روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء(قسط۷)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍ستمبر2024ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم حافظ راشد جاوید صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں گذشتہ سو سال میں الفضل کی مشکلات اور اس پر بننے والے مقدمات نیز الفضل کی آزادیٔ صحافت کے لیے خدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں سے جاری ہونے والا الفضل بےشمار مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود ایک صدی سے جاری و ساری ہے۔ الفضل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تقسیم ہند کے وقت یہ واحد اردو اخبار تھا جو بھارت سے پاکستان منتقل ہوا۔ الفضل کا سفر بےشمار مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مالی و دیگر مشکلات کے علاوہ اس کو بہت دفعہ بندشوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس پر سنگین نوعیت کے مقدمات بنائے گئے۔ ڈاک کے ذریعے ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ اخبار تقسیم کرنے والے ہاکروں کو دھمکیاں دے کر تقسیم بند کروادی گئی۔ افسوس کہ یہ کارروائیاں اس اخبار کے خلاف کی گئیں جس نے ہر موقع پر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی۔ مسئلہ کشمیر ہو یافلسطین کا مسئلہ، تحریکِ آزادیٔ پاکستان یا قیامِ پاکستان کے بعد کی معاشی مشکلات۔ نیز الفضل نے بلاتفریق مذہب و ملت انسانیت کے حق میں آواز بلند کی۔جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تو انسانیت کے اس بھیانک انداز میں قتل عام پر سب سے پہلے روزنامہ الفضل نے ہی اسے ایک ظالمانہ اور بہیمانہ فعل قرار دیا۔
قیام پاکستان سے قبل جب بھی کسی مسلم اخبار کے خلاف انگریز حکومت یا ہندوؤں کی طرف سے کوئی کارروائی کی گئی تو الفضل نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے الفضل کو ہی سب سے زیادہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ الفضل پر بننے والے مقدمات کا جائزہ لیں تو اکبر الہ آبادی کا یہ شعر من وعن الفضل پر پورا اترتا ہے ؎
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
الفضل بھی وہ اخبار ہے جس کو محض خدا کا نام لینے کی پاداش میں بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
الفضل پر سب سے پہلا مقدمہ 28؍اگست 1923ء کے شمارے پر ظہیرالدین اروپی نامی شخص کی طرف سے ہتک عزت کا دائر کیا گیا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے کیسری اخبارکے ہندو ایڈیٹر کے حق میں گواہی دی تھی کہ اس اخبار کے ایڈیٹر نے جو آنحضرت ﷺکی شان کے خلاف خبر شائع کی ہے اس سے آنحضرت ﷺکی کوئی توہین نہیں ہوئی۔ ایسے شخص کا جو خود کو مسلمان کہتا ہو ایک ہندو ایڈیٹر کے اس فعل کی مذمت کرنے کی بجائے اس کے حق میں گواہی دینے پر مسلمان بالعموم مشتعل تھے۔ روزنامہ الفضل نے ظہیرالدین اروپی کے اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے اس کا کچا چٹھا نذر ِقارئین کیا کہ یہ شخص دھوکےباز ہے اور اس کے خلاف دھوکادہی کا ایک مقدمہ بھی زیر دفعہ420، لاہور کی ایک عدالت میں چل رہا ہے۔ اس خبر کی اشاعت پر اس شخص نے آریوں اور ہندوؤں کی پشت پناہی پر روزنامہ الفضل پر ہتک عزت کا مقدمہ جناب لالہ برکت رام آنریری مجسٹریٹ گوجرانوالہ کی عدالت میں دائر کردیا۔
اس مقدمہ کی پہلی پیشی8؍اکتوبر1923ء کو ہوئی۔ الفضل کی طرف سے حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔ یہ مقدمہ تقریباً 7ماہ گوجرانوالہ کی عدالت میں زیرسماعت رہا۔ آخرکار 22؍اپریل 1924ء کو مجسٹریٹ نے استغاثہ خارج کرتے ہوئے لکھا کہ استغاثہ کو بےبنیاد اور فضول قرار دیتا ہوں اور ڈسمس کرتا ہوں۔ نیز لکھا کہ مستغیث وہ وجہ بتائے کہ اس کے اس ناحق استغاثہ کی وجہ سے مستغاث علیھم کو کیوں معقول ہرجانہ نہ دلایا جائے۔
مکرم غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل کے مطابق الفضل پر دوسرا مقدمہ غیرمبائعین کی طرف سے ایک مضمون کی اشاعت پردائر کیا گیا جو ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے اراکین کا کچا چٹھا‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی بِنا پر پہلے تو مولوی محمد علی صاحب امیر غیرمبائعین نے ایڈیٹر الفضل کو پچاس ہزار روپیہ نقد ادا کرنے اور تحریراً غیرمشروط معافی مانگنے ورنہ قانونی کارروائی کرنے کا نوٹس دیا۔
نیز ماسٹر یعقوب خان صاحب کی طرف سے بھی پانچ ہزار روپیہ بطور تاوان ادا کرنے اور تحریراً غیرمشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیاگیا ورنہ مقدمہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ بعدازاں صرف ماسٹر صاحب کی طرف سے فوجداری مقدمہ دائر کیا گیا۔ لیکن اسی دوران ایڈیٹر الفضل کے خلاف اخبار پیغام صلح میں ایک مضمون لکھا گیا جس کی بِنا پر پیغام صلح پر بھی مقدمہ دائر کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بالکل مساوی الفاظ میں مصالحت نامہ لکھا گیا اور مقدمات سے دستبرداری دے دی گئی۔ اس مقدمہ میں بھی آنریبل چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ الفضل کی طرف سے پیش ہوتے رہے۔
تیسرا مقدمہ احرار کی طرف سے الفضل کے ایک نوٹ کی بِنا پر دائر کیا گیا۔ اس کا 1939ء میں فیصلہ ہوا جس میں ایڈیٹر کو 51روپیہ جرمانہ یا دو ماہ قید سخت اور پرنٹر کو 25روپیہ جرمانہ یا ایک ماہ قید سخت کی سزا دی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل لاہور سے شائع ہونے لگا۔ اس دوران کشمیر کے الحاق اور پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بعض اداریے شائع ہوئے جس پر بھارتی حکومت نے الفضل کا بھارت میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی مخالفت کرنے والے گروہ نے سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے دوبارہ متحرک ہونا شروع کردیا اور جماعت پر 1953ء کے فسادات کا پُرآشوب دَور مسلّط کردیا گیا جس میں پنجاب کی صوبائی حکومت کی پشت پناہی میں احمدیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور الفضل کی اشاعت پر بھی ایک سال کے لیے پابندی لگادی گئی۔ 27؍فروری1953ء کا شمارہ آخری شمارہ تھا جو لاہور سے شائع ہوا۔ ایڈیٹر اور پبلشر کے گھروں کی تلاشی بھی لی گئی تاہم سوائے خجالت کے تلاشی لینے والوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
اس بندش کے دوران 30؍مارچ1953ء کو کراچی سے روزنامہ المصلح جاری کیا گیا جو الفضل کا ہی دوسرا ایڈیشن تھا۔ اس کی اشاعت کا انتظام ادارہ الفضل ہی کرتا تھا۔ پھرایک سال کی جبری بندش کے بعد 15؍مارچ 1954ء سے الفضل دوبارہ پوری آب وتاب کے ساتھ جب لاہورسے اور 29؍دسمبر1954ء کو ربوہ سے شائع ہونے لگا تواس کے بعد بھی پریس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے الفضل کوناحق طور پردباؤ میں رکھنے کے لیے تنبیہی چٹھیاں بھجوائی جاتی رہیں۔ ہرچند کہ الفضل کی طرف سے پریس ڈیپارٹمنٹ سے استفسار کیا جاتا رہا کہ بتایا جائے کہ الفضل میں شائع ہونے والے کس موادسے بےاحتیاطی کا پہلو اجاگر ہورہا ہے۔ مگر اس کا جواب آنے کی بجائے دوبارہ تنبیہ کی چٹھی موصول ہوجاتی۔
چنانچہ اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے بات چیت کے لیے ایک وفد بھیجا گیا تو واپس آنے پر اُن کے رپورٹ پیش کرنے سے قبل حضرت مصلح موعودؓنے انہیں بتایا کہ رات کو مجھے ان تنبیہات کی وجہ سے سخت پریشانی تھی کہ حکومت کہیں پھر الفضل پر کوئی پابندی نہ لگا دے کہ غنودگی میں یہ فقرہ جاری ہوا کہ
’’بلبل نے اُڑ کے یونہی پریشان کردیا‘‘
گویا ان تنبیہات کی حیثیت گیدڑ بھبکیوں سے زیادہ نہ تھی۔
بعدازاں متعلقہ کارکنان نے رپورٹ پیش کی کہ اعلیٰ حکام کا یہی کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ 1953ء کے حالات دوبارہ پیدا ہوں اس لیے احتیاط کی چٹھیاں سب کو لکھتے رہتے ہیں لیکن الفضل پر کسی قسم کی پابندی کا کوئی ارادہ نہ ہے۔
1974ء میں جب ابتلا آیا تو حکومت نے پہلے احمدیوں پر ہونے والے مظالم کی اشاعت پر پابندی لگادی اور اس کو بنیاد بناکر دفتر الفضل پر پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ بھی مارا۔ نیز ایڈیٹر کو بھی تھانہ ربوہ میں بلاکر ہراساں کیا جاتا رہا۔
1979ء میں شروع ہونے والا ضیاءالحق کا تاریک دَور بالعموم پاکستان کے سارے اخبارات کے لیے ہی مشکل تھا۔ آزادیٔ صحافت ختم کردی گئی۔ اخبارات پر سنسرشپ عائد ہوگئی اور روزانہ اخبار کی کاپی لاہور میں واقع چیف سنسر کے دفتر میں پیش کرکے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا۔ اس دَور میں الفضل کا شائع ہونا اپنی ذات میں ایک معجزہ تھا۔
چنانچہ اس وقت کے ایڈیٹر محترم جناب مسعود احمد دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا ایک خطبہ جمعہ الفضل میں شائع کرنا مقصود تھا۔ یہ بہت جلالی خطبہ تھا۔ اس میں ایک پیرا ایسا تھا جو کہ خطبہ کی جان تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ سنسر والے اس پیرا کو شائع نہیں ہونے دیں گے۔ مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یہ پیرا سنسر والے کاٹ دیں گے اس لیے اگر اجازت دیں تو فی الحال خطبہ شائع نہ کیا جائے۔ اس پر حضورؒ نے وہ پیرا پڑھنا شروع کیا۔ پھر محسوس ہوا کہ حضورؒ دعا کرتے ہوئے حالت استغراق میں چلے گئے ہیں۔ پھر جب اس حالت سے باہر آئے تو بڑے جلال سے فرمایا کہ سارا خطبہ شائع ہوگا یہ پیرا نہیں کٹے گا۔ لیکن ا س خطبہ کا مسودہ آپ خود لاہور لے کر جائیں۔ چنانچہ مَیں وہ اخبار لاہور لے گیا تو جس افسر نے الفضل کو چیک کرنا ہوتا تھا اس نے آرڈر کردیا کہ یہ پیرا نہیں چھپے گا۔ اس پر مَیں نے کہا کہ مجھے چیف افسر سے بات کرنے دیں۔ اس نے کہا کہ وہ بھی یہی فیصلہ کریں گے۔ بہرحال میرے اصرار پر وہ یہ خطبہ لے کر چیف افسر کے پاس گیا۔ اس افسر نے پڑھ کر اپنے ماتحت کو کہا کہ احمدی بھی اس ملک کے شہری ہیں ان کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے پورا خطبہ چھپنے دو۔ اس پر وہ افسر تو حیران رہ ہی گیا لیکن یہ بات میرے لیے بھی ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کے منہ سے نکلی بات جو بظاہر ناممکن لگتی تھی پوری کردی۔
پھر 1984ء کا وہ پُرآشوب دور آیا جو پاکستان کی تاریخ کا بھی بدترین دَور تھا۔ چنانچہ الفضل کو بھی اس دَور میں سب سے طویل بندش اور بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دَور میں الفضل پر پہلا مقدمہ 1982ء میں قائم کیا گیا۔ اس کے بعد بھی ایک مقدمہ قائم ہوا لیکن یہ مقدمات جلد ہی خارج ہوگئے۔ اس کے بعد 29؍اگست 1984ء کو روزنامہ الفضل کو صوبائی حکومت کی طرف سے اظہار وجوہ کا نوٹس بھجوایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ الفضل کے بعض شماروں میں قابل اعتراض مواد شائع ہوا ہے مثلا ًیہ کہ الفضل میں نماز تراویح کے بارے میں اعلان شائع ہوا ہے۔ یہ بھی قابل اعتراض ٹھہرایا گیا کہ الفضل میں ’’اخبار احمدیہ‘‘ کیوں لکھا گیا ہے۔ یادرفتگان کے حوالے سے ایک مضمون بھی قابل اعتراض گردانا گیا جس کا عنوان تھا: ’’پیارے ابا جان مرحوم‘‘۔ اور حکم ہوا کہ دس روز کے اندر تیس ہزار روپیہ جمع کروائیں۔ اس کے بعد 12؍دسمبر1984ء کو ضیاءالاسلام پریس (جہاں سے الفضل شائع ہوتا تھا) اس کوسِیل کردیا گیا بعدازاں جنوری 1985ء میں اخبار کا ڈیکلریشن بھی منسوخ کردیا گیا۔ پابندی کا یہ طویل ترین دَور تھا جو کہ 3سال گیارہ ماہ اور 9دن پر محیط تھا۔ اس کے بعد گو 28؍نومبر1988ء کو الفضل شائع کرنے کی اجازت تو مل گئی لیکن مقدمات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔1982ء سے تادم تحریرروزنامہ الفضل پر 42مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
کئی مقدمات اس وجہ سے بنے کہ الفضل میں ایسا مواد شائع کیا گیا جس سے احمدیوں نے خود کو مسلمان ہونا ظاہر کیا تھا۔ ایک مقدمہ اخبار میں ’’دعائے مغفرت‘‘ کا لفظ لکھنے پر اور ایک مقدمہ فوت شدہ احمدی خاتون کے متعلق مرحومہ کا لفظ لکھنے پر کیا گیا۔ ایک مقدمہ صدسالہ جوبلی نمبر پرچے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا خصوصی پیغام شائع کرنے پر، ایک مقدمہ حضورؒ کی اپنی تصویر پر دستخط ثبت فرمانے پر اور ایک مقدمہ خطبے میں پڑھی جانے والی دعا عربی زبان میں لکھنے پر ہوا۔ نیز خلفائے سلسلہ کے اسماء کے ساتھ ’’نوراللہ مرقدہ‘‘ لکھنے پربھی مقدمات قائم ہوئے۔ نیز ایک مضمون کی وجہ سے الفضل پر مقدمہ قائم کیا گیا جس میں بیت اللہ (خانہ کعبہ)کی قدیم تاریخ بیان کی گئی تھی۔
1988ء میں ایک مخالف نے ڈی ایس پی کو درخواست دی کہ ایڈیٹراخبار نسیم سیفی، روزنامہ الفضل ربوہ کی کاپیاں ریلوے پھاٹک پر مفت تقسیم کر رہا تھا۔ ایک شمارہ مَیں نے حاصل کرکے روبرو گواہان پڑھا جس کے سرنامہ پرقرآنی آیات تحریر ہیں۔ چنانچہ اس درخواست پر اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر وغیرہ پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایک مقدمہ اس الزام پر درج کیا گیا کہ اخبار الفضل نے مرزائیوں کو مومن اور مرزائیت کو ہدایت اور سچائی کا پیغام لکھا ہے جو کہ آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔
1988ء میں ایک مخالفِ احمدیت کی درخواست پر مقدمہ درج کیاگیاجس میں تحریر تھا کہ روزنامہ الفضل ہم مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کررہا ہے۔ مثلاً سر ورق پر قرآنی آیات تحریر ہوتی ہیں …۔ وغیرہ وغیرہ
1989ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک کارکن کی اس درخواست پر مقدمہ قائم ہوا کہ اخبار الفضل ’’خطبہ جمعہ، نماز، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، قرآن کریم، حدیث، آیاتِ قرآن‘‘ اور اس قسم کے اسلامی الفاظ و اصطلاحات لکھ رہا ہے جو کہ امتناع قادیانی آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے علاوہ فروری 2012ء میں مقامی انتظامیہ کی طرف سے روزنامہ الفضل کے ڈیکلریشن کی منسوخی کے حوالے سے نوٹس دیا گیا جس پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرکے الفضل کو حکم امتناعی لینا پڑا۔
الفضل کی ترسیل روکنے کے لیے بھی مخالفین کی طرف سے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں چنانچہ بذریعہ ڈاک اخبار بھجوانے کا سستا طریق مجبوراً ترک کرنا پڑا کیونکہ ڈاک کے ذریعے الفضل کے بنڈل کے بنڈل غائب کردیے جاتے یا ترسیل میں غیر معمولی تاخیر کی جاتی۔
بعض بڑے شہروں میں جہاں جماعت کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں ہاکروں کے ذریعے بھی الفضل پہنچایا جاتا تھا۔ لیکن کئی جگہ مخالفین کی طرف سے ان ہاکروں کو دھمکیاں دی گئیں اور فیصل آباد میں ایک ہاکر کو مارا پیٹا بھی گیا۔ چنانچہ الفضل کی ترسیل اس ذریعے سے بھی روکنا پڑی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان میں جماعت احمدیہ کی صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا لیکن قیام پاکستان سے قبل مسلم صحافت کی آزادی پر جب بھی کوئی قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو الفضل نے کمال جرأت اور بہادری سے اس کے خلاف آواز بلند کی اور عملی جدوجہد بھی کی۔ چنانچہ جب کانگریس کی طرف سے بعض مسلمان اخباروں مثلاً انقلاب اورسیاست کو بندکردینے کا نوٹس ملا اور بصورت دیگرانہوں نے محاصرہ کرنے کی دھمکی بھی دی تو اس نازک موقع پر مسلمان اخبارات کو کانگریس کے تشدد سے بچانے کے لیے جماعت احمدیہ نے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ ناظرصاحب امورخارجہ قادیان نے دونوں اخبارات کو حسب ذیل تار دیا جو الفضل میں بھی شائع ہوا:’’جماعت احمدیہ کو یہ سُن کر افسوس ہواکہ کانگریس کے یہ رضاکار آپ کے دفتر میں پہرا بٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں اس لیے جماعت احمدیہ قادیان حسب ضرورت اپنے آدمیوں کو لاہور بھیجنے کے لیے بالکل تیار ہے تاکہ وہ کانگریس کے جارحانہ اقدام کے مقابلہ میں اخبارات کی حفاظت کریں۔‘‘
اخبار ’’انقلاب‘‘نے ’’احمدی بھی انقلاب کی حفاظت کے لیے تیار ہیں‘‘ کے عنوان سے یہ تار نمایاں طورپر شائع کی اورلکھا: ’’ہم جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکریہ اداکرتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ ان کی طرح ہرمسلمان اس خادم جریدے کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہے۔جب تک ملت اسلامیہ انقلاب کی پشت پناہ ہے انقلاب کو کفر کی طاقتیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔‘‘
اخبار ’’سیاست‘‘ کے ایڈیٹر جناب سید حبیب صاحب نے بھی اس تار کے جواب میں شکریہ کا خط لکھا۔
اسی طرح 1932ء میں جب اخبار’’انقلاب‘‘سے صوبائی حکومت کی طرف سے اڑھائی اڑھائی ہزار روپے کی دو ضمانتیں طلب کی گئیں تو اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کشمیرکمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی میں مقیم تھے۔ آپؓ کی طرف سے فوری طور پر صدائے احتجاج بلند کی گئی اور گورنر پنجاب کے نام اپنے مکتوب میں حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ اس طرح عوام میں یہ خیال تقویت پائے گا کہ حکومت اسلامی پریس کو نقصان پہنچا نا چاہتی ہے۔ اورچونکہ ضمانت کے طور پر بھاری رقوم طلب کی گئی ہیں اس لیے اس سے اخبار کے بند ہونے کااندیشہ ہے اس لیے حکومت اسلامی پریس کے خلاف اس طرح کے سخت اقدامات لینے سے گریز کرے۔
الفضل پر قائم مقدمات کسی بھی اخبار پر قائم ہونے والے مقدمات کی تعداد کے لحاظ سے ریکارڈ ہے۔ ان میں سے صرف 3مقدمات قیام پاکستان سے قبل قائم ہوئے جبکہ 42مقدمات1982ء کے بعد بنائے گئے۔ اگر ان کا جائزہ لیں تو 1989ء میں الفضل پر سب سے زیادہ مقدمات قائم کیے گئے جن کی تعداد 14تھی۔ جب کہ 1992ء سے 1994ء کے دوران میں 15مقدمات قائم کیے گئے۔الفضل کے قیام سے لے کر اس وقت تک الفضل کو کل 45مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ دو دفعہ الفضل کو جبری طو رپر بند کردیا گیا۔ یہاں تک کہ الفضل کے پرنٹر مکرم قاضی منیر احمد صاحب پر 100 کے لگ بھگ مقدمات ہیں جو کسی پرنٹر کے خلاف دائر مقدمات کا غالباً عالمی ریکارڈ ہے۔
الفضل جن حالات میں شائع ہوتا رہا ہے اس حوالے سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے1989ء میں الفضل کے ایڈیٹر جناب نسیم سیفی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرمایا: ’’مَیں دعا میں اس نکتے کو یاد رکھتا ہوں کہ الفضل کی زبان محض 32دانتوں میں نہیں بلکہ 32دشمن دانتوں میں گھری ہوئی عمدگی سے ما فی الضمیرادا کرنے کی توفیق پارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے۔‘‘
الفضل کی دوسری صدی میں الفضل کے خلاف پہلا مقدمہ 10؍اپریل 2013ء کو تھانہ اسلام پورہ لاہور میں درج کیا گیا جس میں 6؍احمدیوں کے نام شامل تھے جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔