سنا ہے اس کو جو دیکھیں تو مر کے دیکھتے ہیں … نظم

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍جنوری2025ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مئی2014ء کی زینت مکرم ابن آدم صاحب کی غزل میں سے انتخاب پیش ہے جو جناب احمد فراز کی ایک غزل کی زمین میں کہی گئی ہے:

سنا ہے اس کو جو دیکھیں تو مر کے دیکھتے ہیں
وہ کوئی بُت ہے جسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایسے میں کوئی فلک سے آتا ہے
فساد دنیا میں جب بحر و بر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چمکا ہے ایسے وہ چودھویں کا چاند
ستارے چاند کو اب بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مانگتے ہیں مر کے مانگنے والے
دعا میں موت ہے لازم تو مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ان کو فرشتے اٹھانے دوڑتے ہیں
گرا کے آنسو کہیں چشم تر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے سوال و جواب کی مجلس
فرشتے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

جناب احمد فراز

اپنا تبصرہ بھیجیں