روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط ۳)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5؍اگسست 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ’’تحقیق ادیانِ مختلفہ اور الفضل‘‘ کے عنوان سے مکرم نصیر احمد انجم صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں الفضل کی سو سالہ تاریخ میں شائع ہونے والے چند قیمتی عالمانہ تحقیقی مضامین کی جھلکیاں شامل اشاعت کی گئی ہیں۔
۱۹۲۰ء میں پروفیسر رام دیو صاحب نے لاہور میں تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام اِس زمانے کا مذہب نہیں ہے کیونکہ اس کے اصول سائنس کے مطابق نہیں ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پروفیسر صاحب کے اعتراضات کا مدلّل جواب اپنے ایک مضمون میں دیا جو ۱۳؍دسمبر۱۹۲۰ء کے الفضل اخبار میں شائع شدہ ہے۔حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ پروفیسر صاحب کے اعتراضات تو آریہ دھرم پر وارد ہوتے ہیں نہ کہ اسلام پر۔ مثلاً اُن کا اعتراض کہ فرشتوں کا وجود محض خیال ہے (حضورؓ نے فرمایا) ’’فرشتہ خیالی یا وہمی وجود نہیں بلکہ ان کا وجود عالمِ خیال سے باہر بھی موجود ہے اور قرآن کریم نے فرشتوں کی نسبت جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ درست ہے۔ اگر کسی شخص کو ان کے وجود کے خلاف کوئی اعتراض ہو تو مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کے شکوک کا ازالہ کرسکتا ہوں۔ اور فرشتوں کا وجود مَیں صرف اس لیے ہی نہیں مانتا کہ مَیں نے قرآن کریم میں اُن کا ذکر پڑھا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور احسان سے مَیں نے خود بھی اُن کی ملاقات کی ہے اور اُن سے کئی علوم سیکھے ہیں۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد ایک طبقہ ہائے فکر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام زمینداری اور جاگیرداری کے خلاف ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۸؍مارچ۱۹۵۰ء کے اخبار الفضل میں اس بارے میں تحریر فرمایا کہ زمینداری آنحضرتﷺ کے زمانے سے پہلے بھی موجود تھی اور آپؐ کے زمانے میں بھی رہی لیکن آپؐ نے اس کو ختم نہ کیا۔ آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفاء کے دَور میں بھی جاگیرداری اور زمینداری قائم رہی۔ چنانچہ طائف وغیرہ میں بڑے بڑے جاگیردار تھے لیکن اُن کی زمینیں اُن کے پاس ہی رہیں۔ دراصل جو چیز تباہی لاتی ہے وہ جاگیرداروں کے ہاتھوں غریبوں کا استحصال ہے، اس کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔
مضمون نگار نےبعض جیّد محقّقینِ احمدیت کا بھی ذکر کیا ہے جن کے مختلف موضوعات پر گراں قدر تحقیقی مضامین گذشتہ ایک سو سال میں الفضل اخبار کی زینت بنتے رہے۔ بعض تحقیقی مضامین سے ایسے بہت سے نکات بھی شامل اشاعت ہیں جن سے اخبار الفضل کے گذشتہ شماروں کی علمی حیثیت نیز تربیتی اور روحانی افادیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد یوسف بقاپوری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مَیں ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوا اور ہوش سنبھالتے ہی الفضل کو گھر میں موجود پایا۔ والدہ مجھ سے روزانہ ایک صفحہ پڑھواتیں۔ سات آٹھ سال کی عمر میں اپنے محلّہ کے چوکیدار کو باقاعدگی سے مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا خطبہ جمعہ سنایا کرتا تھا اور وہ اس حد تک اس میں دلچسپی لیتا تھا کہ اُس نے کچھ دوسرے ساتھیوں کو بھی بلانا شروع کردیا۔
۱۹۵۳ء میں الفضل پر جب پابندی لگی تو کراچی سے ’’المصلح‘‘ شائع ہونا شروع ہوا جس کا سائز عام بڑے اخبار جتنا تھا۔ اس میں حضورؓ کے خطبات بھی شائع ہوتے تھے۔ جناب تاثیراحمدی اس کے ایڈیٹر تھے جو ہمارے محلّہ میں ہی رہتے تھے اور صبح سات بجے کی ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی اردو کی خبریں ہمارے گھر میں بیٹھ کر سنتے اور لکھتے اور پھر ’’المصلح‘‘ میں شائع کردیتے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم ابو معوّذ صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
پوچھو تو مجھ سے کیا ہے الفضل روزنامہ
ظلمت میں اِک دِیا ہے الفضل روزنامہ
چشمہ یہ معرفت کا سیراب کر رہا ہے
اِک نعمتِ خدا ہے الفضل روزنامہ
ہر ایک اس کا کالم آواز دے رہا ہے
دیکھو کہ حق نما ہے الفضل روزنامہ
تعلیم دے رہا ہے کیا خوب دینِ حق کی
ایماں بڑھا رہا ہے الفضل روزنامہ
یہ راہِ اِتّقا ہے ہر اِک کا مُدّعا ہے
اللہ کی عطا ہے الفضل روزنامہ
اکسیر و کیمیا ہے اس میں بڑی شفا ہے
بیمار کی دوا ہے الفضل روزنامہ
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم رانا منیب احمد خاں صاحب رقمطراز ہیں کہ ہمارے قصبہ گڑھ موڑ ضلع جھنگ میں ہمارا اکیلا گھرانہ احمدی تھا۔ ہماری ڈاک اور الفضل کا ہفتے بھر کا بنڈل ہمارے ایک غیرازجماعت عزیز کی دکان پر آتا تھا۔ میرے والد محترم رانا عبدالحکیم خاں صاحب کاٹھگڑھی سب سے پہلے اس کا مطالعہ کرتے اور حسب استطاعت تبلیغ و تربیت کے لیے اس کے مندرجات سے استفادہ کرتے۔ ایک بار مَیں اُن کے ہمراہ ایک شیعہ تاجر کے ہاں گیا تو والد صاحب نے جیب سے الفضل کا ایک شمارہ نکال کر اُس کو دیا جس کے صفحہ اوّل پر حضرت امام حسینؓ کی شان میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات درج تھیں۔ ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد وہ کہنے لگا کہ جو مرزا صاحب نے لکھا ہے ہمارا بھی بالکل یہی عقیدہ ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ زاہدہ خانم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ الفضل سے میرا تعلق بچپن سے ہی جاری ہے۔ میری عمر بہت چھوٹی تھی جب میرے داداجان الحاج چودھری غلام جیلانی صاحب نے احمدیت قبول کی اور شدید مخالفت میں بھی ثابت قدم رہے۔ الفضل بھی لگوالیا جو مَیں بھی پڑھنے کی کوشش کرتی۔ میری عمر محض دس گیارہ سال تھی جب ایک دن میرے دادا کی کسی بات کو ماننے سے میرے والد نے انکار کیا۔ یہ دیکھ کر مَیں نے اپنے والد کو اخبار الفضل میں سے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک ایسا فقرہ پڑھ کر سنایا کہ انہیں داداجان کی اطاعت کے لیے قائل کرلیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار مضمون نویسی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے خواتین سے فرمایا کہ تم ٹوٹے پھوٹے جملے ہی لکھنا شروع کرو، دیکھنا پھر ایک دن اچھی رائٹر بن جاؤگی۔ مَیں نے آپؓ کی اس نصیحت پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے بعد میں آل ربوہ مقابلوں میں بارہا پوزیشن حاصل کی۔
میرے شوہر مکرم بشارت الرحمٰن صاحب کو الفضل کے مطالعہ کا بہت شوق تھا اور بچوں میں بھی اس کی عادت ڈالی۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ بچوں کو الفضل کا پہلا صفحہ ضرور پڑھا دیا کرو۔ انہوں نے اپریل ۱۹۹۰ء میں وفات پائی جبکہ تمام بچے ابھی کم سن اور زیرتعلیم ہی تھے۔ مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ الفضل کے مطالعہ اور خلیفہ وقت کے خطبات نے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ میرے شوہر کو اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کا بھی بہت شوق تھا اور الفضل میں مدرسۃالحفظ کے اعلانات پڑھ کر بھی بچوں کو سناتے تھے۔ خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور تینوں بیٹے حافظ قرآن بنے اور دنیاوی طور پر بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
ایک روز مَیں اپنے محلّہ باب الابواب ربوہ کی سابق صدر لجنہ مکرمہ امۃالقیوم صاحبہ مرحومہ کے ہاں اچانک کسی کام سے گئی تو وہ اچار سے روٹی کھا رہی تھیں۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا آج سالن نہیں بنایا؟ تو کہنے لگیں کہ آپ سے کیا پردہ۔ خاوند کی وفات کے بعد الفضل بند کروانے کو دل نہیں مانتا۔ الفضل کا چندہ کئی ماہ سے بقایا تھا، مَیں نے سوچا کہ کچھ بچت کرکے وہ چندہ ادا کردوں۔
ایک بار خاکسار نے الفضل کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک دردناک اقتباس پڑھا تو دعا اور کوشش کرکے ۲۰۰۸ء میں خلافت جوبلی سے پہلے ربوہ کے ایک سو گھرانوں میں اخبار جاری کروانے کی توفیق پائی۔ اس پر حضورانور نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم خالد محمود شرما صاحب بیان کرتے ہیں کہ پچاس کی دہائی میں میرے والد محترم عبدالرشید شرما صاحب سندھ آکر آباد ہوئے اور تب سے ہی الفضل ہمارے گھر میں جاری ہے۔ سندھ میں میرے والد اپنے کارخانے کے دفتر میں الفضل اخبار سامنے میز پر رکھ دیتے۔ جو غیرازجماعت آتے وہ بھی اس کا مطالعہ کرتے اور کئی سنجیدہ طبع لوگ گفتگو بھی کرتے۔ کارخانے میں ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی جو قریبی جماعتوں کا مرکز تھی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے کافی احباب آیا کرتے۔ والد صاحب الفضل سے ہی خطبہ دیتے۔
والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب وہ سندھ آئے تھے تو احمدی احباب کو تلاش کرنے کے لیے انہوں نے ڈاکیے سے پوچھا کہ الفضل کن گھروں میں آتا ہے۔ پھر اُن احمدی گھرانوں کے ذریعے انہوں نے جماعت کو اکٹھا کیا اور مسجد بھی اپنے کارخانے میں تعمیر کروائی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمدارشد صاحب (کاتب) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب نے ۱۹۳۴ء میں الفضل کی کتابت شروع کی اور ۱۹۸۶ء تک (باون سال) یہ خدمت سرانجام دی۔ مَیں نے اُن سے ہی یہ فن سیکھا اور ۱۹۶۵ء میں جب ہم ربوہ آکر آباد ہوئے تو مَیں نے بھی الفضل میں بطور کاتب کام شروع کردیا اور ۱۹۹۰ء تک یہ خدمت بجا لایا۔ پھر نظارت اشاعت میں تبدیلی ہوگئی جہاں سے ۲۰۱۰ء میں ریٹائر ہوا۔ الفضل کے لیے کتابت کی خدمت کی وجہ سے میرے علم میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ چنانچہ جب مَیں نے صدرانجمن احمدیہ میں ملازمت کے لیے کمیشن کا امتحان بغیر کسی تیاری کے دیا تو ۸۵فیصد نمبر آئے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ہومیوڈاکٹر مکرم محمد خورشید قریشی صاحب رقمطراز ہیں کہ صغرسنی میں قریبی گاؤں موضع نارنگ میں بغرض تعلیم جانا پڑتا تھا۔ سکول کے مدرس سیّد بہادرشاہ صاحب بطور پوسٹ ماسٹر بھی کام کرتے تھے اور طلبہ کے ذریعے ڈاک تقسیم کروایا کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک احمدی مکرم چودھری محمدحسین صاحب تھے جن کی ڈاک مَیں لایا کرتا تھا۔ اس میں الفضل اخبار بھی ہوتا تھا۔ مَیں راستے میں الفضل کا صفحہ اوّل ضرور پڑھتا تھا۔ گو کہ بچہ ہونے کی وجہ سے مجھے اس تحریر کا بہت کم شعور تھا لیکن اس تحریر کے الفاظ میں ایک خاص کشش اور سرور ضرور محسوس کرتا تھا۔ آخر یہ کشش بڑھتی گئی اور مڈل کلاس میں جانے کے بعد بھی مَیں اُن کی ڈاک تو نہیں لاسکتا تھا لیکن اُن سے الفضل لے کر ضرور پڑھتا تھا۔ بالآخر الفضل سے یہ رشتہ ۱۹۸۲ء میں میری قبولِ احمدیت پر منتج ہوا۔ الحمدللہ
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم بشارت احمد شاہد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بچپن سے گھر میں الفضل آتا لیکن بچپن کی وجہ سے اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک بار یہ اظہار گھر میں کردیا تو والد محترم محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی نے سمجھایا کہ اگر تم مٹھائی کی دکان کے باہر کھڑے رہوگے تو مٹھائی کے ذائقے سے محروم رہوگے۔ اگر الفضل کا مزہ لینا ہے تو اسے پڑھنا شروع کرو اور جو لفظ سمجھ نہ آئے تو اس کا مطلب پوچھ لیا کرو۔
تاریخ احمدیت میں کئی ایمان افروز واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے الفضل کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ مکرم خان صاحب غلام محمد خان صاحب سابق صدر شادن لنڈ ضلع ڈیرہ غازیخان لکھتے ہیں کہ بندہ نے مارچ ۱۹۱۷ء میں بذریعہ خط بیعت کی۔ جنوری ۱۹۱۷ء میں اخبار الفضل میں زار روس کے متعلق پیشگوئی پڑھی تھی جس کے بعد میرے اندر گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اگر مدّعی صادق ہے تو ہم تو غرق ہوگئے۔ تب سےخدا سے عہد کیا کہ آئندہ تارک صلوٰۃ نہیں ہوں گا اور حسب توفیق تہجدگزار بھی ہوں گا۔
مکرم میاں محمد اسماعیل صاحب سکنہ محمدانہ ضلع گجرات بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۱۵ء میں گاؤں میں ایک چٹھی رسان آتا تھا جس کے پاس کسی کا الفضل بھی ہوتا تھا۔ وہ لے کر پڑھا کرتا تھا۔ آخر احمدیت قبول کرلی۔
مکرم میر عالم صاحب ساکن کوٹلی پونچھ غیرمبائعین میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کوٹلی میں ایک احمدی مستری اللہ دین صاحب ہوا کرتے تھے جو گاہے گاہے مجھے الفضل دیا کرتے تھے اور قادیان جانے کی تحریک بھی کرتے رہتے تھے لیکن مَیں چونکہ پیغام صلح بھی پڑھتا تھا اس لیے شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آخر میرے دل نے گواہی دی کہ میری خوابیں بھی بتاتی ہیں کہ مَیں اصل جماعت میں شامل نہیں، چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیعت کی درخواست کردی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے احمدی نہ ہونے کے باوجود میرے تایا مکرم عبدالشکور قریشی صاحب کو تعلیم حاصل کرنے کے لیےراجپوتانہ سے قادیان بھجوادیا۔ وہ دورانِ تعلیم ہی حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدی ہوگئے اور بعدازاں اجمیر آکر ملازم ہوگئے۔ آپ الفضل کے اوّلین خریداروں میں سے تھے۔ کچھ عرصے بعد میرے دادا نے میرے والد مکرم منظور احمد صاحب کو بغرض تعلیم اُن کے بھائی کے پاس اجمیر بھجوادیا۔ بھائی نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ ڈیوٹی بھی لگائی کہ روزانہ الفضل کا کچھ حصہ پڑھ کر بھی سنایا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیت کے بنیادی عقائد سے گہری واقفیت ہوگئی چنانچہ میٹرک کے بعد جب وہ کسی کام سے قادیان گئے تو حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرکے واپس لَوٹے۔
میرٹھ اور راجپوتانہ کے تمدّن میں بہت فرق تھا اور فاصلوں میں بھی دُوری تھی لیکن الفضل میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے ایک اعلان کے نتیجے میں میرے تایا عبدالشکور قریشی صاحب کا رشتہ میرٹھ کے ایک مخلص خاندان میں ہوگیا۔ اُس خاندان کی شرافت اور میرٹھ کے تمدّن اور خوبصورت اردو زبان ہمارے خاندان میں اتنی پسند آئی کہ میرے والد کا رشتہ بھی اسی خاندان میں ہوگیا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ میرے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کے علاوہ رشتوں کے انجام پانے میں بھی الفضل کو بنیادی مقام حاصل ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد عاصم حلیم صاحب یہ ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء میں معلّمین وقف جدید کی کلاس منعقد ہوئی تو اس میں گلگت سکردو کے ایک نواحمدی مکرم مولوی غلام محمد صاحب بلتستانی بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک روز مَیں سکردو میں واقع اپنے گاؤں دُم سُم میں ایک دکان سے سوداسلف لایا تو جس کاغذ میں مجھے سودا دیا گیا تھا وہ الفضل اخبار کا پہلا صفحہ تھا۔ جب مَیں نے اُس کو پڑھا تو دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح کی صحت کی اطلاع بھی شائع ہوئی تھی۔ یہ پڑھ کر مَیں اس خیال میں گم ہوگیا کہ واقعی یہ زمانہ تو امام مہدی اور اُس کی خلافت کا ہے۔ مگر یہ خلافت کہاں قائم ہے، یہ معلوم نہ ہوسکا۔ مَیں جستجو میں لوگوں سے پوچھتا رہتا تھا تو کسی نے مجھے بتایا کہ اس فرقے کے کچھ لوگ راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ آخر اسی تلاش میں ایک دن احمدیہ مسجد راولپنڈی جا پہنچا۔ وہاں کے احباب نے میری راہنمائی کی اور ربوہ کا پتہ بتایا۔ چنانچہ مَیں ربوہ پہنچا اور خداتعالیٰ کے فضل سے بیعت کرنے کے بعد اپنی زندگی برائے خدمت دین بطور معلّم وقف جدید پیش کردی۔ بعدازاں میری اولاد کو بھی زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم میاں محمد شبیر ہرل صاحب ایڈووکیٹ رقمطراز ہیں کہ مَیں نے ۲۸؍اپریل ۱۹۷۸ء کو بیعت کی۔ اس سے قبل مَیں جن دوستوں کے زیرتبلیغ تھا وہ الفضل اور دیگر جماعتی رسائل کے باقاعدہ خریدار تھے۔ سو مَیں واقعی طور پر پینتیس سال سے الفضل کا قاری ہوں۔
اپنے ہم عصر جرائد کے بالمقابل’’الفضل‘‘کی یہ خوبی ہے کہ ’’اپنا موقف پیش کرو‘‘ نہ کہ محض دوسروں کو طعن و تشنیع یا تمسخر کا نشانہ بناؤ۔ اگر تنقید ضروری ٹھہرے تو صرف مختلف فیہ بات کی حد تک ذکر کرکے اس کی اصلاح پیش کردو اور وَمَاعَلَیْنَا اِلّاالْبَلَاغ پر عمل پیرا رہو۔ دوسری بات افراد جماعت میں اخوّت اور بھائی چارہ کا فروغ ہے۔ دعا کے اعلانات پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ تو دعا ہوتی ہی ہے لیکن خاص مواقع عطا ہونے پر الفضل کا دعا والا صفحہ سامنے آجاتا ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل کے حوالے سے مکرم انورندیم علوی صاحب کی نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
دوستو! کیا پوچھتے ہو الفضل اخبار کا
یہ تو خوشبو ہے ، محبت ہے ، یہ عنواں پیار کا
ابتدا میں حضرت اقدسؑ کے فرمودات ہیں
روح پرور پیارے آقا کے بڑے ، خطبات ہیں
تذکرہ اس میں ملے گا جاں نثارانِ وفا
تھم نہ پائے گا کبھی یہ نُور کا ہے قافلہ
ظاہر و باطن کے علموں کی بڑی اِک کان ہے
فلسفہ ، تاریخ اور شعر و ادب کی جان ہے
ساری دنیا سے ہے ممکن ’’الفضل‘‘ سے رابطہ
ہیں خوشی میں سب ہی شامل ، غم میں بھی لب پہ دعا
دیکھ لو سو سال سے ہے یہ فروزاں روشنی
ایک دن مٹ جائے گی دنیا سے آخر تیرگی
………٭………٭………٭………