رؤیا کی بناء پر قبول اسلام

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ اگست 2009ء میں چند ایسے واقعات شائع کئے گئے ہیں جن میں رؤیا کی بناء پر قبول اسلام کا ذکر ہے۔
آنحضور ﷺ کی بعثت سے قبل حضرت خالد بن سعید بن عاص نے ایک رات خواب دیکھا کہ مکّہ پر سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ اسی کیفیت میں زمزم کے کنوئیں سے نُور پھوٹ کر آسمان کی طرف بلند ہوا اور اُس نے خانہ کعبہ کو روشن کردیا اور پورے مکّہ میں بھی روشنی پھیلادی۔ پھر وہ یثرب کے نخلستان کی طرف بڑھا اور اُسے روشن کردیا یہاں تک کہ مَیں نے نخلستان میں کھجور کے درختوں پر پھل دیکھا۔
بیدار ہونے پر آپ نے یہ خواب اپنے بھائی عمرو بن سعید سے بیان کیا جنہوں نے کہا: اے میرے بھائی! یہ امر (یعنی رسالت کا معاملہ) بنو عبدالمطلب میں ہوگا کیونکہ روشنی اُن کے باپ کے کنوئیں سے نکلی ہے۔ جب آنحضور ﷺ نے دعویٰ فرمایا تو حضرت خالدؓ نے یہ خواب آنحضورﷺ سے بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ نُور مَیں ہوں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ چنانچہ حضرت خالدؓ نے اسلام قبول کرلیا اور بعد میں حضرت عمروؓ بن سعید نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
اسعد بن زُرارہ اپنی قوم کے چالیس آدمیوں کے ساتھ شام سے تجارت کا سامان لے کر آئے۔ انہوں نے ایک خواب دیکھی کہ کسی نے انہیں کہا: اے ابواُمامہ! مکہ سے ایک نبی کا ظہور ہوگا، تم ضرور اُس کی پیروی کرنا۔ اور اس کی علامت یہ ہے کہ تم لوگ ایک ایسی جگہ پڑاؤ کروگے جہاں تمہارے ساتھی مارے جائیں گے لیکن تم بچ جاؤگے اور فلاں کی آنکھ پر طاعون کا حملہ ہوگا۔ پھر اُن لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو راتوں رات اُن میں طاعون پھیل گئی اور وہ سب مارے گئے سوائے ابواُمامہ اور اُن کے اس ساتھی کے جس کی آنکھ طاعون کا شکار ہوگئی تھی۔
حضرت عمرو بن مُرّۃ جُہَنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’اسلام آنے سے قبل اپنے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ مَیں حج کرنے کی غرض سے نکلا تو مکّہ میں خواب دیکھا کہ کعبہ سے ایک نُور نکل کر پھیلا ہے جس نے یثرب کی پہاڑیوں اور جُہینہ کے اشعر پہاڑ کو روشن کردیا۔ پھر نُور میں سے آواز آئی کہ تاریکیاں چھَٹ گئی ہیں اور روشنی پھیل گئی ہے اور خاتم الانبیاء کو مبعوث کیا گیا ہے۔ وہ نُور ایک بار پھر روشن ہوا یہاں تک کہ مجھے حِیَرۃ کے محلّات اور مدائن کے سفید محلّات دکھائی دیئے۔ پھر نُور میں سے آواز آئی کہ اسلام پھیل گیا ہے، بُت توڑ دیئے گئے اور رحمی رشتے جوڑ دیئے گئے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ یہ خواب دیکھ کر مَیں گھبراکر اُٹھ بیٹھا اور لوگوں سے کہا: اللہ کی قسم ! قریش کے اس قبیلے میں ضرور کچھ رونما ہوکر رہے گا۔ پھر مَیں نے انہیں اُس خواب کے بارے میں بتایا جو مَیں نے دیکھا تھا۔ پھر جب ہم اپنے علاقہ میں پہنچے تو ہمیں خبر ملی کہ احمد نامی ایک شخص کی بعثت ہوئی ہے۔ مَیں نکل کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’اے عمرو بن مُرّۃ! مَیں تمام لوگوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں۔ مَیں انہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں اور انہیں خون کی حفاظت، صلہ رحمی، اللہ کی عبادت کرنے، بتوں کا انکار کرنے، بیت اللہ کا حج کرنے اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں۔ پس جو قبول کرے گا وہ جنت پائے گا اور جس نے انکار کیا اُس کے لئے آگ ہوگی۔ پس اے عمرو بن مرّۃ! اللہ پر ایمان لاؤ، اللہ تجھے جہنم کے خوف سے محفوظ رکھے گا۔ چنانچہ مَیں ایمان لے آیا اور پھر حضورؐ کو وہ اشعار سنائے جو مَیں نے اُس وقت کہے تھے جب مَیں نے حضورؐ کے بارہ میں سنا تھا۔ ان اشعار کا ترجمہ ہے: ’’مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ برحق ہے اور بُتوں میں سے (مزعومہ) معبودوں کو مَیں سب سے پہلے چھوڑوں گا تاکہ لوگوں میں سے اپنی ذات اور اپنے باپ کے حوالہ سے سب سے بہتر شخص کی مَیں صحبت اختیار کروں جو آسمانوں کے راستوں کے اوپر موجود لوگوں کے حقیقی بادشاہ (یعنی اللہ) کا رسول ہے‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں