سانحہ دارالذکر لاہور کے عینی شاہد مکرم زاہد محمود قریشی صاحب کا بیان

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 17 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرم زاہد محمود قریشی صاحب کے قلم سے 28؍مئی 2010ء کو مسجد دارالذکر لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کا آنکھوں دیکھا حال شائع ہوا ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ 28؍مئی 2010ء کو مَیں اور میرا بیٹا عزیزم طاہر محمود بذریعہ بس مسجد دارالذکر پہنچے۔ وضو کرنے کے بعد ہال میں آگئے۔ محراب کے قریب ہی سنتیں ادا کرکے بیٹھ گئے۔ خطبہ شروع ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ دہشتگردوں کی طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ مربی صاحب کے کہنے پر ہم وہیں لیٹ گئے۔ چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ دہشتگردوں نے محراب سے ملحقہ کمرے کا دروازہ توڑ کر محراب اور ہال میں ہینڈگرنیڈ پھینکنے شروع کردیے۔ مَیں نے بیٹے کو دوسرے ستون کی آڑ میں جانے کو کہا۔ گرنیڈ پھٹنے شروع ہوئے تو شدید دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اچانک مَیں نے اپنی بائیں ٹانگ میں شدید درد محسوس کیا۔ دیکھا تو ٹانگ میں سے خون بہہ رہا تھا۔ دائیں پاؤں میں درد محسوس ہوا، دیکھا تو انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی غائب تھی اور وہاں سے بھی خون جاری تھا۔ اس کے علاوہ کولہے پر اور پیٹ پر دو دو زخم بھی آئے جن سے خون جاری تھا۔ مَیں نے اردگرد نظر دوڑائی تو ہر طرف زخمی ہی زخمی نظر آئے، کچھ کم زخمی اور کچھ زیادہ۔ اسی دوران دہشتگرد جدید اسلحے سے لیس ہوکر ہال میں داخل ہوئے اور خون کی ہولی کھیلنی شروع کی۔فائرنگ کی آواز اتنی ہیبت ناک تھی کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ایک بدبخت دہشتگرد کی میگزین خالی ہوئی تو کسی بہادر نوجوان نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اُس دہشتگرد نے خودکُش جیکٹ کا دھماکہ کردیا جس سے پوری مسجد لرز گئی۔ اب ہال میں زخمیوں کے علاوہ بہت سارے شہداء کے جسم پڑے تھے۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔کچھ دیر خاموشی رہی تو مَیں سمجھا کہ قیامت ٹل گئی ہے لیکن دہشتگرد تھے کہ وقفے وقفے سے ہال میں آتے اور اندھادھند فائرنگ کرتے۔ بہت سے زخمی اپنے پیاروں سے فون پر بات کرکے اُن کو تسلّی دے رہے تھے اور نصیحت کررہے تھے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنا ہے۔
جیسے ایک روزہ دار کو دوسرے روزہ دار کی کیفیت کا علم ہوتا ہے اسی طرح ایک زخمی کو دوسرے زخمی کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خون بہہ جانے سے حلق خشک ہورہے تھے لیکن گلے میں چند بوندیں ٹپکانے والا کوئی نہیں تھا۔ کئی زخمی کربلا کے شہداء کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔میرے دائیں طرف ایک پچیس سالہ نوجون اور بائیں طرف ساٹھ سالہ ایک بزرگ زخمی حالت میں لیٹے ہوئے تھے۔ دہشتگرد جو وقفے وقفے سے ہال میں آتے وہ کسی میں زندگی محسوس کرتے تو اُسے گولیاں مارتے۔ میرے ساتھ والے نوجوان نے تھوڑی سی حرکت کی تو دہشتگرد نے اُس کو برسٹ مارا۔ اُس کے جسم سے خون چھینٹے بن کر میرے سر اور گردن پر گرا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب میری باری ہے۔ مَیں نے درودشریف پڑھنا شروع کردیا۔ لیکن دہشتگرد مجھے خون میں تربتر دیکھ کر فوت شدہ سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔ جب دہشتگرد نے اپنی خودکُش جیکٹ کا دھماکہ کیا تھا تو بجلی کا نظام معطّل ہوگیا تھا اور پنکھے بند ہوگئے تھے۔ ہال کی دری آگ لگنے سے سلگنے لگی تھی اور دھواں پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ایلیٹ فورس کے ایک جوان نے دری کا ٹکڑا لے کر اُس سلگتی ہوئی آگ کو بجھایا۔ دروازے بند تھے اور شدید گرمی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے موسم ٹھنڈا کردیا تھا۔
مَیں نے اشارے سے پولیس نوجوان کو متوجہ کرنا چاہا لیکن وہ میرے پاس آنے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ میرے قریب ہی دو گرنیڈ پڑے تھے جو چل نہیں سکے تھے۔ مَیں نے اپنی ساری طاقت جمع کرکے آواز نکالی کہ یہ ناکارہ ہیں۔ اُس نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ مَیں کہنیوں کے سہارے رینگتا ہوا اُس کے قریب پہنچا تو اُس نے بڑی مشکل سے مجھے کھڑا کیا۔ بائیں ٹانگ وزن اٹھانے سے قاصر تھی۔ بہت مشکل سے اُس جوان کا سہارا لے کر مَیں نے چلنا شروع کیا۔ ہال میں نظر ڈالی۔ ہر جانب شہداء کے جسم پڑے تھے جو خون میں نہائے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ انسانی گوشت کے لوتھڑے پڑے تھے۔ بدبخت دہشتگرد کا سر، ٹانگ اور کٹاہوا بازو بھی پڑا تھا۔ ٹیوب لائٹ کے شیشوں سے اپنے پاؤں بچاتا مَیں دروازے تک پہنچا۔ ایک خادم نے مجھے سہارا دیا اور سٹریچر پر لٹادیا۔ ایمبولینس میں ڈالا جو گنگارام ہسپتال لے گئی۔ راستے میں نقاہت اور حلق خشک ہونے کی وجہ سے ریسکیو والے نوجوان سے مَیں نے پانی مانگا تو اُس نے ایک ٹیوب سے محلول نکال کر میرے منہ میں انڈیل دیا جس سے دل کو کچھ تقویت ملی۔
ہسپتال میں آپریشن تھیٹر میں میرے زخم صاف کرکے خون آلود کپڑے تبدیل کرکے وارڈ میں منتقل کردیا گیا تو دوست عزیز میری عیادت کے لیے آئے۔ مجھ سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو مَیں نے بتایا کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ کیونکہ میرے قریب ہی اُسی کے قدکاٹھ اور کپڑوں والے ایک نوجوان کی نعش پڑی تھی جس کا چہرہ دوسری طرف تھا جو مَیں دیکھ نہیں سکا تھا۔ جبکہ زخمیوں اور شہداء کی فہرست میں میرے بیٹے کا نام نہیں مل رہا تھا۔ اسی اثنا میں گھر سے فون آیا کہ بیٹا خیریت سے گھر پہنچ گیا ہے۔ وہ حملے کے دوران مربی ہاؤس میں پناہ لینے والوں میں شامل تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں