روزہ … مذاہب عالم کا مشترکہ اثاثہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ستمبر 2007ء میں روزہ کے بارہ میں ایک دلچسپ مقدمہ کا حال محترم شریف احمد بانی صاحب اپنے والد محترم محمد صدیق بانی صاحب کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں۔
1930ء کی دہائی میں متحدہ بنگال میں ڈھاکہ کے ایک کالج سے متصل ہوسٹل والوں نے رمضان شریف کی آمد سے قبل نوٹس بورڈ پر یہ اعلان کیا کہ ماہ رمضان میں ہوسٹل کا کھانے کا کمرہ دن کے وقت بند رہے گا اور تمام طلبا کو کھانا سحری اور افطاری کے وقت ملا کرے گا۔ اس پر بی۔اے کے ایک طالب علم اصغر علی نے سپرنٹنڈنٹ کو خط لکھا کہ چونکہ میں روزہ رکھنے کا قائل نہیں ہوں۔ اس لئے ہوسٹل کے قواعد کے مطابق مجھے دوپہر اور رات کا کھانا حسب سابق دیا جائے۔ جب سپرنٹنڈنٹ نے یہ درخواست منظور نہ کی تو اصغر علی نے ڈھاکہ کی عدالت میں درخواست دائر کی جس میں مذکورہ بالا مطالبہ پیش کیا۔ ڈھاکہ کی عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ اصغرعلی کو مقررہ اوقات میں ہی کھانا دیا جائے۔ ہوسٹل والوں نے ڈسٹرکٹ جج ڈھاکہ کی عدالت میں اس حکم کے خلاف اپیل دائر کی جہاں سے حکم امتناعی منسوخ ہوکر سپرنٹنڈنٹ کی ہدایات کو بحال کر دیا گیا۔ اس پر اصغرعلی نے اس فیصلہ کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ اپیل کی سماعت ایک ہندو جج مسٹر سی۔سی۔ گھوش کی عدالت میں 29 رمضان کو قرار پائی۔ اصغر علی کے وکیل نے بحث میں دوباتوں پر زور دیا:
1۔ مذہب میں جبر نہیں ہے اس لئے کسی کو زبردستی روزہ رکھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
2۔ ہوسٹل نے جن قواعد و ضوابط کے تحت اپیل کنندہ سے رہائش اور خوراک کی فیس لی ہوئی ہے، اس کے مطابق سپرنٹنڈنٹ کو کھانے کا کمرہ بند کرنے یا اوقات تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اس کے جواب میں ہوسٹل والوں نے کہا کہ بسااوقات ہوسٹل کی مرمت یا دیگر ضروریات کے لئے مختلف کمرے بند کئے جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح موسم سرما اور گرما میں کھانے کے اوقات تبدیل کئے جاتے ہیں۔ فاضل جج نے وکلاء کی بحث سن کر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک کمرہ بند کرنے یا اوقات میں تبدیلی کا سوال ہے تو سپرنٹنڈنٹ کو اس بات کا پورا اختیار ہے۔ درخواست کے مذہبی پہلو کے متعلق جج صاحب نے کہا کہ روزہ رکھنے کا حکم اسلام کے علاوہ بھی دنیا کے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے۔ اگر کسی مذہب میں روزہ نہیں ہے تو اسے اسلام کے اس زرّیں حکم پر رشک کرنا چاہئے۔
آخر میں فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ مجھے ان والدین سے ہمدردی ہے جن کے ہاں اصغر علی جیسا نالائق بیٹا پیدا ہوا۔ اور اصغرعلی کے وکیل سے عدالت نے کہا کہ تمہارے موکل نے اپنا بھی اور ہوسٹل والوں کا بھی نہایت قیمتی وقت ضائع کیا ہے اور مقدمہ کے لئے کافی دوڑ دھوپ کی ہے اس لئے تم اپنے موکل کو یہ خوشخبری پہنچا دو کہ کل سے اسے اس کی خواہش کے مطابق کھانا ملے گا (کیونکہ اگلے روز عید تھی)۔