روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۴)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍اگسست 2024ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل مضامین کا تذکرہ گذشتہ چند اشاعتوں سے جاری ہے۔
اس خصوصی اشاعت میں مکرم یعقوب امجد صاحب کا درج ذیل قطعہ شائع ہوا ہے جو الفضل اخبار کی چار سالہ بندش کے بعد ۱۹۸۸ء میں اس کے دوبارہ اجراء پر’’شکرانۂ الفضل‘‘ کے عنوان سے کہا گیا:
چشمۂ ’’الفضل‘‘ جاری ہو گیا
آگہی پر وَجد طاری ہو گیا
انقلاب وقت یوں گویا ہوا!
بےبسوں پر فضلِ باری ہو گیا
………٭………٭………٭………
مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ رقمطراز ہیں کہ محترم نسیم سیفی صاحب مدیر الفضل میرے پھوپھی زاد بھائی اور پڑوسی بھی تھے۔ بہت حوصلہ افزائی کرنے والے ایڈیٹر تھے۔ الفضل میں میری نظم یا مضمون چھپتا تو کبھی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خوشنودی کا خط بھی آجاتا اور کئی بار اصلاح فرمادیتے۔ ایک ایسے ہی خط میں حضورؒ نے میری ایک نظم میں اصلاح بھی تجویز فرمائی تو مَیں نے جواب میں اس نظم کا وہ شعر بھی لکھ دیا جو سیفی صاحب نے کسی مصلحت سے حذف کردیا تھا۔ اس پر حضورؒ نے بڑا دلچسپ جواب دیا جس میں فرمایا کہ ’’اعتراض والی نظم کا ایک شعر سیفی صاحب کی سنسرشپ کی زَد میں آگیا۔ اس شعر کو شائع نہ کرنے کی حکمت تو مکرم سیفی صاحب سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کرنے سے وہ خود بھی آپ کے اعتراض میں آگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ مکرم سیفی صاحب ماشاءاللہ بڑی ذہانت سے الفضل کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں ورنہ الفضل کبھی کا بند ہوچکا ہوتا۔ اگر الفضل ماہ بماہ چھپتا تو بلاشبہ سیفی صاحب بھی ماہ لقا کہلوانے کے مستحق ٹھہرتے۔ لیکن الفضل تو روزنامہ ہے اور سورج کی طرح روز اُن کے خوبصورت کلام کے آئینہ میں اُن کی لقاء الفضل کے شائقین سے کرواتا ہے۔ …‘‘
میری آپی رسالہ مصباح کی مدیر رہیں اور لجنہ مرکزیہ کی سیکرٹری اشاعت بھی۔ اُن کی شادی مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل ربوہ سے ہوئی تو میرا الفضل سے تعلق بھی بڑھتا چلاگیا۔ پہلے وہ لاہور میں رہتے تھے لیکن پھر ربوہ منتقل ہوگئے اور ہمارے ہمسائے بن گئے۔ ایک رات اُن کا دروازہ کھٹکا۔ ایک صاحب یاد رفتگاں کے عنوان سے کسی کی یاد میں مضمون لائے۔ محترم شیخ صاحب نے حیرت سے کہا کہ موصوف تو ابھی ہستگاں میں شامل ہیں۔ جواب ملا کہ الفضل میں اُن کی تشویشناک علالت کا پڑھا تھا، میرے پاس وقت تھا، مَیں نے سوچا بعد میں بھی تو لکھنا ہے کیوں نہ ابھی لکھ لوں، فوت ہوجائیں تو پہلا مضمون میرا چھاپ دینا۔
جب مَیں کراچی میں رہتی تھی تو ایک دفعہ ڈاکیا الفضل کی وی پی لایا تو ہماری بچت کی خاطر یہ پیشکش کی کہ آپ اس کے لیے پیسے دیتی ہیں، اس طرح کے بہت سے اخبار ہمارے ڈاکخانے میں پڑے رہتے ہیں مجھے صرف دس روپے مہینہ دے دیا کریں تو مَیں روز ڈال جایا کروں گا۔ ظاہر ہے یہ آفر قبول نہ کی گئی۔ اسی طرح ایک بار ڈاک سے ربوہ کے قریبی شہر کی ایک تنظیم کی طرف سے ایک خط بھی ملا کہ ہم الفضل میں آپ کو پڑھتے ہیں، آپ دنیائے شعر میں بلند مقام پر فائز ہیں مگر ایک محدود دائرے میں بند ہوکر رہ گئی ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ آملیں تو …۔ (یہاں تک ہی پڑھا اور اس خط کو آگ دکھادی۔ اس کا اس سے بہتر جواب نہ تھا۔)
………٭………٭………٭………
مکرم ماسٹر منصور احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد لکھتے ہیں کہ الفضل سے میرا رشتہ تب شروع ہوا جب میری عمر قریباً دس سال تھی۔ ہماری رہائش حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کی زمین ’’ظفرآباد فارم‘‘ پر تھی۔ بعد میں ہم اپنی ذاتی زمین پر منتقل ہوگئے۔ ہر دو جگہ والد صاحب الفضل سے خطبہ جمعہ دیا کرتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تازہ نظمیں الفضل میں شائع ہوتیں تو مَیں انہیں اپنی کاپی میں نقل کرلیتا۔ یہی شوق ایسا بڑھا اور اردو زبان سے ایسی دلچسپی پیدا ہوئی کہ ایم اے اردو کرنے کی توفیق ملی۔
مڈل کلاس میں داخل ہوا تو سکول دُور تھا اور گھوڑے پر آنا جانا ہوتا۔ تب میری ڈیوٹی واپسی پر ڈاک لانے کی بھی لگ گئی۔ خط کوئی نہ بھی ملتا تو الفضل کا شمارہ ضرور مل جاتا اور مَیں شاداںوفرحاں گھوڑا دوڑاتا ہوا گاؤں پہنچتا۔
مَیں نے اپنی زندگی میں بہت کثرت سے الفضل کا مطالعہ کرنے والے جو بزرگ دیکھے ہیں ان میں ایک تو میرے والد محترم چودھری شریف احمد صاحب کاہلوں تھے۔ ایک مکرم ماسٹر غلام رسول صاحب تھے جو قادیان میں بھی ٹیچر رہے اور بعد میں سنجرچانگ میں سکونت اختیار کرلی۔ الفضل اخبار کا وہ مطالعہ کررہے ہوتے یا پھر اُن کی سامنے والی جیب میں اخبار موجود ہوتا۔ حیدرآباد کے بزرگ محترم محکم الدین جتوئی صاحب نہ صرف الفضل کا تفصیل سے مطالعہ کرتے بلکہ شمارے جمع کرتے اور پھر اپنے ہاتھوں سے اُن کی جلد بناکر ہماری مسجد بیت الظفر پہنچادیتے۔
………٭………٭………٭………
مکرم فخرالحق شمس صاحب کا مرتبّہ ایک مضمون خصوصی شمارہ میں شامل اشاعت ہے جس میں الفضل کی سوسالہ خدمات پر مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی معزز قومی شخصیات کے قیمتی تأثرات قلمبند کیے گئے ہیں۔ ان محترم شخصیات کا مختصر تعارف بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
٭…صحافت، ادب، ابلاغیات اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن صاحب متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الفضل کو سوویں سالگرہ مناتے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کیونکہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے علاوہ ملک کے کسی اَور خبار نے اشاعت کے سو سال مکمل نہیں کیے۔ اگرچہ الفضل کو صحافت کی اُس قسم میں شامل نہیں کیا جاسکتا جس کو قبولِ عام کا درجہ حاصل ہو کیونکہ یہ اخبار نظریاتی طور پر ایک ایسے مخصوص نظریے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے جس کو ماننے والے پاکستان میں بہت مشکل زندگی گزارتے رہے ہیں۔
٭…جناب آئی اے رحمٰن صاحب گذشتہ تئیس سال سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے کہا کہ اتنی طویل مدّت تک کسی اخبار کی اشاعت بجائے خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور الفضل کی تاریخ تو اس وجہ سے بھی قابل تعریف ہے کہ اس اخبار کو کبھی بھی دوستانہ یا منصفانہ ماحول نصیب نہیں ہوا۔
٭…صحافت، ادب اور میڈیا میں ایک معتبر نام ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کا ہے۔ انہوں نے الفضل کی صدسالہ اشاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ کسی لگن اور آرزو کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کسی مشن اور وژن کے ذریعے ہی جہد مسلسل کی توفیق ملتی ہے۔ ادارہ کے ارکان کی محنت اور محبت کے علاوہ قارئین کی استقامت کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ کسی رسالہ کی کامیابی اُنہی کی مرہون منت ہوتی ہے۔
٭…صحافی، شاعر اور ماہنامہ ’’شاداب‘‘ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر کنول فیروز صاحب نے کہا: ’’شاداب‘‘ کے تبادلہ میں مجھے نسیم سیفی صاحب نے ’’الفضل‘‘ بھجوانا شروع کیا تھا جن سے میری بہت اچھی یاداللہ تھی۔ مَیں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کو پسند کرتا ہوں اسی لیے میرے لیے الفضل میں بہت معلوماتی مواد ہوتا ہے۔ ان حالات میں اس جریدے کو سو سال سے جاری رکھنا بہت بڑی جدوجہد ہے اور یہ کاوش قابل تحسین ہے۔ احمدیوں نے تحریک پاکستان میں بہت اہم کام کیا اسی لیے قائداعظم نے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو وزیرخارجہ مقرر کیا لیکن قائداعظم کے پاکستان میں اظہارخیال کی آزادی نہیں ہے۔
٭…جن دیگر شخصیات کے پیغامات شامل اشاعت ہیں اُن میں صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن کے نیشنل کوآرڈینیٹر جناب حسین نقی صاحب، قانون دان اور سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ جناب نعیم شاکر صاحب اور پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر احمد عقیل روبی صاحب شامل ہیں۔
٭…ماہر تعلیم اور صحافی پروفیسر وجاہت مسعود صاحب نے کہا کہ گذشتہ ۶۵برس کے دوران اس (احمدیہ) فرقے پر جو گزری اس کی ایک جھلک الفضل کی اشاعتی تاریخ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ میری رائے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں کسی مذہبی فرقے کو اس تسلسل کے ساتھ ریاستی امتیاز اور معاشرتی تعصب کا نشانہ نہیں بنایا گیا جس کا سامنا پاکستان میں احمدی مسلک کو کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں کوئی اخبار ایسا نہیں جس کی اشاعت پر اس تواتر سے پابندیاں عائد کی گئی ہوں۔
٭…ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے لیگل ایڈوائزر جناب محبوب خان صاحب نے الفضل اور جماعت احمدیہ کے حوالے سے اپنی بہت سی یادیں بیان کیں اور کہا کہ اظہار خیال کی مشکلات کے باوجود ایک سو سال سے یہ اخبار چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ موصوف نے پاکستان بنانے میں احمدیوں کے کردار، جنرل اختر حسین ملک اور دیگر احمدی جرنیلوں کے کارناموں اور حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ قومیائے جانے سے پہلے ٹی آئی کالج ربوہ میں داخلہ لینے کے لیے پاکستان بھر سے طلبہ سفارشیں کرواتے تھے۔ انہوں نے ربوہ میں کھیلوں کے حوالے سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ باسکٹ بال، کبڈی، گھڑدوڑ اور نیزہ بازی میں ربوہ نے نیشنل لیول کے کھلاڑی پیدا کیے۔
………٭………٭………٭………
مکرمہ امۃالباسط چیمہ صاحبہ رقمطراز ہیں کہ میرے داداجان محترم چودھری غلام محمد چیمہ صاحب عام سی دنیاوی تعلیم رکھتے تھے لیکن سلسلہ کی کتب اور الفضل کے باقاعدہ مطالعہ نے انہیں تقویٰ کے علاوہ دعوت الی اللہ کا ذوق بھی عطا کیا تھا۔ وہ چیچہ وطنی کے زمیندار تھے لیکن پھر زمین فروخت کرکے رانی پور سندھ میں جابسے۔ شدھی تحریک کے لیے بھی حضرت مصلح موعودؓ کی آواز پر لبیک کہا اور یوپی میں خدمت بجالائے۔ لمبا عرصہ امیرضلع خیرپور میرس بھی رہے۔ دورانِ سفر الفضل کو اپنے ہمراہ رکھتے اور تمام جماعتوں میں اس روحانی نہر کو جاری کرنے کا انتظام فرماتے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کا طویل منظوم کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
وفا و مہر و محبت کا ہے نشاں الفضل
سنا رہا ہے اخوّت کی داستاں الفضل
کبھی جو اس پہ کوئی دَورِ ابتلا آیا
خوشی سے جھیل گیا ساری سختیاں الفضل
ستم کے دَور میں رہنا پڑا جو مُہر بہ لب
سنا سکا نہ الم کی کہانیاں الفضل
دیارِ ہند کی پہنائیوں میں گم تھا کبھی
اور آج دیکھیے پہنچا کہاں کہاں الفضل
نہ لب پہ شکوہ نہ چہرے پہ کوئی گردِ ملال
مثالِ ماہ منور ہے ضوفشاں الفضل
ابھی تو بامِ ثریا تک اس کو جانا ہے
چڑھے گا اوجِ ترقی کی سیڑھیاں الفضل
خدا کے فضل سے اِک روز وہ بھی آئے گا
بنائے گا جو زمانے کو ہم زباں الفضل
………٭………٭………٭………