سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍ نومبر 2000ء میں شامل اشاعت مضمون (مرتبہ: مکرم انتصار احمد نذر صاحب) میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی قبولیت دعا کے بعض معجزات بیان کئے گئے ہیں۔
مکرم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہے۔ چنانچہ مَیں نے جب بھی حضورؒ سے کسی امر میں دعا کیلئے عرض کیا، وہ کام خدا تعالیٰ کے فضل سے بخیروخوبی ہوگیا۔ میرے بھائی سراج الحق صاحب کے اولاد نرینہ نہیں تھی۔ انہوں نے حضورؒ سے ملاقات کرکے دعا کیلئے عرض کیا تو حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ لڑکا عطا کرے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا فرمایا۔ اسی طرح کئی دوست حضورؒ کی خدمت میں عرض کرتے کہ بچہ پیدا ہونے والا ہے، بچے اور بچی دونوں کا نام تجویز فرمادیں۔ حضورؒ اگر صرف لڑکے کا نام تجویز فرماتے تو لکھنے والے کے لڑکا ہی تولد ہوتا۔
مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی ایک عزیزہ کے متعلق راولپنڈی کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُسکے جنین میں کوئی حرکت نہیں ہے اسلئے صبح آپریشن ہوگا، اگر دیر کی گئی تو زہر پھیل جانے کے نتیجہ میں خود اس کی موت کا خطرہ ہے۔ حضورؒ اُن دنوں اسلام آباد تشریف لائے ہوئے تھے۔ بچی کے والد نے بڑی بے چینی اور کرب سے حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؒ نے فرمایا مَیں دعا کروں گا، آپ گھبرائیں بالکل نہیں، اپریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نیز حضورؒ نے ہومیوپیتھی کی ایک دوا بھی بتائی۔ دوسرے روز جب بچی کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچے میں زندگی کے آثار نمایاں ہیں اور حرکت پیدا ہوگئی ہے۔ بعد میں بچہ بخیریت تولد ہوا اور خوب صحتمند ہے۔
مکرم عبدالمالک صاحب آف لاہور نے ایک ملاقات کے موقع پر حضورؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے ہاں بچہ کی پیدائش متوقع ہے، نام رکھ دیں۔ حضورؒ نے فرمایا: لکھ کر لائے ہو؟۔ عرض کی: جی۔ حضورؒ نے کاغذ پکڑا اور اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا: ’’عطاء القدوس مبارک ہو‘‘۔ پھر قریباً ساڑھے تین ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا۔
1967ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دورہ انگلستان کے موقع پر مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب کی بیٹی امۃالجمیل پر شدید دمہ کا حملہ ہوا اور ڈاکٹر نے بتایا کہ بچنے کی امید بہت کم ہے۔ محترم خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں گھبراہٹ میں حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈاکٹر کی بات بتائی۔ حضورؒ نے تسلی دی اور فرمایا فکر نہ کریں، مَیں دعا کروں گا، انشاء اللہ جمیلہ کو اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔ فجر کی نماز کے بعد حضرت بیگم صاحبہؒ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ کل رات حضور ایک پل بھی نہ سوسکے اور جمیلہ کیلئے بڑی تضرع سے دعائیں کرتے رہے۔ جب مَیں ہسپتال آیا تو قبولیت دعا کا زبردست نشان دیکھا کہ جمیلہ ایک آرام کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور آکسیجن بھی اُتر چکی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ میرے جانے کے بعد غیرمعمولی طور پر بچی کو افاقہ شروع ہوگیا اور اب وہ خطرہ سے باہر ہے۔ اُس دن کے بعد بچی کو دمہ کو ویسا حملہ پھر کبھی نہیں ہوا۔
1967ء کے دورہ انگلستان کے دوران ہی حضورؒ نے سکاٹ لینڈ کے مخلص احمدی محمد ایوب صاحب سے پوچھا کہ اُن کے کتنے بچے ہیں۔ انہوں نے بتایا تین لڑکیاں ہیں۔ حضورؒ نے مسکراکر فرمایا: It is high time you had a son.
ایوب صاحب نے مایوسی کے انداز میں جواب دیا کہ حضورؒ اب مجھے امید نہیں کہ میرے ہاں لڑکا ہوگا۔ حضورؒ نے بڑے جوش سے فرمایا: مایوسی گناہ ہے… مَیں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لڑکا عطا کرے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایوب صاحب نے حضورؒ کی خدمت میں اپنی بیوی کے امید سے ہونے کی اطلاع دی تو حضورؒ نے جواباً تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لڑکا دے گا، اس کا نام ابراہیم رکھیں۔ چار پانچ ماہ بعد اُن کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا۔
لندن میں ہی ایک خاتون صادقہ حیدر صاحبہ نے حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ لندن کے چوٹی کے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اُن کے ہاں اولاد نہیں ہوسکتی۔ حضورؒ نے بڑے جوش سے فرمایا: ہمارا ایمان کسی ڈاکٹر پر نہیں بلکہ اپنے حی و قیوم خدا پر ہے، مَیں دعا کروں گا …۔ کچھ عرصہ بعد اُنہیں حمل قرار پایا تو ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا کہ یہ حمل ضائع ہوجائے گا۔ انہوں نے یہ بات حضورؒ کی خدمت میں تحریر کی تو جواباً حضورؒ نے تحریر فرمایا کہ نہ صرف یہ بچہ ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اُنہیں لڑکا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نے اپنے ایک خطاب میں یہ واقعہ بیان فرمایا کہ لندن کے ایک احمدی دوست کے ہاں بچہ کی پیدائش متوقع تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ لڑکی ہوگی۔ انہوں نے حضورؒ سے نام رکھنے کی خواہش ظاہر کی تو حضورؒ نے لڑکے کا نام تجویز کردیا۔ بعد میں خدا کے فضل سے لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضورؒ نے فرمایا کہ ’’غیب کی بات بتانا یا کسی عاجز انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کر دکھانا، یہ اللہ کی قدرت کا کام ہے، انسان کا دخل تو ہے نہیں اس میں‘‘۔
مکرم چودھری محمد سعید کلیم صاحب کی بہو کے پیٹ میں تکلیف تھی۔ ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا۔ مکرم چودھری صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کہ آپریشن کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ شفا دیدے۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’اپریشن نہ کرائے، مَیں دعا کروں گا، وہ ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔ چنانچہ خدا کے فضل سے وہ بغیر اپریشن کے ٹھیک ہوگئی۔
مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا ڈیڑھ سال کی عمر میں سرسام اور گردن توڑ بخار کے نتیجہ میں بیمار پڑگیا اور کچھ دنوں میں بیماری ایسی بگڑ گئی کہ ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کردیا۔ مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں دعا کیلئے عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا: ’’مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، آپ فکر نہ کریں، بچہ صحت یاب ہوجائے گا‘‘۔ مَیں اُسی وقت ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچہ ایسی حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اب علاج جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ بچہ کا جسم اکڑ چکا تھا اور بچہ چند لمحوں کا مہمان نظر آتا تھا لیکن خدا کے فضل سے چند ہی گھنٹوں میں بچہ کی حالت نارمل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
مکرم میاں محمد اسلم صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 11؍نومبر 1963ء کو احمدی ہوا۔ اپریل 1965ء میں میری شادی ہوئی لیکن بارہ سال تک اولاد نہ ہوئی۔ رشتہ دار سب کے سب مخالف غیراحمدی تھے، وہ بھی اور گاؤں والے بھی یہی کہتے تھے کہ چونکہ یہ قادیانی ہوگیا ہے لہٰذا یہ ابتر رہے گا۔ پھر یہ حالت ہوئی کہ میری بیوی بھی رشتہ داروں کے طعنے سن سن کر میری دوسری شادی پر رضامند ہوگئی۔ لیڈی ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا کہ اس عورت کے اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی اثناء میں مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں تمام حالات لکھ کر دعا کی درخواست کی تو حضورؒ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا‘‘۔ حضورؒ کی اس دعا کی برکت سے اب میرے ہاں چار لڑکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں