کہ اتنے میں ایک خادمہ نے اندر سے بڑی سی پلیٹ میں بہت سارا گوشت لا کر سامنے رکھ دیا۔
حضرات! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضورؑ کو مطلق اسباب کی طرف دھیان نہ تھاکہ سالن میں سے بوٹیاں کدھر گئیں۔ آپ صرف زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے کسی قسم کا چسکا ہر گز نہ تھا۔ حضورؑ کی توجہ کھانے کی طرف نہ تھی بلکہ دماغ کو ئی اعلیٰ روحانی مسائل سوچ رہا ہوتا تھا۔ ویسے بھی عام طور پر حضورؑ کی خوراک ایک چپاتی کا چوتھا حصہ ہوتا تھا۔ سعدی نے خوب کہا ہے ؎

خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تُو معتقد کہ زیستین از بہر خوردن است

(کھانا توجینے اوریادِ خداوندی کےلیے ہے۔
تُواس کا معتقد ہے کہ زندگی محض کھانے کےلیے ہے۔)
آخر میں حضور علیہ السلام کی ایک نہایت سبق آموز نصیحت درج کر کے ختم کرتا ہوں۔ یہ اقتباس اخبارالحکم ( 24؍اگست 1907ء) سے لیا گیا ہے:

’’ ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی محبت نہ کریں۔ جسے پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ میں سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے۔ محبت کرکے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے مگر اس کے کینے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے اور ہمدردی نہ کی جائے اس طرح بگڑتے بگڑتے انجام بد ہوجاتا ہے۔ خداتعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرکے پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجودہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہوجاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سر زدہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھایا جاتا ہے۔ تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟
یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو ۔ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق یعنی نعمت اخوت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ان کو ملی۔ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی وہ اخوت یہاں قائم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پر مجھے بڑی امیدیں ہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے جَاعِلُ الّذِینَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْ کَفَرُوْا اِ ِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایّام ہیں ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔دیکھو ایک دوسرے کا شکوہ کرنا اور دل آزاری کرنا اور سخت زبان کر کے ایک دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اورعاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں