ریل گاڑی۔ آخری زمانہ کی اہم علامت
آنحضرت ﷺ نے آخری زمانہ کے متعلق خبر دی تھی کہ اونٹنی کی سواری موقوف ہو جائے گی۔ گویا یہ اشارہ تھا کہ ایسی نئی ایجادات کی جائیں گی جن کی موجودگی میں اونٹنی کا کام ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ ریل بھی ایسی ہی ایجاد ہے جس نے مذکورہ پیشگوئی کو پورا کیا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍جون 2007ء میں مکرم عمیر عظیم صاحب کے قلم سے ریل گاڑی کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
سترھویں صدی میں انگلستان میں لکڑی کی پٹڑیاں بنائی گئیں جو کوئلے اور کچ دھات کے نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ ان پٹڑیوں پر گاڑیوں کو گھوڑے کھینچتے تھے۔ اٹھارہویں صدی میں جب انگلستان، فرانس اور امریکہ کے موجدوں نے دخانی انجنوں کے تجربے شروع کئے تو لوہے کی پٹڑیاں استعمال ہونے لگیں۔ 1801ء میں پہلا دخانی انجن تیار ہوا جو بھاری بوجھ کھینچ سکتا تھا۔ جارج سٹیونسن نے 1825ء میں جو ریلوے انجن بنایا وہ پندرہ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ سکتا تھا۔ 1829ء میں اُس کے ’’راکٹ‘‘ نامی انجن نے ایک گاڑی کو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا۔ پھر ریلوے کا نظام تیزی سے دنیا بھر میں پھیلنے لگا۔ 1921ء میں صرف برطانیہ میں 250 مختلف ریلوے لائنز تھیں۔ امریکہ میں اس وقت ریلوے لائنوں کا طول 2,28,000 میل ہے جو دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہے۔
ریلوے انجن ایجاد کرنے والوں میں جو لوگ شامل تھے، ان میں رچرڈ ٹریویتھک، جارج سٹیونسن، جان سٹیونز (جس نے قریباً 1825ء میں امریکہ میں پہلا سٹیم انجن بنایا)۔ پیٹر کوپر جس کا ٹام تھم نامی انجن 1830ء میں امریکہ کا پہلا کارآمد ریلوے انجن تھا۔ نیز کئی دیگر سائنسدان ہیں۔
برقی ریل انجن تقریباً 1895ء میں استعمال ہونے لگا جبکہ ڈیزل برقی انجن امریکہ میں تقریباً 1924ء سے استعمال ہونے لگا۔ اس میں ڈیزل انجن تو جنریٹر کو چلاتا ہے اور برقی موٹر جو جنریٹر سے طاقت حاصل کرتی ہے ریل گاڑی کو کھینچتی ہے۔ اب اس انجن کا رواج بڑھتا جاتا ہے اور اس سے کانٹا بدلنے کا کام بھی لیا جارہا ہے۔
برصغیر میں 16؍اپریل 1853ء کو پہلی ریل گاڑی کا افتتاح لیڈی فاک لینڈ (اہلیہ گورنر بمبئی: فاک لینڈ) نے کیا۔ پھر ریل گاڑی اپنی ترقی کے مختلف مراحل طے کرتی ہوئی بالآخر 1928ء میں قادیان کی گمنام بستی تک بھی آپہنچی۔ افتتاح کے روز قادیان سے بہت سے مرد، بچے اور عورتیں امرتسر پہنچ گئے نیز گوجرانوالہ، لاہور اور بعض دور دراز کے مقامات سے بھی لوگ آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل اتنی بھیڑ ہوگئی کہ ریلوے کو اپنی تجویز کردہ بوگیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی بنفس نفیس تین بجے بعد دوپہر امرتسر تشریف لے آئے۔ گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضورؓ نے ظہر وعصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو پڑھائیں۔ پھر حضورؓ نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ اور پھر گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوکر نہایت الحاح سے دعا کروائی۔ اس موقع پر حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ نے قادیان کے لئے ریل گاڑی کے جاری ہونے کے متعلق چار صفحہ کا ایک خوبصورت ٹریکٹ تیار کرکے تقسیم کیا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کے مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا کہ قادیان میں ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے۔
گاڑی جتنی دیر امرتسر کھڑی رہی تو سکاؤٹس نظمیں پڑھتے رہے۔ گاڑی کو بینرز سے سجایا بھی گیا تھا۔ مقررہ وقت تین بجکر بیالیس منٹ پر گاڑی نے حرکت کی تو اللہ اکبر کا پُرزور نعرہ بلند ہوا۔ پھر اللہ اکبر اور ’’غلام احمد کی جے‘‘ کے نعرے راستہ کے ہر گاؤں اور سٹیشن پر بلند ہوتے آئے۔ راستہ میں بھی بہت سے احمدی بٹالہ اور دیگر سٹیشنوں سے گاڑی میں سوار ہونا چاہتے تھے لیکن اُنہیں پائیدان پر بھی جگہ نہ مل سکی۔ آخر گاڑی اپنے وقت پر چار بجے شام قادیان پہنچی۔ سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا۔ فضا بہت دیر تک پُرجوش نعروں سے گونجتی رہی۔
آج گرینڈ سنٹرل ٹرمینل (نیویارک) دنیا کا سب سے بڑا ریلوے سٹیشن ہے۔جبکہ مصروف ترین ریلوے سٹیشنوں میں کلیپہم (انگلستان) کا نام آتا ہے جہاں سے روزانہ اڑہائی ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ پاکستان کے مصروف ترین ریلوے سٹیشن لاہور سے ایک دن میں ڈیڑھ سو گاڑیاں گزرتی ہیں۔
ریلوے سٹیشن لاہور کی بنیاد 1859ء میں رکھی گئی تھی اور 1860ء میں پہلی مرتبہ لاہور اور امرتسر کے درمیان ریل کے ذریعے آمد و رفت شروع ہوئی تھی۔ 1865ء میں دہلی سے لاہور ریلوے کا افتتاح ہوا۔ لاہور ریلوے سٹیشن کا نقشہ انگریز انجینئر برٹن نے بنایا تھا اور لاہور کے مشہور کشمیری ٹھیکیدار میاں محمد سلطان نے پورا سٹیشن بنوایا تھا۔ اس زمانہ میں پوری عمارت پر 5 لاکھ روپے خرچ آیا تھا۔ 1865ء کے بعد لاہور سے ملتان کی طرف لائن بننی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ اسے ایک طرف کراچی سے دوسری طرف سے چمن (سرحد افغانستان) سے اور تیسری طرف سے زاہدان (سرحد ایران) سے ملا دیا گیا۔