حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 2009ء

سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا
خواتین سے روح پرور خطاب
برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ 2009ء
بتاریخ 4 ؍اکتوبر 2009ء بروز اتوار بمقام اسلام آباد (یوکے)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَائً۔ وَاتَّقُواْ اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ۔ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً۔ (سورۃ النساء۔ آیت2)

لجنہ اماءاللہ کے اجتماع پر عموماً یہ روایت ہے کہ آخری تقریر میری ہوتی ہے۔ اس کے بعد دعا کے ساتھ اجتماع ختم ہوجاتا ہے۔ اس سال کیونکہ انصاراللہ کا بھی اجتماع آپ کے ساتھ ہی ہورہا ہے اور اُس میں بھی میری شمولیت ہونی تھی، اس لئے یہی پروگرام بنایا گیا کہ آپ کومَیں پہلے وقت کچھ باتیں کہہ لوں اور انصاراللہ کو آخر میں دوپہر کے سیشن میں۔ بہرحال انصاراللہ اور لجنہ اماءاللہ کے ایک ہی وقت میں اجتماع کرنے کا اس دفعہ یہ پہلا تجربہ ہے ۔ کس حد تک یہ تجربہ کامیاب ہوا ہے؟ اس بارے میں تو جو لوگ یہاں آئے ہیں اُن کے تأثرات سے بعد میںپتہ لگے گا لیکن جو حاضری کی رپورٹ پیش کی ہے اُس سے لگتا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت اس سال حاضری کم ہے یا ٹرانسپورٹ کے مسائل ہیں یا اور کچھ وجوہات ہیں یا لوگوں کو لندن سے یہاں آنے میں دقّت ہے۔ جو دُور کی مجالس ہیں وہ تو یقینا آئی ہوں گی ۔ جس طرح لندن کے لئے آنا ہے اُسی طرح اسلام آباد آنا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ لندن کی حاضری یا اجتماع میں شمولیت اس دفعہ کم ہے۔ بہرحال جو بھی وجہ ہے۔ اور یہاں اجتماع کرنے کے باقی انتظامی لحاظ سے بھی کیا فائدے اور کیا نقصان ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی بعد میں آپ لوگوں کے تأثرات سے ہی علم ہو سکتا ہے۔
اب میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں اور آپ سے چند باتیں کہنی چاہتا ہوں جس کی آج کے احمدی معاشرے میں مردوں اور عورتوں دونوں کو بہت ضرورت ہے۔ لیکن کیونکہ میں آپ سے مخاطب ہوں اس لئے عورتوں کے حوالے سے بات کروں گا اور یہ تمام باتیں قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر بنیاد رکھتے ہوئے میں کر رہا ہوں اور ظاہر ہے خلیفہ وقت جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو انہی پر بنیاد رکھتے ہوئے بات کرتا ہے اس سے باہر نہیں جاسکتا۔ اس لئے ایک احمدی مسلمان کے ذہن میں کبھی یہ سوال نہیں اٹھنا چاہئے کہ یہ مشرق میں رہنے والی عورت کے لئے باتیں ہیں یا مغرب میں رہنے والی عورت کے لئے باتیں ہیں۔ مغرب میں رہنے والی عورتوں سے مراد وہ احمدی عورتیں ہیں جو خالصتاً مغربی نسل یعنی یورپین قوموں سے ہیں۔ مختلف اقوام کے جو لوگ ہیں جنہوںنے احمدیت کو قبول کیا۔ یا ایشین اور افریقن قوموں کی احمدی ہیں جو یہیں پیدا ہوئیں اور یہیں پلی بڑھیں یا بچپن یا جوانی کی عمر میں یہاں آکر آباد ہوگئیں۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ یقینا اسلام کے دعویٰ، قرآن کریم کے دعویٰ اور آنحضرت ﷺ کے دعویٰ کے عین مطابق ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور اس میں بیان کردہ احکامات اور تعلیمات ایسی ہیںجن کے متعلق یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اس پر عرب قوم کے لئے عمل کرنا تو آسان تھا لیکن عرب دنیا سے باہر اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ نہیں، بلکہ قرآنی تعلیمات جیسی عربوں کے لئے قابل عمل اور اُن کی فطرت کے مطابق تھیں ویسی ایشیا کے دوسرے ممالک کے لئے قابل عمل اور فطرت کے مطابق ہیں اور اُسی طرح یورپ کے لئے بھی ہیں اور افریقہ میں بسنے والوں کے لئے بھی ہیں اور جزائر میں رہنے والے لوگوں کے لئے بھی ہیں اور امریکہ کے رہنے والے لوگوں کے لئے بھی ہیں اور اسی طرح یہ تعلیم جیسی آج سے پندرہ سوسال پہلے قابل عمل تھی ویسی آج بھی قابل عمل ہے اور قیامت تک یہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے مطابق اپنی تعلیم پیش کرنے والا ہے۔ پس یہ خیال کرنا کہ اسلام کوئی دقیانوسی اور پرانے زمانہ کا مذہب ہے، اس کے احکامات بڑے سخت ہیں، اس میں سختی اور شدت پائی جاتی ہے، یہ سب لغو اعتراضات ہیں ،فضول اعتراضات ہیں جو آجکل بڑی شدت سے غیر مسلم معترضین کی طرف سے اسلام پر کئے جاتے ہیں۔
قرآن کریم وہ جامع اور مکمل ضابطہ اخلاق ہے جس نے گھریلو سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اور بچوں کے حقوق و فرائض سے لے کر حکومتوں کے حقوق و فرائض تک تمام باتیں بیان فرمادی ہیں۔ گھریلو امن و سلامتی کے قائم رکھنے کے اصول بھی بتا دئیے اور معاشرے کے امن اور سلامتی کے قائم رکھنے کے اصول بھی بتا دئیے۔ اور پھر بین الاقوامی سطح پرقیام امن کے لئے سنہری اصولوں کی نشاندہی بھی فرما دی۔ آج بھی دنیاوی طور پر اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ سمجھنے والے جو لوگ ہیں اور جو اپنے آپ کو روشن دماغ سمجھتے ہیں، اُن کے سامنے جب اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کی جائے تو بے اختیار اُن کاپہلا ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ اسلامی تعلیم ہے تو اس سے تو سوائے امن،پیار، محبت اور بھائی چارے کے کچھ نہیں پھیل سکتا۔ یہ پیار ، امن، محبت اور بھائی چارہ پھیلانے والی تعلیم ہے ۔ پس کسی سچے احمدی مسلمان عورت یا مرد۔ نوجوان یا بچے کو اس بات پر شرمسار نہیں ہونا چاہئے، شرمندہ نہیں ہونا چاہئے۔ کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہیںہونا چاہئے کہ ہم مسلمان ہونے کی وجہ سے بعض تعلیمات پر عمل کر کے لوگوں کے تمسخر کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ لوگ ہمارے پردے کا مذاق اڑاتے ہیں یاہمارے برقعہ کا مذاق اڑاتے ہیں، یا ہمارے لباس کا مذاق اڑاتے ہیںیا ہماری نماز کے طریق کا مذاق اڑاتے ہیں۔ نوجوان بچیوں کو اور اُن لوگوں کو جو کسی بھی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی باتوں کو سن کر کسی قسم کے Complex کا شکار ہوجاتے ہیں اس کی بالکل کبھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اگر یہاں لوگوں کو، نوجوانوں کو جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، جن کے چرچ بھی اب فروخت کے لئے بازار میں رکھ دئیے گئے ہیں، اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہی صحیح ہیں اور آزادی کے نام پر جو چاہو کر لو اور وقت ثابت کررہا ہے کہ اُن کی اس سوچ کے نتائج اُنہیں اخلاقی گراوٹوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ بچے ہیں تو وہ ماں باپ کی بے ادبی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں، جیسا کہ مَیں اپنے خطبے میں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ اب اس غیر ضروری اور بچوں کے بے جا حقوق کے تحفظ کے خلاف ٹی وی پروگراموں پر آوازیں بھی اٹھنے لگ گئی ہیں کہ معاشرے کا امن، گھروں کا سکون اور بچوں کے اخلاق اس قدر نیچے گررہے ہیں اور تباہی کی طرف جا رہے ہیں کہ اس کا سدّباب کرتے ہوئے ہمیں کچھ حدود لاگو کرنی پڑیں گی۔
پھر میاں بیوی کے تعلقات اور رشتوں کو قائم رکھنا ہے تو وہ گرتے چلے جارہے ہیں اور انحطاط پذیر ہیں۔ برداشت نہ ہونے کی وجہ سے رشتے ٹوٹ رہے ہیں۔ طلاقوں کی شرح بے انتہا ہے۔ Arranged Marriage کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کو رشتے ٹوٹنے کی وجہ بیان کیا جاتا ہے۔ جو یہاں کے رہنے والے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں جو احمدی نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے تو Arranged Marriage نہیں ہوتے پھر کیوں اتنے زیادہ ان کے رشتے ٹوٹتے ہیں۔ اکثریت کے رشتے ٹوٹ رہے ہیں، ان کی ایک بہت بڑی شرح جو ہے جو percentage ہے، اُن کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں باوجود اس کے کہ یہ اپنی پسند کی شادیاں کررہے ہوتے ہیں۔ رشتے ٹوٹنے کی کچھ اور وجہ بھی ہے جو بے صبری ہے اور تقدس کی پامالی ہے۔ عورت نہ خود اپنا تقدس قائم رکھتی ہے اور نہ ہی مرد اس کا تقدس قائم رکھتا ہے اور پھر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پھر رشتے ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے بچے جن کے single parents ہیں بہت سی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ نہ ہی ان پر معاشرہ کی کوئی پابندی ہے نہ مذہب کی طرف سے کوئی پابندی ہے کہ کن پابندیوں میں ان کو رکھنا ہے تاکہ وہ مفید وجود بن سکیں۔ نہ قانون کی کوئی پابندی ہے بلکہ اگر ان کو کچھ کہا جائے تو قانون ان کی حمایت کر تا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ان single parents کے بچے بچپن میں بھی اور پھر جب teenagers میں شمار ہوتے ہیں تو ان کے جرائم کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ بچے اس لئے جرم نہیں کرتے کہ کسی کا کوئی مقصد ہے۔ چاہے کوئی غلط مقصد ہی ہو لیکن کوئی مقصد تو ہونا چاہئے جس کے لئے یہ کام کر رہے ہوں۔ بلکہ اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ یہ دل بہلاوا ہے۔ چند لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہو کر gang بنا لیتے ہیں اور پھر fun کے طور پر دوسروں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اور جوں جوں معاشی مسائل بڑھ رہے ہیںآجکل inflationکی وجہ سے credit crunch کی وجہ سے، میاں بیوی کے تعلقات کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اور بچوں کی اخلاق سوزیوں کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہاں تو لڑکے لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں میری مراد اُن لوگوں سے ہے جو احمدی نہیں ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی بظاہر بڑی محبت کی شادیاں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ عرصے کے بعد ایک بہت بڑی شرح ان رشتوں کو توڑ دیتی ہے اور پھر مرد اور عورت اپنی اپنی نئی دنیا بسانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور پھر بعض اوقات ایسے معاملات بھی آتے ہیں کہ مرد نے عورت کی پہلی اولاد کو ظالمانہ طور پر مار دیا ۔ ٹی وی پر بھی خبریں آتی ہیں کسی کو مکے مار مار کر مار دیا تو کسی کا گلا دباکے مار دیا تو کسی کو کسی اور ذریعے سے قتل کر دیا اور ان بچوں کی جو مائیں ہیں جن کے پہلے خاوندوں سے وہ بچے ہوتے ہیں، جب اُن سے پوچھو کہ تمہارے بچے کو تمہارا دوست یا نیا خاوند مار رہا تھا تم نے کچھ نہیں کیا۔ تو وہ بھی یہی جواب دیتی ہیں کہ میرے محبوب اورمیرے دوست نے جو اُس کی مرضی تھی کیا اور مجھے بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اُس نے میرے بچے کو مار دیا۔ گویا ماں جو ممتا اور پیار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال سمجھی جاتی تھی، ظلم و بربریت کی مثال بنتی جارہی ہے۔ کیا یہ تعلیم کی وہ روشنی اور ترقی ہے جس کی تقلید ایک احمدی عورت اورایک بچی کرے جبکہ اُس کے پاس خدا تعالیٰ کی ناقابل مثال تعلیم کا خزانہ موجود ہے۔ پس احمدی نوجوان کو چاہے وہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے، اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس ہمارے زندہ خدا کی طرف سے، ہمارے زندہ رسول کی طرف سے ایک تعلیم اتاری گئی ہے۔ اور وہ زندہ قرآنی تعلیم کا ایک ایسا خزانہ ہے جو ہماری دنیا و آخرت سنوارنے والاہے اور ہماری نسلوں کی دنیا و آخرت سنوارنے والا بھی ہے۔ ہمارے گھروں کے درو دیوار کو پیارو محبت کے حسن سے آراستہ کرنے والا بھی ہے۔ ہمارے گھروں کو اُس روشنی سے منور کرنے والا ہے جو ہمارے ظاہر کو بھی روشن کرتی ہے اور ہماری روح کو بھی روشن کرتی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں بھی جنت کے نظارے دکھاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نظارے ہم اُس پر عمل کرکے دیکھتے ہیں۔ اور وہ ہماری اخروی زندگی میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی ہے خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں ہمیں داخل کرے گی۔ انشاء اللہ۔
پس اس تعلیم کی قدر کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور اس دنیا کی زندگی کی فکر نہ کریں بلکہ اُس زندگی کی فکر کریں جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ : ’’اے لوگواپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اُن دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ اور رحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھو۔ یقینا اللہ تم پر نگران ہے‘‘۔ ان آیات میں ایک ایسا مضمون بیان ہوا ہے اگر دونوں فریق اس پر عمل کریں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ گھریلو جھگڑے ہوں، رنجشیں پیدا ہوں اور رشتے ٹوٹیں یا سسرال سے مسائل پیدا ہوں۔ اس آیت میں فرمایا کہ ’’تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے‘‘۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہیں ایک مشترکہ مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ اس لئے مرد اور عورت، خاوند اور بیوی اِس مشترک مقصد کی تلاش میں رہو ۔ اُسے ڈھونڈو اور اس میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ یہ نیا رشتہ قائم ہوجانے کے بعد معاشرے کے امن کے لئے دونوں کوشش کرو اور اس کی سب سے پہلی بات یا ابتداء وہ ہے جو اس رشتہ کی وجہ سے دو خاندانوں کے بندھن کے ذریعہ آپس میں تعلق پیدا ہوا ہے ۔ پس اس تعلق کو اس نہج پر چلاؤ کہ رشتوں میں مضبوطی آئے، دراڑیں نہ آئیں۔ رشتے نہ پھٹیں۔ لڑکی کو خاوند یا سسرال کی بات بری لگے تو صبر اور دعا کے ذریعے سے اس کا بہتر نتیجہ نکالنے کی کوشش کرے۔ اگر شروع میں ہی جب ابھی ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھا ہی نہیں گیا ہوتا۔ اس وقت اگر خاوند یا سسرال کی باتیں اپنی سہیلیوں یا گھر والوں سے کروگی تو رشتوں میں دراڑیں آجائیں گی، رشتے ٹوٹنے لگ جائیں گے۔
یہاں جو یہ فرمایا کہ رحموں کے تقاضوں کا خیال رکھو تو اس کے گہرے علمی معنوں کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رحمی رشتے صرف اپنے رحمی رشتے نہیں ہیں، اپنے خون کے رشتے نہیں ہیں بلکہ خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے یا خون کے رشتے تھے، وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں۔ یعنی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بیوی کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اسی طرح بیوی کے ماں باپ، بہن، بھائی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں ۔جب یہ سوچ ہوگی تو کبھی رشتوں میں دوریاں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ کبھی تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔ پس فرمایا کہ ان کے حق دونوں کو اس طرح ادا کرنے چاہئیں جس طرح اپنے رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی کے حق ادا کرتے ہو۔ یہ حکم صرف لڑکی کے لئے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا آپس کے تعلقات نبھانے کے لئے اِسی طرح لڑکے کو بھی صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہے۔ اور اسی طرح دونوں طرف کے سسرالوںکا بھی فرض ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نامناسب باتیں کر کے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرہ کا امن اور سکون برباد نہ کریں اور اسی طرح اس پہلی آیت میں یہ سبق بھی دے دیا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں جو تمہاری اولاد پیدا ہوگی اس کی نیک تربیت تم دونوں پر فرض ہے تاکہ آئندہ پھر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانے والی نسل چلے اور فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنا۔ اپنی تمام ذاتی خواہشات کو پیچھے چھوڑ دینا اور صرف اور صرف یہ مقصد سامنے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھومجھے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ میں تمہارے ہر فعل اور عمل پر ہر وقت نگرانی کر رہا ہوں۔ پس اگر احمدی جوڑے اس حکم کو سامنے رکھیں تو وہ اُن احکام کی تلاش بھی کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ تقویٰ کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ پس ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اس حد تک خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو مد نظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بن سکتا ہے، یا کبھی اس میں فساد پیدا ہوسکتا ہے۔ کبھی لڑائی جھگڑے اس میں پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اور اسی طرح جو رحمی رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ جو ایک دوسرے کے رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا ۔ان کا خیال رکھنے والا ہوگا اس کی دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری بھی اس میں دے دی گئی ہے۔
پس اس سے پھر روحانی ترقی کے راستے کھلتے ہیں گویا آپس کی شادی بیاہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تعلق صرف دنیا کی خاطر نہیں ہیں، صرف ظاہری نسل چلانے کے لئے نہیں ہیں۔ یہ اس لئے قائم رکھنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے۔ تو پھر یہ اولادوں کی اچھی تربیت کرنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرہ کے امن میں بھی کردار ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
پس جہاں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی شادی اور عائلی تعلقات کو خدا کی رضا کا ذریعہ بنائے اُسی طرح یہ عورت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ذاتی خواہشات اور جذبات کو ایک بڑے مقصد کی خاطر قربان کرے۔ اور وہ بڑا مقصد جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور نیک نسل کا پھیلانا ہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان آیات کا انتخاب کیا کہ شادی جو سب سے زیادہ جذبات کی تسکین اور لذت کا ذریعہ ہے، اس میں صرف ذاتی لذّات اور جذبات کی تسکین کو ہی سب کچھ نہیں سمجھنا بلکہ اس میں بھی تقویٰ کو نہیں بھولنا، اللہ تعالیٰ کے خوف کو نہیں بھولنا ،اگلی نسلوں کی تربیت کو نہیں بھولنا، معاشرہ کے امن کو نہیں بھولنا۔ دنیا داروں کی طرح اپنی ذاتی لذّات کی خاطر بچوں کے گلوں پر چھریاں نہیں پھیر دینا بلکہ اس امانت کی حفاظت کرنا۔ اور حفاظت اس صورت میں ممکن ہے جب اس کی بہترین تربیت کی جائے، جب گھر کے ماحول کو پرسکون رکھا جائے، جب آپس میں میاں بیوی میں اعتماد کی فضا ہو اور اسی کے لئے پھر یہ راستہ بتایا کہ صاف اور سچائی سے پُر باتیں کرو ۔ اور ان میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اپنے ہر کام انجام دو۔ کیونکہ اس سے پھر اعتماد پیدا ہوتا ہے اور رشتوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور یہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ جب مومنوں کو نصیحت فرماتا ہے تو آئندہ کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کی طرف بھی توجہ فرماتا ہے اور آئندہ زندگی کے حوالے سے ہی نہیں، اس دنیا میںنیک اعمال بجالانے کے لئے بھی فرماتا ہے کہ یہ اعمال بجا لاؤ تو اس دنیا میں بھی تمہیں جنت ملے گی۔ پس یہ گُر اگر ہم پلّے باندھ لیں ، مرد بھی اور عورتیں بھی، نئے شادی شدہ جوڑے بھی اور پرانے شادی شدہ جوڑے بھی۔ کیونکہ بعض رشتوں میں دراڑیں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب چار چار پانچ پانچ بچے بھی پیدا ہوچکے ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے سے نفرتیں پیدا ہورہی ہوتی ہیں۔ اگر اپنا اصول یہ بنا لیں کہ صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے تو تمام عائلی مسائل جو ہیں وہ محبتوں میں بدل جائیں گے اور یہ تبدیلی ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئے ہر احمدی میں پیدا ہونی چاہئے ورنہ وہ اس عہد کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔
بہت سے مسائل گھروں میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ اگر مرد غلطی کرتا ہے تو عورت بھی ویسا ہی ردّعمل دکھاتی ہے۔ جس سے جھگڑے کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بے شک یہ مرد کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ عورتوں کا خیال رکھے، اُن کے حق ادا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمادیا ہے کہ اگر مرد کو پتہ ہو کہ بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی صورت میں اُس پر کتنا بڑا گناہ ہے اور وہ کس طرح خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا تو اس سزا کے خوف سے شاید مرد شادی ہی نہ کریں اور بیوی کے حق کے بارے میں جو ظاہری حق ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ بیوی کا حق یہ ہے کہ خاوند جو کھائے بیوی کو کھلائے، خاوند جو پہنے بیوی کو پہنائے، اُسے گھر سے نہ نکالے۔ آجکل تو کئی ایسے معاملات آتے ہیں کہ خاوند نے یا سسرال نے لڑکی کو گھر سے نکال دیا اور بیچاری کو سڑک پر کھڑا کر دیا۔
پھر آنحضرت ﷺ نے مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مومنوں میں ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں خُلق کے لحاظ سے (اخلاق کے لحاظ سے) بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے بہترین سلوک کرتا ہے۔ تو اس حد تک مرد کو توجہ دلائی گئی ہے کہ خیال رکھو لیکن جو پھر بھی خیال نہیں رکھتے ان کی بدقسمتی ہے ۔ لیکن عورت کو ، خاص طور پر اُن عورتوں کو جن کی اولاد بھی ہوگئی ہے اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ گھر کے ٹوٹنے کو جس حد تک بچایا جا سکے بچایا جائے۔ ذرا ذرا سی بات پر عورتیں بھی بعض دفعہ پولیس بلوا کر مردوں کو گھروں سے نکال دیتی ہیں۔ یہ عمل اُس وقت کرنا چاہئے جب ظلم کی انتہا ہوجائے۔ جب مرد باز ہی نہ آرہا ہواور ظلم کرتا چلا جائے تو عورت کو حق ہے ضرور کرے اور ساتھ ہی پھر جماعتی نظام کو بھی اطلاع کرے۔ کیونکہ ذرا سی بات پر ذرا سی رنجشوں پر وقتی غصے میں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن پھر جو نوجوان لڑکیاں ہیں اُن کے پھر آئندہ رشتوں کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر والدین زندہ ہیں تو ان کے لئے فکروں میں نیا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں کے معاشرے میں ہمیں جو مثالیں نظر آتی ہیں کہ Single Parents والے بچے، ماں یا باپ جوبھی انہیں پال رہا ہے، اس کے کنٹرول میں نہیں رہتے اور سکولوں میں اکثرایسے بچوں کی شکایات آتی رہتی ہیں۔ جتنے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہ اکثر ایسے بچوں کی طرف سے ہورہے ہوتے ہیں۔
عورتوں کے مقام کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے کیا خوبصورت تعریف فرمائی ہے فرمایا کہ دنیا سامانِ زیست ہے یعنی دنیا جو ہے اس زندگی کا سامان ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں ہے۔ کوئی نیک عورت ہو تو اس سے بڑھ کر دنیا کاکوئی سامان بہترین نہیں ہے۔ پس اس میں جہاں مردوں کو توجہ دلائی کہ نیک عورت سے شادی کرو ، وہاں عورت کے لئے بھی غور کا مقام ہے کہ اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کریں جس طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بہترین بیوی کی کیا تعریف فرمائی ہے ، فرمایا جو خاوند کے کام کو خوشی سے بجا لائے اور جس سے روکے ،اس سے رُک جائے۔ اگر خاوند میں تقویٰ نہ ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے لیکن پھر بھی گھروں کو بچانے کے لئے رشتوں کو بچانے کے لئے جس حد تک ہوسکے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ حتّی الوسع جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے۔ تقویٰ پر چلنے والے جس گھر کی آنحضرت ﷺ نے تعریف فرمائی ہے اور اُس کے لئے پھر رحم کی دعا مانگی ہے وہ وہ گھر ہے جس میں رات کوخاوندنوافل کی ادائیگی کے لئے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے، اگر گہری نیند میں ہے تو پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے ۔ اسی طرح اگر عورت پہلے جاگے تو یہی طریق خاوند کوجگانے کے لئے اختیار کرے اور جب ایسے گھروں میں خاوند بیوی کے نوافل کے ذریعے راتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاگیں گی تو وہ گھر حقیقتاً جنت نظیر ہوںگے۔
ایک جھگڑا میرے پاس آیا۔ مرد کے ظلم کی وجہ سے رشتہ ٹوٹنے لگا تھا۔ اُس عورت کے چار پانچ بچے بھی تھے۔ میں نے سمجھایا کچھ اصلاح ہوئی لیکن پھر مرد نے ظلم شروع کر دیا۔ پھر عورت نے خلع کی درخواست دے دی۔ آخر پھر دعا اور سمجھانے سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان دونوں کی صلح ہوگئی اوراب فجر کی نماز جب مسجد میں پڑھنے آتے ہیں اور جب میں اُن کو جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو عقل دی اور انہوں نے اپنے بچوں کی خاطر دوبارہ اپنے رشتے جوڑ لئے۔ تو عورت کو اور مرد کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ صرف اپنے جذبات کو نہ دیکھیں بلکہ بچوں کے جذبات کو بھی دیکھیں۔ اُن کا بھی خیال رکھیں۔ اسی طرح عورت کو آنحضرتﷺ نے عبادت کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن اس توجہ دلانے کے باوجود آپؐ نے عبادت کی کچھ حدود مقرر فرما دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خاوند کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزے نہ رکھے۔ فرض روزے تو فرض ہیں لیکن نفلی روزے اُس کی اجازت کے بغیر نہ رکھے اور آپس کی اعتماد کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے اس بات کی بھی تلقین فرمائی کہ خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر کے اندر نہ آنے دے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مرد ضرورت سے زیادہ من مانیاں بھی کرنے لگ جائیں۔ بہرحال بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں بلاوجہ ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جس سے بداعتمادیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے عورت کو ہمیشہ احتیاط کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اپنی مومنہ بیوی سے کبھی نفرت اور بغض نہ رکھو اور اس کی اُن باتوں پر نظر رکھو جو اچھی اور پسندیدہ ہیں۔ بلاوجہ کے نقص نہ نکالتے رہو۔ یہ دیکھیں مردوں کو نصیحت فرمائی کہ عورتوں کا کس طرح خیال رکھنا ہے۔
پھر آپ ﷺ نے رشتہ کرتے وقت بھیبچیوں کے حق قائم فرمائے ۔ ایک دفعہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کا ایک رشتہ تجویز کیا۔ لڑکی کو رشتہ پسند نہیں تھا اُس نے وہ رشتہ ردّ کر دیا۔ تو آنحضرت ﷺ تک یہ معاملہ آیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو لڑکی کی پسند ہے اس کے مطابق رشتہ ہوگا۔ تو لڑکیاں بھی اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے رشتوں کی بات کریں یا پسند کا اظہار ماں باپ سے کردیں تو ان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے صرف ضد یا خاندانی ایسے مسائل کو سامنے نہیں رکھنا چاہئے۔ اپنے رشتوں کے بارے میں لڑکیوں کو بھی اور اُن کے ماں باپ کو بھی دعا کرکے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس کو بنیاد بنا کر قطعاً یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب میں نے کہہ دیا کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے رشتے کرسکتی ہیں تو جماعت سے باہر کسی ایسے لڑکے سے رشتہ کرنے کی کوشش کریںجوواضح طور پر ایک تو احمدی نہیں ہے اور اگر احمدی ہے تو دینی معیار اور جماعت سے تعلق میں بہت زیادہ گرا ہوا ہے۔ اس کا بھی لڑکیوں کو خیال رکھنا چاہئے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بات ہے تو خلیفۂ وقت کے پاس معاملہ آتا ہے تو پھر وہ نظام کے ذریعے سے جائزہ لے کر مشورہ دے سکتا ہے کہ شادی کی اجازت دینی ہے یا نہیں دینی۔ جس طرح کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں معاملہ پیش ہوا تھا۔
لیکن ایک شریف اور مومنہ بچی کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہئے کہ ایک مرتبہ جب آنحضرت ﷺ نے باپ کو کہا کہ بچی کی خواہش کے مطابق رشتہ کرو تو بچی جو حقیقی مومنہ تھی اس نے عرض کیا کہ میں نے تو لڑکیوں کے حقوق قائم کروانے کے لئے یہ معاملہ آپؐ کے سامنے پیش کیا تھا کہ بعض اوقات ظالمانہ طور پر بچیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ تم ضرور یہاں رشتہ کرو ورنہ ماں باپ ساری زندگی تمہارے سے ناراض رہیں گے، کوئی توجہ نہیں دیں گے۔ اُس لڑکی نے عرض کیا کہ یہ حق کیونکہ آپﷺ نے اب قائم فرما دیا ہے اس لئے اب مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، میرا باپ بے شک اپنی خواہش کے مطابق میرا رشتہ کردے۔ یہ اُس لڑکی کی بھی نیکی اور تابعداری تھی ۔ یہ اعلیٰ فرمانبرداری اور ماں باپ کے احترام کا خُلق ہے جو بچیوں کوبھی دکھانا چاہئے۔ بچیاں بھی ضد نہ کریںبلکہ دعا کریں اور دعا کے بعد اگر اُن کو شرح صدر ہوتی ہے، بعض لوگوں کو واضح طور پر کوئی خوابیں بھی آجاتی ہیں، خواہش کے مطابق خوابیں نہیں بلکہ خالی الذہن ہوکراگر دعا کریں اور پھر اگر خواب آئے تو ماں باپ کو بتانی چاہئے۔ ماں باپ کو بھی صرف خود دعائیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ کسی اَور سے بھی دعا کروانی چاہئے کہ آیا یہ رشتہ بہتر بھی یا نہیں ہے۔
اس وقت میں امّ المؤمنین حضرت اماں جان ؓکی بعض نصائح بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آپؓ نے اپنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی رخصتی کے وقت اُنہیں کی تھیں۔ اُن میں سے بعض باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اپنے خاوند سے چھپ کر یا وہ کام جسے خاوند سے چھپانے کی ضرورت سمجھو، ہر گز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخرکار ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کھو دیتی ہے۔ اس کی عزت اور احترام نہیں رہتا۔ فرمایا اگر کوئی کام خاوند کی مرضی کے خلاف سرزد ہوجائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا۔ صاف کہہ دینا کیونکہ اسی میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہوتا ہے۔ عورت کا وقار گر جاتا ہے۔ پھر فرمایا کہ کبھی خاوند کے غصے کے وقت نہ بولنا۔ اگر بچہ یا کسی نوکر پر خفا ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ خاوند حق پر نہیںہے، خاوند غصے کی حالت میں ہے، کسی بچے کو ڈانٹ رہا ہے یا کسی اَور کو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہیں صاف نظر آرہا ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تب بھی اُس کے سامنے اُس وقت نہ بولو۔ فرمایا کہ غصے میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت نہیں رہتی۔ اکثر جھگڑے اسی لئے بے صبری کی وجہ سے ہورہے ہوتے ہیں کہ مرد غصے میں آیا، بچوں کو کچھ کہا یا کسی اَور کو کچھ کہا، عورتیں بھی اُسی طرح کا فوراً ردّ عمل دکھاتی ہیں اور جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر غصے میں اس ٹوکنے کی وجہ سے تمہیں بھی کچھ کہہ دے تو تمہاری بڑی بے عزتی ہوجائے گی۔ بعد میں جب خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو بے شک آرام سے اُس کی غلطی کی نشاندہی کر دینی چاہئے۔ اصلاح بھی فرض ہے۔
مرد اور عورتوں کو یہ نسخہ بھی یاد رکھنا چاہئے جس کا حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ غصے کی حالت میں کھڑے ہوتو بیٹھ جاؤ یا وضو کرو تو غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ میرے پاس جو بعض شکایات آتی ہیں تو میں مردوں کو یہی کہا کرتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں تو پانی کی کوئی کمی نہیں۔تم اپنے شاور یا پانی کی ٹوٹی کھولا کرو اور اُس میں سر نیچے رکھ دیا کرو تو غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔
بہر حال حضرت اماں جانؓ پھر اپنی بیٹی کو یہ نصیحت فرماتی ہیں کہ خاوند کے عزیزوں کو اور عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا۔ جیسا کہ حدیث میں بھی ذکر آگیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے حوالے سے بھی میں نے بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو اپنا سمجھو۔ فرمایا کہ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے تم سب کا بھلا دل میں بھی چاہنا۔ تمہارے سے کوئی برائی کرتا ہے کرے لیکن تم اپنے دل میں کبھی کسی کی برائی کا خیال نہ لانااور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ لینا۔ دیکھنا پھر خدا ہمیشہ تمہارا بھلا کرے گا۔
پھر آپؓ اکثر بچوں اور بچیوں کو یہ نصیحت بھی فرمایا کرتی تھیں کہ اپنے نئے گھر میں جارہی ہو وہاں کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے تمہارے سسرال والوں کے دلوں میں نفرت اور میل پیدا ہو اور تمہاری اور تمہارے والدین کے لئے بدنامی کا باعث ہو۔ پس سسرال کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دینا چاہئے۔ جو اُن کے معاملے ہورہے ہیں، ہونے دو۔ نہ ہی ساس کی اور نندوں کی باتیں خاوند سے شکوے کے رنگ میں کرنی چاہئیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کی بڑی بیٹی تھیں جیسا کہ میں نے کہا انہوںنے حضرت خلیفہ اولؓ کی بھی ایک نصیحت بیان فرمائی ہے۔ جو حضرت خلیفہ اولؓ اُن کو بھی کرتے تھے اور دوسری بچیوں کوبھی کیا کرتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ نصیحت اور اس پر جو عمل ہے پہلے سے زیادہ اہم ہے۔ اور بارہ تیرہ سال کی جو بچیاں ہیں، جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہی ہوتی ہیں، اُن کو ضرور یہ دعا کرنی چاہئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے آپؓ کو کئی مرتبہ فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی شرم نہیں، تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ مبارک اور نیک جوڑا دے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی یہ نصیحت بھی بڑی اہم ہے اور آج کل کے ماحول کے لحاظ سے ہے۔ یہ نصیحت بیان کر کے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے فرمایا کہ دعائیں اس لئے ہیں کہ بچے اپنی آئندہ زندگی کے لئے خزانہ جمع کریں۔ اس سوچ کی عمر میں دعائیں اس لئے کرو تاکہ دعاؤں کا خزانہ جمع ہوتا رہے اور اللہ تعالیٰ وقت آنے پر تمہیں اس خزانے میں سے حصہ دے دے لیکن نیک جوڑے مانگتے ہوئے کہیں ابھی سے خیالی پلاؤ نہ پکانے شروع کردینا۔ ابھی چھوٹی عمر میں ہرگز تم لوگ شادی وادی کے قابل نہیں ہو اور نہ شادی ہوسکتی ہے۔ ابھی تم نے قابل بننا ہے، پڑھنا ہے، جماعت کے لئے مفید وجود بننا ہے۔پھر انشاء اللہ تعالیٰ رشتے بھی بابرکت ہوجائیں گے۔ پس یہ بات بچوں کو ہمیشہ پلّے باندھنی چاہئے کہ دعا تو ضرور کریں لیکن کسی آئیڈیل کے تصور کو کبھی قائم نہ کریں۔ کیونکہ پھر آئیڈیل کی تلاش میں کئی غلط کام ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سکولوں میں دوستیاں ہیں اُن میں احتیاط کریں۔ اس کی یعنی دوستیوں میں بڑی محتاط سلیکشن ہونی چاہئے۔ ایسے دوست ہوں یا ایسی سہیلیاں ہوں بلکہ لڑکیوں کی تو سہیلیاں ہی ہونی چاہئیں یا دوست سے میری مراد یہ ہے کہ سہیلیاں دوست، لڑکیاں دوست کہ جو قابل اعتماد ہوں اور برائیوں سے بچنے والی ہوں۔ سکولوں اور کالجوں میں لڑکے لڑکیوں کے ذریعے دوستی دوستی کے نام پر ہی پھر شیطان اپنا کام کرجاتا ہے۔ اور کئی مرتبہ میں کہہ بھی چکا ہوں کہ عورتوں کو بہت زیادہ اپنے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے۔ بچیوں کو بہت زیادہ اپنی پاکیزگی اور اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو کام آپ اپنے والدین اور بزرگوں اور جماعت کے عہدیداروں کے سامنے نہ کر سکیں وہ غلط ہے، وہ زہر ہے اور گناہوں کی طرف لے جانے والا ہے۔ اس لئے ہمیشہ ایسے صاف ستھرے عمل رکھیں جو ہر ایک کے سامنے کئے جاسکیں۔ ناصرات کی آخری عمر بارہ سے پندرہ سال کی بچیوں اور لجنہ کی ابتدائی عمر کی بچیوں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہی عمر ہے جس میں شیطان بہت زیادہ انسان کو قابو میں کرتا ہے۔ اور جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں غیرمذہب والوں اور خدا سے دور ہٹے ہوئے لوگوں سے کبھی متأثر نہ ہوں۔ دجال مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنساتا ہے۔ کبھی پیار سے اور کبھی رعب سے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس تم نے دعائیں کرتے ہوئے اُس کے حملوں سے بچنا ہے۔
ایک اہم خواب کا بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓنے دیکھی۔ ایک دفعہ بچیوں کو نصیحت کر رہی تھیں۔ کہتی ہیں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گھر کے اس صحن میں (قادیان کے صحن کی مثال بیان کر رہی ہیں کہ وہاں) کرسی پر تشریف رکھتے ہیں، کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو میں کرسی کے ساتھ آپؑ کے پاس کھڑی ہوں ۔ اُس وقت میری لڑکی منصورہ بیگم سوا ڈیڑھ سال کی تھیں۔ یہ حضرت منصورہ بیگم تھیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی پہلی بیگم تھیں۔ کہتی ہیں کہ وہ میری گود میں تھی تو مَیں نے دیکھا وہ بھی ایک طرف پھر رہی ہے کہ ایک سفید پوش شخص آیا۔ ایک شخص آیا جس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ایک جانب کھڑا ہوکر کہا کہ حضور علیہ السلام! لڑکیوں کی بابت کیا حکم ہے۔ تو حضرت مسیح موعودؑ نے نظر اٹھائی اور بہت پُرجوش آواز میں فرمایا کہ جب تک تم اپنی لڑکیاں بنیادوں میں نہیں دو گے احمدیت کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ تو کہتی ہیں کہ خواب کے بعد اس وقت یہ تعبیر میرے ذہن میں آئی اور یہ بڑی صحیح تعبیر ہے کہ ایک تو لڑکیوں کو تعلیم دینی اور نیک تربیت کرنا ضروری ہے ۔ اُن کی تعلیم کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی اُن کی نیک تربیت کا بھی خیال رکھنا چاہئے تاکہ وہ آگے اولادوں کی دینی تعلیم و تربیت پر پوری طرح توجہ کرسکیں جب اُن پر وقت آئے اور مبارک نسل کا سلسلہ چلتا رہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکوں کی بیویاں بھی احمدی لائیں۔ یہ بڑی عورتوں کے لئے بھی نصیحت ہے بعض دفعہ یہاں آجاتی ہیں کہ فلاں سے رشتہ کردیں، فلاں سے رشتہ کردیں، ہمارا لڑکا مانتا نہیں۔ تو اُس کو منوائیں کہ لڑکوں کی بیویاں بھی احمدی لائیں۔ آخر احمدی لڑکیوں نے بھی کہیں بیاہ کر جانا ہے۔ جب احمدی لڑکیوں کو ہم اجازت نہیں دیتے کہ باہر کسی غیر احمدی سے بیاہیں تو پھر لڑکوں کو اپنے جذبات کی قربانیاں دینی چاہئیں اور احمدی لڑکیوں سے بیاہ کرنے چاہئیں۔ کہتی ہیں کہ بیویاں بھی احمدی لائیں تاکہ نسل خراب نہ ہو۔ یہ بھی بڑی ضروری چیز ہے۔ ماں کا اثر بہت ہوتا ہے۔ ماں کی گود سے بچہ پہلا اثر لیتا ہے۔ میں نے بہت احمدی خواتین کو یہ خواب سنائی ہے اور اب بھی لکھتی ہوں کہ زمانے اور باہر کی عام صحبت بہت تباہ کُن ہے۔ آپ سب کا فرض اوّلین ہے کہ احمدیت کی عمارت کی بنیادوں کو اس قابل بنائیں کہ یہ عمارت تاقیامت مضبوط رہے۔ پس لڑکیوں کی معمولی اہمیت نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے جوش سے خواب میں جو یہ فرمایا کہ ان کو بنیادوں میں دو تو اس لئے کہ اگلی نسل کی عمارت جو ہے وہ لڑکیوں نے ہی قائم کرنی ہے۔ جس طرح جس حد تک ہم لڑکیوں کی بہترین تربیت اور ان کی دنیاوی تعلیم بھی، اُن کی دینی تعلیم بھی کرسکتے ہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہرگھر میں اور ہر بچی کے دل میں نیکی اور تقویٰ کا بیج ڈالے اور اُس کے بہترین پھل حاصل ہوں۔ اور یہی اصل چیز ہے جس کو اگر ہم نے قائم کرلیا تو ہماری آئندہ نسلوں کی نیک تربیت کی بھی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہوش میںآنے والی بچیوں کا بھی کام ہے کہ اس طرف توجہ دیں۔ ماں باپ کا بھی کام ہے کہ اس طرف خاص توجہ کریں اور لجنہ کی تنظیم کی ہر عہدیدار کا بھی فرض ہے۔ اگر عہدیداران کی اپنی تربیت ہوگی تو وہ آگے تربیت کر سکتی ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے عہدیداران خود اپنی تربیت کی طرف توجہ کریں اور اُس تعلیم کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، سمجھنے کی کوشش کریں، عمل کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی ہے اور یہی تربیت ہے جو گھریلو مسائل بھی حل کرے گی، معاشرہ کے مسائل بھی حل کرے گی اور جماعتی وقار کو بھی بلند کرے گی اور پھر ہم آئندہ نسلوں کو سنبھالنے اور خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بھی بنتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب بڑوں اور چھوٹوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں