سَبْعَۃ مُعَلَّقَات

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 25 ستمبر 2020ء)

سَبْعَۃ مُعَلَّقَات

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں مکرم عطاء الرحیم صاحب کے قلم سے ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں

سَبْعَۃ مُعَلَّقَات

کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
عربی زبان کے وہ منظوم شاہکار جو

سَبْعَۃ مُعَلَّقَات

کہلاتے ہیں اپنی فنّی خوبیوں، لسانی رعنائیوں اور غیرمعمولی اثرات کے باعث عربی زبان اور ادب کی تاریخ میں اس قابل سمجھے گئے تھے کہ خانہ کعبہ کے اندر آویزاں کیے جائیں۔ یہ سات قصائد امرؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ، عمر بن کلثوم، طرفہ بن العبدالبکری، عنترۃ بن شداد، لبید بن ربیعہ العامری اور حارث بن حلزۃالیشکری ہیں۔ امرؤالقیس کا قصیدہ سب سے پہلے خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا۔
عربوں کو شاعری کا ذوق فطری تھا۔ وہ اپنے تاریخی حالات، اخلاق و عادت، فضائل و مفاخر ہر چیز کا اظہار اشعار کے ذریعے کرتے تھے۔ رؤسا اور قبائلی سردار بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔شعراء کو قبائل کی عزت کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ مکّہ کے اطراف میں تین بڑے میلے لگتے تھے جو مَجنہ، ذوالمجاز اور عکاظ میں لگاکرتے تھے۔ عکاظ کا میلہ سب سے بڑا اور اہم تھا جس میں تمام قبائل کے شعراء شامل ہوتے اور کئی کئی دن یہ محفل چلتی رہتی۔جس شاعر کا کلام لوگوں کو سب سے زیادہ پسند آتا اُسے اُس سال کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا اور اُس کا قصیدہ سونے کے پانی سے ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے پر لکھواکر خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا۔اگرچہ ان قصائد کی تعداد میں اختلاف ہے۔ کسی نے دس لکھا ہے اور کسی نے نو۔ لیکن اکثر نے سات لکھا ہے۔ چنانچہ

سَبْعَۃ مُعَلَّقَات

سے مراد وہ سات کلام ہیں جو خانہ کعبہ میں مختلف اوقات میں لٹکائے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں